1440) لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ

 

لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ 

"تمہارے نبی ﷺ نے 9 سال کی لڑکی عائشہ سے نکاح کرکے اس پر ظلم کیا"

انہیں جواباً یہ عرض ہے کہ

۔🔵(1) بنظر انصاف دیکھا جائے تو اس اعتراض کا سب سے پہلا حق خود صاحب واقعہ یعنی اَمّی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ہے ، واقعہ انہیں کے ساتھ پیش آیا آپ کے ساتھ نہیں ، لہذا اعتراض کا پہلا حق تو انہیں کا ہے

تو اب تحقیق کریں کہ خود انہوں نے یہ شکایت کی یا نہیں ؟

ہرگز نہیں کی بلکہ اس واقعہ کو اپنا ایک بہترین نصیبہ سمجھا ، اور پوری زندگی پیار و محبت سے گذاری

۔🔵(2) اعتراض کرنے کا دوسرا حق اَمّی عائشہؓ کے والدین کو ہے

لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ والدین نے اعتراض کے بجائے بذات خود اپنی بیٹی نبی ﷺ کے سپرد کیا جیسا کہ 

بخاری حدیث نمبر 3894 میں ہے کہ خود انکی والدہ نے انہیں حضرت محمد ﷺ کے سپرد فرمایا

 فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى , فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِين

کیا حضرت عائشہؓ کی والدہ انکی دشمن تھیں؟

کیا وہ نکاح کے بعد پیش آنے والے واقعات سے بے خبر تھیں؟

بلکہ بڑھ کر یہ ثابت ہے کہ انکی والدہ محترمہ نے ان کے لیے ایسی باتوں کا بھی خاص اہتمام کیا تھا جو ان کے لیے جسمانی نشوونما پانے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ چنانچہ ابوداؤد جلد دوم صفحہ ۹۸ اور ابن ماجہ صفحہ ۲۴۶ میں خود حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا بیان مذکور ہے کہ میری والدہ نے میری جسمانی ترقی کے لیے کئی تدبیریں کیں ۔ آخر ایک تدبیر سے خاطر خواہ فائدہ ہوا اور میری جسمانی حالات میں بہترین انقلاب پیدا ہوگیا

۔🔵(3) انکے بعد اگر کوئی اعتراض کر سکتا تھا تو وہ مشرکین مکہ تھے ، جو آپ ﷺ کے زبردست دشمن تھے ۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ اعتراض کرتے تھے مثلا جب آپ ﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ عورت سے نکاح کیا تو مشرکین نےخوب اعتراض کیا تھا اسی طرح جب حضرت عائشہؓ سے نو سال ہی کی عمر میں نکاح کیا تو مشرکین کو اعتراض کرنا چاہیے تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کسی نے بھی زبان طعن دراز نہ کیا ، ذرا برابر بھی کسی کا اعتراض اس نکاح پر منقول نہیں ، یاد رہے کہ یہ نکاح مکہ ہی میں مشرکین کے سامنے ہجرت سے دو سال قبل ہوا تھا

۔🔵(4) واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی عورت و مرد کا جسمانی طور پر نکاح کیلیے تیار ہونا یہ اس جگہ کی آب و ہوا اور اس مقام کے ماحول پر موقوف ہے مثلا 

امریکا میں 16 سال 

اور امریکا کے ایک صوبہ ٹکسز میں 14 سال

رومن ایمپائر میں 12سال

 چائنا میں 21 سال شادی کیلیے مقرر ہے

یہ فرق ملک کی آب و ہوا ہی کے اعتبار سے ہے.  ، ملک عرب چونکہ گرم ملک ہے اس لیے وہاں ایسا معمول تھا کہ لڑکیاں جلد ہی جسمانی طور پر تیار ہو جاتی تھیں 

مثلا تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضرت معاویہؓ نے اپنی بیٹی "ہند"کا نکاح عبداللہ بن عامر سے کیا اور رخصتی کے وقت حضرت ہند کی عمر 9 سال تھی اور مستند طریقہ سے یہ ثابت ہے کہ عرب میں بعض لڑکیاں ۹/ برس ہی میں ماں اور اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی تھیں 

سنن دار قطنی میں ہے 

"حدثنی عباد بن عباد المہلبی قال ادرکت فینا یعنی المہالبة امرأة صارت جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة، ولدت تسع سنین ابنة، فولدت ابنتہا لتسع سنین فصارت ہی جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة (دارقطنی، جلد۳، صفحہ ۳۲۳، مطبوعہ: لاہور پاکستان)

ملک عرب میں تو اس پر تعجب نہیں ،تعجب تو ہندوستان میں ہوا کہ ۔۔۔ ملک ہندوستان میں یہ خبر کافی تحقیق کے بعد شائع ہوئی ہے کہ وکٹوریہ ہسپتال دہلی میں ایک سات سال سے کم عمر کی لڑکی نے ایک بچہ جنا ہے

(دیکھئے اخبار ”مدینہ“ بجنور، مجریہ یکم جولائی ۱۹۳۴/ بحوالہ نصرت الحدیث صفحہ ۱۷۱)

اس لیے 9 سال کی عمر میں نکاح پر اعتراض کرنا بے عقلی کے ساتھ ساتھ بے علمی پر بھی دلالت کرتا ہے

۔🔵(5) اسلام کے علاوہ ہندو ازم میں بھی کم عمری پر نکاح کا ثبوت ملتا ہے مثلا رام جی نے سیتاجی سے نکاح اسوقت کیا تھا جبکہ سیتا کی عمر 6 سال تھی،اسی طرح لکشمن جی کی شادی اورمِلا جی سے ہوا جبکہ اورمِلا کی عمر بھی بہت کم تھی 

ہندو کی کتاب "انسائیکلو پیڈیا آف رلیجین ایتھیکس"میں ہے کہ منوسمرتی نے مرد و عورت کے نکاح کیلیے عمر کا تعین یہ کیا تھا کہ مرد 20 سال کا ہو اور لڑکی 12 سال کی، یا لڑکا 14 سال کا اور لڑکی 8 سال کی ہو؛

آگے چل کر اسپتی اور مہا بھارت کی تعلیم کے مطابق ہندو لڑکی کی عمر 10 اور7 سال بتائی گئی ہے؛اس کے بعد شروکاس میں لڑکی کی عمر کم از کم سے 4 سے 6 سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال بتائی گئی ہے

۔🟣 اور سنیں گذشتہ زمانے کے احوال 

سلین آگسٹن متوفی 350ء نے 10 دس سالہ لڑکی سے نکاح کیا تھا

راجہ رچرڈ متوفی 1400ء نے 7 سالہ لڑکی سے نکاح کیا تھا

ایم ڈی ہشتم نے 6 سالہ لڑکی سے نکاح کیا تھا

امریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلیور نے 1880ء میں لڑکی کے نکاح کی عمر 8 سال مقرر کی تھی

۔1929ء سے پہلے پہلے برطانیہ میں جسٹ آف انگلینـڈ کے وزراء 12 سال کی لڑکی سے نکاح کرتے تھے

۔🔵(6) ہم اپنے استاذ ذی وقار حضرت مولانا و مفتی عبد الواحد قریشی صاحب حفظہ اللہ کا یہ جملہ بھی نقل کرنا چاہتے کہ 

"میری چار شادیاں ہیں،ان میں سے ایک عرب کی ہے،اور میں جانتا ہوں کہ عرب کاخون کتنا گرم ہے"

۔🔵(7) ہم یہاں یہ بھی ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت مولانا و مفتی طارق مسعود صاحب حفظہ اللہ سے ایک عیسائی عورت نے سوال کیا کہ نبی ﷺ کی عمر 50 کے قریب تھی اور انہوں نے9 سالہ لڑکی سے نکاح کیا؟

تو حضرت نے جواب دیا کہ آپ عیسائیہ ہو اگر آپ سے عیسیؑ نکاح کی خواہش ظاہر کرتے اور آپ کی عمر بہت کم ہوتی تو آپ کیا کرتیں؟

اس نے جواب دیا کہ میں نکاح کرنے کو بسر و چشم قبول کرتی اور اس پر فخر کرتی ،تو حضرت نے یہ فرمایا کہ نبی ﷺ کے نکاح کے بارے میں بھی اسی طرح سوچو کہ انسے نکاح کرنا یقینا ایک فخر کی بات تھی

نوٹ۔۔۔جن حضرات نے حضرت عائشہؓ کی رخصتی کے وقت کی عمر 17 یا 19 بتائی ہے وہ باطل محض ہے،اعتراضات سے بچنےکی کوشش ہے

بوقت رخصتی 9 سال ہی عمر تھی،بخاری میں خود حضرت عائشہؓ کی صراحت منقول ہے کہ میری شادی جس وقت ہوئی اسوقت میری عمر 6 سال اور رخصتی کے وقت 9 سال تھی،اور خیال رہے کہ ایک ذکیہ،ذہین ترین اور زبردست عالمہ کے بیان کو ذہول پر محمول کرنا ذہول اور بڑی غلطی ہے

واللہ اعلم بالصواب

Comments