1359) تحِیَّۃُ الوضوء کے فضائل واحکام


تحِیَّۃُ الوضوء کے فضائل واحکام

۔⬅️ تحِیَّۃُ الوضو کی حقیقت:

وضو کرنے کے بعد ادا کی جانے والی دو رکعات نفل نماز کو تَحِیَّۃُ الوضو کہا جاتا ہے، اس کو شُکرُ الوضو بھی کہتے ہیں۔ شیخ الاسلام محدّث عصر علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وضو اُن امور میں سے ہے جو مقاصد تک پہنچانے کا ذریعے ہوتے ہیں، یعنی کہ وضو بھی متعدد مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے اور وضو کے ان تمام مقاصد میں سے سب سے اعلیٰ مقصد نماز ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ بندہ جب بھی وضو کرے تو اس کے بعد نماز ادا کرلیا کرے۔ (اعلاء السنن)

۔⬅️ تحِیَّۃُ الوضو کی فضیلت:

احادیث مبارکہ میں تَحِیَّۃُ الوضو یعنی وضو کے بعد دو رکعات نفل نماز ادا کرنے کی بہت بڑی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، ذیل میں چند روایات ملاحظہ فرمائیں

۔1️⃣ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس نے (سنت کے مطابق) اچھی طرح  وضو کیا، پھر دو رکعات نماز ادا کی جس میں غفلت اختیار نہیں کی تو اس کے گذشتہ (صغیرہ) گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

۔☀️ سنن ابی داود

905- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو: حَدَّثَنَا هِشَامٌ -يَعْنِى ابْنَ سَعْدٍ- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِىِّ: أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ قَالَ: «مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يَسْهُو فِيهِمَا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

(باب كَرَاهِيَةِ الْوَسْوَسَةِ وَحَدِيثِ النَّفْسِ فِى الصَّلَاةِ)

نماز میں غفلت اختیار نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دل کی توجہ اور استحضار کے ساتھ نماز ادا کی جائے۔

۔2️⃣ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جس نے (سنت کے مطابق) اچھی طرح وضو کیا، پھر دو رکعات نماز ادا کی، جس میں اپنے دل اور چہرے کے ساتھ متوجہ رہا تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔

۔☀️ سنن النسائی

151- أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْرُوقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ وَأَبِي عُثْمَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ يُقْبِلُ عَلَيْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ».

(بَاب ثَوَابِ مَنْ أَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ)

یہ حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ اور ’’سنن ابی داود‘‘ سمیت متعدد کتب میں بھی موجود ہے۔

نماز میں دل اور چہرے کے ساتھ متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پوری توجہ اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرے۔

۔3️⃣ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام حُمران فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے (وضو کے لیے) پانی طلب کیا، چنانچہ انھوں نے تین بار دونوں ہاتھوں کو (گٹّوں تک) دھویا، پھر کلی کی، پھر ناک میں پانی ڈالا، پھر تین بار چہرے کو دھویا پھر ہاتھوں کو کہنیوں سمیت تین بار دھویا، پھر سر کا مسح کیا، پھر تین بار پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھویا، پھر فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر دو رکعات نماز ادا کی، جس میں اپنے آپ سے بات نہ کی تو اس کے گذشتہ (صغیرہ) گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

۔☀️ صحیح بخاری

159- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأُوَيْسِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَن ابْنِ شِهَابٍ: أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَزِيدَ أَخْبَرَهُ أَنَّ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ رَأَى عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ دَعَا بِإِنَاءٍ فَأَفْرَغَ عَلَى كَفَّيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ فَغَسَلَهُمَا ثُمَّ أَدْخَلَ يَمِينَهُ فِي الْإِنَاءِ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُحَدِّثُ فِيهِمَا نَفْسَهُ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ». (بَاب الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا)

نماز میں اپنے آپ سے بات نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ارادے اور اختیار سے نماز میں خیالات لانے سے اجتناب کرے، ساری توجہ نماز کی طرف رکھے اور خشوع و خضوع سے نماز ادا کرے۔

اور اس حدیث میں ’’میرے اس وضو کی طرح وضو‘‘ سے مراد یہ ہے کہ سنت کے مطابق وضو کیا جائے۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں وضو کا مکمل اور مفصل طریقہ مذکور نہیں، صرف بنیادی امور کا تذکرہ ہے جیسا کہ یہی حدیث دیگر کتب میں بھی موجود ہے اور ان میں کچھ اضافی باتیں بھی ہیں، اس لیے صرف اسی حدیث میں مذکور طریقے کو کامل سنت طریقہ نہ سمجھ لیا جائے۔

۔4️⃣ حضور اقدس ﷺ نے ایک دن صبح کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا کہ: ’’اے بلال! کس چیز کی وجہ سے آپ جنت میں مجھ سے آگے تھے؟ میں جنت میں جب بھی داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے تمہارے (قدموں) کی آہٹ سنی۔ میں رات کو (بھی خواب میں) جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے آپ کی آہٹ سنی‘‘ تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میں نے جب بھی اذان دی تو (اس کے بعد) دو رکعات (نفل) نماز ادا کی، اور میرا جب بھی وضو ٹوٹا تو میں نے وضو کیا اور میں نے یہ سمجھا کہ اللہ کے لیے مجھ پر دو رکعتیں ہیں، تو میں نے (وضو کے بعد) دو رکعات نماز  ادا کی۔ (یہ سن کر) حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’انہی اعمال کی وجہ سے (تو آپ کو یہ مقام حاصل ہوا ہے)۔‘‘

۔☀️ شرح السنۃ للبغوی

1012- أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ الْمَلِيحِيُّ: أَنا أَبُو مَنْصُورٍ السَّمْعَانِيُّ: نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّيَّانِيُّ: نَا حُمَيْدُ بْنُ زَنْجُوَيْهِ: نَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ: حَدَّثَنِي أَبِي بُرَيْدَةُ قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَدَعَا بِلَالًا، فَقَالَ: «يَا بِلالُ، بِمَ سَبَقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي، إِنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي!»، فَقَالَ بِلالٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلَّا صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأْتُ، وَرَأَيْتُ أَنَّ لِلّٰهِ عَلَيَّ رَكْعَتَيْنِ فَأَرْكَعُهُمَا، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «بِهِمَا». 

(بَابُ فَضْلِ مَنْ تَطَهَّرَ فَصَلَّى عُقَيْبَهُ)

۔☀️ سنن الترمذی:

وَمَعْنَى هَذَا الحَدِيثِ: «إِنِّي دَخَلْتُ البَارِحَةَ الجَنَّةَ» يَعْنِي: رَأَيْتُ فِي المَنَامِ كَأَنِّي دَخَلْتُ الجَنَّةَ، هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الحَدِيثِ، وَيُرْوَى عَن ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ. 

(حديث: 3689)

اس مضمون کی احادیث ’’صحیح مسلم، سنن الترمذی، مسند احمد، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، مصنف ابن ابی شیبہ، شعب الایمان، مستدرک حاکم‘‘ اور دیگر کتب میں بھی موجود ہیں۔

یہ تمام روایات معتبر ہیں جن سے تَحِیَّۃُ الوضو نماز  کی بہت بڑی فضیلت معلوم ہوتی ہے، اس لیے ہر مسلمان کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ مختصر وقت میں بہت زیادہ اجر و ثواب اور فضائل کے حصول کا ذریعہ ہے۔

۔⬅️ تحِیَّۃُ الوضو کی رکعات:

تحیۃ الوضو کی کم از کم دو رکعات ہیں جیسا کہ ماقبل کی احادیث سے بخوبی ثابت ہوتا ہے۔ (رد المحتار)

۔⬅️ تحِیَّۃُ الوضو کا وقت

جب بھی وضو کیا جائے اور مکروہ وقت نہ ہو تو یہ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔

۔⬅️ تحِیَّۃُ الوضو سے متعلق چند مسائل

۔1️⃣ تَحِیَّۃُ الوضو مکروہ اوقات میں ادا کرنا جائز نہیں، بلکہ صرف انھی اوقات میں ادا کرنا جائز ہے جن میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے۔

۔2️⃣ تَحِیَّۃُ الوضوصرف وضو کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ جس طرح وضو کے بعد اس نفل نماز کی فضیلت ہے اسی طرح غسل کرنے کے بعد بھی اس نفل نماز کی یہی فضیلت ہے۔

۔3️⃣ بہتر یہی ہے کہ وضو یا غسل کرنے کے بعد جتنی جلدی ہوسکے تحیۃ الوضو نماز  ادا کرلی جائے اور بہتر یہی ہے کہ اعضا خشک ہونے سے پہلے ہی ادا کرلی جائے، البتہ اگر کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تب بھی یہ نماز ادا کرنا درست ہے۔ 

۔4️⃣ تحیۃ الوضو کو مستقل طور پر  ادا کرنا زیادہ بہتر ہے کہ اسی کی نیت سے دو رکعات نفل نماز ادا کی جائے، لیکن اگر فرصت نہ ہونے یا کسی اور وجہ سے  فرض نماز، سنت نماز یا تحیۃ المسجد نماز  کے ساتھ اس کی بھی نیت کرلی جائے تب بھی اس کی فضیلت حاصل ہوگی ان شاء اللہ۔

۔5️⃣ تحیۃ الوضو کا وہی طریقہ ہے جو عام نفل نماز کا ہے، اسی طرح اس کے لیے کوئی سورت مخصوص اور لازم نہیں، بلکہ اس میں کوئی بھی سورت پڑھی جاسکتی ہے، البتہ بعض فقہائے کرام نے پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ 

۔📚 فقہی عبارات

۔☀️ مرقاة المفاتيح

(ثُمَّ قَالَ: .... «مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هَذَا») أَيْ جَامِعًا لِفَرَائِضِهِ وَسُنَنِهِ، (ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ) فِيهِ اسْتِحْبَابُ رَكْعَتَيْنِ عَقِيبَ كُلِّ وُضُوءٍ، وَلَوْ صَلَّى فَرِيضَةً حَصُلَتْ لَهُ هَذِهِ الْفَضِيلَةُ كَمَا تَحْصُلُ تَحِيَّةُ الْمَسْجِدِ بِذَلِكَ، (لَا يُحَدِّثُ نَفْسَهُ) أَيْ: لَا يُكَلِّمُهَا (فِيهِمَا بِشَيْءٍ) مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا وَمَا لَا يَتَعَلَّقُ بِالصَّلَاةِ، وَلَوْ عَرَضَ لَهُ حَدِيثٌ فَأُعْرِضَ عَنْهُ عُفِيَ لَهُ ذَلِكَ وَحَصُلَتْ لَهُ الْفَضِيلَةُ؛ لِأَنَّهُ تَعَالَى عَفَا عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْخَوَاطِرَ الَّتِي تَعْرِضُ وَلَا تَسْتَقِرُّ كَذَا قَالَهُ الطِّيبِيُّ. وَقِيلَ: أَيْ بِشَيْءٍ غَيْرُ مَا يَتَعَلَّقُ بِمَا هُوَ فِيهِ مِنْ صَلَاتِهِ وَإِنْ تَعَلَّقَ بِالْآخِرَةِ، وَقِيلَ، بِشَيْءٍ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا؛ لِأَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ كَانَ يُجَهِّزُ الْجَيْشَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، يَعْنِي يَكُونُ قَلْبُهُ حَاضِرًا، وَقِيلَ: مَعْنَاهُ إِخْلَاصُ الصَّلَاةِ لِلّٰهِ يَعْنِي لَا تَكُونُ صَلَاتُهُ لِلرِّيَاءِ وَالطَّمَعِ، (غُفِرَ لَهُ) بِصِيغَةِ الْمَجْهُولِ (مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ) أَيْ: مِنَ الصَّغَائِرِ، وَيُفْهَمُ مِنْهُ أَنَّ الْغُفْرَانَ مُرَتَّبٌ عَلَى الْوُضُوءِ مَعَ الصَّلَاةِ. وَمِنَ الْحَدِيثِ الْمُتَقَدِّمِ تَرَتُّبُهُ عَلَى مُجَرَّدِ الْوُضُوءِ لِمَزِيدِ فَضْلِهِ. قَالَ ابْنُ الْمَلَكِ. وَفِيهِ أَنَّ لِلصَّلَاةِ مَزِيَّةً عَلَى الْوُضُوءِ دُونَ الْعَكْسِ كَمَا هُوَ ظَاهِرٌ مُقَرَّرٌ؛ فَإِنَّهُ وَسِيلَةٌ وَشَرْطٌ لَهَا، وَيُمْكِنُ أَنْ يُقَالَ:كُلٌّ مِنْهُمَا مُكَفِّرٌ أَوِ الْوُضُوءُ الْمُجَرَّدُ مُكَفِّرٌ لِذُنُوبِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ، وَمَعَ الصَّلَاةِ مُكَفِّرٌ لِذُنُوبِ جَمِيعِ الْأَعْضَاءِ، أَوِ الْوُضُوءُ مُكَفِّرٌ لِلذُّنُوبِ الظَّاهِرَةِ، وَمَعَ الصَّلَاةِ مُكَفِّرٌ لِلذُّنُوبِ الظَّاهِرَةِ وَالْبَاطِنَةِ وَاللهُ أَعْلَمُ. (كتاب الطهارة)

۔☀️ مرقاة المفاتيح

۔1322- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: «قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ: «يَا بِلَالُ، حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ»، قَالَ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي، أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طُهُورًا فِي سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ..... وَفِيهِ أَنَّ الْأَحَادِيثَ الْمُصَرِّحَةَ بِالْحُرْمَةِ مُقَدَّمَةٌ عَلَى هَذَا الْمُحْتَمَلِ، مَعَ أَنَّ الْحَدِيثَ لَا دَلَالَةَ فِيهِ عَلَى الْفَوْرِيَّةِ، بَلِ الْبُعْدِيَّةِ بِشَرْطِ بَقَاءِ تِلْكَ الطَّهَارَةِ.  (باب التطوع)

۔☀️ الدر المختار

(وَنُدِبَ رَكْعَتَانِ بَعْدَ الْوُضُوءِ) يَعْنِي قَبْلَ الْجَفَافِ كَمَا فِي «الشُّرُنْبُلَالِيَّة» عَنِ «الْمَوَاهِبِ».

۔☀️ رد المحتار

(قَوْلُهُ: وَنُدِبَ رَكْعَتَانِ بَعْدَ الْوُضُوءِ)؛ لِحَدِيثِ مُسْلِمٍ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ يُقْبِلُ بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ عَلَيْهِمَا إلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ»، خَزَائِنُ، وَمِثْلُ الْوُضُوءِ الْغُسْلُ كَمَا نَقَلَهُ ط عَنِ «الشُّرُنْبُلَالِيّ»، وَيَقْرَأُ فِيهِمَا الْكَافِرُونَ وَالْإِخْلَاصَ كَمَا فِي «الضِّيَاءِ». وَانْظُرْ هَلْ تَنُوبُ عَنْهُمَا صَلَاةُ غَيْرِهِمَا كَالتَّحِيَّةِ أَمْ لَا؟ ثُمَّ رَأَيْت فِي «شَرْحِ لَبَابِ الْمَنَاسِكِ» أَنَّ صَلَاةَ رَكْعَتَيِ الْإِحْرَامِ سُنَّةٌ مُسْتَقِلَّةٌ كَصَلَاةِ اسْتِخَارَةٍ وَغَيْرِهَا مِمَّا لَا تَنُوبُ الْفَرِيضَةُ مَنَابَهَا، بِخِلَافِ تحِيَّةِ الْمَسْجِدِ وَشُكْرِ الْوُضُوءِ فَإِنَّهُ لَيْسَ لَهُمَا صَلَاةٌ عَلَى حِدَةٍ كَمَا حَقَّقَهُ فِي «الْحُجَّةِ». اهـ.

(باب الوتر والنوافل: مَطْلَب سُنَّة الْوُضُوءِ)

۔☀️ الموسوعة الفقهية الكويتية

وَيَرَى الْحَنَفِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ أَنَّ الْمُتَوَضِّئَ يُصَلِّي سُنَّةَ الْوُضُوءِ فِي غَيْرِ وَقْتِ الْكَرَاهَةِ، وَهِيَ الأوْقَاتُ الْخَمْسَةُ الَّتِي يُكْرَهُ فِيهَا الصَّلَاةُ، وَذَلِكَ؛ لِأَنَّ تَرْكَ الْمَكْرُوه أَوْلَى مِنْ فِعْل الْمَنْدُوبِ.

(سُنَنُ الْوُضُوءِ: التَّاسِعُ وَالْعِشْرُونَ صَلَاةُ رَكْعَتَيْنِ عَقِبَ الْوُضُوءِ)

۔✍️۔۔۔  مفتی مبین الرحمٰن

Comments