۔1403🌻) ذکر قلبی

 

ہمارے جسم کے اندر تقریبا ساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں جب ہم دل کی دھڑکنوں سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ذکر اللہ کا نور خون سے ہوتا ہوا نس نس میں چلا جاتا ہے 

 حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ جب تیرا دل ایک دفعہ اللہ کہے گا ساڑھے تین کروڑ نسیں اﷲ کے ذکر سے گونج اُٹھیں گی اور ساڑھے تین کروڑ اللہ کرنے کا ثواب ملے گا 

حضرت سخی سلطان حق باہو فرماتے ہیں . کسی کا دل ایک دفعہ اللہ کا ذکر کرے تو، یہ جو مسام ہیں جہاں سے پسینہ آتا ہے یہ بہتر ہزار ہوتے ہیں ۔ دل نے ایک دفعہ اللہ کا ذکر کیا 72 ہزار مساموں سے ذکر الله کی 72 ہزار آوازیں جسم سے باہر نکلیں، اس طرح 72 ہزار ظاہری قرآن پاک کا ثواب مزید ملتا ہے۔

 انسان کے اندر ریڈ بلڈ سیلز (آر بی سی) ہوتے ہیں یہ تقریبا" 25 ٹریلین کے قریب ہوتے ہیں یہ بھی اللہ اللہ کرنا شروع کر دیتے ہیں

جب آپ کا دل ذاکر ہوگیا تو سوتے جاگتے، کھاتے پیتے ہر وقت دل ذکر اللہ کرتا رہے گا اور اس طرح آپکو اللہ کے ذکر کا اتنا ثواب ملے گا جس کا شمار ہی نہیں کیا جاسکتا

لیکن ذکر قلب کی اس روحانی دولت کو حاصل کرنے کے لئے کسی مرد کامل سے اس ذکر قلب کی اجازت(اذن) درکار ہوتی ہے ۔ اگر آپ یہ قلبی دولت حاصل کرنا چاھتے ہیں تو ان لوگوں کے پاس بیٹھیں جنکا دل اللہ کا ذکر کرتا ہے ۔ انشااللہ وہ آپ کو بھی ذکر کرنے کا طریقہ سکھائیں گے یا کوئی ایسا مرشد کامل تلاش کریں . جسکی نگاہ کیمیا سے آپکا دل بھی الله کا ذکر کرنے لگ جائے ذکر قلب کے بعد آپ کو ایک نئی زندگی ملے گی جو کہ حقیقی زندگی ہے اور گناہوں سے نفرت ہو جائے گی نماز و عبادات میں سکون و سرور ملے گا اور اطمینان قلب حاصل ہو جائے گا  ... انشاءاللہ تبارک تعالیٰ

مقام اور حال کا فرق ... 🌺.

حال اس معنی کو کہتے ہیں جو حق تعالیٰ کی طرف سے بندے کے دل پر طاری ہو اور اسے وہ اپنے قدرت و اختیار سے دور نہ کرسکتا ہو اور نہ کسی محنت و مجاہدے سے حاصل کر سکتا ہو مطلب یہ کہ جب دل میں آئے تو دور نہ کرسکے اور نہ آئے تو وہ لا نہ سکے لہٰذا بارگاہ الہی میں ریاضت و مجاہدے کے ذریعہ محل ریاضت اور اس کے درجہ میں طالب کی راہ اور اسکی جائے اقامت کا نام مقام ہے ۔ جیسے پہلا مقام توبہ ہے اس کے بعد انابت پھر زبد پھر توکل وغیرہ وغیرہ مطلب یہ ہے کہ یہ جائز نہیں کہ بغیر توبہ کئے انابت میں پہنچ جائے یا بغیر انابت کے زید حاصل کرلے یا بغیر زہد کے توکل مل جائے اور جو کیفیت بغیر ریاضت و مجاہدے کے دل پر وارد ہو وہ اللہ تعالیٰ کا لطف و فضل ہے اس کا نام حال ہے . اسی لحاظ سے مقام اعمال کی قبیل سے ہے اور حال اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اسکی عطا کے زمرے میں ہے گویا مقام اول تا آخر کسبی ہے اور حال وہبی ہے لهذا صاحب مقام اپنے مجاہدے میں قائم اور صاحب حال اپنے وجود میں فانی ہے اور وہ اس حال کے ساتھ قائم ہے جسے حق تعالیٰ نے اسکے دل میں پیدا فرمایا ہے (کشف المحبوب)

۔🌺 ... قلب کی موت کی دو نشانیاں

یاد رکھیں کہ انسان کے دل کی جب موت ہوتی ہے تو اس کی علامات ہوتی ہیں۔ یہ ڈاکٹر لوگوں کے سامنے بندے کی موت واقع ہو تو ان کو ... علامات سے پتہ چل جاتا ہے کہ اب یہ علامات موت نظر آرہی ہیں، اب یہ بندہ نہیں بچتا۔ پتہ چل جاتا ہے ان علامات کو دیکھ کر، ان کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بندہ گیا ہاتھوں سے ۔ اسی طرح ہمارے اکابر نے قلب کی موت کی بھی نشانیاں بتا دیں۔ قلب کی موت کی دو بڑی نشانیاں ہیں

۔1: نیکی سے محرومی پر افسوس نہ ہو

جب انسان کسی نیکی سے محروم ہو اور افسوس نہ ہو۔ تکبیر اولی چلی گئی پرواہ نہیں، جماعت کی نماز قضا ہو گئی پرواہ نہیں، صبح کی جماعت چلی گئی، نماز ہی قضا ہوگئی تو پرواہ نہیں، جب انسان نیکی سے محروم ہو اور دل میں افسوس نہ ہو۔

۔2: ارتکاب گناہ پر ندامت نہ ہو

یا گناہ کا ارتکاب کرے اور دل میں ندامت نہ ہو۔ گل ہی کوئی نہیں، کوئی بات ہی نہیں ہے، پرواہ ہی نہیں کہ گناہ کر رہے ہیں۔ یہ پکی علامتیں ہیں اس کے دل کی روحانی موت واقع ہو چکی ہے۔ اب ہم سوچیں کہ ہمارے اندر کہیں یہ دونوں نشانیاں نظر تو نہیں آتیں۔

(خطبات فقیر؛ جلد:36، صفحہ:254،255)

عالمِ مثال میں انسانوں کی شکلیں ... 🌺.

سچی بات تو یہ ہے کہ اگر گناہوں کے اندر بدبو ہوتی تو ہم کسی محفل میں بیٹھنے کے قابل نہ ہوتے یہ اللہ رب العزت کی ستاری ہے کہ اس کے صدقے ہم آج عزتوں کی زندگی گزار رہے ہیں اسی لئے ایک بزرگ فرماتے تھے اے دوست جس نے تیری تعریف کی اس نے درحقیقت تیرے پروردگار کی ستاری کی تعریف کی جس نے تجھے چھپایا ہوا ہے یقیناً اگر وہ حقیقت کھول دیتا ہے تو ہم چہرہ دکھانے کے قابل بھی نہ ہوں انسان کی ایک تو ظاہری شکل ہوتی ہے اور ایک شکل عالمِ مثال میں ہوتی ہے بندہ جس طرح کے اعمال کرتا ہے ویسی ہی اس کی شکل ہوتی ہے اگر جانور والے اعمال کرتا ہے تو اس کی شکل جانوروں جیسی ہوتی ہے

مثال کے طور پر جس میں حرص زیادہ ہوتی ہے اس کی شکل عالمِ مثال میں کتے کی مانند ہوتی ہے اس لیے کہ کتا حریص ہوتا ہے ... جس میں بے حیائی زیادہ ہوتی ہے اس کی شکل خنزیر کی مانند ہوتی ہے کیونکہ خنزیر میں بے شرمی اور بے حیائی بہت زیادہ ہوتی ہے . جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ایذاء پہنچاتا ہو اور دل دکھاتا ہو اس کی مثال بچھو کی مانند ہوتی ہے

Comments