جادو کی تاریخ بہت پرانی ہے، جادو بذات خود کوئی چیز نہیں بلکہ جنات شیاطین کی مداخلت کو ہی جادو کہا جاتا ہے، جیسے ہمیں جنات نظر نہیں آتے ایسے ہی جنات کے کام بھی ہم سے پوشیدہ ہیں، چنانچہ جنات شیاطین کے ہی بتائے ہوئی کچھ کلمات،جنتر، منتر، تنتر پڑھنے لکھنے یا کرنے سے کچھ کام جنات کر دیتے ہیں جن کا سبب ہمیں نظر نہیں آتا، کیونکہ اس کا سبب جنات کی مداخلت ہوتی ہے اور جنات ہم سے پوشیدہ ہیں لہذا وقوع پذیر ہونے والی بات کا سبب ہم سے پوشیدہ ہوتا ہے اور ہم اسے جادو سے تعبیر کرتے ہیں۔
تاریخ میں جادو کا تذکرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں بھی ملتا ہے، یہ دور حضرت موسی علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام سے سینکڑوں سال پہلے کا دور ہے۔حیرت انگیز طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور جادو کا نہایت اعلی اور ترقی یافتہ دور شمار ہوتا ہے۔آپ کے معاصر جادوگر نہ صرف اپنے وقت کے بلکہ انسانی تاریخ کے نہایت بلند رتبہ اصحابِ فن شمار ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ کسی بھی فن کو کمال اور عروج تک پہنچنے کیلئے صدیوں کاسفر درکار ہوتا ہے اور کئی نسلوں کی عمریں اس فن میں مہارت پیدا کرنے اور اسے بامِ عروج تک پہنچانے میں کام آجاتی ہیں۔
بابل کے کلدانی اور جادو
بابل کے کلدانیوں نے نہ صرف یہ کہ سحر و جادو میں بہت کمال حاصل کر لیا تھا بلکہ جادوئی تصورات کو عوامی عقیدہ بنانے میں بھی وہ کامیاب ہوچکے تھے۔ کلدانی تہذیب نہ صرف جادو کی دلدادہ اور اس میں یکتائے روزگار تھی بلکہ اس کی تہذیبی اٹھان اور اجتماعی فکر و نظر پر بھی سحری تصورات کی چھاپ واضح نظر آتی ہے۔چنانچہ کلدانیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ انسانی زندگی میں کامیابی و ناکامی ، پریشانی و خوش حالی ، تنگدستی و تونگری ، صحت و بیماری ، ترقی و تنزل اور عزت و ذلت کے حالات بدلنے میں ستاروں کا گہرا عمل دخل ہے۔ ستاروں کا عروج و زوال ان کی زندگی میں وسعت و فراوانی لاتا ہے اور ستارے انسانی زندگی پر اثرات چھوڑتے ہیں جس کے نتیجے میں ذلت و مسکنت ،مصائب و خوشحالی آتی ہے۔چنانچہ ماہرینِ علمِ نجوم اور عملیات کرنے والے عاملین کا آج بھی یہی اعتقاد ہے۔
کلدانی اسی اعتقاد کی وجہ سے وہ ان سیاروں کی نہ صرف پوجا اور پرستش کرتے تھے ، انہیں دیوتا اور مشکل کشا مانتے تھے بلکہ ان سیاروں سے فیوض و فوائد سمیٹنے یا ان کے غضب اور نحوست سے بچنے کیلئے اپنے پہناوے میں مختلف رنگوں کا انتخاب کرتے ، ان سیاروں کی عبادت و پرستش کے لئے مخصوص ساعات کا انتخاب کرتے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے الگ الگ قسم کی بخور جلایا کرتے تھے، ان کے نزدیک ساعات نحس وغیرہ بھی ہوتی تھیں۔
کلدانیوں کے چھ عجیب وغریب طلسمات
سحری فکر و نظر اور عقیدہ و ایمان میں سیاروں کی عظمت و ہیبت اور ان کی عبادت و پرستش کے ساتھ ساتھ اس دور کے اہلِ بابل فنِ جادوگری میں اس درجہ کمال اور عروج پر پہنچے ہوئے تھے کہ اس کی نظیر بعد کے ادوار میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ نمردو کے زمانے میں کلدانیوں نے اپنے دار الحکومت بابل میں چھ ایسے عجیب و غریب سحری طلسمات بنائے تھے جن کے کرشماتی کمالات کو سن کر آج بھی انسان ششد رہ جاتا ہے۔
۔1۔تابنے کی بطخ
نمرودی ساحروں نے تانبے کی ایک ایسی بطخ تیار کی تھی کہ جونہی شہر میں کوئی چور یا مجرم شخص داخل ہوتا ، وہ بطخ ایک مخصوص آواز نکالتی تھی ، جس سے اس چور کو پکڑ لیا جاتا تھا۔
۔2۔نقارہ اور گمشدہ اشیائ
اس دور کے جادوگروں نے ایک ایسا نقارہ بھی ایجاد کیا تھا کہ کسی آدمی کی چیز اگر گم ہو جاتی تو وہ آکر اس نقارے پر چوٹ مارتا۔اس نقارے سے باقاعدہ ایک آواز آتی تھی کہ تمہاری گمشدہ چیز فلاں جگہ پر ہے۔
۔3۔گمشدہ افراد اور آئینہ
گمشدہ اشیاء کے لئے تونقارہ بنایا گیا تھا۔ گمشدہ انسانوں یا لاپتہ انسانوں کی تلاش و دریافت کیلئے کلدانیوں نے ایک آئینہ تیار کیا تھا۔جب کسی کے گھر کا کوئی فرد گم ہو جاتا تو وہ اس آئینے کے سامنے آتا اور عجیب بات یہ ہے کہ اسے اپنا گم شدہ عزیز نہ صرف یہ کہ اس آئینے میں نظر آجاتا تھا بلکہ وہ کس جگہ اور کس حال میں ہے اس کی بھی مکمل اور واضح تفصیل آئینے میں اس کے سامنے آجاتی تھی۔
۔4۔سچ جھوٹ کا فیصلہ بذریعہ تالاب
بابل کے جادو گروں نے نمرود کے دربار میں ایک ایسا تالاب بنا رکھا تھا جس میں مقدمات کے فیصلوں کے حوالے سے تین عجیب و غریب کرشماتی خوبیاں بیک وقت پائی جاتی تھیں۔ فریقین کے سچ جھوٹ اور صحیح یاغلط ہونے کا فیصلہ انہی خوبیوں کی بدولت نہایت آسانی سے ہو جاتا تھا
۔(۱) پہلی خوبی یہ تھی کہ جو شخص مقدمے میں حق پر ہوتا، اسے جب حوض میں اتارا جاتا تو پانی اس کی ناف سے نیچے رہتا، جس سے یہ واضح ہو جاتا کہ یہ بندہ حق پر ہے
۔(۲) دوسری خوبی یہ تھی کہ اسی حوض میں جب جھوٹا اور مجرم شخص اترتا تو پانی اس کے سر سے اونچا ہو جاتا تھا جس سے وہ ڈوبنے لگ جاتا تھا۔اس طرح یہ معلوم اور متعین ہو جاتا تھا کہ اس مقدمہ میں یہ شخص ناحق اور جھوٹ پر ہے
۔(۳) تی سری دلچسپ خوبی یہ تھی کہ اگر وہ مجرم شخص اپنی غلطی اور دوسرے فریق کے حق کا اعتراف کر لیتا تو پانی نیچے ہو جاتا تھا اور اسے غرق نہیں کرتا تھا۔
۔5۔کاک ٹیل بذریعہ تالاب
نمرودی دربار میں ایک اور تالاب عیاشی کیلئے بنایا گیا تھا ... جو انسانی تاریخ کا نہایت حیران کن خصوصیت کا حامل تالاب تھا۔ سال کا ایک خاص دن تھا جس دن امرائے سلطنت اور دیگر معززین و روسائے شہر اپنے اپنے گھروں سے اپنی اپنی پسند کے مشروبات لے کر اس حوض کے کنارے پکنک اور رنگ رلیاں منانے اکٹھے ہوتے تھے۔اور ہر شخص اپنا مشروب اس حوض میں ڈال دیتا تھا۔ اس طرح شہر بھر سے آنے والے لوگوں کے طرح طرح کے مشروبات اس حوض میں مکس ہو جاتے تھے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ دورانِ جشن جب یہ لوگ اس حوض میں سے مشروب پینے کے لئے برتن ڈالتے تو ہر شخص کے برتن میں صرف وہی مشروب آتا تھا جو خود اس نے اس حوض میں ڈالا ہوتا تھا۔
۔6۔ عجیب وغریب شجرِ سایہ دار
آپ نے سایہ دار درخت زندگی میں سینکڑوں بار دیکھے ہوں گے ۔ جتنا کسی درخت کا حجم ہوتا ہے اسی کے حساب سے اس کا سایہ چھوٹا یا بڑا ہوتا ہے لیکن کلدانی جادوگروں نے اپنے بادشاہ نمردو کے درباریوں اور ملاقاتیوں کی سہولت کے لئے جو سحری درخت بنایا تھا اس کی کرشماتی خصوصیت پڑھ کر آپ کے بھی دانتوں کو پسینہ آجائے گا۔کلدانی ساحروں نے نمرود کے دربار میں ایک ایسا جادوئی درخت نصب کر رکھا تھا جس کا سایہ اس کے اپنے حجم کے مطابق نہیں بلکہ درباریوں کی تعداد کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا تھا۔ جتنے لوگ آتے جاتے ، اس کا سایہ اتنا پھیلتا چلا جاتا تھا ،حتی کہ اگر ایک لاکھ لوگ آگئے ہیں تو اسی ایک درخت کا سایہ ان تک پہنچ جائے گا۔کسی نئے سائبان کی ضرورت نہیں پڑے گی
(نوٹ: یہ تاریخی روایات ہیں جن کے سچا یا جھوٹا ہونے کا یقین سے نہیں کہا جاسکتا)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے کئی سو سال بعد حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کا زمانہ آتا ہے، یہ بھی جادو اور سحری عملیات کے عروج کا زمانہ تھا۔ چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کا وہ واقعہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ جب انہوں نے اپنے معجزات دکھائے تو فرعون نے لوگوں کو یہی باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ جادو ہے اور موسی جادوگر ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ مشہور مقابلہ ہوا جس کی تفصیلات قران میں موجود ہیں ، چنانچہ فرعون کے بلائے گئے جادوگروں کا جادو موسی علیہ السلام کے معجزے کے مقابلے میں ختم ہوگیا اور جادوگر سجدے میں گر پڑے۔شام،مصر،عراق،بابل کے اندر جادوگری اور عملیات کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہاں تک کہ لوگوں کے لیے جادو اور معجزے میں فرق کرنا ہی مشکل ہوگیا۔ کیونکہ بظاہر جس طرح جادو کے ذریعے رونما ہونے والے کام کا سبب مخفی ہوتا ہے اسی طرح معجزے کے ذریعے رونما ہونے والے کام کا سبب بھی مخفی ہوتا ہے۔ چنانچہ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے کسی زمانے میں عراق کے ایک علاقے بابل میں اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں ”ہاروت اور ماروت“ کو نازل کیا، جس کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان دو فرشتوں کو دو مقاصد کے لیے نازل کیا۔ ایک جادو اور معجزے میں فرق واضح کرنا۔ اور دوسرا انسانوں کی آزمائش اور امتحان۔ چنانچہ یہ فرشتے کسی کنویں یا غار میں موجود ہوتے تھے، لوگ ان کے پاس آتے تھے، یہ فرشتے بتاتے تھے کہ ایسا ایسا کرنے،پڑھنے یا لکھنے سے جادو ہوتا ہے، اور یہ کفر ہے ناجائز ہے، اللہ کی نافرمانی ہے، ایسا ایسا پڑھنے لکھنے سے تو ہر کوئی یہ کام کرسکتا ہے۔ لیکن معجزہ ایسا نہیں ہوتا، وہ ہر کسی کے ہاتھ پر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ صرف اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے جو اللہ کا رسول ہوتا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ کچھ خاص کلمات ہی پڑھیں گے یا لکھیں گے، یا کوئی خاص عمل کریں گے تو معجزہ ظاہر ہوگا بلکہ جب اللہ چاہتے ہے رسول اور نبی کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہو جاتا ہے۔چنانچہ وہ فرشتے اس طرح لوگوں کو جادو اور معجزے کا فرق سمجھاتے، اور جادو کی بھی وظاحت کرتے۔ یہ سب کچھ لوگوں کے لیے ایک امتحان بھی تھا کیونکہ دنیا دارالامتحان ہے، چنانچہ جادو کی حقیقت بتاتے وقت کچھ لوگ اسے اپنے پاس نوٹ کرلیتے یاد کرلیتے اور پھر وہی کام کرنا شروع کردیتے۔
یہاں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ جادو کی ابتدا ہاروت ماروت سے نہیں ہوئی بلکہ اس سے بہت پہلے یہ کفر شیطانوں نے ہی انسانوں کو سکھایا تھا، ہاروت ماروت تو اس کی حقیقت اور کفر واضح کرنے کے لیے آئے تھے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے میں اپنی ویڈیوز میں جادو اور غیر شرعی عملیات کو واضح کرتا ہوں کہ ایسا ایسا کرنا ناجائز ہے اور کفر ہے ایسا تعویذ نہ لکھنا چاہیے اور نہ پہننا چاہیے تو بہت سارے لوگ اس کو سمجھ کر آئندہ اس سے اپنے آپ کو بچانا شروع کردیں گے اور کچھ لوگ اس تعویذ کو اپنے پاس نوٹ کرکے کسی موقع پر استعمال کرنا شروع کردیں گے۔
مدینہ کے یہودی جادوگری میں مبتلا تھے حالانکہ وہ اپنے آپ کو انبیاء کا سچا پیروکار سمجھتے تھے، جب ان سے کہا جاتا کہ یہ عملیات کا جو کام تم کرتے ہو یہ کون سے نبی کی تعلیمات میں ہے تو وہ فورا کہتے یہ عملیات حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعلیمات ہیں، اور انہی عملیات کے ذریعے انہوں نے جنات کو قابو اور تابع کیا ہوا تھا اور جنات سے کام لیتے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 102 نازل فرمائی
وَٱتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ ٱلشَّيَٰطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَٰنَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَٰنُ وَلَٰكِنَّ ٱلشَّيَٰطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ ٱلنَّاسَ ٱلسِّحْرَ وَمَآ أُنزِلَ عَلَى ٱلْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَٰرُوتَ وَمَٰرُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَآ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِۦ بَيْنَ ٱلْمَرْءِ وَزَوْجِهِۦ ۚ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِۦ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ ٱشْتَرَىٰهُ مَا لَهُۥ فِى ٱلْءَاخِرَةِ مِنْ خَلَٰقٍۢ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِۦٓ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: اور انہوں نے اس (جادو کے کفریہ کلمات) کی پیروی کی جس کو سلیمان کے دور حکومت میں شیطان پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے کوئی کفر نہیں کیا ‘ البتہ شیاطین ہی کفر کرتے تھے ‘ وہ لوگوں کو جادو (کے کفریہ کلمات) سکھاتے تھے اور انہوں نے اس (جادو) کی پیروی کی جو شہر بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتارا گیا تھا اور وہ (فرشتے) اس وقت تک کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک کہ یہ نہ کہتے : ہم تو صرف آزمائش ہیں تو تم کفر نہ کرو ‘ وہ ان سے اس چیز کو دیکھتے جس کے ذریعہ وہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کر دیتے۔ اور اللہ کی اجازت کے بغیر وہ اس (جادو) سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے ‘ وہ اس چیز کو سیکھتے تھے جو ان کو نقصان پہنچائے اور ان کو نفع نہ دے ‘ اور بیشک وہ خوب جانتے تھے کہ جس نے اس (جادو) کو خرید لیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ‘ اور کیسی بری چیز ہے وہ جس کے بدلہ میں انہوں نے اپنے آپ کو فروخت کر ڈالا ہے کاش یہ جان لیتے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جادو کی نسبت کی تحقیق
مدینہ کے یہود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ساحر اور جادوگر کہتے تھے اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نبیوں میں ذکر فرماتے تو وہ یہودی اس پر طعن اور تشنیع کرتے اور کہتے کہ دیکھو ان کو کیا ہوا ہے کہ یہ سلیمان کا نبیوں میں ذکر کرتے ہیں حالانکہ سلیمان محض جادوگر تھے ۔
امام ابن جریر (رح) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :سدی نے بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دور حکومت میں شیطان آسمان پر گھات لگا کر بیٹھ جاتے اور بیٹھ کر فرشتوں کا کلام کان لگا کر سنتے کہ زمین میں کون کب مرے گا ‘ بارش کب ہوگی اور اس قسم کی دیگر باتیں ‘ پھر آکر کاہنوں کو وہ باتیں بتاتے ‘ کاہن لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ‘ اور وہ باتیں اس طرح واقع ہوجاتیں ان کے ساتھ بہت سے جھوٹ ملا کر لوگوں نے وہ باتیں کتاب میں لکھ لیں اور بنو اسرائیل میں یہ مشہور ہوگیا کہ جنات کو غیب کا علم ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان کتابوں کو تلاش کروا کر منگوایا اور ایک صندوق میں رکھ کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کر دیا اور شیاطین میں سے جو بھی ان کی کرسی کے قریب جاتا وہ جل جاتا ‘ اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اعلان کر دیا کہ میں نے جس شخص کے متعلق بھی یہ سنا کہ وہ کہتا ہے کہ شیاطین غیب جانتے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوگئے اور وہ علماءبھی گزر گئے جن کو یہ واقعہ معلوم تھا اور کئی سال گزر گئے تو ایک دن وہ شیطان انسان کی صورت بن کر بنو اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس گیا ‘ اور کہا : میں تم کو ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ دکھاتا ہوں ‘ اس نے ان سے کہا : اس کرسی کے نیچے زمین کھو دو ‘ انہوں نے کھودا تو وہ کتابیں نکل آئیں ‘ شیطان نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس جادو کی وجہ سے انسانوں‘ جنوں اور پرندوں پر حکومت کرتے تھے پھر بنو اسرائیل میں نسل در نسل یہ مشہور ہوگیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جادوگر تھے ‘ حتی کے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور آپ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا انبیائ(علیہم السلام) میں ذکر کیا تو بنو اسرائیل نے اس پر اعتراض کیا اور کہا : سلیمان تو جادوگر تھے اللہ تعالیٰ نے انکے رد میں یہ آیت نازل فرمائی : (اور انہوں نے اس کی پیروی کی جس کو سلیمان (علیہ السلام) کے دور حکومت میں شیطان پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے (جادوکرکے) کوئی کفر نہیں کیا ‘ البتہ شیاطین ہی کفر کرتے تھے وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے)۔ (جامع البیان ج1 ص ‘ 353 مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ 1409 ھ)
نیز امام ابن جریر (رح) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :جب شیاطین (جنوں) کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا علم ہوا تو انہوں نے سحر کی مختلف اصناف اور اقسام کو لکھ کر ایک کتاب میں مدفون کیا اور اس کے اوپر یہ نام لکھ دیا کہ یہ سلیمان بن داود کے دوست آصف بن برخیا کی تحریر ہے اور اس میں علم کے خزانوں کے ذخیرے ہیں ‘ پھر اس کتاب کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی کے نیچے دفن کر دیا ‘ پھر بعد میں بنو اسرائیل کی باقی ماندہ قوم نے اس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی کے نیچے سے نکال لیا ‘ جب انہوں نے اس کتاب کو پڑھا تو انہوں نے جادو پھیلا دیا ‘ اور جب ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلیمان بن داود (علیہ السلام) کا انبیاءاور مرسلین میں ذکر کیا تو مدینہ کے یہودیوں نے کہا : کیا تم (حضرت سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تعجب نہیں کرتے کہ وہ سلیمان کا انبیاء میں ذکر کرتے ہیں حالانکہ وہ صرف ایک جادوگر تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں یہ آیت نازل کی : (اور انہوں نے اس کی پیروی کی جس کو سلیمان کے دور حکومت میں شیطان پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے (جادو کرکے) کوئی کفر نہیں کیا ‘ البتہ شیاطین ہی کفر کرتے تھے وہ لوگ کو جادو سکھاتے تھے۔(جامع البیان ج1 ص ‘ 354 مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ 1409 ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی ان دونوں روایتوں کو طبری کے حوالے سے ذکر کیا ہے (فتح الباری ج10، ص 223‘ مبطوعہ دارالکتب الاسلامیہ ‘ لاہور)
امام ابن جوزی نے ان آیتوں کے شان نزول میں مزید چار قول نقل کیے ہیں
۔ :(1) ابو صالح نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ سے ان کی سلطنت نکل گئی تو شیاطین (جنوں) نے سحر کو لکھ کر ان کی جائے نماز کے نیچے دفن کر دیا اور جب ان کی وفات ہوئی تو اس کو نکال لیا اور کہا : ان کی سلطنت اس سحر کی وجہ سے تھی ‘ مقاتل کا بھی یہی قول ہے۔
۔(2) سعید بن جبیر (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ آصف بن برخیا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے احکام لکھ لیا کرتے تھے اور ان کو ان کی کرسی کے نیچے دفن کر دیا کرتے تھے ‘ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوگئے تو اس کتاب کو شیطانوں نے نکال لیا اور ہر دو سطور کے درمیان سحر اور جھوٹ لکھ دیا اور بعد میں اس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کر دیا۔
۔(3) عکرمہ (رض) نے کہا : شیطانوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو وفات کے بعد سحر کو لکھا اور اس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کر دیا۔
۔(4) قتادہ (رح) نے کہا : شیطانوں نے جادو کو ایجاد کیا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس پر قبضہ کرکے اس کو اپنی کرسی کے نیچے دفن کر دیا تاکہ لوگ اس کو نہ سیکھیں جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوگئے تو شیطانوں نے اس کو نکال لیا ‘ اور لوگوں کو سحر کی تعلیم دی اور کہا : یہی سلیمان کا علم ہے۔ (زادالمیسر ج 1 ص ‘ 121 مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ 1407 ھ)
Comments
Post a Comment