1407) ایک اہل تشیع کو ان کے سوال کا جواب

  

ایک اہل تشیع کو ان کے سوال کا جواب

ایک اہل تشیع اپنے مسلک کے اعتبار سے بڑے علمی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔

اس کے پاس کافی معلومات بھی تھیں ۔ اس کے بقول میرے ان سوالات کا جواب کسی مولوی کے پاس نہیں ہے۔

میں نے اس سے ملاقات کی تو اسکی ہر ہر ادا سے علماء سے حتّٰی کہ صحابہ کرامؓ سے بھی نفرت و حقارت کی جھلک واضح تھی۔

میں نے میزبان ہونے کی حیثیت سے بڑے اخلاق سے انہیں بٹھایا ۔ تھوڑی دیر حال ، احوال دریافت کرنے کے بعد گفتگو شروع ہوگئی۔

اس کا پہلا سوال ہی بزعم خود بڑا جاندار تھا اور وہ یہ کہ تم ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو نبی ﷺ ؐکا خلیفہ کیوں مانتے ہو؟

ہم تو ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ)کو خلیفہ رسولؐ اسلیے نہیں مانتے کہ انہوں نے سیدہ کائنات خاتون جنت کو ان کا حق نہیں دیا تھا بلکہ ان کا حق غصب کر لیا تھا۔

میں نےکہا ذرا کھل کر بولیں جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں اور اس حق کی وضاحت کر دیں کہ وہ حق کیا تھا ؟

کہنے لگا وہ ،باغ فدک ... جو حضور ﷺ نے وراثت میں چھوڑا تھا ۔ وہ حضورؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓکو ملنا تھا لیکن وہ باغ انہیں ابوبکرؓ نے نہیں دیا تھا۔

یہ صرف میرا دعویٰ ہی نہیں بلکہ میرے پاس اس دعوے ہر مسلک کی کتابوں سے ایسے وزنی دلائل موجود ہیں جنہیں آپ کا کوئی عالم جھٹلا نہیں سکتا۔

یہ بات اس نے بڑے پر اعتماد اور مضبوط انداز میں کہی۔

مزید اس نے کہا کہ میری بات کے ثبوت کیلیے یہی کافی ہے کہ باغ فدک آج بھی سعودی حکومت کے زیر تصرف ہے اور وہ حکومتی مصارف کیلیے وقف ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آج تک آل رسولؐ کو ان کا حق نہیں ملا ہے۔

اب آپ ہی بتائیں جنہوں نے آل رسولؐ کے ساتھ یہ کیا ہو ہم انہیں کیسےخلیفہ رسول تسلیم کرلیں؟

میں نے اسکی گفتگو بڑے تحمل سے سنی اور اس کا اعتراض سن کر میں نے پوچھا کہ آپ کا سوال مکمل ہوگیا یا کچھ باقی ہے؟

وہ کہنے لگا میرا سوال مکمل ہو گیا ہے اب آپ جواب دیں۔

میں نے عرض کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلا خلیفہ کن کو مانتے ہو؟

وہ کہنے لگا ہم مولٰی علی ؑکو خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں ۔

میں نے کہا کہ عوام و خواص کے جان و مال اور انکے حقوق کا تحفظ خلیفة المسلمین کی ذمہ داری ہوتی ہے کسی اور کی نہیں ۔ مجھے آپ پر تعجب ہو رہا ہے کہ آپ خلیفہ بلا فصل تو حضرت علیؓ ؓکو مان رہے ہیں اور اعتراض حضرت ابوبکر پر کر رہے ہیں ۔ یا تو ابوبکرؓ کو پہلا خلیفہ مانو پھر آپ کا ان پر اعتراض کرنے کا کسی حد تک جواز بھی بنتا ہے ورنہ جن کو آپ پہلا خلیفہ مانتے ہو یہ اعتراض بھی انہی پر کر سکتے ہو کہ آپ کی خلافت کے زمانے میں خاتون جنت کاحق کیوں مارا گیا؟

میری بات سن کر اسےحیرت کا ایک جھٹکا لگا مگر ساتھ ہی اس نےخود کو سنبھالتے ہوئے کہا جی بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں مولیٰ علی ؑ کی خلافت ظاہری آپکے خلفاء ثلاثہ کے بعد شروع ہوتی ہے اس سے پہلے تو ہم ان کی خلافت کو غصب مانتے ہیں یعنی آپ کے خلفائے ثلاثہ نے مولیٰ علی کی خلافت کو ظاہری طور پر غصب کیا ہوا تھا ۔ اسلیے مولا علی تو اس وقت مجبور تھے وہ یہ حق کیسے دے سکتے تھے؟۔

اس کی یہ تاویل سن کر میں نے کہا عزیزم میرے تعجب میں آپ نے مزید اضافہ کر دیا ہے ایک طرف تو آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ مولا علیؓ مشکل کشا ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ انہیں کے گھر کی ایک کے بعد دوسری مشکل آپ نے ذکر کر دی یعنی ان کی زوجہ محترمہ کا حق مارا گیا لیکن وہ مجبور تھے اور وہ مشکل کشا ہونے کے باوجود ان کی مشکل کشائی نہ کر سکے۔پھر ان کا اپنا حق (خلافت) غصب ہوا لیکن وہ خود اپنی مشکل کشائی بھی نہ کر سکے . یا تو ان کی مشکل کشائی کا انکار کر دو اور اگر انہیں مشکل کشا مانتے ہو تو یہ من گھڑت باتیں کہنا چھوڑ دو کہ طاقتوروں نے ان کےحقوق غصب کر لیے تھے۔

 دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض والمحال آپ کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ اصحاب ثلاثہ نے ان کی خلافت غصب کرلی تھی . اب سوال یہ ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے بعد جب حضرت علی ؓ کو ظاہری خلافت مل گئی اور ان کی شہادت کے بعد انہی کے صاحبزادے حضرت حسن ؓ خلیفہ بنے تو کیا اس وقت انہوں نے باغ فدک لے لیا تھا؟

جب آپ کے بقول وہ خلفاء ثلاثہ کے زمانے میں غصب کیا گیا تھا . اب تو انہی کی حکومت تھی جن کا حق غصب کیا گیا ۔ لیکن انہوں نے اپنی حکومت ہونے کے باوجود اس حق کو کیوں چھوڑ دیا تھا؟

آج بھی آپ کے بقول وہ سعودی حکومت کے کنٹرول میں ہے تو بھائی وہ باغ جن کا حق تھا جب انہوں نے چھوڑ دیا ہے تو آپ بھی اب مہربانی کرکے ان قصوں کو چھوڑ دیں اور اگر آپ کا اعتراض حضرت ابوبکر پر ہے کہ ان کی ظاہری خلافت میں آل رسول کو باغ فدک کیوں نہیں ملا؟

تو یہی اعتراض آپ کا حضرت علی پر بھی ہوگا کہ ان کی ظاہری خلافت میں آل رسول کو باغ فدک کیوں نہیں ملا؟

 میری بات سن کہ وہ کچھ سوچنے لگا مگر میں نے اسی لمحہ اس پر ایک اور سوال کر دیا کہ آپ یہ بتائیں کہ وراثت صرف اولاد کو ہی ملتی ہے یا بیویوں اور دوسرے ورثاء کو بھی ملتی ہے؟

کہنے لگا ۔۔۔ بیویوں اور دوسرے ورثاء کو بھی ملتی ہے۔

میں نے کہا پھر آپ کا اعتراض صرف حضرت فاطمہؓ کے بارے کیوں ہے؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے بارے آپ نے کیوں نہیں کہا کہ انہیں بھی وراثت سے محروم رکھا گیا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ازواج مطہرات میں حضرت ابوبکرؓ کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ اور حضرت عمرؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓبھی ہیں ۔ آپ نےخلفاء رسول پر یہ الزام دھرنے سے پہلے کبھی نہیں سوچا کہ اگر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت نہیں دی تو اپنی صاحبزادیوں کو بھی تو اس سے محروم رکھا ہے۔

 میری گفتگو سن کر اب وہ مکمل خاموش تھا ساتھ ہی وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا بھی معلوم ہوا

میں نے اسے پھر متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ عزیزم کب تک ان پاک ہستیوں کے بارے بدگمانی پیدا کرنے والی بے سروپا جھوٹی باتوں کی وجہ سے حقائق سے آنکھیں بند کرکے رکھو گے؟

اب میں تمہیں وہ حقیقت ہی بتادوں جس کی وجہ سےحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت آپؐ کے کسی  وارث کو نہیں دی گئی ۔ وہ خود جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے

نحن معشر الانبیاء لانرث ولا نورث ، ما ترکنا صدقة 

یعنی ہم انبیاء دنیا کی وراثت میں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث بنتا ہے ہم جو مال و جائیداد چھوڑتے ہیں وہ امت پر صدقہ ہوتا ہے

میں نے اسے کہا عزیزم یہ وہ مجبوری تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ سے لے کر حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ تک کسی بھی خلیفہ نے؛باغ فدک؛ آل رسول کا حق نہیں سمجھا جسے لے کر آج آپ ان کے درمیان نفرتیں ڈالنےکی کوشش کر رہے ہیں۔

 نوجوان اب میری گفتگو سن کر پریشان اور نادم محسوس ہونے لگا ۔ پھر انتہائی عاجزی سے اس نے مجھے دیکھا اور گویا ہوا ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں ۔ آج سے میں اس طرح کے اعتراضات کرنے سے توبہ کرتا ہوں ۔ اب میں رب تعالی سے بھی وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے بارے میں اپنی سوچ کو مثبت بناوں گا ۔ میں نےاس نوجوان کو مبارک دی اور ایک محبت سے بھرپور معانقہ و مصافحہ ہوا ۔ پھر وہ نوجوان شکریہ ادا کرتے ہوئےچلا گیا

Comments