1333) مشورے کے آداب و اصول



مشورے کے آداب و اصول

حضرت جی مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم

۔۱۔جس طرح دین کا اہم رکن نماز ہے اسی طرح دعوت کا اہم رکن مشورہ ہے۔ جس کی نماز نہیں اس کا دین نہیں اسی طرح جس کا مشورہ نہیں اس کی دعوت نہیں۔

۔۲۔جس طرح دین امانت ہے اسی طرح مشورہ بھی امانت ہے۔

۔۳۔کام کی کمزوری مشورے کی کمزوری ہے کام اس لیے کمزور ہوگیا کہ مشورہ کمزور ہو گیا۔

۔۴۔مشورے کا مقصد تقاضے کو پورا کرنا نہیں ہے، بلکہ مشورے کا مقصد ساتھیوں کو لے کر چلنا ہے تقاضے وہ پورا کرے گا جو ساتھی قربانی دے گا۔

۔۵۔جس مشورے سے تقاضے پورے نہیں ہوئے وہ مشورہ کمزور نہیں، بلکہ مشورے سے ساتھی کٹ گیا وہ مشورہ کمزور ہے۔

۔۶۔کام کرنے کا عملہ جو تیار ہوتا ہے وہ مشورے سے تیار ہوتا ہے،اور جو ساتھی کٹتا ہے وہ مشورے سے کٹتا ہے۔

۔۷۔شوریٰ کے بغیر فیصلہ نہیں، فیصلہ کے بغیر شوری نہیں، جس طرح جماعت کے بغیر امیر نہیں، امیر کے بغیر جماعت نہیں۔

۔۸۔ساتھی کا ساتھی سے مشورہ کرنا یہ مشورہ کی کمزوری ہے،ساتھی کا کسی جماعت سے مشورہ کرنا یہ مشورہ کی کمزوری ہے، جماعت کا کسی ایک ذمہ دار سے مشورہ کرنا یہ مشورہ کی کمزوری ہے۔

۔۹۔کسی ذمہ دار کو چھوڑ کر مشورہ کرنا یہ بھی مشورے کی کمزوری ہے، ساتھی کسی ساتھی سے مشورہ نہ کریں، ساتھی کسی جماعت سے مشورہ نہ کریں، جماعت کسی ساتھی سے مشورہ نہ کریں۔

بلکہ جماعت کسی جماعت سے مشورہ کرے،مشورے کے بعد مشورہ کرنا یہ بھی مشورے کی کمزوری ہے۔

۔۱۰۔کسی ذمہ دار ساتھی کے نہ ہونے پر مشورہ ٹال دیا جائے، اسی وقت طئے کرنا ضروری نہیں۔

۔۱۱۔جس کے اندر مشورے کے اہمیت نہیں ہوگی، اس مشورے سے طے ہونے والی امور کی بھی اہمیت نہیں ہو گی۔

۔۱۲۔مشورے میں فیصلہ رائے کی کثرت پر نہیں ہوگا، بلکہ مشورے میں فیصلہ بصیرت پر ہوگا۔

۔۱۳۔مشورے میں پہلے رائے پرانوں کی ہوگی، اس کے بعد جو قربانی میں آگے ہے ان کی ہوگئی، نئے کو رائے پوچھنے پر دینا چاہیے۔

۔۱۴۔جو اپنے رائے کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتا ہے وہ رائے کو بنا بنا کر پیش کرے گا۔

۔۱۵۔جو اپنے رائے کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتا ہے وہ مشورے سے پہلے اپنے رائے کا ماحول تیار کرے گا۔

۔۱۶۔حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم: جو اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتا ہے وہ اپنے لئے جہنم کے ٹکڑا لے رہا ہے۔

۔۱۷۔رائے رکھنے کا طریقہ یہ ہے:(۱) یہ کی یہ رائے کو اس طرح لا کر رکھیں کہ مشورہ سے عطا ہو جائے جو میں چاہتا ہوں۔(۲) دوسرا یہ کہ جو صورت حال ہے اس کو لاکر رکھ دو اس پر جو ذمہ دار طئے  کرینگے اس پر عمل کرنا ہے۔

۔۱۸۔جذبات والی رائے قبول نہیں کی جائے گی اس لئے کہ جذبات والے رائے میں سو فیصد خسارا ہے۔

۔۱۹۔مشورے میں اتنی رائے لے اتنی رائے لے کے رائے کی گنجائش نہ رہے۔

۔۲۰۔رائے کی کثرت اختلاف نہیں ہے، بلکہ رائے کی کثرت اور رائے کو نکھارتا ہے ۔

 ۔۲۱۔ہر رائے کے اندر کوئی نہ کوئی نقص رہتا ہے، جب اس رائے کو مشورے میں لا کر ڈال دیا جائے، پھر اس رائے پر جب رائے کی کثرت ہو گئی تو اس رائے کے اندر نکھار پیدا ہو گا۔

۔۲۲۔اگر کوئی ذمہ دار ساتھی اپنے ذاتی تعلق کی وجہ سے کسی ساتھی کو کوئی ایسا کام دے جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو، تو اس ذمہ دار پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔

۔۲۳۔مشورے کے بعد کوئی ساتھی اس طرح کہے، کہ مشورہ کس نے کیا؟ فیصلہ کس نے کیا؟ تو اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں۔

۔۲۴۔مشورے کے بعد اگر کوئی نقصان ہو گیا، تو اس طرح کہنا کہ مشورے والوں نے ہماری نہیں مانی،نقصان ہو گیا، اس طرح کہنا منافقین کا مزاج ہے۔ اس طرح کہنا کہ جو اللہ نے  چاہا اس پر ہمارا ایمان ہے۔ اس طرح کہنا ایمان والوں کا مزاج ہے۔

۔۲۵۔مشورے کے بعد اگر کوئی ساتھی یہ پوچھ لیں کہ تمہاری رائے کیا تھی؟  تو اس سے یوں کہیں کہ جو مشورے میں فیصلہ ہوگیا ہے وہی میری رائے ہے اس کے باوجود بھی اگر پوچھیں کہ تمہاری رائے کیا تھی تو اس سے یوں کہیں کہ ہم اپنی رائے مشورے میں دے چکے ہیں۔

۔۲۶۔اکر کوئی ذمہ دار کو چھوڑ کر مشورہ کریں گے تو ذمہ دار مشورے والوں کے خلاف اپنا گروپ تیار کرے گا پھر ساتھی ساتھی کے پیچھے پڑ جائیں گے،  جس کے وجہ سے تقاضا ضائع  ہونگے۔

۔۲۷۔اگر کوئی ساتھی بلا شرعی عذر کے جان  بچانے کی نیت سے تقاضہ دوسروں پر ڈالے گا، تو وہ دعوت کے کام کو انکار کر رہا ہے۔

ُ۔۲۸۔اگر تقاضے دوسروں پر ڈالیں گے تو اللہ اسے ہٹا کر دوسروں کو کھڑا کر دے گا۔

۔۲۹۔مشورے سے پچھتاوا نہیں ہوتا، کسی ساتھی کے رائے کو کاٹے نہیں، نہ ہی اس کو حقیر سمجھے۔

۔۳۰۔امیر قلت رائے اور کثرت رائے کا پابند نہیں مشورہ کرنا سنت ہے، اور دل توڑنا حرام ہے۔

۔۳۱۔مشورے سے پہلے رائے مختلف ہو سکتی ہے لیکن امیر کے فیصلے کے بعد سب اس پر متفق ہو جائے اور یہ سوچیں کہ میری بھی یہی رائے ہے۔

۔۳۲۔اللہ کے راستے میں نکل کر تین باتوں کا مشورہ کرنا (1) جس طرح ہم اللہ کے راستے میں دین  سیکھنے کے لئے نکلے ہیں اسی طرح سے اس بستی سے بھی لوگ کیسے نکلے۔ (2) یہاں کے ہر مسلمان میں ایمان اعمال کیسے زندہ ہوں۔(3) ہمارے 24 گھنٹے کا نظام کیسے گزری۔

۔۳۴۔مشورے میں ماننے کے جذبے سے  بیٹھے ،اور منوانے ک جذبے سے نہ بیٹھے۔

۔۳۵۔رائے دیتے وقت حکیمانہ انداز نہ ہو۔

۔۳۶۔اگر کوئی ساتھی یوں کہیں کہ میرے رائے پر فیصلہ نہیں ہے اس لئے نقصان ہوا تو منافق کی چال ہے۔

۔۳۷۔دینی ہو یا دنیای دونوں امور میں مشورہ کریں۔

۔۳۸۔مشورہ کرنا اللہ کا پسندیدہ عمل ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ کی سنت تھی ہماری ضرورت ہے دین کا زیادہ فائدہ دیکھ کر رائے دیں ... مشورے سے پہلے مشورہ کرنا سازشیں ہے، اور مشورے کے بعد مشورہ کرنا بغاوت ہے۔

۔۳۹۔جماعت کو لے کر جانے والے امیر میں تین باتیں ہوں (1) ماں کی محبت،(2) باپ کی نگاہ(3) استاد کی تربیت۔

۔۴۰۔رائے میں اختلاف رحمت ہے اور دلوں میں اختلاف عذاب ہے . انفرادی اعمال کا مشورہ مستحب ہے . اجتماعی اعمال کا مشورہ واجب ہے . اگر اکیلے کیے تو عجب ہے

عبدالحق قاسمی

Comments