نماز تمام مذاہب کی عبادات میں شام رہی، اس کے اوقات اور ادائیگی کے طریقے تقریباً ایک جیسے تھے - ہندوؤں کے بھجن ، پارسیوں کے زمزمے، عیسائیوں کی دعائیں اور یہودیوں کے مزامیر ، سب اِسی کی یادگاریں ہیں-
ابراہیم علیہ السلام اور نماز
"پروردگار، مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی" (ابراہیم ۱۴: ۴۰)
سیدنا یعقوب کی نسل کے پیغمبروں کے بارے میں قرآن کا بیان ہے:
"اُن کو نیک کام کرنے اور نماز کا اہتمام رکھنے کا حکم بھیجا"
(الانبیاء ۲۱: ۷۳)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی تو حکم دیا گیا
" میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو"
(طٰہٰ ۲۰: ۱۴)
زکریا علیہ السلام اپنے وقت کے پیغمبر تھے اور مریم علیہ السلام کے خالو تھے، زکریا علیہ السلام بھی عبادت گاہ (ہیکل) میں نماز پڑھتے تھے
چنانچہ ( ایک دن) جب زکریا عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، فرشتوں نے انہیں آواز دی کہ : اللہ آپ کو یحی کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے" (آل عمران : 39)
اسی طرح مریم علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کی تاکید کی، آپ بیت المقدس کے ساتھ محراب میں رہتی تھیں اور محراب کی خادمہ تھیں؛
اے مریم ! تم اپنے رب کی عبادت میں لگی رہو، اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع بھی کیا کرو" (آل عمران : 43)
تورات میں نماز کا ذکر
تب لوگوں نے اُن کا یقین کیا اور یہ سن کر کہ خداوند نے بنی اسرائیل کی خبر لی اور اُن کے دکھوں پر نظر کی ، اُنھوں نے اپنے سرجھکا کر سجدہ کیا۔
(خروج۴ : ۳۱)
اے خداوند، تو صبح کو میری آواز سنے گا ۔ میں سویرے ہی تیرے حضور میں نماز کے بعد انتظار کروں گا ۔ ‘‘خروج (۵: ۳)
سمندر اُس کا ہے ۔ اُسی نے اُس کو بنایا ہے اور اُسی کے ہاتھوں نے خشکی کو بھی تیار کیا آؤ، ہم رکوع و سجود کریں اور اپنے خالق خداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں، کیونکہ وہ ہمارا خدا ہے ... خروج (۹۵: ۵۔۶)
انجیل متی میں نماز کا ذکر
اور لوگوں کو رخصت کر کے (یسوع) تنہا نماز پڑھنے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب شام ہوئی تو وہاں اکیلا تھا۔‘‘(۱۴: ۲۳)
اُس وقت یسوع اُن کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا یہیں بیٹھے رہنا ، جب تک کہ میں وہاں جا کر نماز پڑھ لوں۔ ‘‘ (۲۶: ۳۶)
’’پھر ذرا آگے بڑھا اور سجدہ ریز ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے یوں دعا کی کہ اے میرے باپ، اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے ۔ ‘‘ (۲۶: ۳۹)
انجیل مرقس میں ہے
اور وہ صبح سویرے اٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہ اُس جگہ نماز پڑھا کرتا تھا۔‘‘ (۱: ۳۵)
لوقا میں ہے
اور اُن سے کہا: تم سوتے کیوں ہو ، اٹھو اور نماز پڑھو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔‘‘ (۲۲: ۴۶)
نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد جو کہ 60 اراکین پر مشتمل تھا مدینہ منورہ آیا - اس وفد کی قیادت ابو حارث ابن علقمہ کر رہے تھے جن کے پاس پادری کا عہدہ بھی تھا - ان لوگوں کے لباس اور اونٹوں کا کاروان دیکھ کر اہل مدینہ بہت متاثر ہوئے وہ لوگ ملاقات کے لئے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں مسجد نبوی پہنچے تو یہ سہ پہر کا وقت تھا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنی نمازیں ادا کرنا چاہتے تھے چنانچہ آپ ﷺ مسجد نبوی سے باہر تشریف لے گئے ان لوگوں نے اپنے رخ مشرق کی جانب کیے اور نمازیں ادا کیں -
(بحوالہ سیرت ابن ہشام، ص: 380-381 ، 400-411)
تالمود کے زمانے میں یہود دن میں پانچ وقت نماز کے لیے جمع ہوتے تھے : تین مرتبہ اُن نمازوں کے لیے جو اِس وقت بھی ادا کی جاتی ہیں اور دو مرتبہ ’ شیما‘ کی تلاوت کے لیے ۔ تاہم بعد میں بعض عملی دشواریوں کے پیش نظر صبح اور شام کی دو دو نمازوں کو جمع کر کے وہ صورت پیدا کر لی گئی جو اب رائج ہے
(Judaism in Islam، ابراہام کیٹش 10)
نزول قرآن کے بعد اب سورۂ فاتحہ نماز کی دعا ہے ۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے اِس طرح کی دعا تمام الہامی کتابوں میں نازل کی گئی ۔
تورات کی دعا یہ ہے
خداوند، خداوند، خداے رحیم اور مہربان، قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی ۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا ۔ گناہ اور تقصیر اور خطا کار کا بخشنے والا، لیکن وہ مجرم کو ہرگز بری نہیں کرے گا ، بلکہ باپ دادا کے گناہ کی سزا اُن کے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پشت تک دیتا ہے ۔‘‘ (خروج ۳۴: ۶۔۷)
انجیل کی دعا یہ ہے
اے ہمارے باپ، تو جو آسمان پر ہے ، تیرا نام پاک مانا جائے ۔ تیری بادشاہی آئے ۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے ، زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے ۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے ، تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر اور ہمیں آزمائش میں نہ لا، بلکہ برائی سے بچا ، کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں ۔ آمین ۔ ‘‘ (متی ۶: ۹۔۱۳)
عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ نزول بھی اس وقت فرمائیں گے جب اہل اسلام نماز پڑھ رہے ہوں گے؛
ابوہریرہ سے ایک روایت صحیح مسلم میں مروی ہے کہ: نزولِ مسیح (عیسی ابن مریم) شام میں اُس وقت ہوگا جب اہل اسلام دشمن سے ایک بڑے معرکے کے دوران میں نماز پڑھنے لگے ہوں گے (یعنی مسلمان اُس وقت نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے)۔
(صحیح مسلم: جلد 8، صفحہ 198، مطبوعہ قاہرہ، 1374ھ)
متعدد احادیث میں ذکر آیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد امام مہدی کی امامت میں نماز ادا کریں گے؛
ابن سیرین سے روایت ہے کہ (امام) مہدی اسی امت میں سے ہوں گے اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی امامت سرانجام دیں گے۔
(ابن ابی شیبه، المصنف، 7 : 513، رقم : 37649 ii. نعیم بن حماد، الفتن، 1 : 373، رقم : 1107)
غرض نماز تمام مذاہب کی بنیادی عبادات میں شامل تھی اسلام نے نماز کا جو حکم دیا وہ کوئی نیا حکم نہیں تھا یہ ملت ابراہیمی کا حصہ تھی انبیاء کرام کی مشترکہ سنت تھی جس کی ہیت و شکل حوادث زمانہ کا شکار ہونے کے باعث تبدیل ہوتی چلی گئی
تحریر : Musa Pasha
Comments
Post a Comment