مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی جرأت
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جو ہندوستان کے شہر سرہند میں پیدا ہوئے ، ان کے دور میں مغل شہنشاہ اکبر نے دین کی شکل کو مسخ کر دیا تھا ، دین الٰہی کے نام سے ایک نیا دین دنیا کے سامنے پیش کر دیا تھا ، جو بدعات و رسومات کا مجموعہ تھا ۔
یہ وہ وقت تھا ، جب اکبر کے بیٹے جہانگیر نے اپنی طاقت کے نشے میں آ کر ، علماء کو لکھا کہ مجھے فتویٰ دو کہ بادشاہ کو سجدۂ تعظیمی کرنا جائز ہے ۔
جب لوگوں کے سامنے جیلوں کے دروازے کُھل چکے تھے ، جب ان کو دُرے ( کوڑے ) نظر آ رہے تھے ، کھالیں پیٹھ سے اترتی نظر آ رہی تھیں ، اس وقت کچھ ربانیین ایسے تھے ، کچھ علماء ایسے تھے ، جنہوں نے جان کی پرواہ تک نہ کی ، اس لیے کہ ان کا فرض منصبی دین کی حفاظت تھا ۔
انہوں نے کہا
جاں دی ، دی ہوئی اس کی تھی
حق تو یہ ہے ، کہ حق ادا نہ ہوا
چنانچہ امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سجدہ تعظیمی حرام ہے ، قطعاً جائز نہیں ، اس کلمۂ حق کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو گوالیار کے قلعہ میں بند کر دیا گیا ، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دی گئیں ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پابند سلاسل رہنا تو قبول کر لیا ، مگر اس کی غلط بات کے آگے جھکے نہیں ، کیوں کہ آپ کو رب کے سوا کسی کے آگے جھکنا نہیں آتا تھا ۔
وہ ساری زندگی رب کے سامنے پیشانیاں جھکانے والے ، بھلا مخلوق کے سامنے کیسے جھک سکتے تھے ۔
بالآخر ان کی استقامت کی بدولت رب العزت نے ایک وقت وہ بھی دکھلایا کہ جب جہانگیر بادشاہ کو جھکنا پڑا ۔
سب امیر اس فقیر کے سامنے ادب کے ساتھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : جو آپ کہیں گے ، آج ہم وہی کریں گے ۔
چنانچہ بدعتوں کو ختم کر دیا گیا ، رسومات کو چھوڑ دیا گیا اور اس کی جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو رواج دیا گیا ، اسی وجہ سے ان کو امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔
اسلاف کے حیرت انگیز کارنامے ، ص : 99
Comments
Post a Comment