ابو داؤدؒ بہت بڑے محدث گزرے ہیں ۔ جن کی کتاب ابو داؤدؒ مدارس میں پڑھائی جاتی ہے داخل درس ہے۔ ان کے واقعات میں لکھا ہے۔ کہ یہ سمندر کے کنارے کھڑے ہوئے تھے اور سمندر میں جہاز اترا ہوا کھڑا تھا ایسی گودیاں اس زمانے میں نہیں تھیں۔ جیسی آج بنتی ہیں۔ تو جہاز ایک آدھ فرلانگ کے فاصلے پر کھڑ ا ہوا تھا۔ چونکہ کنارے پر پانی کم ہوتا تھا۔ وہ جہاز کیلئے کافی نہیں ہوتا تھا۔ اور لوگ کشتیوں میں بیٹھ کے جہاز میں جاتے اور سوار ہو جاتے۔ ایک جہاز فرلانگ کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ اور امام ابو داؤدؒ سمندر کے کنارے کھڑے ہوئے تھے جہاز میں کسی شحص کو چھینک آئی۔ اس نے چھینک لے کر زور سے الحمد للہ کہا تو مسئلہ یہ تھا۔ کہ جب کسی کو چھینک آئے اسے الحمدللہ کہنا چاہئے اور جس کے کان میں الحمد للہ پڑے وہ جواب میں یرحمک للہ کہے۔ اس شخص نے الحمد للہ اس زور سے کہا کہ امام ابو داؤدؒ ؒکے کان میں آواز آئی۔ اب ان کا جی چاہا کہ میں شریعت کی اس چیز پر عمل کروں اور یرحمک للہ کہوں تاکہ مجھے ثواب ملے حالانکہ مسئلہ یہ ہے۔ کہ چھینک لینے والے کو الحمد للہ کہنا واجب ہے۔ جب کہ اس مجلس میں وہ موجود ہو اور اس کے کان میں پڑ جائے کہ اس نے الحمد للہ کہا ہے۔ وہ یرحمک للہ کہہ کر جواب دے یہ نہیں کہ مسجد میں ایک شخص کو چھینک آئے اور دوسرا شخص بازار میں جا رہا ہو اور وہ جواب دینے کیلئے مسجد میں آجائے ۔ ایک مجلس کا مسئلہ ہے ۔ مجلس سے خارج کا نہیں ہے۔ تو امام ابو داؤدؒ پر واجب نہیں تھا۔ کہ وہ جواب دیں۔ اس لیے کہ چھینک والے ایک فرلانگ پر ہے۔ اور یہاں وہ جہاز پر ہے ۔ یہ کنارے پر ہیں مجلس بھی ایک نہیں ،جگہ بھی ایک نہیں۔بیچ میں سمندر حائل ، مگر وہی بات ہے کہ نیکی کی حرص ہوتی ہے۔ کہ کسی نہ کسی طرح کمالیں اس نیکی کو بھی کیوں چھوڑیں۔ امام ابو داؤدؒ کی آواز اتنی اونچی تو تھی نہیں کہ یہاں کنارے سے یرحمک اللہ کہیں تو اس کے کان میں پہنچے۔ چھینک لینے والے کی آواز اتنی بلند تھی کہ اس نے الحمدللہ کہا تو اس کی آواز یہاں پہنچ گئی تو تین درہم میں کرائے کی کشتی لی اور اس کشتی میں بیٹھ کر ڈیڑھ فرلانگ کا سفر کر کے جہاز میں پہنچے اور جہاز میں اوپر چڑھ کر کہا ۔ یرحمک للہ ... یہ گویا نیکی کمائی، مورخین لکھتے ہیں۔ جس وقت انہوں نے جا کر یرحمک للہ کہا۔ غیب سے ایک آواز پیدا ہوئی۔ کہنے والا نظر نہیں آتا تھا۔ آواز یہ آئی، اے ابو داؤدؒ ! آج آپ نے تین درہم میں جنت خریدی یہ آواز کان میں پڑی ... حالانکہ امام ابو داؤدؒ محدث ہیں۔ جانے کتنی انہوں نے حدیثیں لکھیں۔ اور کتنا اجر کمایا۔ کتنی نوافل اور تہجد پڑھے ہوں گے، اور کتنے صدقات دیئے ہوں گے۔ لیکن جنت کی خریداری کے اس چھوٹے سے عمل کا ذکر کیا کہ تین درہم میں کشتی کرائے پر کرا کر یرحمک اللّٰہ کہہ دیا۔ (خطبات حکیم السلام، ص: ۴۲۶)
Comments
Post a Comment