بچے کی تربیت
بچے اللہ رب العزت کی امانت ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بچے تو بچے ہیں لہذا یہ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئیے کہ ان کو ایک سازگار، خوشگوار اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے ۔ جب والدین سے کہا جاتا ہے کہ بچپن سے ہی پیار اور عزت سے اپنے بچوں سے تعلق مضبوط بنائیں تو ڈانٹنے، مارنے یا ذلیل کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ تو اگلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا اب ان کو بالکل ہی کچھ نہ کہیں، یا یہ کہ بچے تو بالکل ہی بات نہیں سنتے اگر نہ ڈانٹا جائے۔
تو بات یہ ہے کہ ضرور کہیں، بار بار سمجھائیں، اور کر کے دکھائیں، اصول پہ ڈٹے رہیں مگر ان کو ڈانٹے بنا، ان کی عزتِ نفس مجروح کئیے بنا۔
بچوں کے لئیے روز مرہ کے اصول و ضوابط ضرور مرتب کریں اور ان پر عمل بھی کرائیں جہاں سخت رویہ ناگزیر ہو ضرور اپنائیں مگر ڈانٹے اور ذلیل کئیے بنا۔ بچوں کی عزتِ نفس کا خیال کیا جانا بھی انتہائی اہم ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر بچپن سے ہی بچوں کو بات بات پر ڈانٹا، مارا یا ذلیل کیا جائے تو پھر وہ اُسی رویے کے عادی ہوجاتے ہیں۔
۔👈🏻 توجہ طلب
۔💎 جو آپ چاہ رہے ہیں ویسا “سازگار ماحول” فراہم کریں۔ مثلا” آپ چاہتے ہیں کہ بچہ مطالعہ کرے تو بار بار کہنے اور بچے کے مطالعہ نہ کرنے پہ چیخنے چلانے کی بجائے مطالعہ کے لئیے “سازگار ماحول” بنائیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ آپ اس سازگار ماحول کا حصہ بھی بنیں۔ ایک کتاب بچے کو دیں اور ایک اپنے ہاتھ میں لیں۔ ڈانٹنے کی نوبت نہیں آئے گی۔
۔💎بچوں سے ضد نہ لگائیں
اکثر اوقعات ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بچے ضدی ہو رہے ہیں اور بات بات پہ ضد کرنے لگتے ہیں۔ یہاں توجہ کی ضرورت ہے۔ غور کریں کہ بچہ ضد کر رہا ہے یا ہم۔ اگر نقصان دہ کام نہیں ہے تو اسے کر لینے دیں کیونکہ یہ اس کے سیکھنے کی عمر ہے۔ لیکن اگر نقصان ہونے یا چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو تو سمجھائیں اور بچے کی عمر کے مطابق نتائج سے آگاہ بھی کریں۔
۔💎 بچوں سے توقعات کم سے کم رکھیں
بار بار سمجھائیں اور بتائیں مگر یہ توقع کرنا کہ ان کا ہر طرزِ عمل بڑے اور سمجھدار انسان کی طرح ہوگا تو یہ ممکن نہیں۔ ان سے غلطی بھی سرذد ہو گی اور وہ شرارت بھی کریں گے لہذا کوشش کریں کہ آپ ان کے آس پاس بھی رہیں اور درگزر کرنا سیکھیں۔
۔💎متبادل فراہم کرنا۔
مثلا” بچے سمارٹ فون بار بار استعمال کرتے ہیں اور دیر تک کھیلنے کے باوجود واپس کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
ڈاکٹرز کے مطابق دس منٹ سے ذیادہ سمارٹ فون کا استعمال بچوں کی نظر کے ساتھ ساتھ دماغ پر بھی بہت برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ لہذا، عمر کے لحاظ سے بچوں کو فون کے متبادل فزیکل ایکٹیویٹی، لکھائی، ڈرائینگ، مطالعہ، کھیل یا کھلونے فراہم کریں۔ بہتر ہے کہ ان کو فون کا عادی نہ بنایا جائے اور اس میں سے تمام گیمز ڈیلیٹ کر دی جائیں۔ سختی کرنی پڑے تو بھی اصول پہ قائم رہیں۔ کسی نامناسب بات پہ “انکار” کر دیا تو قائم رہیں مگر ذیادہ ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کریں۔ مثلا” فون نہیں دینا تو بس “نہیں” کہ دیں اور وجہ ضرور بتائیں کہ آنکھیں خراب ہو سکتی ہیں، وغیرہ مگر انہیں ذلیل نہ کریں۔
۔📚پڑھائی، ہوم ورک یا کوئی نیا ہنر سکھانا ہو تو تحمل سے کام لیں ورنہ بچہ اس کام سے متنفر ہو جائے گا۔ اگر اسی دوران آپ ڈانٹیں یا ماریں گے تو جان لیجئیے کہ اس کے حواصِ خمصہ چالیس منٹ کے لئیے کام کرنا چھوڑ دیں گے اور اسکا دماغ خوف اور اپنے بچاؤ کی کیفیت میں چلا جائے گا۔ لہذا پڑھاتے یا سکھاتے نرم رویہ اختیار کرنا نہایت اہم ہے۔
۔💡بچوں کو کبھی بھی روتے ہوئے، اداسی یا ناراضگی کی حالت میں نہ سونے دیں۔ جو بھی معاملات ہوں، سونے سے پہلے انہیں پر سکون کریں۔ وضو کرائیں، دعائیں پڑہیں، سبق آموز کہانی سنائیں اور مل کر اگلے دن کی پلاننگ کریں۔
۔🌟حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، کتنا ہی بڑا مسئلہ ہو، کبھی بھی اپنے بچوں سے گفتگو یا بات چیت ختم نہ کریں۔ وہ بچے ہیں، انہیں سمجھائیں، بار بار سمجھائیں اور متوقع نقصانات سے آگاہی ضرور دیں۔
۔❓بچوں کو ہر طرح کے سوال کرنے دیں۔ انہوں نے اسی طرح سیکھنا ہے۔ اگر والدین جواب نہیں دیں گے تو وہ کسی دوست یا انٹرنیٹ سے جواب حاصل کر لیں گے۔ لہذا، ہر طرح کے سوال کے لئیے ذہنی طور پہ تیار رہیں۔ بہترین ہے کہ ہر سوال کا دین کی روشنی میں جواب دیا جائے۔
۔👬صُحبت رنگ لاتی ہے۔ اپنے بچوں کے دوستوں کی مکمل معلومات ضرور حاصل کریں۔ خاص طور پر ان کے روز مرہ کے معاملات کا ادراک رکھیں۔ بہتر ہے کہ بچپن سے ہی انہیں آگاہی دیں کہ اللہ کو پسند ہے کہ نیک دوست بنائے جائیں۔
۔🥇ذیادہ نمبروں یا کلاس میں اول آنے کے لئیے بے جا دباؤ نہ ڈالیں۔ ترغییب ضرور دیں اور پڑھائی میں ان کی مدد بھی ضرور کریں مگر اس معاملے میں بے جا سختی سے بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
۔🕌 جو بھی عمل یا رویہ سکھانا ہے وہ خود کر کے دکھائیں۔ “نماز پڑھ لو” کہنے سے وہ اس کی عادت نہیں اپنائیں گے۔ ان کے ساتھ نماز ادا کرنا معمول بنا لیں تو وہ بھی ادا کرنے لگیں گے۔
۔👈🏻” بچے ہماری سُنتے کہاں ہیں وہ تو ہمیں دیکھتے ہیں” لہذا جیسا آپ بچوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ویسا بننا پڑے گا۔
۔⛔️ والدین بننے سے پہلے اپنے بچپن کی محرومی، صدمے یا ٹراما سے نکلنے کی کوشش کریں۔ یہ ضروری ہے، ورنہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کا منفی اثر بچوں پہ پڑ سکتا ہے۔
heal yourself before having children
بحیثیت مسلمان ہمارے پاس سب سے بڑا سہارا اللہ کریم سے دعا کرنا ہے
اے ہمارے رب ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔۔۔ القران
Comments
Post a Comment