از: مفتی محمد شعیب اللہ خاں جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور
اج کل مساجد میں کرسیوں کا رواج عام ہو رہا ہے اور لوگ عذر سے یا بلاعذر کے کرسیوں کو نماز کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ کرسی پر نماز پڑھنے کا رواج ابھی ابھی چند سالوں سے شروع ہوا ہے، اس سے پہلے بھی لوگ بیمار ہوتے تھے اور اعذار ان کو بھی لاحق ہوتے تھے؛ مگر کبھی لوگوں کو کرسی پر نماز کی نہیں سوجھی ۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے اور سنا بھی جاتا ہے کہ لوگ اچھے خاصے ہیں، چلنے پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے کی قوت پوری طرح رکھتے ہیں،اور اپنے گھروں سے چل کر آتے ہیں؛ مگر نماز کے وقت خود ہی کرسی کھینچ کر اس پر نماز پڑھتے ہیں۔ یہ صورت حال اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ لوگوں میں تکاسل وتغافل ہے اور نماز کی اہمیت سے وہ بے خبر ہیں؛ لہٰذا ان کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے اور اس سے انکار نہیں کہ بعض اللہ کے بندے واقعی عذر اور شدید مجبوری میں کرسیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا یہ عذر شرعی و معقول ہوتا ہے، اور آج کل قویٰ کی کمزوریوں اور نئی نئی قسم کی بیماریوں نے اصحابِ اعذار کی بھی بہتات کردی ہے الغرض! ایک جانب دین سے غافل اور لاپرواہ لوگ ہیں جو بلاوجہ و بلا عذر محض تن آسانی ولاپرواہی سے اور غفلت وسستی کی بنا پر یا محض شوقیہ یا فاخرانہ طور پر نماز کے لیے کرسیوں کا استعمال کرنے لگے ہیں، تو دوسری جانب ان حضرات کی بھی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر و خوف اور احکام الٰہی کی عظمت وجلالت موجود ہے اور وہ بھی کرسیوں کا استعمال کرتے ہیں؛ مگر اس وجہ سے کہ وہ واقعی معذور و مجبور ہیں ۔ اس صورت حال میں علماء ومفیان کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کو اس سلسلے میں صحیح وغلط اوراچھے وبرے کی تمیز بتائیں اور شریعت کی روشنی میں اس کے احکام کو واضح کریں اور شریعت کے وصف امتیازی ”اعتدال“ کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلی قسم کے لوگوں کی بے اعتدالیوں پر تنبیہ کے ساتھ ساتھ واقعی عذر رکھنے والوں کے لیے شریعت کی عطا کردہ سہولتوں کو پیش کریں؛ تاکہ اصحاب اعذار ان سے منتفع ہوسکیں۔عدم جواز کی پہلی وجہ
ایک وجہ یہ ہے کہ نماز میں قیام و رکوع و سجدہ فرائض میں داخل ہیں، اور بلا عذر ان میں سے کسی کو چھوڑ دینے سے نماز نہیں ہوتی،اور کرسی پر نماز پڑھنے والا ان تمام فرائض کو چھوڑ دیتا ہے، قیام کی جگہ کرسی پر بیٹھتا ہے اور رکوع و سجدہ دونوں کو چھوڑ کر محض اشارے سے ان کو ادا کرتا ہے، تو اس کی نماز کیسے ہوسکتی ہے؟
لہٰذا جو لوگ بلاعذر معقول کرسی پر نماز پڑھتے ہیں، وہ اپنی نمازوں کو ضائع کررہے ہیں، اور یہاں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو نمازیں پڑھی ہیں؛ لیکن جب اللہ کے یہاں پہنچیں گے تو ان کے نامہٴ اعمال اس سے خالی ہوں گے؛ لہٰذا ایسے لوگ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اگر قیامت کے دن نماز کی محنت کرنے کے باوجود ہمارا نامہٴ اعمال نماز سے خالی ہوتو کیا ہوگا؟
عدم جواز کی دوسری وجہ
دوسرے یہ کہ نماز دراصل اللہ تعالیٰ کی عظیم ہستی کے سامنے بندے کی بندگی، عاجزی و انکساری کا نام ہے اور اللہ کی جلالت کے روبرو خدا کے غلام کی تواضع و فروتنی سے عبارت ہے، اور کرسی پر نماز پڑھنے کی صورت میں یہ مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ کرسی پر بیٹھنے کی حالت عموماً عاجزی و انکساری کی نہیں ہوتی؛ بلکہ ایک حد تک یہ متکبرانہ ہوتی ہے، نیز اگر متکبرانہ نہیں ہوتی تب بھی عرف عام میں بڑوں کے سامنے کرسی پر بیٹھنا بے ادبی سمجھا جاتا ہے، یا کم از کم خلافِ ادب خیال کیا جاتا ہے۔ اب غور کیجیے کہ کیا اللہ عز وجل کے دربارِ عالی شان ودرگاہ بے نیاز میں بلاوجہ کرسی پر بیٹھنا اچھا معلوم ہوتا ہے؟ لہٰذا یہ صورت نماز کی مقصدیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی ناجائز ہے۔
عدم جواز کی تیسری وجہ
تیسرے یہ کہ کرسیوں پر بیٹھ کر عبادت کرنے میں غیروں سے مشابہت پائی جاتی ہے چنانچہ عیسائیوں میں رواج ہے کہ وہ اپنے چرچوں میں کرسیوں پر عبادت کرتے ہیں، اور یہ بات اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے کہ غیروں کی مشابہت اختیار نہ کی جائے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہوگا)
(ابوداود:۴۰۳۳)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، لاَ تَشَبَّھُوْا بِالْیَھُوْدِ وَلاَ بِالنَّصَارٰی؛ فَاِنَّ تَسْلِیْمَ الْیھُوْدِ الْاِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِیْمُ النَّصَارٰی الْاِشَارَةُ بِالأَکُفِّ
وہ ہم میں سے نہیں جو غیروں سے مشابہت اختیار کرے، تم یہود سے مشابہت نہ کرو اور نہ نصاری سے، یہود کا سلام انگلیوں کے اشارے سے اور نصاری کا سلام ہتھیلیوں کے اشارے سے ہوتا ہے (ترمذی:۲۲۹۵)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
جُزُّوْا الشَوَارِبَ وَأَرْخُوا اللُّحٰی، خَالِفُوْا الْمَجُوْسَ
(مونچھوں کو کٹاؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ،اور مجوسیوں کی مخالفت کرو)
(مسلم:۶۲۶، معرفة السنن بیہقی:۱/۴۴۰، مسند ابو عوانة:۱/۱۶۱)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اسلام غیروں سے مشابہت اختیار کرنے کے سلسلے میں کس قدر حساس واقع ہوا ہے؟
جب اسلامی شریعت لباس و پوشاک،اور بال و کھال تک میں غیروں کی مشابہت کو پسند نہیں کرتا تو نماز جیسی اہم ترین عبادت اور موٴمن کی زندگی کے بنیادی مقصد کے بارے میں یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ وہ غیروں کے طور و طریقے کے مطابق انجام دیا جائے؟
لہٰذا بلا عذر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ناجائز ہے، اور اس طرح نماز پڑھنے والوں کی نماز بالکل بھی نہیں ہوتی، اور اس طرح پڑھی ہوئی نمازیں ان کے ذمہ علی حالہ باقی رہتی ہیں۔
عذر معقول کی وجہ سے کرسی پر نماز جائز ہے
دوسری بحث یہ ہے کہ عذر ہونے کی صورت میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
کیا کسی بھی عذر و تکلیف میں کرسی کااستعمال نماز کے لیے جائز نہیں؟
یا کچھ شرائط و قیود کے ساتھ جائز بھی ہے؟
مشقت سے احکام میں تخفیف
یہ جاننے سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے؛ تاکہ بات واضح و صاف طریقہ پر سامنے آجائے۔ وہ یہ کہ ہماری شریعت نہایت معتدل ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط؛اس لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ عذر و تکلیف کی صورت میں اس میں تخفیف و سہولت دی جاتی ہے ۔ چناں چہ شریعت کے اصول میں سے ایک اصول یہ ہے کہ اس نے بیماری و تکلیف کو تخفیف احکام کا سبب مانا ہے ۔اسی کو فقہا یوں بیان کرتے ہیں کہ
الْمَشَقَّةُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ“ (مشقت آسانی کا باعث بنتی ہے
(الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۷۵، الاشباہ والنظائر للسیوطی:۱/۱۶۰)
اور یہ قاعدہ فقہیہ متعدد قرآنی و حدیثی نصوص سے اخذ کیا گیا ہے، جیسا کہ فقہاء نے ثابت کیا ہے۔ اور علماء نے لکھا ہے کہ عبادات میں تخفیف کے سات اسباب ہیں،اور ان میں سے ایک مرض کو بھی لکھا ہے۔
(الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۷۵، الاشباہ والنظائر للسیوطی:۱/۱۶۰)
مشقت کے درجات و احکام
لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ہر قسم کی تکلیف مرض اس سے مراد نہیں ؛ بلکہ وہ مرض و تکلیف جس سے انسان کو شدید پریشانی لاحق ہوتی ہے، ورنہ تھوڑی بہت تکلیف تو ہر کام میں ہوتی ہے، حتیٰ کہ خود نماز پڑھنا بھی ایک مشکل کام ہے، اسی طرح بعض امراض خفیفہ میں بھی تھوڑی بہت مشقت ہوتی ہے، جیسے سر درد، یا معمولی زخم کی تکلیف وغیرہ؛ مگر ان کی وجہ سے تخفیف نہیں دی جاتی ۔ اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ
مشقت دو قسم پر ہے: ایک وہ مشقت جو عبادت سے اکثر و بیشتر جدا نہیں ہوتی، جیسے وضو و غسل میں سردی کی مشقت، اور طویل دن اور سخت گرمی میں روزے رکھنے کی مشقت․․․․․ پس اس قسم کی مشقت کا عبادات کے ساقط ہونے میں کسی بھی وقت اعتبار نہیں، اور رہی وہ مشقت جو غالب طور پر عبادات سے جدا ہوتی ہے، اس کے کئی مراتب ہیں: پہلی بڑی اور پریشان کرنے والی مشقت ہے، جیسے جان پر یا اعضاء پر، یا اعضاء کے متعلقہ فوائد پر خوف کی مشقت، پس یہ مشقت موجبِ تخفیف ہے؛ دوسری معمولی و ہلکی مشقت، جیسے انگلی میں معمولی درد ہونا، یا سر میں معمولی سا چکر ہونا، یا معمولی سی طبیعت کی خرابی، پس اس کا کوئی اثر نہیں اور نہ اس کا کوئی لحاظ ہوتا ہے؛ اور تیسری ان دو کی درمیانی مشقت، جیسے رمضان میں بیمار آدمی نے روزہ رکھنے سے مرض کے بڑھ جانے کا خوف کیا، یا بیماری سے دیر سے صحت یاب ہونے کا اندیشہ کیا،پس اس کے لیے روزہ نہ رکھنا جائز ہے(الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۱/۸۲، الاشباہ والنظائر للسیوطی:۱/۱۶۸)
الغرض مشقت و بیماری اسبابِ تخفیف میں سے ہے؛ مگر ہر تکلیف و بیماری نہیں؛ بلکہ وہ جس میں انسان کو ناقابلِ برداشت تکلیف پیش آئے اور وہ اس کو سہار نہ سکے۔
شریعت میں معذور کے لیے سہولت اور اس کی شرائط
جب یہ تفصیل معلوم ہوگئی تو اب قابل غور بات یہ ہے کہ کرسی پر نماز کے جواز کے لیے کیا اور کون سے اعذار معتبر ہیں اور وہ کیا اور کون سے اعذار ہیں جو معتبر نہیں؟
اس کے جواب سے پہلے اصحاب اعذار کے لیے حضرات فقہاء کرام کے لکھے ہوئے مسائل پر ایک اجمالی نظر ڈال لیں
۔(۱)قیام فرض ہے، لہٰذا جو شخص قیام کر سکتا ہے اس کو کھڑے ہوکر نماز پڑھنا فرض ہے، اور جو کسی عذر کی وجہ سے کھڑا نہیں ہو سکتا، تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ پورا وقت کھڑا نہیں ہو سکتا؛ لیکن کچھ دیر قیام کر سکتا ہے تو وہ کچھ دیر قیام کرے اور بعد میں بیٹھ جائے،اگر اس نے کچھ دیر قیام پر قدرت کے باوجود کچھ دیر قیام نہیں کیا، اور شروع ہی سے بیٹھ کر نماز پڑھ لی تواس کے لیے یہ جائز نہیں۔
العنایة شرح الہدایة میں ہے کہ جب بعض قیام پر قادر ہو اگرچہ کہ ایک آیت یا ایک مرتبہ اللہ اکبر کہنے کے برابر نہ کہ پورا، تو امام ابوجعفر ہندوانی رح نے کہا کہ اس کو حکم دیا جائے گا کہ جس قدر کھڑا ہو سکتا ہے وہ کھڑا ہو، پس جب قیام کرنے سے عاجز آجائے تو پھر بیٹھ جائے،اور اگر ایسا نہیں کیا تو مجھے خوف ہے کہ اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، یہی مذہب ہے اور ہمارے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی بات مروی نہیں ہے؛ کیونکہ طاعت بقدر طاقت ہوتی ہے (العنایة شرح الہدایة: ۲/۳۱۴)
درر الحکام میں ہے کہ اگر بعض قیام پر قدرت رکھتا ہو تو وہ قیام کرے، پس اگر وہ قیام کے ساتھ تکبیر کہہ سکتا ہو یا تکبیر اور تھوڑی قراءت کر سکتا ہو تو اس کو قیام کا حکم دیا جائے گا، شمس الائمہ نے کہا کہ یہی صحیح مذہب (احناف) ہے، اور اگر اس نے قیام کو ترک کر دیا تو خوف ہے کہ اس کی نماز جائز نہیں ہوگی (دررالحکام:۲/۷۸)
اور در مختار میں ہے کہ اگر کوئی تھوڑی دیر بھی کھڑے ہونے پر قادر ہو تو وہ اپنی طاقت کے بقدر لازمی طور پر کھڑا ہو، اگرچہ ایک آیت یا ایک تکبیر کی مقدار ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ بعض کو کل پر قیاس کیا گیا ہے (درمختار مع ردالمحتار: ۲/۹۷)
۔ (۲) اور جو شخص خود تو نہیں کھڑا ہو سکتا؛ لیکن کسی دوسرے آدمی یا کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا ہوسکتا ہے تو اس کو بھی کسی کے سہارے سے کھڑا ہونا لازم ہے، اس کو بھی بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں، اور اگر کوئی خود بھی نہیں کھڑا ہو سکتا اور نہ کسی کے سہارے سے کھڑا ہو سکتا ہے اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھے۔
علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں اور علامہ البابرتی نے عنایة شرح ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر ٹیک لگا کر قیام کرسکتا ہوتو شمس الائمہ نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ وہ کھڑے ہوکر ٹیک کے ساتھ نماز پڑھے گا، اوراس کے سوا جائز نہ ہوگا، اسی طرح اس صورت میں بھی ہے کہ اگر عصا پر ٹیک لگانے یا خادم ہو تو اس پر ٹیک لگانے سے قیام کی قدرت مل جائے
(فتح القدیر: ۲/۳، العنایة: ۲/۳۱۴ واللفظ لہ)
فتاوی ہندیہ میں ہے کہ: اگر ٹیک لگا کر قیام کر سکتا ہو تو صحیح یہ ہے کہ وہ کھڑے ہو کر ٹیک کے ساتھ نماز پڑھے گا،اور دوسری صورت اس کے لیے جائز نہ ہوگی، اسی طرح اس صورت میں بھی ہے کہ اگر عصا پر ٹیک لگانے یا خادم ہو تو اس پر ٹیک لگانے سے قیام کی قدرت مل جائے تو وہ کھڑا ہوگا اور ٹیک لگائے گا (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۶۳۱، رد المحتار: ۲/۹۷)
۔ (۳) قیام کر تو سکتا ہے؛ مگر اس سے شدید تکلیف ہوتی ہے، جو ناقابل برداشت ہے یا بیماری و عذر کے بڑھ جانے کا غالب گمان ہے تو اس کے لیے بھی یہی تفصیل ہے کہ اگر کسی کے سہارے کھڑے ہونے سے تکلیف نہیں ہوتی تو وہ کسی کے سہارے قیام کرے، اور پورا وقت کھڑے ہونے سے تکلیف ہوتی ہے،مگر کسی کا سہارا لینے سے بقیہ وقت میں قیام میں تکلیف نہیں ہوتی تو وہ کچھ دیر تو خود قیام کرے اور باقی وقت کسی کے سہارے سے قیام کرے،اور اگر کسی کو ہر صورت میں شدید تکلیف ہوتی ہے تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
دررالحکام میں ہے کہ: جب قیام کرنا بیماری کی وجہ سے متعذر و مشکل ہو جائے یا کھڑے ہونے سے بیماری کے بڑھ جانے کا خوف ہو یا بیماری کے دیر سے درست ہونے کا اندیشہ ہو یا سر چکرانے کا ڈر ہو یا کھڑے ہونے سے شدید تکلیف محسوس کرے تو بیٹھ جائے (دررالحکام:۲/۷۸)
علامہ شامی لکھتے ہیں: ”أرادَ بالتعذُّرَ التعذُّر الحقیقيَّ؛ بِحَیْثُ لو قام سَقَطَ․․․ أو الحکمي؛ بِأنْ خَافَ زِیَادَتَہ أَوْ بُطْءَ بُرْئِہ بِقِیَامِہ أَوْ دَوَرَانَ رَأسِہ أو وَجَدَ لِقِیَامِہ ألماً شدیداً صلی قاعداً“․
یعنی مصنف نے عذر سے عذرِ حقیقی مراد لیا ہے، اس طور پر کہ کھڑا ہوتو گرجائے، یا حکمی مراد لیا ہے؛ اس طور پر کہ اسے بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو، یا کھڑے ہونے کی وجہ سے صحت یابی میں تاخیر کا اندیشہ ہو، یا سر چکرانے کا اندیشہ ہو، یا کھڑے ہونے میں سخت تکلیف محسوس کرے، تو بیٹھ کر نماز پڑھے (درمختار وردالمحتار: ۲/۹۶)
یہ تو شدید تکلیف کا حکم ہے،اور اگر کسی کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر تھوڑی بہت جو قابل برداشت ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اور اس کو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے
فانْ لَحِقَہ نوعُ مَشقَّةٍ لم یجُزْ ترکُ ذٰلِکَ الْقِیَامِ“․ (یعنی اگر کھڑے ہونے میں معمولی تکلیف لاحق ہو تو قیام کا چھوڑنا جائز نہیں (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۱۳۶)
اور علامہ ابن الہام رح نے فتح القدیر میں، علامہ زیلعی رح تبیین الحقائق میں اور علامہ المیدانی رح نے اللباب فی شرح الکتاب میں لکھا ہے کہ
فان لَحِقَہ نَوعُ مشقّةٍ لم یَجُز ترکُ القیام بِسَبَبِھَا
یعنی اگر کھڑے ہونے میں معمولی تکلیف لاحق ہو تو اس کی وجہ سے
قیام کا چھوڑنا جائز نہیں (فتح القدیر:۲/۳، تبیین الحقائق: ۲/۴۵۶، اللباب:۱/۴۹)
۔(۴) جو شخص اوپر کی تفصیل کے مطابق کسی بھی طرح قیام نہیں کر سکتا، اور بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے تو وہ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرے، اور اگر خود بیٹھ نہیں سکتا؛ لیکن کسی دوسرے شخص یا چیز جیسے دیوار، وغیرہ کے اوپر ٹیک لگا کر بیٹھ سکتا ہے تو اس کو کسی کے اوپر ٹیک لگا کر بیٹھنا ضروری ہے۔
المحیط البرہانی میں ہے کہ: امام محمد نے اپنی کتاب ”الاصل“ میں یہ صورت ذکر نہیں کی کہ اگر ایک شخص ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکتا،اور ٹیک لگا کر یا کسی دیوار یا انسان وغیرہ پر سہارا لے کر بیٹھ سکتا ہو تو امام شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا کہ ہمارے مشائخ نے کہا کہ اس کے لیے کسی کے سہارے سے یا ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے نماز پڑھے تو جائز ہے،اور لیٹ کر نماز پڑھے تو جائز نہیں (المحیط البرہانی:۲/۲۷۲)
اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ
واذَا لَمْ یَقْدِرْ عَلَی الْقُعُوْدِ مُسْتَوِیاً وقَدَرَ مُتَّکئاً أو مُستنِداً الی حائِطٍ أو انسانٍ، یجب أن یصلي مُتّکئاً أو مُستنِدًا ولا یجوز لہ أن یصلّيَ مُضطجِعاً
اور جب ٹھیک سے بیٹھنے پر قادر نہ ہو؛ بلکہ ٹیک لگا کر یا کسی دیوار یا انسان کا سہارا لے کر بیٹھنے پر قادر ہو تو ضروری ہے کہ وہ نماز پڑھے ٹیک لگا کر یا سہارا لے کر اور اس کے لیے لیٹ کر نماز پڑھنا جائز نہیں (فتاویٰ ہندیہ: ۱/۱۳۶)
۔(۵) اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اور رکوع و سجدہ بھی کر سکتا ہے وہ بیٹھ کر ہی رکوع وسجدہ کرلے، لہٰذا جو شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع و سجدے کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے، اسکو رکوع وسجدہ کرنا فرض ہے، کیونکہ وہ اس پر قادر ہے اور یہ دونوں بھی نماز میں فرض ہیں۔
امام قدوری فرماتے ہیں کہ
اذا تعدَّرَ علی المریض القیامُ صلّی قاعداً یَرکَعُ ویَسْجُدُ
(جب مریض پر قیام دشوار ہو جائے تو بیٹھ کر رکوع و سجدہ کرتے ہوئے نماز پڑھے)
(الجوہرة:۱/۳۱۱)
الاختیار لتعلیل المختار میں ہے کہ: جب قیام سے عاجز ہو جائے یا قیام سے مرض بڑھ جانے کا خوف ہوتو بیٹھ کر رکوع و سجدہ کرتے ہوئے نماز ادا کرے
(الاختیار لتعلیل المختار:۱/۸۲)
اس سے معلوم ہوا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والا اگر رکوع و سجدے پر یا ان میں سے ایک پر قادر ہے تو اس کو بیٹھ کر رکوع و سجدہ کرنا لازم ہے، ورنہ اس کی نماز نہیں ہوگی
۔ (۶) جو شخص زمین پر بیٹھ سکتا ہے، مگر رکوع و سجدے کے لیے جھک نہیں سکتا وہ بیٹھ کر رکوع و سجدے کے لیے اشارہ کرلے، اسی طرح جو شخص رکوع و سجدے کے لیے جھکنے میں شدید تکلیف محسوس کرتا ہے جو ناقابل برداشت ہو تو وہ بھی رکوع و سجدے کا اشارہ کر سکتا ہے
فقہاء نے لکھا ہے کہ
فانْ لَمْ یَسْتَطِعِ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ أوْمأ ایماءً
پس اگر رکوع وسجود نہ کرسکے تو اشارے سے کرلے
(الجوہرة: ۱/۳۱۱، واللفظ لہ، البحرالرائق: ۲/۱۲۲)
۔(۷) اوراگر کوئی شخص اس قدر بیمار ہے کہ وہ بیٹھ کر رکوع و سجدہ نہیں کر سکتا، تو اس کو چت لیٹ کر یا پہلو پر لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھنے کی اجازت ہے اوراس کو چاہیے وہ سر سے رکوع و سجدے کا اشارہ کرے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ کرے
الجوہرة میں ہے کہ
فانْ لَمْ یَسْتَطِعِ القُعُودَ اِسْتَلْقٰی عَلیٰ ظَھْرِہ الخ
(پس اگر بیٹھنے کی طاقت نہ ہو تو پیٹھ کے بل لیٹ جائے الخ (الجوہرة: ۱/۳۱۲)
اور البحرالرائق میں ہے کہ: اگر بیٹھنا دشوار ہوجائے تو چت لیٹ کر یا اپنے بازو پر لیٹ کر اشارے سے پڑھے (البحرالرائق:۲/۱۲۳)
اس تفصیل سے بیماروں و معذوروں کو شریعت کی دی ہوئی سہولت اور اسی کے ساتھ اس کی شرائط کا بھی علم ہو گیا، جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ ان فرائض کے ادا کرنے کی جس قدر طاقت و گنجائش ہے اس قدر ان کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، جہاں ممکن نہ ہو یا ممکن تو ہو مگر زیادہ پریشانی و تکلیف ہوتی ہو، وہاں ان فرائض کو چھوڑنے کی اوپر کی تفصیل کے مطابق گنجائش ہے۔
کرسی پر نماز کا مسئلہ
اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو؛ لیکن کرسی پر بیٹھ سکتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
۔ (۱) مثلاً ایک شخص کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کمر میں راڈ داخل کی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ کرسی پر بیٹھ سکتا ہے؛ مگر جھک نہیں سکتا، بیٹھ نہیں سکتا اور رکوع یا سجدہ نہیں کر سکتا
۔ (۲) ایک شخص اس قدر کمزور ہے کہ اٹھنا بیٹھنا اس کے لیے دشوار ہے، اگر اٹھتا بیٹھتا ہے تو ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا وہ کرسی پر بیٹھ کر اپنے کام کاج کرتا ہے اور اسی میں نماز بھی پڑھ لیتا ہے۔
۔(۳) ایک شخص کو موٹاپے کی وجہ سے زمین پر بیٹھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہے، اگرچہ وہ چل سکتا ہے اور قیام بھی کر سکتا ہے؛ مگر بیٹھ نہیں سکتا، لہٰذا کرسی پر ہی اس کو اپنے تمام دنیوی کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور نماز بھی وہ اسی پر پڑھتا ہے۔
۔ (۴) ایک شخص اس قدر کمزور یا بیمار ہے کہ زمین پر ازخود نہیں بیٹھ سکتا اور اگر بیٹھ گیا تو اٹھ نہیں سکتا؛ بلکہ اس کو اس صورت میں ایک دو آدمیوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اور بعض دفعہ کوئی ایسا خادم یا اعانت کرنے والا میسر نہیں ہوتا؛ لہٰذا وہ اس پریشانی کی وجہ سے کرسی پر ہی نماز پڑھ لیتا ہے۔
۔ (۵) بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن میں ڈاکٹروں کی ہدایت ہوتی ہے کہ نیچے نہ بیٹھا جائے، ورنہ بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے، اس وجہ سے بھی کرسی پر نماز کی ضرورت کسی کو پیش آسکتی ہے۔
ظاہر ہے ان تمام صورتوں اور اس طرح کی صورتوں میں عذر معقول موجود ہے اور اس کا اعتبار کرنا شرعاً بھی درست ہے؛ لہٰذا اس قسم کے اصحابِ اعذار کو کرسی پر نماز کی اجازت ہونی چاہیے؛ کیونکہ اوپر خود فقہاء کے کلام میں یہ ضابطہ ہم نے پڑھ لیا ہے کہ: طاعت بقدر طاقت ہوا کرتی ہے۔ جب اس قسم کے اعذار میں نیچے بیٹھ کر نماز کی طاقت نہیں یا نیچے بیٹھنا بڑا مشکل ہے تو کرسی پر پڑھنے کی اجازت ایک معقول بات بھی ہے اور اصول فقہیہ کی روشنی میں شرعی بات بھی ہے
لیکن اس جگہ وہی دو باتیں ذہن نشین ہونی چاہئیں: ایک تو یہ کہ عذر موجود ہو، بلاعذر کرسی پر نماز پڑھنا گناہ بھی ہے اور اس کی وجہ سے نماز ہوتی بھی نہیں،اور دوسری بات یہ کہ معمولی اور چھوٹا موٹا عذر نہیں؛ بلکہ معقول و شرعاً معتبر عذر ہو، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی یا تو سکت و طاقت ہی نہ ہو، یا طاقت تو ہو ؛ مگر اس سے ناقابلِ برداشت تکلیف و درد ہوتا ہو، یا زمین پر بیٹھنے سے بیماری و تکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔ اس صورت میں کرسی پر نماز کی اجازت ہے
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 10-11 ، جلد: 96 ، ذی الحجہ 1433 ہجری، محرم 1434 ہجری
مطابق اکتوبر - نومبر 2012ء
Comments
Post a Comment