صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی وفات کے تقریباً پچاس سال بعد ہی ایک طرف تاتاری مسلمانوں پر اللہ کا عذاب بن کر ٹوٹے۔
تو دوسری جانب حشیشین کا زور بہت زیادہ تھا، صلاح الدین ایوبی تو ان کے تین کاری واروں سے اللہ کے فضل سے محفوظ رہ گئے تھے لیکن بعد میں آنے والے دور کا کوئی اچھا انسان حشیشین کے وار سے نہ بچ سکا۔
ادھر تیسری جانب یورپ میں بڑے زور و شور سے تیسری صلیبی جنگ کی تیاری کی جا رہی تھی ۔ یہ وہ حالات تھے جب مسلمانوں کے پاس کوئی راہ فرار بھی نہیں بچی تھی، تاتاریوں سے لڑنے کا حوصلہ تھا نہ صلیبیوں کا سامنا کرنے کی قوت۔۔۔ جو اچھا حکمران آتا حشیشین کے ہاتھوں شہید ہو جاتا، غرض اسلامی دنیا تین بڑے طاغوتوں کے رحم و کرم پر تھی۔
اسلامی قوت کا مرکز بغداد ہلاکو خان کے ہاتھوں تاخت و تاراج ہو چکا تھا، حشیشین ایک بڑے علاقے پر قابض ہو کر اپنا کام کر رہے تھے، اور عکہ اور دوسرے ساحلی علاقوں میں موجود صلیبی قلعوں کے سردار یہ تمام خبریں یورپ پہنچا چکے تھے اور وہاں ایک بڑا لشکر بیت المقدس کو واپس لینے کی تیاری کر رہا تھا۔
بظاہر مسلمانوں کی طاقت و قوت ختم ہو چکی تھی دنیا کے ظاہری تمام اسباب ان کے مخالف تھے لیکن اسی وقت اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور مسلمانوں کو ایک امیر ملا، ایک ایسا گوہر نایاب جو خصوصیات کے لحاظ سے "آل ان ون" تھا۔
جنگ کے میدان میں وہ جہاں کا رخ کرتا دشمنوں کی صفوں کی صفیں زیر و زبر کر دیتا، تو سیاست میں اس کا ثانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے، جاسوسی میں اس قدر شاطر کہ بذات خود دشمنوں کے حالات تن تنہا بھیس بدل کر معلوم کر آتا۔ اسی سیاسی تدبیر سے اس نے صلیبیوں کو بغیر جنگ کیے شکست سے دوچار کر دیا تھا۔
رازداری میں اتنا ماہر کہ حشیشین بھی عاجز آگئے۔
صلیبیوں کی شکست کے بعد اس نے فلسطین کے ساحلی علاقوں سے صلیبیوں کے تمام قلعے مسمار کر کے ان کے سارے خواب چکنا چور کر دیۓ۔
تاتاریوں کو نہ صرف میدان جنگ میں عبرت ناک شکست دی بلکہ علماء کو تاجروں کے بھیس میں تبلیغ کیلئے بھی روانہ کیا، جس کے نتیجے میں تمام تاتاری قوم مشرف با اسلام ہوئی۔
حشیشین پر اچانک حملہ کر کے ان کے تمام قلعے مسمار کر دیئے اور ان کے ہر چھوٹے بڑے افسر کو قتل کر کے انہیں ماضی کی ایک کہانی بنا دیا۔۔۔
سلطان کو دنیا کی کافی زبانوں پر عبور حاصل تھا، جن میں پشتو، پنجابی، عربی تاتاری اور انگریزی قابل ذکر ہیں۔
وہ فقط چوالیس سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کر گیا، لیکن اس وقت تک دنیا کا نقشہ بدل چکا تھا، اس کے مختصر دور حکومت کے بعد مسلمانوں کا گذشتہ ماضی کا دور دوبارہ شروع ہو چکا تھا اور کل کے مجبور و بے بس مسلمان اس وقت ایک بڑی طاقت بن چکے تھے۔
یہ کہانی ہے مصر کے عظیم حکمران سلطان رکن الدین محمود بیبرس کی، جنہیں اگر صلاح الدین ثانی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا
Comments
Post a Comment