1366) مشکلات نشانی ہے کہ کامیابی قریب ہے

 



مشکلات میں اضافہ اس بات کی نشانی ہے کہ کامیابی قریب ہے

مشکلات کے گہرے بادلوں کا چھا جانا ایمان والوں کو مایوس نہیں کرتا بلکہ مشکل ترین حالات اور مشکل دور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب کامیابی دور نہیں ۔ مشکل ترین حالات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ایمان والوں کا امتحان ہیں اور یہ امتحان انہیں اس بات کا حقدار بناتا ہے کہ اللہ کی جانب سے ان کی مدد  کی جائے اور انہیں کامیابی عطا کی جائے۔  پس جب اللہ کی مدد اور  کامیابی آتی ہے اور کفار پر، زبردست مادی قوت رکھنے کے باوجود چھا جاتی ہے تو یہ حقیقت کفار کے سامنے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرد یتی ہے۔ غزوہ خندق کہ جس میں بہترین میں سے بھی بہترین نسل نے بہت بڑی اتحادی قوت کا سامنا کیا تھا، نے ثابت کیا کہ مشکل حالات آنے والی فتح اور کامیابی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔

غزوہ خندق میں مسلمانوں کے دشمن بہت بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے جن میں غطفان کے لوگ بھی شامل تھے، اس کا نقشہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان الفاظ میں کھینچا ہے

 إِذْ جَآءُوكُمْ مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ 

جب (دشمن) تمہارے اوپر سے اور نیچے سے چڑھ آئے" (الاحزاب 33:10)۔

صورت حال اُس وقت اور نازک ہوگئی جب بنو قریظہ نے غداری کرتے ہوئے معاہدے کو توڑ ڈالا اور  کفار کے اتحاد میں شامل ہوگئے، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ

 هُنَالِكَ ابْتُلِىَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُواْ زِلْزَالاً شَدِيداً 

تب مومن آزمائے گئے اور پوری طرح سے جھنجھوڑ دیے گئے"(الاحزاب33:11)۔

خوف مسلمانوں کی صفوں میں سرایت کرگیا، جب ان کے سامنے کفار کا ایسا لشکر کھڑا تھا جو تعداد اور طاقت کے لحاظ سے ناقابلِ شکست دکھائی دے رہا تھا، مسلمانوں کی کیفیت کو اللہ نے قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے

وَإِذْ زَاغَتِ الاٌّبْصَـرُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ 

اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے"(الاحزاب33:10)

خوف اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ کچھ مسلمانوں کا یقین متزلزل ہو گیا اور وہ یہ گمان کرنے لگے کہ اس جنگ کا نتیجہ ایمان والوں کے خلاف ہی نکلے گا اور یہ کہ اللہ ایسا ہونے دیں گے

اللہ نے فرمایا

وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَاْ 

اور تم اللہ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے"(الاحزاب 33:10)

 اس چھائے ہوئے خوف کی صورت حال میں منافقین اس حد تک بے باک ہوگئے کہ  بنو عامر بن عوف کے بھائی مُعت!ب بن قشیر نے کہا "محمد(ﷺ) ہم سے وعدہ کر رہا تھا کہ ہم قیصر اور کسریٰ کے خزانے حاصل کریں گے لیکن حالت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی یہاں سے باہر نہیں جاسکتا اور خود کو سکون نہیں پہنچا سکتا"۔

جس وقت منافق یہ سوچ رہے تھے کہ اب اسلام ختم ہو جائے گا تو پختہ ایمان والوں کو یقین تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ اِس وقت بھی اس دین کو باقی رکھیں گے اور آنے والے تمام وقتوں میں بھی باقی رکھیں گے۔ ابنِ ابی حاتم سے روایت ہے کہ ابو سعید ؓ نے کہا ، "خندق کے دن ہم نے کہا، 'اے اللہ کے رسول ﷺ، کیا ہم کچھ کہیں کیونکہ ہمارے کلیجے منہ کو آرہے ہیں'۔ آپ ﷺ نے کہا

نَعَمْ، قُولُوا: اللَّهُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا 

ہاں، کہو اے اللہ ہماری کمزوریوں پر پردہ ڈال دے اور ہمارے خوف کو ٹھنڈا کر دے

ایمان والے اتحادیوں کے آنے کو نمودار ہوتی کامیابی کی نشانی کے طور پر دیکھ رہے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مزید فرمایا

 وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الاٌّحْزَابَ قَالُواْ هَـذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ 

اور ایمان والوں نے جب کفار کے لشکروں کو دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ انہی کا وعدہ ہم سے اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسولںﷺ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا"(الاحزاب 33:22)۔ 

ابن عباس ؓفرماتے ہیں:  "اُن کا اشارہ سورۃ البقرۃ کی جانب تھا، جہاں اللہ  فرماتے ہیں

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ 

کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟

 سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے"(البقرۃ2:214)"۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جس آزمائش کا وعدہ کیا ہے اس کے فوراً بعد اللہ کی مدد اور  کامیابی حاصل ہو گی۔

لہٰذا مسلمانوں  میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو استقامت کے ساتھ کھڑے رہے اور خود کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد کا حقدار ثابت کردیا۔ غزوہ خندق ان لوگوں کی شہادت دیتا ہے جو دشمن کی ایک ٹولی کی طرف سے خندق کو پار کر لینے کے باوجود کھڑے رہے۔ حضرت علي رضي الله عنہ کے ہاتھوں عامر بن عبد کا قتل آنے والی کامیابی کی نشانی تھی اور  پھر مسلمانوں کی جانب سے بہادری  دکھانے کے بعد اللہ نے اتحادیوں کے خلاف انتہائی  سرد اور تیز ہوا بھیجی ، جس نے ان کی ہر شے کو تہہ و بالا کر ڈالا۔

وہ آگ نہیں جلا سکتے تھے اور نہ ہی کچھ اور کرنے کے قابل رہے اور مایوسی اور ناکامی  کے عالم میں پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا

يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً 

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جب تمہارے مقابلے کے لیے فوجوں پر فوجیں آئیں ، پھر ہم نے ان پر تند و تیز آندھی اور لشکر بھیجے" (الاحزاب33:09)۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کی صورت میں مدد بھیجی جنہوں نے اتحادی افواج کو ہلا دیا اور ان کے دلوں کو خوف سے بھر دیا، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،  وَجُنُوداً لَّمْ تَرَوْهَا 

اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نہیں دیکھ رہے تھے"(الاحزاب33:09)۔ 

اتحادیوں میں شامل ہر قبیلے کے سردار نے کہا "اے بنو فلاں اور فلاں میری سنو! "تو وہ اس کے گرد جمع ہو گئے ، اس نے کہا، "ہمیں خود کو بچانا چاہیے"، یوں اللہ نے ان کے دلوں میں خوف اور دہشت ڈال دی۔ اس طرح اتحاد ٹوٹ گیا اور اسلام باقی رہا، بالکل ویسے ہی جب روشنی کے آگے سے سیاہ بادل ہٹ جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ سیاہ بادل کبھی تھے ہی نہیں۔

لہٰذا آج ہمیں سخت سے سخت امتحان میں مضبوطی اور استقامت کا مظاہرہ کرنا ہے اور کامیابی کی بھرپور امید رکھنی ہے ۔ ہمیں ویسا ہی بننا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، مَنْ أَحَبَّ دُنْيَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَتِهِ ، وَمَنْ أَحَبَّ آخِرَتَهُ أَضَرَّ بِدُنْيَاهُ ، فَآثِرُوا مَا يَبْقَى عَلَى مَا يَفْنَى 

جو  اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے تو  وہ اپنی آخرت کو برباد کرتا ہے اور جو اپنی آخرت سے پیار کرتا ہے وہ اپنی دنیا کی زندگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ تو باقی رہنے والی چیز کو ختم ہوجانے والی پر فوقیت دو"(ترمذی 5179)۔

اس سیاہ ترین وقت میں ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ یہ ایمان والے مرد اور خواتین ہی ہوں گے جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے کامیابی ملے گی جو انہیں خوف کے اس دَور کے بعد انسانیت کے رہنما اور قائد کے منصب پر فائز کردے گی۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،

 وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءامَنُواْ مِنْكُمْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الاْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدّلَنَّهُمْ مّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً 

تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں، اللہ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے، اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا، جسے وہ ان کے لئے پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو امن و امان سے بدل دے گا"(النور 24:55)۔ 

ہم اس وقت مشرق و مغرب کی صف اول کی طاقتوں کے اتحاد کا سامنا کر رہے ہیں تو ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے وعدے کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اپنی امت کو اسلام کی حکمرانی کی صورت میں  زمین پر کامیابی عطا فرمائیں گے اور خوف کو امن سے بدل دیں گے۔

تو  آئیں ہم وہ نسل بننے کی جستجو کریں جس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ اسلام کے جھنڈے کو پوری دنیا تک لے جائیں گے یہاں تک کہ وہ فیصلہ کن طور پر مشرق اور مغرب پر غالب آجائیں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،  إِنَّ اللهَ زَوَى لِيَ الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَسَيَبْلُغُ مُلْكُ أُمَّتِي مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا "اللہ نے  زمین کو میرے سامنے سمیٹ دیا اور میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا۔ میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچے گی جہاں تک مجھے دکھایا گیا"۔

Comments