وہ محترم ہستی جن کی ولادت سے قبل اُن کی والدہ کو قرآن و حدیث کے تحفے ملنے کی بشارت ملی۔وہ محترم شخصیت جو ابھی بارہ برس کے تھے کہ جسے فارسی میں نعت رسول مقبول ﷺ لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔وہ خوش نصیب کہ جنہیں اپنے استاد حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ (خلیفہ مجازحکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ) ”فصیح البیان“ لکھا کرتے تھے۔ وہ خوش بخت کہ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے جن کی خطاب کے بعد یہ کہہ کر تقریر نہ کی کہ ”شاہ جی کی تقریر کے بعد اب میری تقریر کی ضرورت نہیں رہی۔“
مولانا سید ابوذر بخاری ابھی تیس برس کے تھے کہ حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب مہتمم دار العلوم دیوبند نے اُنہیں ”اپنے عہد کا اسماء الرجال کا امام“ قرار دیا۔ پینتیس برس کے ہوئے تو اپنے وقت کی عظیم روحانی شخصیت قطب الاقطاب حضرت شاہ عبد القادر رائیپوریؒ اور اپنے والد ماجد حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے خلافت کی خلعتیں پائیں۔ اپنے عظیم والد گرامی حضرت امیر شریعتؒ کی وفات کے بعد مجاہد ختم نبوت مولانا محمد علی جالندھریؒ، حافظ الحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ اور مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ نے اُن کے سر پر حضرت امیر شریعت کی جانشینی کی دستار رکھی۔خواجہء خواجگان حضرت مولانا خان محمدؒ نے اِس عالی مرتبت کی بابت فرمایا کہ ”اُن کی علمی وجاہت اور روحانی عظمت بے مثال ہے۔“ خطیب حرم مولانا محمد مکی حجازی نے فرمایا کہ ”وہ صحیح معنوں میں حضرت امیر شریعت کے جانشین تھے۔“ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ نے انہیں علماء حق کی آبرو فرمایا۔ مناظر اسلام مولانا عبدالستار تونسویؒ اور حضر ت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کا کہنا تھا کہ وہ اہل سنت کے بے باک محقق، ترجمان اور عظیم دینی مفکر تھے۔ممتاز سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان نے شاہ جی کو ایک حق گو عالم دین اور امیر شریعت کی نشانی سے تعبیر کیا
حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری ؒ وہ خوش بخت انسان تھے، جنہیں اپنے وقت کے عظیم دینی و سیاسی رہنماؤ ں کو دیکھنے اور بعض کی صحبتوں سے فیض یاب ہونے کے مواقع میسر آئے۔مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابولکلام آزاد، مولانا احمد علی لاہوری جیسے بزرگوں کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کیں۔مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبید اللہ انورؒ اور حضرت سید نفیس الحسینیؒ سے برسوں صحبتیں رہیں۔ وہ حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ اس عالی نسبی کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی دینی وجاہت، علمی ثقاہت اور محققانہ استناد میں الگ پہچان اور شناخت پیدا کی۔سیرت، فن اسماء الرجال، علم لغت، تاریخ، شعر و ادب اور بیان وخطابت آپ کی جولان گاہ تھے۔ وسیع المطالعہ تھے۔ کئی کئی گھنٹے تقریر فرماتے۔ آپ وہ پہلے آدمی ہیں، جنہوں نے تحریک تحفظ ناموس صحابہ کا اجرا کر کے پہلی مرتبہ امیر المومنین سیدنا معاویہ ؓ کی یاد میں ”یومِ معاویہ“ منانے کی داغ بیل ڈالی۔ جس کی خاطر اُنہیں جیل کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا، مگر وہ چٹان کی مانند ثابت قدم رہے اور اصحابِ رسول کے تحفظ کا پرچم ہمیشہ بلند رکھا۔
مولانا سید ابوذر بخاریؒ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1951ء علماء کرام کے متفقہ تئیس نکات میں تیئسواں نکتہ یعنی قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا جانا، آپ ہی کی تجویز پر علامہ سید سلیمان ندوی نے شامل کیا تھا۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں جب مرکزی قیادت گرفتار کرلی گئی تو مولانا غلام غوث ہزاروی کے ساتھ آپ ہی وہ دوسری شخصیت تھے، جنہوں نے مجلس عمل کے حکم پر روپوش رہ کر تحریک کو زندہ رکھا اور اسے برگ و بار مہیا کیے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو گولی مارنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 1974ء میں تحریک ختم نبوت کے صف اول کے قائدین میں آپ کا شمار ہوا، اور اکابرو اصاغر کی بے شمار قربانیوں کے نتیجہ میں منکرین ختم نبوت اپنے انجام کو پہنچے۔ جس طرح مرزائیوں کے مرکز قادیان میں حضرت امیر شریعت کی قیادت میں مجلس احرار اسلام نے فاتحانہ قدم رکھا، جامع مسجد احرار، جامع مسجد ختم نبوت اور مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح فروری 1976ء میں مولانا سید ابوذر بخاریؒ کی سیادت میں مجلس احرار نے ربوہ (چناب نگر) میں داخل ہو کر مسلمانوں کی پہلی مسجد ”جامع مسجد احرار“ کا سنگ بنیاد رکھا۔
ایک مرتبہ جب سابق وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان قادیانی نے کہا کہ ”اب کہاں ہے، عطاء اللہ شاہ بخاری؟“ تو آغا شورش کاشمیری نے اپنے جریدہ ہفت روزہ”چٹان“ کے سرورق پر مولانا سید ابوذر بخاریؒ کی تصویر لگا کر لکھا تھا کہ
”یہ ہیں سید عطاءاللہ شاہ بخاری۔“
قربانی و ایثار اور فقر و استغنیٰ خانوادۂ امیر شریعت کی روایت رہی ہے۔ آپ نے اس روایت کو کبھی کمزور نہ ہونے دیا۔ ساری زندگی درویشانہ اور بے نیازانہ گزاردی۔ وہ چاہتے تو اپنی شخصی مقبولیت اور نسبی شناخت کی بدولت، دولت و جاگیر سمیٹ سکتے تھے، لیکن انہوں نے اس کی طرف کبھی پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ روکھی سوکھی کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا اور غیرت مندانہ زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا۔
آپ نے 1949ء میں مجلس احرار سیاست کا میدان چھوڑ کر اپنی تمام سرگرمیوں کو دین کی دعوت، اصلاح معاشرہ اور سب سے بڑھ کر تحفظ ختم نبوت و ناموسِ صحابہؓ کے لیے وقف کیا۔ آپ کی قیادت میں احرار نے اسی محاذ پر اپنی صلاحیتیں صرف کر دیں۔ مولانا سید ابوذر بخاری سراپا احرار تھے اور وہ تادم آخر احرار ہی رہے۔ موسم کی شوخیاں، راہ کی صعوبتیں اور منزل کی کٹھنائیاں اُن کے قدموں کو آگے بڑھنے سے کھبی نہ روک سکیں، بلکہ وہ شیر کی طرح مخالف دریا کی مخالف سمت پر رواں دواں رہے۔
پچاس برس تک تقریر و تحریر کے ذریعے قرآن و حدیث، سیرت النبی اور سیرت ازواج و اصحابِ رسول کی ترویج و اشاعت اُن کا مشن رہا۔۔ دیانت و امانت میں اپنی مثال آپ تھے۔ عطیات کے ایک ایک پیسہ کا حساب رکھتے۔ حافظ قرآن تھے اور قرآن سے اُن کا عشق دیدنی تھا۔صبح شام نماز کے بعد ایک مخصوص وقت تلاوت کے لیے وقف تھا۔ منزل آخر دم تک اتنی پختہ تھی کہ کبھی کسی نے انہیں قرآن مجید کھول کر پڑھتے نہیں دیکھا۔رمضان المبارک میں قیام اللیل کا اہتمام رہا۔خود منزل پڑھتے اور سحر سے پہلے تراویح ختم کرتے تھے۔ایسی بے مثال زندگی آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
گزشتہ دنوں ملک بھر کی طرح ملتان میں بھی شدید بارش ہوئی۔ 28 اگست 2024 کو حضرت امیر شریعت کے پہلو میں آپ کی قبر بارش کی وجہ سے بیٹھ گئی۔ جس سے آپ کا جسم مبارک ظاہر ہو گیا۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جسم مبارک بالکل صحیح حالت میں تھا، یہاں تک کہ کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا۔جانشین امیر شریعت مولانا سید ابوذر بخاری ؒ کے جسم مبارک اور کفن کو اللہ تعالیٰ نے اُن کی وفات کے اُنتیس سال بعد بھی قائم ودائم رکھا، سبحان اللہ۔
اسی دوران ایک ساتھی نے وڈیو بنالی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے۔ قبر کے منہدم ہونے کی اطلاع ملنے پر حضرت امیر شریعت کے پوتے مولانا سید عطاء المنان بخاری وہاں پہنچ گئے اور گورکن سے کہہ کر قبر کو فوراً بند کرا دیا۔یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا معجزہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے حالات ظاہر کرکے ہمیں اُن کی راہ پر چلنے کا سبق دیتا ہے۔ تاکہ ہم بھی اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر حق اور سچ کا جھنڈا بلند کرتے رہیں اور اپنے اسلاف کی طرح زندہ و جاوید ہوجائیں۔
مرنے والے مرتے ہیں مگر فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والو ں کی جبیں روشن ہے، اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں روشن رات میں
Comments
Post a Comment