دل کی صفائی
ہم اپنے گھر میں صفائی پسند کرتے ہیں ـ ذرا بھی کہیں کوڑا کرکٹ نظر آئے، عورتوں کو ڈانٹ پڑتی ہےـ صفائی کیوں نہیں کی ـ اپنے گھروں میں صفائی چاہنے والے ذرا غور کریں دل بھی تو اللہ رب العزت کا گھر ہےـ اس میں بھی صفائی آنی چاہیئے ـ اس پر جو گناہ کا میل پڑا ہے کوڑا کرکٹ بھرا ہے ـ افسوس ہے کہ ہم نے اسے ردی کی ٹوکری بنا رکھا ہے ـ یہ اللہ ربّ العزت کا گھر ہےـ وہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ دل صاف ہو ـ جب دل صاف ہو جائے گا تو پھر اللہ رب العزت کی رحمت خود بخود آئیگی ـ صفائی کرنے میں ہماری طرف سے دیر ہے ... فقہ کا مسئلہ ہے کہ جس کمرے میں جاندار کی تصویر لگی ہو گی اللہ رب العزتکی رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں آتے ـ بالکل اسی طرح جس دل میں کسی کی تصویر بیٹھی ہو گی اللہ رب العزت اس دل میں آنا کیسے پسند فرمائیں گے ؟
جب رحمت کا فرشتہ نہیں آتا تو رحمت بھیجنے والے کی محبت کیسے آئے گی ؟
اس لئے اس دل پر محنت کرنے کی ضرورت ہے _
دل كى قيمت
دیکھئے انسان کے جتنے بھی اعضاء ہیں وہ اس دِل کے تابع ہیں ـ دل کے سنورنے سے انسان سنورتا ہے اور دل کے بگڑنے سے انسان بگڑتا ہے ـ
دل کے بگاڑ ہی سے بگڑتا ہے آدمی
جس نے اسے سنوار دیا وہ سنور گیا
ایک دفعہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ نے دہلی کی جامع مسجد میں خطبہ دیاـ مغل بادشاہ ہو ... تمہارے خزانوں کی بڑی تعریف سنی ہے ـ لیکن ولی اللہ کے سینے میں ایک دل ہے تمہارے خزانے سب مل کر بھی اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتے سوچو ... دل قیمتی کیسے بنتا ہے ؟
اس دل کو قیمتی بنانے کے لئے اس پر محنت کرنی پڑتی ہے ـ اس کو سنوارنا پڑتا ہےـ اس کو بنانا پڑتا ہے ـ اس سے دنیا کی محبت کو نکالنا پڑتا ہے تب یہ دل سنورتا ہے الٹی سیدھی خواہشات دل سے نکالنے پڑتے ہےـ تب انسان کا دل سنورتا ہے اس میں سے دنیا کی محبت کیسے نکلے؟
اس کے لیے اللہ والوں سے سیکھ کر ذکر کرنا پڑتا ہے ذکر کرنے سے انسان کا دِل سنور جاتا ہے
قرآن مجید میں ایک آیت
اِنَّ الۡمُلُوۡكَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡيَةً اَفۡسَدُوۡهَا وَجَعَلُوۡۤا اَعِزَّةَ اَهۡلِهَاۤ اَذِلَّةً
القرآن - النمل - آیت 34
اس کے تحت حضرت اقدس تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک عجیب تمثیل لکھی ہے فرماتے ہیں اگر ( اِنَّ الْمُلُوْكَ ) سے مراد مالک الملک کا نام لیا جائے یعنی اللہ رب العزت اور ان کا نام
( قَرْيَةً) سے مراد دل کی بستی لے جائیں تو فرماتے ہیں کہ پھر اس کے معنی بنیں گے
( اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً) جب اللہ رب العزت کا نام دل کی بستی میں سما جاتا ہے ( (اَفْسَدُوْهَا) انقلاب مچا دیتا ہے (وَجَعَلُوْا اَعـِزَّةَ اَهْلِهَـــا اَذِلَّةً) اور دنیا جو دل میں معزز بنی ہوتی ہے اس کو ذلیل کر کے دل سے نکال دیا کرتا ہےـ
لہٰذا دوستو : اللہ رب العزت کے ذکر میں بڑی برکت ہوتی ہے یہ دنیا کی محبت دل سے نکالتا ہےاللہ رب العزت کی محبت سے دل کو منور کرتا ہے اور جب یہ دل بنا ہوا اور سنورا ہوا ہو تو پھر انسان کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے
Comments
Post a Comment