اس دن اتوار کا دن تھا , میں کافی تھک چکا تھا , بچوں سے کھیل کود پھر شام میں پکنک پر گیا سارا دن مصروفیت کی وجہ سے تھک کر چور ہو چکا تھا ۔ بچے اور بیوی باہر لان میں ٹی وی دیکھنے بیٹھ گۓ میں جلدی سے سونے چلا گیا ۔ سوتے ہی مجھے اس دن عجیب سی نیند آرہی تھی,جسم میں تھکاوٹ اور ہلنے کی جان نہیں تھی, آنکھیں نہ بند تھیں نہ کھل پا رہیں تھیں, دماغ پر عجیب سہ وزن محسوس ہو رہا تھا آنکھوں کے سامنے کالی دھند چھانے لگی تھی۔۔۔کانوں میں عجیب سا شور ہو رہا تھا ۔۔۔۔پاؤں درد کرنے لگے تھے جیسے خون باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہو ۔۔۔۔اتنے میں آنکھوں کے سامنے مکمل اندھیرہ چھا گیا۔۔جیسے آہستہ سے میرے جسم سے جان نکل رہی ہو ۔۔۔۔میری آنکھیں بند تھیں پھر بھی مجھے وہ نظارے دکھائی دینے لگے تھے ۔۔۔نا چاہتے بھی دماغ میں ماضی کے پچھلے کیے گناہ یاد آرہے تھے ۔۔جیسے کوئی بھکاری بچہ مجھ سے بھیک مانگنے آیا اور میں نے اسے دھکہ دے کر ہٹا دیا ۔۔۔لڑکیوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان سے کیے گناہوں کی یاد ۔۔۔۔مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میرے کیے سارے گناہ کسی ویڈیو کی طرح میرے سامنے چل رہے تھے ۔۔۔میں جاگنے کی کوشش کر رہا تھا پر میرے جسم میں ذرہ سا ہلنے کی طاقت نہ بچی تھی, جیسے ایک کھوکھلی لاش کسی نہر میں تیر رہی ہو۔۔۔میرے کانوں میں آذان کی آواز گونج رہی تھی اور اس دوران میرے ہنسنے اور بات چیت کی یاد ۔۔۔۔۔نماز پر جان بوجھ کر نہ جانا۔۔۔ان سب یادوں سے ایک خوف طاری ہونے لگا تھا ۔
پھر کچھ لمحوں بعد مجھے کالے لباس میں ایک شخص دکھائی دینے لگا اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔میں ملک الموت ہوں۔۔۔تمہارا وقت اس دنیا میں پورا ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تمہاری جان لی جائے, میں سن کر گھبرا گیا, روتے منت کرتے کہا خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔میری ابھی مرنے کی عمر نہیں ہے ۔۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔۔۔اور میں نے قبر کے لیے کوئی تیاری بھی نہیں کی ہے۔۔اور میرے کوئی اچھے کام بھی نہیں ہیں۔۔۔میں نے نمازیں بھی نہیں پڑھی۔۔۔۔خدا کے لیے مجھے آخری موقع دو تاکہ میں نماز پڑھوں۔۔۔اچھے کام کروں۔۔۔خدا کو راضی کروں تاکہ قبر کے عذاب سے بچ جاؤں۔ میری التجائیں سن کر وہ مجھ سے افسوس کرنے لگا اور کہنے لگا " اے ابن آدم کیا تمہیں معلوم بھی تھا کہ موت کی کوئی عمر نہیں۔۔تو تم نے یہ سب اچھے کام پہلے کیوں نہیں کیے۔۔تم دنیا میں جس کام کے لیے آئے تھے وہ تم بھول گئے اور جنہوں کے لیے تم نے دنیا میں کام کیا تو وہ آج تیرے سب کہاں ہیں۔۔۔افسوس تم نے ساری زندگی بڑے بڑے واسطے بنانے وہ بھی آج تمہیں موت سے نہیں بچا سکتے۔۔۔کیونکہ خدا کی طرف سے تمہاری جان لینے کا حکم ہوا ہے جسے کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔۔اب تمہارے جیسے اعمال ہونگے ویسا ہی برتاؤ ہوگا تم سے ۔۔۔
وہ میری روح قبض کر چکا تھا اور اب میں اسی بیڈ پر لاش کی طرح سویا ہوا تھا , میرے چاروں طرف میری بیوی بچے , اور خاندان والے موجود تھے , سب میرے لیے رو رہے تھے , کچھ فون پر ادھر أدھر میرے مرنے کی اطلاع دینے لگے
کچھ ادھر ادھر میرے مرنے کی اطلاع دینے لگ گئے, عورتیں دھاڑیں مار کر میری لاش پر رو رہیں تھیں جن کی آواز سے میری روح کو تکلیف پہنچ رہی تھی۔ میں سب کچھ دیکھ اور سن پا رہا تھا پر بول نہیں سکتا تھا ۔ میری نظریں وسیع ہو چکیں تھیں, مجھے سب کچھ آسانی سے دکھائی دے رہا تھا ۔ گھر میں مہمانوں کا آنا جانا بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔کچھ میری تعریف کر رہے تھے کہ مرحوم اچھا تھا تو وہاں کچھ برائی بھی کر رہے تھے اور برائی کرنے والوں کی وجہ سے میری روح کو تکلیف پہنچ رہی تھی۔
تھوڑی دیر میں مسجد میں میرے نام کا اعلان ہونے لگا, اعلان سن کر میں حیران ہو رہا تھا کہ دنیا میں جب زندہ تھا تو میرا نام لینے سے پہلے میرا عہدہ , مرتبہ, میری تعریف بیان ہوتی تھی اور آج صرف اتنا کہا گیا کہ "احمد خان ولد اعتزاز خان اس فانی جہان سے ہمیشہ کے لیے انتقال کر چکے ہیں۔ میری روح مکمل قبض ہو چکی تھی, اتنے میں دوسرا فرشتہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا اے ابن آدم تم نے جو مال جمع کیا تھا وہ کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم جو ساری زندگی دولت کمانے اور جمع کرنے کے چکر میں خدا سے غافل رہے تو بتاؤ اب وہ دولت تیرے کس کام کی ہے۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ تماری جمع کی ہوئی دولت تمہیں خدا کے عذاب سے بچا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں جب معلوم تھا کہ قبر میں صرف اچھے اعمال کام آئیں گے تو پھر بھی تم خدا کی عبادت اور اس کے حکموں سے غافل کیوں رہے ۔۔۔۔کیوں دنیا کے چکر میں جان بوجھ کر بغیر کسی مجبوری کے نمازیں چھوڑیں۔۔۔۔۔اب تیار ہو جاو اپنے اچھے برے انجام کے لیے۔
اس کے کسی بھی سوال کا میرے پاس جواب نہیں تھا , میں اس کے سوالوں سے شرمندہ ہو رہا تھا اور میرے اوپر ڈر حاوی ہونے لگا تھا کہ نہ جانے دفن ہونے کے بعد قبر میں مجھ سے کیا ہوگا؟
پھر مجھے جلدی سے غسل دینے کے لیے لے جایا گیا, غسل دینے والا جب میرے جسم کو چھو رہا تھا تو مجھے بڑی تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔کیونکہ اس کی زبان پر کوئی قرآنی آیت, درود پاک اور کلمہ وغیرہ نہیں تھا ۔۔۔۔میرے اوپر کھڑے سب اپنی باتوں میں مگن تھے کوئی میری موت سے خوف نہیں کھا رہا تھا کہ انہیں بھی مرنا ہے , کسی کی زبان پر کوئی نیک کلمہ نہیں تھا جس سے میری روح کو سکون پہنچتی۔۔۔میری روح وہاں گنہگار روحوں میں شمار تھی۔۔جسے لوگوں کی دعائیں ہی سکوں پہنچا سکتی تھیں۔
تھوڑی ہی دیر میں مجھے غسل بھی دیا گیا پھر مجھے چار پائی پر سلایا گیا, اب میرے چاروں طرف میرے گھر والے, بیوی بچے, بھائی بہنیں , رشتےدار, دوست احباب سب میری لاش پر رو رہے تھے ۔ میرے دوست جنہوں نے مجھ سے وعدے کیے تھے کہ ہم ہر مشکل وقت میں تمہارے ساتھ رہینگے اج وہ بھی دور کھڑے اکیلے کونے میں رو کر خاموشی سے مجھے الوداع کر ریے تھے ۔ پھر ایک شخص آکر کہنے لگتا ہے جنازہ اٹھانے کا وقت ہو چکا ہے باہر سب انتظار میں ہیں, سنتے ہی میرے گھر والے پھر سے میری چارپائی کو چمٹ گئے اور زور سے رونے لگ گئے, میں ان کے رونے سے پریشان ہو رہا تھا ۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا یہ سب میرے لیے اتنا کیوں رو رہے ہیں۔۔۔۔کیا میں نے ان کو کوئی دکھ دیا ہے ۔
ان سب کو ہٹا کر میرے جنازے کو اٹھایا گیا, میں پریشان ہو رہا تھا یہ سب مل کر مجھے کہاں لے جا رہے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک چار پائی پر تھا اور میرے آس پاس بڑی تعداد میں لوگ تھے
میرا جنازہ سفر میں ہی تھا کہ اتنے میں تیسرا فرشتہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا "اے ابن آدم تم ایک لمبے سفر کی طرف روان دواں ہو۔۔۔۔جو تو یہ سفر پہلی بار کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔سفر کے اختتام پر تمہیں ایک تنگ مکان مین دفنایا جائے گا جس مکان میں تم پہلے کبھی نہیں ریے۔۔۔۔۔اور اگر تمہارے اعمال اچھے ہونگے تو وہ تنگ مکان تمہیں تنگ نہیں لگے گا اور اگر تیرے اعمال اچھے نہیں ہونگے تو وہ تنگ مکان مزید تمہیں تنگ لگے گا ۔۔۔۔کیونکہ سب اپنے اعمال سے ہی اس مکان کو کشادہ اور تنگ کرتے ہیں۔ تمہیں پہلی بار اس تنگ مکان میں رکھا جائے گا اور تمہاری ہمیشہ کی زندگی قیامت تک اسی مکان میں گزرے گی۔
اتنے میں وہ غائب ہو گیا اور مجھے پریشانی ہو رہی تھی کہ نہ جانے مجھے وہ مکان کیسے ملے گا تنگ یا کشادہ۔۔۔۔اگر مجھے تنگ مکان ملا تو میں کیسے گزاروں گا قیامت تک اس تنہا مکان میں ۔۔۔اور میرے جنازے پر بھی شریک سبھی لوگ اپنی دنیا داری کی باتوں میں لگے ہوئے تھے کسی کی زبان پر کلمہ شہادت نہیں تھا جس سے مجھے امید ہو کہ مجھے کشادہ مکان ملے گا۔۔۔
آخر کار میرا جنازہ قبرستان مین پہنچا, جہاں پہلے سے ہی میرے لیے ایک گڑھے کی طرح قبر کھودی ہوئی تھی۔۔۔جسے دیکھتے ہی میرے دل میں خوف خدا بڑھنے لگا کہ نہ جانے اس تنہا قبر میں مجھ سے کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔میں اس ڈراؤنی تنہا قبر کو دیکھ کر پچھتا رہا تھا کہ " کاش میں نے دنیا میں اس تنہا قبر کو روشن کرنے کے لیے اچھے کام کیے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش میں اذان سننے سے پہلے ہی مسجد چلا گیا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔کاش میں خود بھوکا رہ کر غریبوں کی مدد کر کے نیکیاں کماتا۔۔۔۔۔۔۔۔کاش مجھے یہاں سے ایک موقع مل جاے, خدا کی قسم میں ساری زندگی خدا کی بندگی میں گزاروں گا ۔۔۔۔۔۔ایک ایک پل خدا کی عبادت میں گزاروں گا۔۔۔لیکن اس وقت میرے پاس کاش کے علاوہ اور کچھ کہنے کو نہیں تھا
میری قبر کو تیار کیا گیا, پھر مجھے اس میں اتارنے کے لیے اٹھایا گیا, مجھے قبرستان میں قبروں کی ساری روحیں نظر آرہی تھیں۔۔۔جو مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگیں تھیں۔۔۔اب میں قبر میں اتر چکا تھا اور میرے اوپر مٹی ڈالنے سے پہلے میرے لیے دعائیں مانگی جا رہیں تھیں۔۔۔میں خاموشی سے انہیں سن رہا تھا ۔۔۔اتنے میں چوتھا فرشتہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا " اے ابن آدم کل تو زمین کے اوپر تھا اور آج تو زمین کے اندر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کل جب تو زمین کے اوپر تھا تب تو ہر چیز میں آزاد تھا چاہے گناہ کرتے یا ثواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر تمہیں آزاد چھوڑا گیا تھا لیکن اب تو زمین کے اندر ہے اور یہاں تیری کوئی مرضی نہیں چلنے والی۔۔۔۔۔۔یہاں صرف تیرے اعمالوں کو دیکھ کر مرضی چلے گی اگر اچھے ہونگے تو تو تم یہاں بھی آزاد اپنی مرضی سے یہاں کی زندگی گزارو گے اور اگر اچھے اعمال نہیں ہونگے تو پھر ہماری مرضی چلے گی۔۔۔۔۔۔۔۔اے ابں آدم تو زمین پر بڑا اکڑ کر چلتا تھا تو آج زمین کے اندر خاموش کیوں ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں معلوم بھی تھا کہ ایک دن یہاں آنا ہے تو پھر اکڑ کس بات کی تھی۔۔۔۔۔۔کیوں خدا کو بھول کر خود ہی فیصلے کرنے والے بن گئے۔۔۔۔۔زمین کے اوپر کیوں لوگوں کے لیے زمین تنگ کردی تھی۔۔۔کیوں مظلوموں پر ظلم ڈھاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں سب سے محبت سے کیوں نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش تم نے وہاں تکلیف برداشت کی ہوتی تو آج یہاں تمہیں تکلیف نہ ملتی۔۔۔۔۔وہاں تم نے اگر مدد کی ہوتی تو یہاں بھی تیری مدد ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے وہاں رحم کیا ہوتا تو یہاں بھی تم پر رحم ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں تم نے معاف کیا ہوتا تو یہاں بھی تمہیں معاف کیا جاتا۔۔۔۔۔کیا تم بھول چکے تھے کہ خدا کی مرضی سے یہاں بھی تمہیں آنا ہے ۔۔۔
اس کے کڑے سوالوں سے مزید میری روح کو خوف ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔اب میرے اوپر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔۔۔۔وہ منظر مجھے ڈرا رہے تھے۔۔۔۔۔میں چیخ رہا تھا۔
میں پاس کھڑے اپنوں سے چیخ چیخ کر کہ رہا تھا خدا کے لیے مجھے یہاں تنہا نہ چھوڑ جاؤ ۔۔۔۔۔میں دنیا میں تم لوگوں کے بڑے کام آیا تھا اب خدارا تم لوگ میرے کام آؤ۔۔۔۔۔مجھے اس تنہا مکان میں اکیلا نہ چھوڑو۔۔۔۔مجھے وہشت ہونے لگی ہے اندھیری قبر سے۔۔۔کوئی بھی میری منت نہیں سن پا رہا تھا ۔۔سب جلد سے مجھے دفنانے میں لگے ہوئے تھے ۔
میری قبر پر مٹی ڈل چکی تھی۔۔سب مجھے دفنا کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔۔۔اب میں اس قبر میں تنہا تھا ۔۔۔۔۔مجھے وہشت ہونے لگی کہ نہ جانے مجھ سے کیا کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں پانچواں فرشتہ آیا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔اے ابن آدم وہ لوگ جو دنیا میں تیرے سب سے عزیز تھے ۔۔۔۔اب وہ تمہیں دفن کر کے چلے گئے ہیں۔۔۔اور اگر وہ پاس بھی ہوتے پھر بھی تیری مدد نہیں کر پاتے۔۔۔۔ان سے تمہارا جو بھی رشتہ تھا وہ دنیا میں ہی تھا ۔۔یہاں وہ رشتے تجھے نہیں بچا سکتے۔۔۔۔یہاں پر تمہیں اپنے اعمال ہی بچا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آج یا تو تم جنت میں جاؤ گے یا پھر دوزخ میں ڈالے جاؤ گے ۔
اب میں اندھیری قبر میں اکیلا خوف سے نڈھال تھا ۔۔۔۔اپنے انجام کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔اب میرے لیے دنیا کی ساری رنگینیان رونقیں ختم ہو چکیں تھیں۔۔۔۔۔۔یاروں سے محفلیں۔۔۔نادانیاں۔۔۔عبادت سے ناگواری سب کے انجام کا وقت آچکا تھا ۔۔۔۔۔میں خوف زدہ تھا کہ نہ جانے اب کیا ہونے والا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔۔اتنے میں قبر مجھ سے بات کرنے لگی
اے ابن آدم۔۔۔۔۔۔۔اے انسان۔۔۔۔تو بھی کتنا نادان تھا ۔۔۔۔دنیا میں اتنے مگن ہو گئے کہ یہاں قبر کی اندھیری اور تنہائی کو کبھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔تم نے اگر دنیا مین اس اندھیری قبر کو روشن کرنے کا سوچا ہوتا تو آج تیرے چہرے پر خوف نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔تم اپنے انجام کو سوچ کر نہ ڈرتے۔۔۔۔۔۔۔تیرا خدا کو چھوڑ کر دنیا کی رنگین مستیوں میں لگ جانا آج وہی رنگین مستیان تجھے آگ میں لے جائیں گیں۔۔۔۔۔۔تم نے اپنے لیے دولت جمع کی اور ساری زندگی کرتے رہے ۔۔۔۔سال میں ایک بار بھی زکات دینے کی زحمت نہ کی ۔۔۔۔۔تیرے پڑوس مین بھوکی ماں کے بھوکے بچے سو گئے تم نے پوچھنا اور جانچنا بھی گوارا نہ سمجھا ۔۔۔۔۔۔۔تو خاندان والوں سے دوستوں سے عیاشیان پارٹیان کرتے رے, ہزاروں کے بل آئے تو نے ہنسی خوشی ادا کیے۔۔۔۔باہر ہاتھ جوڑ کر کھڑے بھوکے فقیر کو کچھ پیسے نہ دیے۔۔۔۔تو آج تیرا وہ سارا جمع کیا مال تمہیں سانپ اور بچھو بن کر ڈنسیں گے۔۔۔۔۔۔۔ڈس ڈس کر تمہارے جسم کی بوٹیاں نوچ کر کھا جائیں گے ۔۔۔۔۔۔تو یہ نہ سوچ کہ انہوں کے ڈسنے سے تمیں موت آجائے گی۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں تجھے کبھی موت نہیں آئے گی۔۔۔۔۔۔اے انسان تو خدا کے عذاب سے کیوں اندھا بن چکا تھا ۔۔۔۔۔دنیا داری میں لاکھوں اڑا دیے چند پیسے مسکینوں کو ہی دے دیتے۔۔۔۔۔بیوی سے اپنا ہر حکم منوایا کبھی نماز کا بھی کہا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔بچوں کو مہنگی جگہیں تعلیم دلوائی کبھی انہیں نماز اور قرآن بھی سکھایا ہوتا۔۔۔۔کم سے کم جو آج تجھ پر کچھ آیتیں پڑھ کر بخشتے۔۔شاید ان سے ہی تیری بخشش ہو جاتی۔۔۔۔اب کچھ دیر میں تیرے پاس یہاں منکر نکیر آئیں گے ۔۔۔۔۔۔جو تجھ سے کچھ سوال کریں گے ۔۔۔۔۔۔سوال بہت ہی آسان ہونگے۔۔۔۔تم اگر مؤمن ہوگے تو ان سوالوں کا جواب آسانی سے دے جاؤ گے۔۔۔۔۔۔اگر تم مؤمن نہیں ہوگے تو کسی ایک کا بھی جواب نہیں دے پاؤگے۔۔۔۔اس کے بعد تم پر رحم کیا جائے گا یا عذاب دیا جائے گا ۔
میں ان منکر نکیر کے انتظار میں تھا ۔۔۔۔۔نہ جانے کب آئیں گے۔۔آئیں گے تو کیا پوچھیں گے۔۔۔۔۔کچھ دیر میں وہ خوفناک چہروں سے آئے ,وہ دو ہی تھے ۔۔۔۔مجھ سے پوچھنے لگے۔۔۔تیرا رب کون ہے ۔۔۔۔۔۔سوال آسان تھا پر جواب دینے کے لیے میری زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔کیونکہ مین مؤمن نہیں تھا ۔۔۔۔میں نمازی نہیں تھا ۔۔۔میں خدا کا فرمانبردار بندہ نہیں تھا, میں جواب میں خاموش رہا پھر پوچھنے لگے تیرا نبی کون ہے۔۔۔۔اس بار بھی میں خاموش ہی رہا ۔۔۔۔کیونکہ میں دنیا میں عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو تھا پر اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی درود نہ پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی اس کی طرح بندوں سے محبت میں نہ رہا ۔۔۔۔۔کبھی اس کی طرح یتیموں اور مسکینوں کو اپنا نہ سمجھا ۔۔۔۔۔تو آج صرف اس نام کے عاشق رسول کا اپنے نبی کا نام لینے کے لیے زبان بھی ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔پھر پوچھنے لگے تیرا دین کیا ہے۔۔۔۔۔اس بار بھی مجھ سے جواب نہیں دیا جا رہا تھا ۔۔۔۔کیونکہ میں دنیا میں دین کے قریب ہی نہیں تھا ۔۔۔۔دین کے احکاموں سے غافل تھا ۔۔۔۔جھوٹا تھا مکار تھا صرف نام کا ہی مسلمان تھا ۔
جب انہیں کسی بھی سوال کا جواب نہیں ملا تو وہ غصے سے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد مجھے قبر میں تپش ہونے لگی تھی۔
انہیں کسی بھی سوال کا جواب نہ ملا تو وہ غصے سے چلے گئے ۔ان کے جانے کے بعد میری قبر مین تپش ہونے لگی تھی, میرے بائیں طرف سے ایک کھڑکی نما جگہ کھل گئی, اس کھڑکی میں سے آگ شعلوں کے ساتھ میرے قریب ہو رہی تھی۔۔۔۔قبر میں بدبو بڑھنے لگی تھی۔۔۔۔اور قبر چاروں طرف سے تنگ ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔آگ کی تپش سے میرے جسم کا بایاں حصہ جل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں چیخا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔چیخ کر پوچھا یہ مجھ سے کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔کیوں میری قبر تنگ ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔آگ کیوں میرے جسم کو جلا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔قبر سے آواز آنے لگی۔۔اے اانسان قبر کا تنگ ہونا۔۔۔۔ بائیں طرف سے کھڑکی کھلنا یہ سب تیرے اعمالوں کا کیا دھرہ ہے ۔۔۔۔تو اگر دنیا میں خود کو تنگ رکھتا تو تمہیں یہاں وسیع قبر ملتی۔۔۔۔اب تیرے چیخنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔۔یہاں تیرے جیسے تیری طرح کے بیشمار انسان چیخ رہے ہیں یہ سب تجھے پہلے سوچنا چاہئیے تھا اب عذاب کے لیے تیار ہوجا۔۔۔۔وہ آواز خاموش ہوگئی۔
آگ میرے بہت قریب آچکی تھی۔۔۔میرا چہرہ آگ سے جل رہا تھا ۔۔۔اس آگ کی تپش دنیا کی آگ سے کئی گنا زیادہ تھی۔۔آگ کی تپش مزید تیز ہوتی جا رہی تھی۔۔۔کچھ ہی لمحوں میں میرے چہرے سے ہو کر پورے جسم کو جلانے لگی تھی۔۔۔۔بہت دیر تک میں آگ میں جلتا رہا چیختا رہا پر وہاں کوئی میری چیخ و پکار سننے والا نہیں تھا۔۔۔۔کچھ دیر بعد میرے جسم سے آگ بجھنے لگی۔۔۔میرے جسم کو ٹھنڈہ سکوں مل رہا تھا ۔۔میں نے پھر پوچھا اچانک میرے جسم سے آگ کیوں بجھ گئی۔۔۔۔اور میرے جسم کو راحت بھرا سکوں کیسے مل رہا ہے۔۔۔میں تو گنہگار ہوں۔۔۔غیبی آواز سے مجھے جواب ملا ۔۔دنیا میں تیرے وارث تیری بخشش کے لیے قرآن خوانی کروا رہے ہیں۔۔۔اور جب تک تیرے لیے قرآن کی تلاوت ہوتی رہے گی تب تک تمہیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا ۔۔۔۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے اس قرآن اور دعاؤں کے صدقے تیری بخشش کی جائے۔
کافی دیر تک مجھ سے عذاب ٹلا رہا ۔۔۔۔پھر اچانک سے قبر میں وہیں بدبو آنے لگی۔۔۔گرم ہوا پھر سے چلنے لگی۔۔۔۔پھر سے بائیں کھڑکی کھل گئی۔ پھر غیبی آواز آئی دنیا میں تیرے وارث اب بھی اگر اپنے دوستوں اور دنیا کے سامنے نام بنانے کو چھوڑ کر تمہارے نام کا صدقہ خیرات غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کریں تو اب بھی تمہاری بخشش ہو سکتی ہے ۔۔۔کیونکہ خدا تب بہت خوش ہوتا ہے جب کوئی اس کے بھوکے بندے کو روٹی کھلاتا ہے ۔۔۔اب تو اپنے عذاب کے لیے پھر سے تیار ہوجا۔
اس کے خاموش ہوتے ہی پھر سے آگ کا جلنا۔۔ناقابل برداشت بدبو۔۔میں پھر سے چیخنے لگا۔۔۔۔اتنے میں میری قبر سے ایک بڑا بچھو نکلنے لگتا ہے جو میرے پاؤں سے ہو کر میرے منہ کی طرف آتا ہے ۔۔۔اتنے میں اس کے جیسے اور بھی بہت بچھو نکلنے لگے جو انسانی ہاتھ سے بہت بڑے موٹے کالے اور خطرناک تھے جنہیں دیکھتے ہی میں تڑپنے لگا۔۔۔پھر چیخ کر پوچھا ۔۔یہ ۔۔۔یہ کیا ہو رہا ہے مجھ سے۔۔غیبی آواز سے جواب آیا۔۔۔اے انسان یہ بچھو تمہارے گناہ سے پیدا کیے گئے ہیں۔۔۔تم جو دنیا میں کسی کو گالی دیتے تھے اس ایک گالی کے بدلے یہاں ایک بچھو پیدا ہوتا تھا ۔۔۔اور اب یہ تمہیں نوچیں گے۔۔۔اس کے ایک ڈس سے تم زمین میں کئی نیچے چلے جاؤ گے پھر اوپر آؤ گے پھر دوسرا ڈسے گا ۔۔جتنی تم نے گالیاں دی ہونگی, جتنے بچھو ہونگے۔۔۔اتنی ہی بار تمہین ڈسہ جائے گا اور اس کی تکلیف کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگا ستا, اور اس تکلیف کے بعد تمہیں احساس ہوگا کہ کاش تم نے کسی کو مزاق میں بھی گالی نہ دی ہوتی۔
وہ ان گنت بچھو تھے جن سے میری قبر بھر چکی تھی, باری باری ایک ایک ڈستہ گیا ان کے ڈسنے سے جو تکلیف پہنچ رہی تھی اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔ کافی دیر تک میں اسی عذاب میں تڑپتا رہا ۔ جب مجھ پر وہ سزا پوری ہوئی تو مجھے بڑے جہنم میں لایا گیا, وہاں کی دنیا ہی الگ تھی, ایسی دنیا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا, جہنم کی دنیا بہت بڑی تھی, ہر جگہ آگ ہی آگ تھی, میرے ساتھ ایک سزا دینے والا فرشتہ تھا جس نے مجھ سے کہا اے انسان یہ وہ جہاں ہے جس کا دنیا میں کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا, یہاں سبھی گنہگار ہیں اور اب تم دیکھو گے کس کو کس گناہ کی سزا مل رہی ہے ۔
مجھے بڑے جہنم مین لایا گیا,وہاں کی دنیا ہی الگ تھی, ایسی دنیا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا, جہنم کی دنیا بہت بڑی تھی, ہر جگہ آگ ہی آگ تھی, میرے ساتھ سزا دینے والا ایک فرشتہ تھا جس نے مجھ سے کہا اے انسان یہ وہ جہاں ہے جس کا دنیا میں کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا, یہاں سبھی گنھگار ہیں اور اب تم دیکھوگے کس کو کس گناہ کی سزا مل رہی ہے۔میں خوف زدہ ہو چکا تھا ہر طرف چیختے لوگ تھے, جو آگ میں جکے جا رہے تھے, میں ایک جگہ پہنچا جہاں جہنم کا ایک بڑا گڑہ تھا جس میں ان گنت لوگ جل رہے تھے, ان کی چیخیں اتنی زور سے تھیں کہ اگر وہ آوازیں دنیا میں سنی جاتیں تو ہر انسان کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے, جس طرح وہ آگ میں جل رہے تھے اگر دنیا والوں کو دکھائی دیتا تو وہ دکھتے ہی مر جاتے, پھر فرشتہ کہنے لگا جہنم کے اس گھڑے میں یہ سب مسلمان ہیں, انہوں نے دنیا میں بہت سے اچھے کام کیے غریبوں مسکینوں کی مدد کی , خدا کے نام کی خیراتیں کیں, لوگوں کے کام آے پر انہون نے وہ نہیں کیا جو انہیں یہاں کام آتا, ۔۔۔۔انہوں نے نمازیں نہیں پڑھیں۔۔۔۔خدا سب کچھ معاف کر سکتا ہے پر جان بوجھ کر نماز نہ پڑھنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ نماز خدا کا اپنے محبوب خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ایک تحفہ ہے, اگر کوئی بندہ اس کے محبوب کو دیے تحفے کی لاج نہیں رکھتا تو پھر خدا بھی اس بندے کی لاج نہیں رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی لیے یہ سب عذاب میں جل رہے ہیں کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر نماز نہیں پڑھی۔
اسی گڑھے کے ساتھ وہاں جہنم کا چھوٹا ایک اور بھی گھڑا تھا جس میں بھی بہت سے لوگ عذاب کاٹ رہے تھے پر ان پر تھوڑی نرمی تھی, میرے حیران ہو کر پوچھنے پر جواب دیا یہ وہ سب ہیں جو کبھی کبھار نماز پڑھتے تھے , انہیں کم عذاب اس لیے مل رہا ہے کیونکہ انہوں نے جتنی بھی تھوڑی بہت سی نمازیں پڑھیں تھیں ان نمازوں کے صدقے اور اجر میں ان کی سزا کم کی گئی ہے۔
پھر میں جہنم کے دوسرے گڑھے میں پہنچا,جو بہت بڑا تھا اس میں بھی وہی سب کچھ تھا آگ چیخیں رونا معافی مانگنا, اس گڑھے میں صرف عورتیں ہی تھیں جو سخت عذاب جھیل رہیں تھیں, ان کے جسم کو آگ جلا رہی تھی اور مختلف خطرناک مخلوق جسم کو نوچ رہے تھے جن کے نوچنے سے جسم کی بوٹیاں نکل رہیں تھیں, ان کی معافیاں اور چیخ و پکار تھی ہم پر رحم کھایا جائے۔۔۔۔۔ہمیں آخری بار دنیا میں واپس بھیجو۔۔۔۔۔خدا کی قسم کبھی گھر سے نہیں نکلیں گی۔۔۔۔۔کبھی غیر محرم کو نہیں دیکھیں گے۔۔۔۔۔ہر وقت عبادت میں رہیں گے۔۔۔۔اپنا جسم ڈھکہ چھپا کر پردے میں رکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی اپنے جسم کی نمائش نہیں کریں گے۔
یہ سب کیا کہ رہی ہیں۔۔۔۔میرے سوال پر فرشتہ کہنے لگتا ہے۔۔۔یہ وہی عورتیں ہیں جو دنیا مین اس عذاب سے غافل رہیں۔۔۔۔۔جو خدا اور قرآن کے حکم کو ٹھکڑا کر دنیا کے مزے میں لگ گئیں۔۔۔۔ان عورتون نے اپنے جسم پر اپنی مرضی چلائی۔۔۔۔انہوں نے اپنے جسم کو پردے میں نہیں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے قرآن کے حکم کو چھوڑ کر نامحرم مردوں کے کندھوں سے کندھے ملائے کو ترجیح دی۔۔۔انہوں نے دولت اور شہرت کی خاطر اپنا جسم بیچا۔۔۔۔۔اپنے آپ کو نامحرم مردوں کی نظروں میں لائی۔۔۔۔انہوں نے خاتم انبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی پاکیزگی اور پردے کو چھوڑ کر دنیا کی مکار اور غلیظ عورتوں کو اپنا ائڈیل سمجھا اور اپنی زندگی بھی انہوں کی طرح گزارنے لگی۔۔۔اگر انہوں نے چار دن کی زندگی میں دنیا کے مزے اور بے حیائی کو چھوڑ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح پاگیزگی اور پردے میں گزاری ہوتی تو آج یہ عورتوں کی اسی جنت کی سردار حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جنت کے کسی خوبصورت باغ میں ان کے بھیچو بھیچ ہوتیں۔۔۔۔لیکن اب ان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔کیونکہ یہ ہمیشہ کے لیے اس جہنم میں ڈال دی گئیں ہیں۔
پھر اسی کے ساتھ ایک اور چھوٹا گھڑا تھا جس میں بھی صرف عورتیں ہی تھیں, لیکن ان پر عذاب میں کچھ نرمی تھی میرے پوچھنے پر جواب ملا یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے ساری زندگی اپنے جسموں کو نامحرم سے چھپانے کی پوری کوشش کی اور اپنی نظروں کو نامحرم سے ہٹائے رکھا ۔۔۔ان پر عذاب میں کمی اسی لیے ہے کیونکہ ان کے گناہ بہت چھوٹے ہیں۔۔۔ان کے گناہ ہیں۔۔شوہر کی نافرمانی۔۔۔۔اپنی اولاد کو دین کی تربیت پر زور نہ دینا ۔۔۔۔۔خاص اپنی بیٹیوں کو حیا اور پردہ نہ سکھانا جیسے گناہ ۔۔یہ اپنے حصے کی سزا کاٹ کر آزاد ہو جائیں گی۔
جہنم میں عورتوں کی تعداد زیادہ تھی سب کو عذاب میں دیکھ کر دل لرز رہا تھا , پھر ایک جگہ پہنچے جہاں پر سخت خوفناک عذاب دیا جا رہا تھا انہیں ایک جگہ کھڑا کر کے آگ کی موٹی اور تلوار سے تیز کیل ان کی آنکھوں مین ٹھوکی جا رہی تھی۔۔۔وہ کیل ان کی آنکھوں سے ہو کر پچھلی طرف سے نکل رہی تھی۔۔۔ان کی آنکھوں مین بڑا سوراخ بن رہا تھا وہ درد سے چیخ رہے تھے, ان کی چیخیں پورے جہنم مین سنی جا رہیں تھیں, ایسا عذاب انہیں بار بار دیا جا رہا تھا , ان کا جسم آگ سے جل کر بھسم ہوچکا تھا پھر بھی وہ عذاب کاٹ رہے تھے فرشتہ کہنے لگا یہ وہ بدبخت ہیں جنہوں نے اچھے کام تو کیے پر خدا کے منع کرنے کے باوجود نامحرم کو جی بھر کر اور حوس سے دیکھتے رہے ۔۔۔۔انہیں معلوم تھا نامحرم کو دیکھنا بڑا گناہ ہے پھر بھی یہ دیکھتے رہے ۔۔۔۔۔ان سے باتیں کیں۔۔۔۔ان سے ہنسی مزاق کی۔۔۔۔۔اور آج یہ چیخ رہے ہیں ہمیں چھوڑا جائے۔۔ہمیں معلوم نہیں تھا کہ نامحرم کو دیکھنے کی اتنی بڑی سزا ملے گی۔۔۔لیکن آج ان پر کوئی رحم نہیں کھایا جائے گا کیونکہ کہ دنیا میں انہوں نے خدا کے حکم کو نہیں سنا تو آج خدا بھی ان کی منت کو نہیں سننے والا۔
جہنم مین مختلف بڑے گڑھے تھے جن میں سب کو الگ الگ گناہوں کی سزا مل رہی تھی, کچھ چھوٹے گڑھوں میں کچھ بڑے گڑھوں میں عذاب کاٹ رہے تھے پھر فرشتہ کہنے لگتا ہے "یہاں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے دنیا میں بہت اچھے کام کیے۔۔۔نمازیں پڑھیں۔۔۔کبیرہ گناہوں سے بچے رہے لیکن جھوٹ بولنا ,منافقت,ریاکاری,حسد, غیبت,دل میں برائی رکھنا جیسے چھوٹے پر سخت عذاب والے گناہوں سے نہیں بچے۔۔۔۔اسی لیے یہ ان چھوٹے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔۔۔۔اور انہیں تب تک عذاب ملتا رہے گا جتنی بار انہوں نے جھوٹ ریاکاری حسد غیبت کی ہوگی اتنی ہی بار انہیں یہ سزا ملے گی پھر ان گناہوں سے یہ آزاد ہو جائیں گے اور اپنے کیے دوسرے گناہوں کی سزا کاٹیں گے ۔
پھر ایک اور جگہ پہنچے جہاں مرد اور عورت کو ایک ہی سزا مل رہی تھی, چاروں طرف ان کے آگ تھی,اس آگ میں بڑے بڑے گولے نما شعلے تھے جس میں وہ جل رہے تھے اور سخت عذاب کاٹ رہے تھے ,وہ آگ میں بھی جل رہے تھے انہیں کسی سخت چیزوں سے بھی مارا جا رہا تھا , ان پر کڑے سے کڑا عذاب تھا , پھر میں نے پوچھا انہوں کا کیا گناہ ہے, جو انہیں سب سے سخت عذاب دیا جا رہا ہے ۔۔وہ جواب میں کہنے لگتا ہے " یہ وہ سب ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنے والدین کی نافرمانی کی۔۔۔خدا نے قرآن مین فرمایا اپنے والدین کو اف تک نہ کہو۔۔۔اور انہون نے ان سے زور سے بات کی اور انہیں برا بھلا کہا ۔۔۔۔۔ان سے بتمیزی کی۔۔۔۔ان کی بےادبی کر کے ان کا دل دکھایا۔۔۔ان کا حکم نہ مان کر انہیں رلایا۔۔۔۔انہون کے فیصلوں کو ٹھکرا کر اپنی مرضی کے فیصلے کیے۔۔۔۔یہ اپنے والدین کی نافرمانی کی سزا دنیا مین بھی کاٹ آئے ہیں اور یہاں بھی کاٹیں گے کیونکہ والدین کے نافرمان کے لیے خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی دل سے رحم کی دعا نہیں مانگی
میں سب کا عذاب دیکھ کر خوف مین تھا نہ جانے مجھ سے کیا ہوگا۔۔۔۔بڑا گنھگار تو میں ہوں۔۔۔میں بے نمازی تھا جھوٹا تھا دل دکھائے والدین کا نافرمان تھا ,اپنے مفاد کا تھا ,دھوکے باز تھا۔ مجھے خوفزدہ اور حیران دیکھ کر فرشتہ کہنے لگتا ہے " تم ان پر عذاب دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے ہو اس پورے جہنم میں صرف مسلمان ہیں تم ان پر اتنا سا عذاب دیکھ کر کانپ رہے ہو , ان پر جو عذاب ہے وہ ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو کافروں کو اور غیر مسلم کو ملتا ہے ۔۔۔۔ان پر عذاب دنیا میں کوئی غیر مسلم دیکھ لے تو خدا کی قسم وہ مسلمان ہو کر مؤمن بن جائے پھر ان جیسا مؤمن دنیا میں کوئی نہیں ہوگا"
مسلمان کے لیے جنت بہت ہی سستی ہے,بس اس کے لیے اسے چار دن کی زندگی میں دنیا کی رنگینیوں کو چھوڑنا ہوگا, ہر مشکل وقت میں بھی نماز پڑھے۔۔۔۔ جھوٹ نہ بولے۔۔۔۔کسی کی غیبت نہ کرے۔۔۔۔سب سےاچھا رہے۔۔۔۔کسی کے لیے دل میں نفرت نہ پالے اپنی آنکھوں اور جسم کی نامحرم سے حفاظت کرے۔۔۔۔والدین کا ادب کرے۔۔۔۔اپنی اولاد کو دین سکھائے۔۔۔ان کاموں سے بھی وہ جنت خرید سکتا ہے ۔۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔اب تم اپنے عذاب کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔تمہارے ساتھ بھی وہی ہوگا جو تم یہاں دیکھ آئے ہو۔
سنتے ہی میری چیخ نکل گئی, میں تو بہت بڑا گنھگار ہوں۔۔۔میں نے چھوٹے بڑے بہت گناہ کیے ہیں۔۔میرے اتنے گناہ ہیں کہ دنیا میں بھی خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا تو شاید پھر بھی معافی نہ ملتی۔۔۔۔سن کر وہ کہنے لگتا ہے " اے نادان انسان۔۔۔۔تم چاہے کتنے بھی گناہ کرو خدا معاف کر دیتا ہے اگر نہ کرے تو پھر دنیا میں ایک ایسی ہستی ہے جو تمہیں خدا سے معافی دلوا سکتی ہے۔۔۔۔وہ ہے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کروڑوں گناہ کر کہ بھی خدا کی بارگاہ میں جاؤ۔۔۔۔سچے دل سے معافی مانگو۔۔۔۔اور کہو اے خدا تجھے تیرے محبوب کا واسطہ ہمیں معاف فرما۔۔۔تجھے اس محبوب کا واسطہ جس کیے لیے تم نے یہ دونوں جہاں بنائے۔۔۔۔پھر دیکھنا خدا معاف کرےگا کیونکہ خدا وہ دعا کبھی رد نہیں کرتا جس میں اس کو اپنے محبوب کا واسطہ دیا جائے۔
میں پچھتا رہا تھا , گناہ تو ہوگئے کاش ایک بار دل سے دعا مانگ کر معافی مانگی ہوتی تو آج اس طرح جہنم کی آگ میں نہ جلایا جاتا۔
Comments
Post a Comment