عقیدہ عذابِ قبر کی صحیح اور غلط صورتیں
عالم قبر و برزخ کی صحیح صورت جسے جمہور علماء اسلام نے کتاب و سنت و عقل سلیم کے سامنے رکھ کر اختیار فرمایا ہے اور اسی پر اجماع امت بھی منعقد ہوا ہے وہ یہ ہے کہ’’ نکرین کے سوال کے وقت قبر میں ایک خاص قسم روح کا لوٹنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے مردہ انسان نکرین کے سوالوں کو سمجھتا ہے پھر غلط یا صحیح جواب بھی دیتا ہے ۔‘‘
اس کے بعد یہ تعلق نسبتاً کمزور ہو جاتا ہے البتہ اس خاص تعلق کیوجہ سے مردہ انسان میں اتنا ادراک اور شعور باقی رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ قبر کی کاروائی اور اس کے رنج و راحت کو محسوس کرتا ہے۔
عذاب قبر کی اس صحیح صورت کے علاوہ دو غلط صورتیں بھی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے
۔1 ابن جریر کرامی اور کرامیہ کی ایک جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ قبر میں جو کارروائی ہوتی ہے وہ صرف بدن پر واقع ہوتی ہے ،روح کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔
۔2 ابن حزم اور ابن ہبیرہ کا مذہب یہ ہے کہ قبر کا سوال اور قبر کی کاروائی فقط روح پر ہوتی ہے روح کا جسم کی طرف اعادہ اور تعلق نہیں ہوتا ۔چنانچہ علامہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ شارح بخاری ان تینوں صورتوں کی تفصیل اور صحیح صورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:(ہم اختصارً ًترجمہ پر اکتفا کر رہے ہیں )
ابن جریر اور کرامیہ کی ایک جماعت نے اس قصہ ’’قلیب بدر‘‘سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبر میں سوال صرف بدن پر واقع ہوتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس میں اتنا ادراک پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ سنتا ہے اور جانتا ہے اور رنج و راحت کو محسوس کرتا ہے ۔ ابن حزم اور ابن ہبیرہ اس طرف چلے گئے ہیں کہ قبر کا یہ سوال صرف روح پر واقع ہوتا ہے جسم کی طرف اس کا اعادہ نہیں ہوتا اور جمہور نے ان لوگوں کی مخالفت کی ۔ پس وہ فرماتے ہیں’’ روح کا کل جسم یا بعض کی طرف اعادہ ہوتا ہے جس طرح کہ حدیث میں ثابت ہے اور اگر یہ کاروائی صرف روح پر واقع ہوتی تو بدن کے لیے اس کا کوئی اختصاص نہ ہوتا اور میت کے اجزاء کا منتشر ہوجانا اس کاروائی سے مانع نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ قادر ہیں کہ حیات کو بدن کے کسی جز کی طرف لوٹا دیں اور اس پر سوال واقع ہو جس طرح کہ وہ میت کے تمام اجزاء کو جمع کرنے پر قادر ہیں اور جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ قبر کا سوال فقط روح پر واقع ہوتا ہے ان کو اس بات پر اکسانے والی یہ چیز ہے کہ قبر میں سوال کے وقت کبھی کبھی میت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اس میں اٹھا بٹھانے کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی قبر میں تنگی ہوتی ہے، نہ ہی وسعت ۔ اسی طرح وہ مردہ جو قبر میں دفن نہیں کیا گیا جیسے سولی پر لٹکا دیا گیا جواب ان کا یہ ہے کہ یہ اللہ کی قدرت کوئی بعید نہیں ہے بلکہ عادت میں اس کی نظیر موجود ہے اور وہ’’ سونے والا شخص ہے‘‘ پس بے شک وہ خواب میں لذت اور درد کو محسوس کرتا ہے جس کو اس کے پاس بیٹھنے والا شخص محسوس نہیں کرتا ہے کسی سے کوئی بات سن کر یا کسی بات میں فکرمند ہو کر اور اس چیز کو اس کے ساتھ بیٹھنے والا شخص یقینا محسوس نہیں کرتا۔
تحقیق یہ غلطی ان لوگوں کو اس وجہ سے لاحق ہوئی کہ انہوں نے غائب کو شاہد پر قیاس کر لیا اور موت سے بعد والے حالات کو موت سے پہلے والے حالت پر قیاس کر لیا اور ظاہر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی آنکھوں سے، ان کے کانوں سے قبر کی کاروائی کو اس لیے مخفی اور پوشیدہ رکھا ہے تاکہ وہ اس کاروائی کو دیکھ کر مردے دفن کرنا نہ چھوڑ دیں اور انسان کے دنیوی اعضاء میں طاقت نہیں ہے کہ وہ ملکوت کے امور کا ادراک کرسکیں الا بخرق العادۃ(ہاں کبھی خلاف واقع ہو جائے تو اور بات ہے )
تحقیق جمہور کا مذہب احادیث سے ثابت ہے جیسے
اللہ کے نبی کا ارشاد ہے: ’’بے شک مردہ اپنے دفن کرنے والوں کی جوتیوں کی آہٹ کو سنتا ہے۔ ‘‘
اللہ کے نبی ارشاد فرماتے ہیں : ’’قبر کے دبانے سے مردہ انسان کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔ ‘‘
اللہ کے نبی کا ارشاد ہے ’’جب مردہ انسا ن کو ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے تو اس کی آواز کو ثقلین ( جن و انسان) کے علاوہ سب سنتے ہیں۔‘‘
اللہ کے نبی ارشاد فرماتے ہیں ’’ قبر میں نکرین کے سوال کے وقت آکر مردے کو بٹھاتے ہیں ۔‘‘اور یہ تمام صفات اجسام انسا نی کے ہیں۔
عذا ب کی یہ صحیح اور غلط صورتیں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی تحریر فرمائی ہیں ۔(۱)
(۱)تکملہ فتح الملھم ج۶ص۲۴۰
مزید علماء اسلام نے عذاب قبر کی اس صحیح صورت پر اجماع امت بھی نقل فرمایا ہے (۲)
(۲)تفسیر مظہر ی ج۹ص۷۷،شر ح عقیدہ طحا ویہ ۳۳۰، نووی شرح مسلم ج۲ص۳۸۶، شفا ء السقام ص۱۵۱، شر ح مو افق ص۱۷۶، کتاب الر وح ص۷۲، ۱۵۷، ۱۵۸، ۱۴۳، ۶۲، ۶۴، ۳۷۶ اغاثۃاللہفان ص۲۱۸، اعلام الموقعین ج۴ص۳۷۶، ۳۸۶، عینی شرح بخاری ج۷ص۱۴۷، ج۸ص۹۳، روح المعانی ج۱۱ص۵۷،لمعات شر ح مشکوۃ ج۱ص۱۸۹،شر ح فقہ اکبر ص۱۰۱،فتا ویٰ ابن تیمیہ ج۱ص۳۵۱ہدایہ ج۲ص۴۸۴،فتح القدیر ج۴ص۳۶۰،بحر الر ائق ج۴ص۳۶۳،عمدۃ الر عا یہ حاشیہ شر ح وقایہ ج۲ص۲۳۱،معا رف الحدیث ج ا ص۱۸۶تا ۲۰۴
پس ثابت ہوا کہ عذاب قبر کی صحیح صورت کی اس کاروائی میں روح اور جسم عنصری تعلق کی وجہ سے دونوں شریک اور حصہ دار ہوتے ہیں یہی سچ اور صواب ہے اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔ بقیہ دونوں صورتیں غلط ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے ان دونوں صورتوں کو غلط بھی کہا ہے اور جمہور کے مخالف بھی۔ مولانا مفتی تقی عثمانی زید مجدہ نے بھی صحیح صورت کی تائید اور غلط صورتوں کی تردید فرمائی ہے بلکہ لکھا ہے : (ترجمہ پیش خدمت ہے) اسی طرح روح اور جسم کے مابین جو تعلق بہت ساری نصوص سے ثابت ہے جس کے انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ایسے تعلق کا انکار گمراہی اور حق کے ساتھ جنگ کرنا ہے اور کسی اہل علم اور اہل انصاف کو جائز نہیں کہ صریحاً اس تعلق کا انکار کر ے ۔(۳)
مولانا نور محمد تونسوی
Comments
Post a Comment