1442) دنیا میں تھکنا ہے، راحت تو جنت میں ہے

 

 یہ دنیا تھکنے کیلیے ہے، راحت تو جنت میں ہے

۔🔹 سیدنا انس بن مالك رضى الله عنه فرماتے ہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا 

”حُفَّتْ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ “

"جنت کی راہ مشقتوں سے بھرپور ہے!"(البخاري : ٦٤٨٧ ، مسلم : ٢٨٢٢)

۔🔹 امام احمد رحمه الله سے پوچھا گیا کہ انسان راحت کا مزہ کب چکھے گا؟ فرمایا 

”عند أول قدم يضعها في الجنة!“

"جب وہ جنت میں پہلا قدم رکھے گا۔"(طبقات الحنابلة لأبي يعلى : ٢٩١/١) 

۔🔹‏ ابن هبيرة الوزير رحمه الله فرماتے ہیں 

”باغي الراحة قبل دخول الجنة  كالكاتب على الماء!“

"جنت میں داخلے سے پہلے راحت ڈھونڈنے والا ایسے ہے جیسے کوئی پانی پر لکھنا چاہے!"

(الإفصاح عن معاني الصحاح : ٢٠٩/٨)

۔🔹 امام ابن القيم رحمه الله فرماتے ہیں 

”المصالح والخيرات واللذات والكمالات، كلها لا تُنال إلا بحظ من المشقة، ولا يُعبر إليها إلا على جسر من التعب ؛ وقد أجمع عقلاء كل أمة على أن النعيم لا يُدرك بالنعيم، وأن من آثر الراحة فاتته الراحة، وأن بحسب ركوب الأهوال واحتمال المشاق تكون الفرحة واللذة ؛ فلا فرحة لمن لا هَمَّ له، ولا لذة لمن لا صبر له، ولا نعيم لمن لا شقاء له، ولا راحة لمن لا تعب له ؛ بل إذا تعب العبد قليلا استراح طويلا.“ 

"مصالح و خیرات اور لذات و کمالات؛ سب ایک مشقت کے بعد حاصل ہوتے ہیں، تھکاوٹ کے پل سے گزرنا ہوتا ہے۔ داناؤں کا اجماع ہے کہ خوشیوں کے راستے میں خوشیاں نہیں ہوتیں، جو راحت کیلیے رک جائے وہ راحت سے محروم ہو جاتا ہے، اور راستے کے خطرات و مشقتوں کے بقدر ہی بعد میں راحت و سکون ملتا ہے۔ جو غم نہیں سہتا وہ خوشی نہیں پاتا، جو صبر نہیں کرتا وہ لذت نہیں چکھتا، جو مشکلیں نہیں دیکھتا وہ آسائش سے بھی محروم رہتا ہے، جو تھکتا نہیں ہے اسے سکون نہیں ملتا۔ طویل تر سکون کیلیے کچھ گھڑی کی تھکاوٹ ضروری ہے۔"(مفتاح دار السعادة : ١٥/٢)

Comments