اسلام میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا اعتبار ہے اور شرعی احکام اور عبادات میں دونوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ دنوں اور مہینوں کا تعین چاند کے حساب سے ہوتا ہے جبکہ اوقات کا تعین سورج کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ پانچ وقت کی نماز کے اوقات سورج کی گردش کے ساتھ طے پاتے ہیں، فجر کی نماز طلوعِ شمس سے پہلے، ظہر کی نماز زوال کے بعد، عصر کی غروب سے پہلے، مغرب کی غروب کے بعد، اور عشاء کی نماز شفق کے خاتمہ پر پڑھی جاتی ہے اور ان سب اوقات کا تعین سورج کی گردش کے ساتھ ہے۔ البتہ رمضان المبارک، عیدین، ۱۰ محرم، حج کے ایام اور دیگر دنوں کا تعین چاند کے حساب سے ہوتا ہے۔ اب روزے میں دیکھ لیجئے، روزہ کے دنوں کا تعین چاند کے حساب سے کریں گے مگر روزے کے اوقات کا حساب سورج کے ساتھ ہوتا ہے۔ سحری کا وقت سورج طلوع ہونے سے تھوڑا عرصہ پہلے تک ہے اور افطاری کا وقت سورج غروب ہونے پر ہوتا ہے۔ اس طرح حج کے دنوں کا تعین تو قمری اعتبار سے ہوگا مگر حج کے ارکان و افعال کا وقت سورج کے حساب سے طے پائے گا کہ عرفات کب جانا ہے، مزدلفہ کب جانا ہے، رمی کب کرنی ہے، یہ سب معاملات سورج کی گردش کے ساتھ طے ہوتے ہیں۔
دنیا میں سورج اور چاند کی گردش کے حساب سے دو قسم کے سن رائج ہیں۔ سورج کی گردش کے لحاظ سے جو سن رائج ہے وہ شمسی کہلاتا ہے اور جنوری، فروری اور مارچ وغیرہ مہینے اسی سن کے مہینے ہیں۔ جبکہ چاند کی گردش کے حساب سے جو سن مروج ہے وہ قمری کہلاتا ہے اور محرم، صفر، ربیع الاول وغیرہ اس سن کے مہینے ہیں۔ ہجری سن قمری حساب سے ہے۔ مروجہ شمسی سن عیسوی بھی کہلاتا ہے جس کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ہوتا ھے . دنیا میں اوقات اور ایام کے تعین کے لیے سورج اور چاند دونوں کی گردش کا حساب چلا ہے۔ البتہ سورج کی گردش والا سال چاند کی گردش والے سال سے چند دن بڑا ہوتا ہے اور گرمی سردی کے موسم بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں، اس لیے چاند کی گردش والا سال موسم کے حساب سے بدلتا رہتا ہے
الغرض شرعی احکام و معاملات میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا لحاظ رکھا گیا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ دِنوں کی تعیین چاند کے ساتھ جبکہ اوقات کی تعیین سورج کے ساتھ ہوگی چنانچہ ہماری تمام عبادات و احکام اس حساب سے چلتے ہیں۔ اس فرق میں بھی حکمتیں ھیں
مثلاً رمضان کا تعین اگر سورج کی گردش کے حساب سے طے کیا جائے تو جو مہینہ بھی طے پائے گا وہ ایک ہی موسم میں ہمیشہ آئے گا اور مختلف موسموں کے روزوں کا لطف نصیب نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر اکتوبر کا مہینہ روزوں کے لیے مخصوص ہوتا تو وہ ہر سال اسی موسم میں آتا۔ جبکہ قمری حساب سے رمضان المبارک کے تعین سے یہ تنوع حاصل ہوتا ہے کہ مختلف موسموں کے روزے مل جاتے ہیں اور ایک مسلمان بالغ ہونے کے بعد پچاس برس کی عمر تک سال کے ہر موسم کے روزے رکھ لیتا ہے، ٹھنڈے بھی، درمیانے بھی اور گرم بھی اور اس طرح تنوع قائم رہتا ہے۔
الغرض اسلام میں حسابات و معاملات طے کرنے اور عبادات کی ادائیگی کے لیے سورج اور چاند دونوں کی گردش کا اعتبار کیا گیا ہے اور اس فرق کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ مہینوں اور دنوں کا تعین چاند کے حساب سے ہوگا جبکہ اوقات سورج کی گردش کے ساتھ طے پائیں گے اور اس میں حکمت بھی ہے کہ روزہ اور حج میں مختلف موسموں کا تنوع قائم رہتا ہے
Comments
Post a Comment