کھانے میں مکھی کا گر جانا
قرآن و حدیث میں مذکور بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی حکمتیں ہماری سمجھ میں فی الفور نہیں آتیں بلکہ وقت کے ساتھ انسان ان کو سمجھ پاتا ہے۔
غیر محتاط حضرات ایسے مسائل و تعلیمات کو خلافِ عقل قرار دے کر ان کو رد کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں جبکہ جن مسائل کو وہ "خلافِ عقل" سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ دراصل "ماورائے عقل" ہوتے ہیں جن کی حقیقت تک ہماری عقلِ نارسا نہیں پہنچ پاتی۔
مثال کے طور پر سرسید احمد خان نے صحیح بخاری میں موجود روایت کہ اگر مکھی کسی پینے کی چیز میں گر جائے تو اس کو پورا ڈبو کر باہر نکال دو کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری جبکہ دوسرے میں شفا ہوتی ہے ، کا عقل کی بنیاد پر انکار کر دیا اور کہا کہ مکھی سراپا گندگی ہے اور گندگی پر بیٹھتی ہے . سو اسکو پینے کی شے میں پورا ڈبونا خلافِ عقل اور خلافِ تہذیب ہے۔ سرسید کے انتقال کے انتیس (۲۹) سال بعد ۱۹۲۷ء میں لندن کے مشہور مجلہ ڈاکٹرین ایکسپیرنسس میں تحقیق شائع ہوئی کہ مکھی گندی جگہوں پر بیٹھ کر ان کے جراثیم اپنے ایک پر پر اٹھاتی ہے اور اس کو کھانے کی چیز میں ڈال دیتی ہے۔ انہیں جراثیم کے اینٹی جرثومے مکھی کے دوسرے پر میں ہوتے ہیں جن کے سبب وہ جراثیم خود مکھی کو بیمار نہیں کرتے۔ اسکے علاوہ اس سائنسٹفک ویبسائٹ نے بھی یہی بات تسلیم کی ہے
https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/33612611/
گویا جس حدیث کو سرسید نے "خلافِ عقل" قرار دے کر رد کر دیا تھا، سائنس نے خود ثابت کر دیا کہ وہ خلافِ عقل نہیں سرسید کے زمانے تک محض ماورائے عقل تھی جس کو سرسید نے خلافِ عقل سمجھ کر رد کر دیا تھا۔
انکارِ حدیث کے مقدمے کی بنیادی کمزوری خلافِ عقل و ماورائے عقل کے مباحث کو خلط ملط کرنا ہے۔ البتہ یہاں اس بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ شریعتِ اسلامی میں عقل کو خاص اہمیت حاصل ہے اور فقہائے اسلام نے "حفظِ عقل" کو شریعت کے پانچ اہم مقاصد میں سے ایک قرار دیا ہے لیکن اہلسنت و الجماعت کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ عقل کو وحی الہٰی کے تابع رکھا جائے
بشکریہ محمد فھد حارث
Comments
Post a Comment