آپ ﷺ اس دنیا اور اخروی دنیا کا پیغام رکھنے والے قرآن کے حامل تھے۔ ان کے پیغام اور ان کی تعلیمات نے دنیا میں اس سکون، امن و آشتی اور برداشت کی ترویج کی، جس کی دنیا بہت عرصہ سے منتظر تھی اور ایک ایسا نظام وجود میں آیا جو مہذب ترین نظام تھا۔ جب یورپ جہالت کے گہرے اندھیروں میں غرق تھا، اس وقت اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا ،جو پوری دنیا کے لئے روشنی کا علم بردار تھا۔ سائنس کے مؤرخ وکٹر روبنسن نے بہت شاندار انداز میں اس فرق کو بیان کیا
“جب سورج طلوع ہوتا تھا تو یورپ اندھیرے میں ہوتا اور قرطبہ سڑکوں کے کنارے قمقمے روشن ہوتے۔ یورپ گندا تھا اور قرطبہ میں ایک ہزار سے زیادہ بیت الخلاء تھے، یورپ کیڑوں سے بھرا ہوا تھا اور قرطبہ روز صاف ہوتا تھا۔ یورپ کیچڑ سے لدا ہوا تھا اور قرطبہ کی سڑکیں پکی تھیں، یورپ کے شاہی لوگ دستخط کرنا نہیں جانتے تھے اور قرطبہ کے بچے سکول جاتے تھے۔ یورپ کے پادری بپتسمہ کی خدمات کو نہیں پڑھ سکتے تھے اور قرطبہ کے اساتذہ نے سکندر اعظم کے طرز پر ایک مکتب بنا لیا تھا۔
اسلامی تہذیب نے ریاضی، طب، علوم فلکیات کے مضامین میں ترقی پائی۔ ریاضی دان الخوارزمی کی ہی مثال لے لیجیئے، جس نے الجبرا کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، اسی وجہ سے انھیں بابائے کمپیوٹر سائنس کا لقب دیا جاتا ہے، کیونکہ الگورتھم کے بغیر کمپیوٹر وجود میں نہ آتے۔ ابو القاسم الزھراوی طب کے شعبہ میں جدت لانے کی وجہ سے قرون وسطی کے بہترین ماہر طب قرار پایے۔
وہ مسلمان اور عرب سائنسدان نے جنہوں اسلامی اقدار پر کو سمجھا اور اپنی زندگی کا حصہ بنایا کیا، وہی دماغی امراض کے علاج کے موجدین تھے۔ مثال کے طور پر 8 ویں صدی میں الراضی نے بغداد میں پہلا نفسیات کا ہسپتال بنایا۔ 11ویں صدی میں ابن سینا جو کہ ایک مشہور ماہر طب تھے، نے بتایا کہ زیادہ تر دماغی امراض کی بنیاد نفسیاتی مسائل ہیں۔
ابو زید بلخی جو 9 ویں صدی کے معالج گزرے ہیں، انھوں نے ایک کتاب “روح کا قیام” لکھی اور اس میں اس کا ذکر کیا جو آج کل
Cognitive Behavioral Therapy
کہلاتی ہے جو کہ اس مضمون پر پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے اور اس میں پہلی دفعہ اندرونی اور خارجی عوامل سے ہونی والی نفسیاتی مایوسی میں فرق ہے۔
مسلم دانشور اسلام کی اقدار سے بہت متاثر تھے۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ کے نبی ﷺ کے الفاظ ہیں جو بیماریوں کا علاج تلاش کرنے میں معاون ہے: “اللہ نے کوئی ایسی بیماری نہیں پیدا کی مگر جس کا علاج نازل کیا ہو۔
اسلام نے علم و تدبر کے ساتھ تجرباتی سائنس کے حصول پر بھی زور دیا ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں علم کے حصول اور عالم شہود پر تدبر کا تذکرہ کم و بیش سو بار ہوا ہے
“اس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں، خوب گنجان ہوکر نکلی۔ یہاں تک کہ جب وه زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا کہ گویا کل وه موجود ہی نہ تھی۔ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں۔
“پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم واﻻ ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا۔
“بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو، (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے)۔
“کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وه کس طرح پیدا کیے گئے ہیں۔ اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑ دیئے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے۔
“جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔
“بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔
اللہ کی نبی ﷺ کی تعلیمات نے نہ صرف ایک ایسا ماحول بنایا جس میں دانشوری پروان چڑھے، بلکہ ایک ایسے نامور شخص کی پرورش کی بھی باعث بنی جس کی تاریخ شاہد ہے۔ اس کانام ابن الہیثم تھا۔ وہ دنیا کا پہلا سائنسدان تصور کیا جاتا ہے . یہ قول بہت سے مؤرخین کا ہے جیسا کہ ڈیوڈ سی لنڈبرگ کہتا ہے کہ ابن الہیثم پہلا سائنسدان ہے جس نے تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی۔
ابن الہیثم نے “کتاب البصریات” لکھی جس کا یورپ پر بہت ثقیل اثر ہے۔ اگر وہ سائنسی طریقہ کار کو مرتب نہ کرتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ دنیا اس قدر سائنسی اعتبار سے ترقی نہ کر پاتی، جس قدر آج کر چکی ہے۔
ابن الہیثم اسلامی الہیات اور قرآن کا طالب علم بھی تھا۔ وہ وضاحت کے ساتھ یہ بیان کرتا ہے کہ سائنس اور عالم پر تدبر کے لئے اس کو دراصل قرآن سے ہی رہنمائی ملی تھی۔ “میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس کا علم حاصل کروں جو مجھے اللہ کے قریب کر دے، اس کو کون سا عمل راضی کرتا ہے اور کس طرح ہم اس کی بندگی اور اس کی حکمت کے آگے جھک سکتے ہیں۔
بہت سے یورپی محققین، یورپ پر اس قرض کا اعتراف کرتے ہیں۔ پروفیسر جارج سالائیبا کہتے ہیں: “شاید ہی آپ کو اسلامی تہذیب یا عمومی سائنس کی تاریخ پر کوئی ایسی کتاب ملےجو اسلام کا سائنس کی ترویج اور انسانی زندگی کی نشو نما میں کردار کے بارے میں کم از کم کسی حیلے سے یہ اعتراف ضرور کرے ۔
پروفیسر ٹامس آرنلڈ کہنا ہے کہ دراصل یہ اسلامی اسپین تھا کہ جس نے یورپ کو نشاط ثانیہ کی راہ دکھائی: “۔ ۔ ۔ مسلم اسپین نے قرون وسطی میں دراصل تاریخ کے سنہرے ترین دن دیکھے۔ ۔ ۔ نئی جہت کی شاعری اور تہذیب، اور یہ دراصل اسلامی اسپین تھا کہ جس نے اس دور کے عیسائی محققین کو یونانی فلسفے اور سائنس کے انکی عقول پر نئے راز افشا کیے اور نشاط ثانیہ کی راہ ہموار ہوئی۔
بلکہ سب سے خوبصورت خلاصہ جو اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات کی بنیاد پر تہذیب کے بارے میں کیا، وہ ہیولیٹ پیکرڈ کے سابق صدر کارلے فیونا نے کیا
“ایک زمانہ تھا کہ جس کی تہذیب دنیا کی بہترین اور عظیم تہذیب تھی۔ ایک بہترین اور اعلی ریاست کا قیام کہ جس کا ظہور سمندر سے سمندر، شمالی پہاڑی علاقوں سے تپتے صحراؤں تک ہوا۔ اس کی پشت پر لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کا مسکن تھا، جو مختلف نسلوں، مختلف ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کی ایک زبان، اس دنیا کے اکثر ممالک کی آفاقی زبان بن گئی ،جو سینکڑوں علاقوں کے درمیان پل کے مانند ثابت ہوئی۔ اس ریاست کی فوج، بہت سی قومیت کے فوجیوں پر مشتمل تھی، اور اس کی فوجی حفاظت سے دنیا میں ایسا امن و سکون یقینی بنا جو اس سے پہلے پردہ تصور پر بھی نہ آ سکتا تھا۔ ”
“اور اس تہذیب کی کامیابی کا راز ایجادات میں پوشیدہ تھا۔ اس کے ماہر تعمیرات کے ہاتھوں ایسی عمارات بنی کے جنھوں نے قانون کشش ثقل کو بھی پچھاڑ دیا۔ اس کے ریاضی دانوں نے الجبرا اور الگوردم مرتب کیے جن کی بنیاد پر کمپیوٹر وجود میں آئے اور انکرپشن ڈیزائن کرنے کا طریقہ وجود میں آیا۔ اس کے طبیبوں نے انسانی جسم کا تجزیہ کیا اور بیماریوں کے نت نئے علاج تلاش کیے۔ اس کے ماہر افلاک نے نئے ستارے تلاش کیے، ستاروں کو نام دیے۔ اس کے مصنفین نے ہزاروں کہانیاں لکھیں۔ بہادری، عشق و محبت اور جادوئی کہانیاں۔
“جب باقی تہذیبیں نئے خیالات کا ذہن میں ابھرنے کو رد کر دیتے تھے ،تو اس تہذیب نے ان کو تقویت بخشی اور ان کو زندہ کیا۔ جب علم دشمنوں نے علم کو ختم کرنے کی کوشش کیں تو اس تہذیب نے علم کو زندہ رکھا اور اسے منتقل کیا۔ مغربی تہذیب میں بھی اس تہذیب کی بہت ساری خصوصیات شامل ہیں ، میرا مقصود اسلامی دنیا کا وہ دور ہے جو 800 تا 1600 تک دنیا نے دیکھا، جس میں خلافت عثمانیہ، بغداد کی عدالتیں، دمشق اور قاہرہ اور شاہ سلیمان جیسے عظیم حاکم ہیں۔
” ہم میں سے اکثر نہیں جانتے کہ ہم اور دیگر تہذیبیں اس تہذیب کے مقروض ہیں، اس کے تحائف ہماری میراث کا حصہ ہیں۔ آج کی ٹیکنالوجی انڈسٹری، عرب ریاضی دانوں کے بغیر وجود نہ رکھتی۔ شاہ سلیمان جیسے حکمرانوں کے بغیر ہم برداشت اور حکمرانی کے اصول نہ جان پاتے، جس کی حکمرانی کا معیار وراثت کے بجائے اہلیت تھی۔ یہ اس تہذیب کی قیادت تھی کہ جس نے اس قدر مختلف انواع کے افراد جن میں عیسائی، یہود و اسلامی تہذیبوں کی نشونما کی اور انھیں پھلنے پھولنے دیا۔ یہ وہ عقلمندانہ حاکم تھے کہ جن کی بصیرت سے امن و آشتی نے دنیا میں جگہ پائی، اور اس کا نتیجہ 800 سال پر محیط ایجادات اور خوشحالی تھا۔
بنیادی وجہ، جس کی بنیاد پر اللہ کے نبی ﷺ اس طرح کی اعلی تہذیب کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے، وہ اللہ کی توحید کا درس، اور اس کی خوشنودی کے لئے اعمال کرنے کا درس تھا اور یہی اخلاقیات کا پہلو، ان کی اور ان کے پیروکاروں کی زندگی کا معیار تھا۔ اس نے ایک ایسا لا زمان، غیر جانبدارانہ اخلاقی ماحول تیار کیا کہ 18 ویں صدی کا ماہر معاشیات ایڈم سمتھ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ پہلی قوم تھی: “جس کے تحت دنیا کو اس حد تک سکون ملا جس کی سائنس کی ترقی کو ضرورت ہوتی ہے۔
آپ ﷺ صادق و امین اور اعلی اخلاقی صفات کے مالک تھے اور جو اثرات انھوں نے دنیا پر چھوڑے، وہ اس کی شہادت تھے کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کی زندگی کا پر غور اور منصفانہ، بغیر کسی تعصب کے مطالعہ صرف ایک ہی نتیجے پر پہنچائے گا” وہ دنیا کہ لیے رحمت، اور اللہ کی طرف سے منتخب تھے، جو دنیا کو ظلمت سے نکال کر روشنی کی طرف بلانے کے لیے آئے تھے۔
In his book Muhammad at Mecca
[1] Montgomery Watt (late)
[2] William Draper
[3] Karen Armstrong
[4] Amnen Cohen
[5] Patriarch Thedosius
[6] Reinhart Dozzy
[7] Thomas Arnold
[8] Micheal Bonner
[9] Hamilton A.R. Gibb
[10] A. J. Toynbee
[11] Victor Robinson
[12] David C. Lindberg
[13] Professor George Saliba
[14] Professor Thomas Arnold
[15] CEO of Hewlett Packard, Carly Fiorina
[i] The name Muhammad is mentioned four times and Ahmad (another one of his names) is mentioned once. See http://corpus.quran.com/search.jsp?q=muhammad and http://corpus.quran.com/search.jsp?q=ahmad [Accessed 24th October 2016].
[ii] ” محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔” سورة الأحزاب، آیت 40
[iii] سورت التکویر، آیت 22
[iv] سورۃ النجم ،آیت 2
[v] سورۃ الفتح، آیت 29
[vi] Lings, M. (1983). Muhammad: His Life Based on the Earliest Sources, p. 34.
[vii] Ibid, p. 52.
[viii] Ibid, pp. 53 – 79.
[ix] Watt, W. M. (1953). Muhammad at Mecca. Oxford: Oxford University Press, p. 52.
[x] صحیح بخاری: کتاب: سورج گرہن کے متعلق بیان (باب: سورج گرہن کی نماز کا بیان)، حدیث 1041
[xi] صحیح بخاری: کتاب: فضیلتوں کے بیان میں (باب: آنحضرت ﷺکےمعجزات یعنی نبوت کی نشانیوں کابیان) ، حدیث 3590
[xii] صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان (باب: اسلام ، احسان کی وضاحت ، تقدیر الہٰی کے اثبات پر ایمان واجب ہے ، تقدیر پر ایمان نہ لانےوالے سے براءت کی دلیل اور اس کے بارے میں سخت موقف)، حدیث 8
[xiii] Zarabozo, Jamaal al-Din. Volume 1. (1999). Commentary of the Forty Hadith of An-Nawawi. Al-Basheer Publications and Translations, p. 270.
[xiv] Burj Khalifa. (2016). Facts & figures. Available at: http://www.burjkhalifa.ae/en/the-tower/factsandfigures.aspx [Accessed 1st October 2016].
[xv] Carrington, D. (2014). Saudi Arabia to Build World’s Tallest Tower, Reaching 1 Kilometer into the Sky. Available at: http://edition.cnn.com/2014/04/17/world/meast/saudi-arabia-to-build-tallest-building-ever/ [Accessed 1st October 2016].
[xvi] Zakariya, A. (2015). The Eternal Challenge: A Journey Through The Miraculous Qur’an. London: One Reason, pp. 69-70.
[xvii] ابن ابی شیبہ نے روایت کیا۔ اس کی اسناد کا سلسلہ ایک صحابی کے پاس رک گیا ہے۔ علماء کا خیال ہے کہ یہ حدیث اس کی سند اس حقیقت کی وجہ سے مستند ہے کہ یہ علم غیب سے متعلق ہے۔ کچھ علماء کے مطابق،عموما ایک صحابی رسول غیبی علم خود کے بارے میں خود سے اظہار نہیں کر سکتے تھے جب تک رسول اللہﷺ نے نہ کہا ہو۔
[xviii] Draper, J. W. (1905). History of the Intellectual Development of Europe. New York and London: Harper and Brothers Publishers. Vol 1, pp. 329-330.
[xix] See M. M Azami. (1978). Studies in Early Hadith Literature. Indianapolis, Indiana: American Trust Publications.
[xx] سنن ابو داؤد: کتاب: آداب و اخلاق کا بیان (باب: رحمت و شفقت کرنے کا بیان)، حدیث 4941۔ جامع ترمذی: كتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں (باب: لوگوں پرمہربانی کرنے کابیان)، حدیث 1924
[xxi] بخاری، الادب المفرد
[xxii] جامع ترمذی: كتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں (باب: بچوں پر مہربانی کرنے کابیان)، حدیث 1919، سنن ابو داؤد: کتاب: آداب و اخلاق کا بیان (باب: رحمت و شفقت کرنے کا بیان)، حدیث 4943
[xxiii] صحیح بخاری: کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان تمہید (باب : خرید و فروخت کے وقت نرمی، وسعت اور فیاضی کرنا اور کسی سے اپنا حق پاکیزگی سے مانگنا)، حدیث2076۔
[xxiv] صحیح بخاری: کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں (باب: مالدار وہ ہے جس کا دل غنی ہو)، حدیث 6446
[xxv] صحیح مسلم: کتاب: حسن سلوک،صلہ رحمی اور ادب (باب: مسلمان پر ظلم کرنے، اس کو رسوا کرنے، اس کی تحقیر کرنے اور اس کے خون، اس کی عزت اور اس کے مال کی حرمت)، حدیث 2564.02
[xxvi] جامع ترمذی: كتاب: زہد،ورع، تقوی اور پرہیز گاری کے بیان میں (باب: اللہ کے ذکر کے علاوہ کثرت سے باتیں کرنے کی ممانعت کا بیان)، حدیث 2411
[xxvii] اربعین نووی، 19
[xxviii] صحیح بخاری: کتاب: ایمان کے بیان میں (تمہاری دعا سے مراد تمہارا ایمان ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:”(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے:اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تومیرا رب تمہاری مطلق پروانہ کرتا۔”اورعربی لغت میں دعا کے معنی ایمان بھی ہیں) ، حدیث 8۔ صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان (باب: اسلام کے (بنیادی ) ارکان اور اس کے عظیم ستونوں کا بیان)، حدیث 16.01۔
[xxix] جامع ترمذی: كتاب: مسنون ادعیہ واذکار کے بیان میں (باب: توبہ واستغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کابیان)، حدیث3540
[xxx] صحیح بخاری: کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید تمہید کتاب (باب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ آل عمران میں)، حدیث 7405۔ سنن ابن ماجہ: کتاب: اخلاق وآداب سے متعلق احکام ومسائل (باب: (نیک) عمل کی فضیلت)، حدیث 3822۔ صحیح مسلم: کتاب: ذکر الٰہی،دعا،توبہ اور استغفار (باب: ذکر، دعا، اللہ کے قرب اور اس کے بارے میں اچھے گمان کی فضیلت)، حدیث2687۔
[xxxi] صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان (باب: جنت میں مومنوں کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا مومنوں سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے اور اسلام کوعام کرنے اس محبت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے)حدیث 54
[xxxii] صحیح بخاری: کتاب: ایمان کے بیان میں (باب:اس بارے میں کہ ایمان میں داخل ہے کہ مسلمان جو اپنے لیےدوست رکھتا ہے وہی چیز اپنے بھائی کے لیے دوست رکھے)، حدیث 13
[xxxiii] سنن ابن ماجہ: کتاب: زہد سے متعلق احکام و مسائل تمہید کتاب (باب: احتیاط اور تقوٰی)، حدیث 4217۔
[xxxiv] مسند احمد، حدیث نمبر 8252
[xxxv] مسند احمد، حدیث نمبر 97
[xxxvi] جامع ترمذی: كتاب: زہد،ورع، تقوی اور پرہیز گاری کے بیان میں (باب: محبت سے باخبر کرنے کا بیان)، حدیث 2392۔ سنن ابو داؤد: كتاب: سونے سے متعلق احکام ومسائل (باب: کسی شخص کی نیکی اور بھلائی دیکھ کر اس سے محبت کرنا)، حدیث 5124۔
[xxxvii] تاریخ الکبیر – امام بخاری۔
[xxxviii] الطبرانی۔
[xxxix] صحیح بخاری: کتاب: ایمان کے بیان میں (باب: اس بیان میں کہ (بھوکے ناداروں کو) کھانا کھلانا بھی اسلام میں داخل ہے۔) ، حدیث12۔
[xl] صحیح بخاری: کتاب: صلح کے مسائل کا بیان (باب : دو آدمیوں میں میل ملاپ کرانے کے لیے جھوٹ بولنا گناہ نہیں ہے)، حدیث2692۔
[xli] سنن ابو داؤد: کتاب: آداب و اخلاق کا بیان (باب: احسان اور کار خیر پر شکریہ ادا کرنے کا بیان)، حدیث 4811۔
[xlii] صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: اس شخص کا گناہ جس کا پڑوسی اس کے شرسے امن میں نہ رہتا ہو)، حدیث 6016۔
[xliii] مسند احمد، حدیث نمبر 22391۔ بیہقی، شعب الایمان، 5137، ج 4، ص 289۔ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء 3/100
[xliv] الادب المفرد، حدیث 112۔ السنن الكبرى للبيهقي، حدیث 18099۔
[xlv] صحیح بخاری: کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں (باب: جورو بچوں پر خرچ کرنے کی فضیلت)، حدیث 5352۔
[xlvi] صحیح مسلم: کتاب: حسن سلوک،صلہ رحمی اور ادب (باب: درگزر کرنا اور انکسار مستحب ہے) حدیث 2588۔
[xlvii] صحیح بخاری: کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں (باب: بیمار کی مزاج پرسی کا واجب ہونا)،حدیث 5649۔
[xlviii] صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: نبی کریم ﷺ کا فرمان کہ آسانی کرو ، سختی نہ کرو ، آپ ﷺ لوگوں پر تخفیف اور آسانی کو پسند فرمایا کرتے تھے)،حدیث 6125۔
[xlix] سنن ابن ماجہ: کتاب: رہن ( گروی رکھی ہوئی چیز) سے متعلق احکام ومسائل (باب: مزدوروں کی مزدوری)، حدیث 2443۔
[l] صحیح مسلم: کتاب: زکوٰۃ کے احکام و مسائل (باب: ہر قسم کی نیکی کو صدقے کا نام دیا جا سکتا ہے)، حدیث 1005۔
[li] جامع ترمذی: كتاب: رضاعت کے احکام ومسائل (باب: شوہر پر عورت کے حقوق کا بیان)، حدیث 1162۔
[lii] سنن ابو داؤد: کتاب: آداب و اخلاق کا بیان (باب: تواضع اور انکسار کا بیان)، حدیث 4895۔
[liii] صحیح مسلم: کتاب: حسن سلوک،صلہ رحمی اور ادب (باب: ایک دوسرے سے حسد، بغض اور روگردانی کرنے کی حرمت)، حدیث2559۔
[liv] صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان(باب: ہمسائے اور مہمان کی تکریم اور خیر کی بات کہنے یا خاموش رہنے کی ترغیب ، یہ سب امور ایمان کا حصہ ہیں)، حدیث 48۔
[lv] صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: خوش خلقی اور سخاوت کا بیان اور بخل کا برا و ناپسندیدہ ہونا)، حدیث 6035۔
[lvi] صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: حسد اور پیٹھ پیچھے برائی کی ممانعت)، حدیث 6064۔ صحیح مسلم: کتاب: حسن سلوک،صلہ رحمی اور ادب(باب: بدگمانی، تجسس، دنیاوی معاملات میں مقابلہ بازی اور دھوکے سے ایک دوسرے کے لیے قیمتیں بڑھانے وغیرہ کی ممانعت)، حدیث 2563۔
[lvii] صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: غصہ سے پر ہیز کرنا)، حدیث 6114۔
[lviii] مسند احمد، حدیث 12491۔
[lix] صحیح بخاری: کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان (باب : کھیت بونے اور درخت لگانے کی فضیلت جس سے لوگ کھائیں)، حدیث2320۔
[lx] صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان(باب : جو رکاب پکڑ کر کسی کو سواری پر چڑھادے یا کچھ ایسی ہی مدد کرے ، اس کا ثواب)، حدیث2989۔
[lxi] صحیح بخاری: کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں (باب : راستوں میں کنواں بنانا جب کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ ہو)، حدیث 2466۔
[lxii] سنن نسائی: کتاب: شکار اور ذبیحہ سے متعلق احکام و مسائل (باب: چڑیا کا گوشت کھانا بھی حلال ہے)، حدیث 4349۔
[lxiii] صحیح مسلم: کتاب: سلامتی اور صحت کابیان (باب: جن جانوروں کو مارا نہیں جا تا ،انھیں کھلا نے اور پلا نے کی فضیلت)، حدیث2245۔
[lxiv] سنن ابن ماجہ: کتاب: طہارت کے مسائل اور اس کی سنتیں باب: وضو میں میانہ روی اختیار کرنےاور زیادتی کےمکروہ ہونے کابیان)، حدیث 425۔
[lxv] Cited in Ibn Musa Al-Yahsubi, Q. I. (2006). Muhammad Messenger of Allah: Ash-Shifa of Qadi ‘Iyad. Translated by Aisha Abdarrahman Bewley. Cape Town: Madinah Press, p. 55.
[lxvi] صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: خوش خلقی اور سخاوت کا بیان اور بخل کا برا و ناپسندیدہ ہونا)، حدیث 6038۔ صحیح مسلم: کتاب: أنبیاء کرامؑ کے فضائل کا بیان (باب: آپ ﷺ کا حسن اخلا ق)، حدیث 2309۔
[lxvii] صحیح بخاری: کتاب: اخلاق کے بیان میں (باب: مسکرانا اور ہنسنا)، حدیث 6088۔ صحیح مسلم: کتاب: زکوٰۃ کے احکام و مسائل (باب: جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہو اور جن کا ایمان نہ ہونے کی بنا پرضائع ہونے کا خطرہ ہو‘ان کو دینا ‘جہالت کی بناپر مذموم طریقے سے مانگنے والے کو برداشت کرنا ‘اور خوارج اور ان کے بارے میں احکام شریعت)، حدیث 1057۔
[lxviii] الطبرانی۔ہیثمی، کتاب 1.8، صفحہ 240۔
[lxix] صحیح مسلم۔
[lxx] As-Sallabee, M. A. (2005). The Noble Life of the Prophet. Vol 3. Riyadh: Darussalam, pp. 1707 & 1712.
[lxxi] جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں (باب: نبی اکرم ﷺ کی خوش روئی اورمسکراہٹ کابیان)حدیث 3641۔
[lxxii] صحیح مسلم: کتاب: أنبیاء کرامؑ کے فضائل کا بیان (باب: نبی اکرم ﷺ کی صفات مبارکہ اور یہ کہ آپ ﷺ کا چہرہ انور تمام انسانوں سے زیادہ خوبصورت تھا)، حدیث 2337.02۔
[lxxiii] جامع ترمذی: کتاب: آداب واحکام کا بیان (باب: مردوں کے لیے سرخ لباس پہننے کی اجازت کابیان)، حدیث 2811۔
[lxxiv] جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں (باب: نبی اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک کابیان)، حدیث 3638۔
[lxxv] Ibn Qayyim, S. (1998). Zaad al-Ma’ad. Edited by Shuayb Al-Arnaout and Abdul Qadir Al-Arnaout Vol 3. Beirut: Mu’assasa al-Risalah, pp. 50-51. An online copy can be accessed at: http://ia801308.us.archive.org/0/items/FP37672/03_37674.pdf. [Accessed 1st October 2016].
[lxxvi] صحیح بخاری: کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں (باب : اگر کوئی عورت زنا سے حاملہ پائی جائے اور وہ شادی شدہ ہو تو اسے رجم کریں گے)، حدیث 6830۔
[lxxvii] الشمائل المحمدیہ ، حدیث 341۔
[lxxviii] صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام و مسائل (باب: ہر مقام اور ہر ملک میں مسلمان جہاں بھی رہے نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرے۔) ، حدیث 401۔ صحیح مسلم: کتاب: مسجدیں اور نماز کی جگہیں (باب: نماز میں بھول جانے اور سجدہ سہو کا بیان)، حدیث 572۔
[lxxix] سنن ابن ماجہ: کتاب: کھانوں سے متعلق احکام ومسائل (باب: خشک گوشت کا بیان)، حدیث 3312۔
[lxxx] جامع ترمذی: كتاب: زہد،ورع، تقوی اور پرہیز گاری کے بیان میں (باب: مہاجرفقراء جنت میں مالدارمہاجرسے پہلے جائیں گے)، حدیث2352۔
[lxxxi] صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: جو لوگ (بارش یا اور کسی آفت میں) مسجد میں آ جائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں؟) ، حدیث 669۔
[lxxxii] جامع ترمذی: كتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل (باب: کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خرید نے کی رخصت کا بیان)، حدیث1215۔
[lxxxiii] جامع ترمذی: كتاب: احوال قیامت ،رقت قلب اورورع کے بیان میں (باب: عائشہ‘انس‘علی اور ابوہریرہؓ کی حدیثیں)، حدیث2471۔
[lxxxiv] سورة المائدة، آیت 8۔
[lxxxv] سورة النساء، آیت 135۔
[lxxxvi] سورة البلد، آیت 18-12۔
[lxxxvii] Ibn Hisham, A. (1955) as-Sira an-Nabawiyya. Cairo: Mustafa Al-Halabi & Sons. Vol 1, pp. 501-504.
[lxxxviii] Armstrong, K. (1997). A History of Jerusalem: One City Three Faiths. New York: Ballantine Books, p. 245.
[lxxxix] Cohen, A. (1994). A World Within: Jewish Life as Reflected in Muslim Court Documents from the Sijill of Jerusalem (XVIth Century). Part One. Philadelphia: The Center for Judaic Studies, University of Pennsylvania, pp. 22-23.
[xc] Tabari, M, S. (1967). Tarikh Tabari: Tarikh ar-Rusul wal- Muluk. Edited by Muhammad Ibrahim. Vol 3. 3rd Edition. Cairo, Dar al-Ma’aarif, p. 609. An online copy can be accessed at: https://ia802500.us.archive.org/21/items/WAQ17280/trm03.pdf [Accessed 1st October 2016].
[xci] Cited in Walker, C. J. (2005). Islam and the West: A Dissonant Harmony of Civilisations. Gloucester: Sutton Publishing, p. 17.
[xcii] Narrated by Yahya b. Adam in the book of al-Kharaaj.
[xciii] الطبرانی فی المعجم الاوصات۔
[xciv] Al-Qaraafi, A. (1998). Al-Furuq. Vol 3. 1st Edition. Edited by Khalil Al-Mansur. Beirut: Dar al-Kutub al-Ilmiyyah, p. 29. An online copy can be accessed at: http://ia600203.us.archive.org/27/items/Forwq_Qarafy/Forwq_Qarafy_03.pdf. [Accessed 1st October 2016].
[xcv] سورة الأنبياء، آیت 107۔
[xcvi] سورة الأعراف، آیت 156۔
[xcvii] Cited in Walker, C. J. (2005). Islam and the West: A Dissonant Harmony of Civilisations, p. 17.
[xcviii] Dozy, R. (1913). A History of Muslims in Spain. London: Chatto & Windus, p. 235.
[xcix] Arnold, T. (1896). The Preaching of Islam: A History of the Propagation of the Muslim Faith. Westminster: Archibald Constable & Co., p. 56.
[c] سورة البقرة، آیت 256۔
[ci] Bonner, M. (2006). Jihad in Islamic History. Princeton: Princeton University Press, pp. 89-90.
[cii] Hallaq, W. B. (2009). Sharia: Theory, Practice and Transformations. New York: Cambridge University Press, p. 332.
[ciii] Ibn Zanjawiyah, H, S. (1986) Kitab al-Amwaal. Edited by Shakir Fiyadh. Makkah: Markaz al-Malik Faisal, pp. 169-170.
[civ] Mansel, P. (1995). Constantinople: City of the World’s desire, 1453-1924. London: Penguin Books, p. 15.
[cv] سورة الحجرات، آیت 13۔
[cvi] Hafiz ibn Hibban reported in al-Sahih, via his isnad, from Fadalah ibn Ubayd and Baihaqi.
[cvii] Gibb, H. A. R. (2012). Whither Islam? A Survey of Modern Movements in the Moslem World. Abingdon: Routledge, p. 379.
[cviii] Toynbee, A. J. (1948). Civilization on Trial. New York: Oxford University Press, p. 205.
[cix] Robinson, V. (1936). The Story of Medicine. New York: Tudor Publishing Company, p. 164.
[cx] Sabry, W. M., & Vohra, A. (2013). Role of Islam in the management of Psychiatric disorders. Indian Journal of Psychiatry, 55(Suppl 2), S205–S214. http://doi.org/10.4103/0019-5545.105534.
[cxi] Badri, M. (2013). Abu Zayd Al-Balkhi’s Sustenance of the Soul: The Cognitive Behavior Therapy of a Ninth Century Physician. Surrey: International Institute of Islamic Thought.
[cxii] صحیح بخاری: کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں (باب: اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو) ,، حدیث 5678۔
[cxiii] سورة يونس، آیت 24۔
[cxiv] سورة العلق۔ آیت 5-1۔
[cxv] سورة الزمر، آیت 9۔
[cxvi] سورة الغاشية، آیت 20-17۔
[cxvii] سورة آل عمران، آیت 191-190۔
[cxviii] See Steffens, B. (2007). Ibn Al-Haytham: First Scientist. Greensboro, NC: Morgan Reynolds Publishing.
[cxix] Lindberg, David C. (1992). The Beginnings of Western Science. Chicago: The University of Chicago Press, pp. 362-363.
[cxx] Steffens, B. (2007). Ibn Al-Haytham: First Scientist, p. 27.
[cxxi] For details see Al-Djazairi, S. E. (2005). The Hidden Debt to Islamic Civilisation. Oxford: Bayt Al-Hikma Press; Saliba, G. (2007). Islamic Science and the Making of the European Renaissance. Massachusetts: MIT Press.
[cxxii] Saliba, G. (2007). Islamic Science and the Making of the European Renaissance. Massachusetts: MIT Press, p. 1.
[cxxiii] Arnold, T. (1896). The Preaching of Islam, p. 112.
[cxxiv] Hewlett Packard. (2001). Carly Fiorina Speeches. Technology, Business and Our Way of Life: What’s Next. Available at: http://www.hp.com/hpinfo/execteam/speeches/fiorina/minnesota01.html [Accessed 10th September 2016].
[cxxv] Smith, A. (1869). The Essays of Adam Smith. London: Alex Murray, p. 353.
Comments
Post a Comment