تیسری جنگ عظیم اور دجال ۔۔۔ حضرت مولانا عاصم عمر صاحب
تاریخ عالم میں ایسا بارہا ہوتا رہا ہے کہ اپنے وقت کی طاقتور قومیں کمزور قوموں کو فتح کرکے ان کو اپنا غلام بناتی رہی ہیں، لیکن جیسے جیسے فاتح قوموں کی طاقت کا سورج ڈھلتا جاتا تھا ویسے ہی غلامی کی زنجیریں بھی ڈھیلی پڑتی جاتی تھیں، لیکن دورِ جدید میں طاقتور قومیں کمزور قوموں کو بغیر ان کے علاقے فتح کئے ہی اپنا غلام بنا لیتی ہیں، اور یہ غلامی اتنی بدترین ہوتی ہے کہ فاتح قوم کے مٹ جانے کے بعد بھی جوں کی توں باقی رہتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو جسمانی غلامی اتنی نقصان دہ اور معیوب نہیں جتنی کہ ذہنی غلامی ہے۔ کیونکہ اگر کسی قوم کی فکر اور سوچ آزاد ہو تو وہ کبھی بھی شکست تسلیم نہیں کرتی، اور موقع پاتے ہی خود کو آزاد کرا لیا کرتی ہے، جبکہ کسی قوم کا ذہنی غلامی میں مبتلاء ہو جانا اس کے اندر سے سوچنے تک کی صلاحیت کو ختم کرکے رکھ دیتا ہے۔
ذہنی غلامی کا شکار قومیں نہ تو اپنے ذہن سے سوچتی ہیں اور نہ ہی حالات کو اپنی نظروں سے دیکھتی ہیں، بلکہ ان کے آقا جس طرف چاہتے ہیں ان کی سوچوں کا رخ موڑ دیتے ہیں، پھر اس پر ستم بالائے ستم کہ یہ بے چارے غلام یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم آزاد سوچ کے مالک ہیں۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں پر نازک سے نازک حالات آۓ، آقائے مدنی ﷺ کے وصال کے فوراً بعد اٹھنے والا ارتداد کا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہ تھا۔ اگر اسلام کے بجاۓ دنیا کا کوئی اور مذہب ہوتا تو اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا، لیکن اس خطرناک فتنے سے مسلمان سرخرو ہوکر نکلے۔
۔1258ء میں فتنہُ تاتار درحقیقت ساری دنیا سے مسلمانوں کا وجود مٹا دینے کی سازش تھی، تاتاری ایک کے بعد ایک مسلم علاقہ فتح کرتے جاتے تھے، یوں لگتا تھا کہ اس تباہی مچاتے سیلاب کو اب کوئی نہیں روک سکے گا کیونکہ کسی قوم کے لئے اس سے بڑی مایوسی اور خوف کی بات کیا ہوگی کہ اس کے دارالخلافہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاۓ، اور خلیفہُ وقت کو چٹائی میں لپیٹ کر، گھوڑوں کے سموں تلے روند ڈالا جائے، لیکن اس سب کے باوجود بھی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری اور تاتاریوں کے خلاف میدان جہاد میں نکل آۓ اور بالآخر ان کو شکست دی۔
غرض یہ کہ جب تک مسلمانوں میں خلافت رہی مسلمان کبھی کسی قوم کے ذہنی غلام نہیں بنے بلکہ انکی سوچیں ہمیشہ آزاد رہیں، لیکن خلافت ٹوٹنے کے بعد جہاں ایک طرف مسلم علاقوں پر کافر قبضہ کرتے چلے گئے وہیں انکے ذہن بھی کافروں کی غلامی میں جاتے رہے، اس غلامی کے اثرات اتنے مؤثر اور دیرپا ثابت ہوئے کہ جسمانی آزادی کے باوجود بھی مسلمان ذہنی طور پر کفری طاقتوں کے غلام ہی رہے۔ ذہنی غلامی کی سب سے بڑی نحوست یہ ہوتی ہے کہ ذہنی طور پر غلام قوم اچھے کو برا، برے کو اچھا، نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع، دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن سمجھ رہی ہوتی ہے۔ اسی کو علامہ اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
اسی ذہنی غلامی کے زہریلے اثرات نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ اس دور میں اسلامی خلافت کی کوئی ضرورت نہیں اور اب جمہوریت کا دور ہے۔ اس طرح جمہوریت کو اسلامی خلافت کا نعم البدل قرار دیدیا گیا۔
اسی ذہنی غلامی نے مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے مطابق سوچنے کی صلاحیت سے دور کرکے رکھ دیا، جبکہ وہ حالات کا قرآن و حدیث کی روشنی میں تجزیہ کرتے، لیکن آج اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی حالات کو مغربی میڈیا کی نظر سے دیکھ کر تجزیہ کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں نام نہاد دانشور اور مفکرین اور ادیب حضرات اپنے قلم کو انہی راستوں پر دوڑاتے ہوۓ نظر آتے ہیں، جو خود مغربی مفکرین نے اپنے ہاتھ سے بناۓ ہوتے ہیں۔ اور یہ دانشور انہی راستوں پر اپنے قلم کو دوڑا کر جب منزل تک پہنچتے ہیں تو یہ وہی منزل ہوتی ہے جو مغربی مفکرین پہلے سے طے کر چکے ہوتے ہیں، حالانکہ یہ حضرات یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں، موجودہ دور میں آپ اکثر یہی بات دیکھیں گے۔
مثال کے طور پر روس کا افغانستان میں آنا، اور افغان مجاہدین کا جہاد اور فتح، طالبان کی اسلامی حکومت اور امریکہ کا افغانستان پر حملہ، امریکہ کا خلیج میں آنا اور عراق پر قبضہ، اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم، گیارہ ستمبر کے امریکہ پر حملے، اس طرح کے دیگر واقعات میں ان دانشوروں کے تجزیوں کے نتیجوں کا خلاصہ ایسا ہوگا جس میں مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے بجاۓ حوصلہ شکنی ہوتی ہوگی، اللہ تعالیٰ کی طاقت کو سپرپاور ثابت کرنے کے بجاۓ کسی کافر ملک کو سپرپاور ثابت کیا جائے گا کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے بس کافروں کی مرضی کے مطابق ہی ہوتا ہے۔
روس کے خلاف افغان جہاد کو مکمل امریکی امداد اور سیاست کی نظر کرکے مسلمانوں کے بڑھتے حوصلوں کو دبانے کی کوشش کی گئی، حالانکہ اتنی بھی تحقیق گوارا نہیں کی گئی کہ روس کو شکست امریکی اسلحے سے دی گئی یا آسمان سے اترتے فرشتوں کے ذریعے یہ فتح حاصل کی گئی۔ اگر یہ امریکی مفاد کی جنگ ہوتی تو اس جنگ سے پھر اللہ رب العزت کو بھلا کیا غرض ہوسکتی تھی، لیکن یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ مکمل افغان جہاد میں مجاہدین کے ساتھ فرشتے آتے رہے، جن کو خود روسی افسروں نے بھی بارہا دیکھا۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس جہاد میں مکمل اللہ کی مدد تھی تو پھر ہمارے کالم نگار حضرات اس جنگ کو مکمل امریکہ کی جھولی میں کیوں ڈال دیتے ہیں؟
کیا صرف اس لئے کہ اس طرح کا مضمون سب سے پہلے کسی امریکی نے لکھا تھا کہ امریکہ سوویت یونین کو ختم کرنے کے لئے افغان مجاہدین کی مدد کر رہا ہے، اسی طرح امریکہ کی عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کو مکمل اقتصادیات کی جنگ قرار دیا جارہا ہے، حالانکہ عالم کفر خود اس جنگ کے مذہبی ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔
نام نہاد مسلم دانشوروں کے بقول عراق پر قبضہ تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے کیا گیا، جبکہ افغانستان پر قبضہ وسط ایشیاء کے معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے کیا گیا۔ یہ وہی تجزیے ہیں جو خود یہودی اپنے کالم نگاروں کے ذریعے اپنے اخبارات و رسائل میں حقیقی رپورٹ کے نام پر شائع کراتے ہیں اور ہمارے نام نہاد دانشور اور مفکرین جن کی تمام دانش اور تمام فکر، میڈ اِن یو ایس اے ہوتی ہے، ان تحقیقی رپورٹوں کو پڑھ کر ان کے پیچھے اپنے قلم کو گھسنا شروع کر دیتے ہیں، ایسے دانشوروں کے بارے میں یہودی پروٹوکولز میں لکھا ہے کہ "یہ لوگ ہمارے ہی ذہن سے سوچتے ہیں جو رخ ہم ان کو دیتے ہیں یہ اس پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔
جہاں تک تعلق وسائل پر قبضے کا ہے تو اگر آج سے پچاس سال پہلے جنگوں کے بارے میں یہ کہا جاتا کہ یہ دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے ہیں تو کسی حد تک درست تھا، لیکن اس دور میں ان جنگوں کو تیل اور معدنی وسائل کی جنگ کہنا اس لئے درست نہیں کہ امریکہ پر حکمرانی کرنے والی اصل قوتیں اب تیل اور دیگر دولت کے مرحلے سے بہت آگے جاچکی ہیں، اب ان کے سامنے آخری ہدف ہے اور وہ اپنی چودہ سو سالہ جنگ کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔
دنیا کے تمام وسائل پر اگرچہ امریکہ کا قبضہ نہیں ہے، لیکن ان تمام وسائل پر ان یہودیوں کا قبضہ ہے جن کے قبضے میں امریکہ ہے، جبکہ یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ افغانستان و عراق پر چڑھائی کرانے والی وہی قوتیں ہیں تو پھر ایک ایسی چیز جو پہلے سے ان کے پاس ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے جنگ کرنے کی بھلا ان کو کیا ضرورت پیش آسکتی ہے۔
ہمارے کہنے کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ امریکہ کو ان وسائل سے کوئی سروکار نہیں، سروکار ہے لیکن ان جنگوں کا پہلا مقصد یہ وسائل نہیں بلکہ پہلا مقصد وہ ہے جو محمد عربی ﷺ نے چودہ سو سال پہلے بیان فرما دیا ہے۔
یہودی کالم نگار جب ان جنگوں کو اقتصادی جنگ کا نام دیتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان ان جنگوں کو مذہبی جنگ نہ سمجھنے لگیں کہ یہ چیز ان کے اندر جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کو زندہ کر دے گی، یہ ٹھیک وہی طریقہ کار ہے جو برہمن بھارت کے اندر مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے بعد ان مسلم کش فسادات کو بی جے پی کی سیاست کا نام دے کر مسلمانوں کو ٹھنڈا کر دیتا ہے، اور مذہبی تعصب کو سیاست اور ووٹ پالیٹکس کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔
سوچوں میں اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان موجودہ حالات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ ان کی بنیاد مغربی میڈیا کے تجزیے اور تبصرے ہوتے ہیں، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ آج اکثر پڑھے لکھے لوگوں کے سوچنے کا انداز مغربی ہے اور لوگ مغرب کی ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔
جبکہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی قوم کا اپنے عقیدے اور نظریے، اپنی بنیادوں اور اصولوں سے گہرا تعلق رہے گا وہ قوم اس وقت تک کسی کی ذہنی غلام نہیں بن سکتی۔ دنیا کی کوئی بھی قوم اسی وقت تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے جب تک اس کا اپنے افکار و نظریات، عقیدے اور اصولوں کے ساتھ گہرا تعلق رہتا ہے۔ کسی نظریے اور عقیدے کے بغیر کوئی بھی قوم اس قافلے کی طرح ہوتی ہے جو ڈاکووں کے ہاتھوں لٹنے کے بعد صحراء میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو اور ایسے قافلے کی بدنصیبی یہ ہوتی ہے کہ یہ ہر رہزن کو رہبر سمجھ کر اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیتا ہے۔
بار بار دھوکہ کھانے کے بعد بھی ان کا یہی خیال ہوتا ہے کہ اس بار ان کا سفر صحیح سمت میں ہو رہا ہے۔ اس طرح یہ قافلہ اس وقت تک بھٹکتا ہی رہتا ہے جب تک یہ قافلے والے اس راستے کا پتہ نہیں چلا لیتے جہاں ان کو لوٹا گیا تھا، چنانچہ اگر آج بھی ہم اپنی منزل کو پانا چاہتے ہیں اور حالات کو درست انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اصولوں اور بنیادوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔
جب تک ہم یہ پتہ نہیں لگا لیتے کہ موجودہ دور کے بارے میں قرآن و حدیث کیا کہتے ہیں، تب تک ہم صورت حال کو بالکل بھی نہیں سمجھ سکتے۔
مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل بنانا ہوگا اور مغربی میڈیا کی نام نہاد تحقیقی رپورٹیں پڑھ کر تجزیے کرنے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ ورنہ قیامت تک ہم حالات کا صحیح انداز نہیں کر سکیں گے اور اچانک قیامت ہمارے سروں پر پہنچ جاۓ
اگر ہم یوں ہی تجزیے کرتے رہے، تو نہ ہی ماضی کا آئینہ درست تصویر دکھاۓ گا اور نہ مستقبل کی تصویر واضح ہوگی۔ نہ یورپ کی نشأۃ ثانیہ کی وجہ سمجھ پائیں گے، نہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی حقیقت کا سراغ ملے گا، اور نہ ہی امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے ڈرامے کی ہوا لگے گی، اسی طرح اب امریکہ چین یا بھارت چین دشمنی کی حقیقت تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
نبی کریم ﷺ نے قیامت تک پیش آنے والے واقعات کو کھول کر بیان فرمایا، تاکہ مسلمان ان احادیث کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل مرتب کرسکیں، آنے والے وقت کے لئے خود کو ابھی سے تیار کریں، ایک طے شدہ حقیقت سے نظریں چرانے کے بجاۓ اس سے مقابلے کی تیاری کریں۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو دین کی سمجھ عطا فرماۓ اور ہم سب کو دین و دنیا میں کامیابی سے ہمکنار فرماۓ ... آمین
پہلا باب
نبی کریم ﷺ کی پیشن گوئیوں اور حضرت مہدی علیہ الرضوان کے بیان میں
حضرت مہدی علیہ الرضوان کے خروج کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا چودہ سو سالہ یہ نظریہ ہے کہ وہ آخری دور میں تشریف لائیں گے اور امت مسلمہ کی قیادت کریں گے، اللہ کی زمین پر قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے اللہ کا قانون نافذ کریں گے، جس کے نتیجے میں دنیا میں امن و انصاف کا بول بالا ہو جاۓ گا
البتہ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ یہ وہ مہدی نہیں ہوں گے جن کے بارے میں اہل تشیع نے یہ عقیدہ گھڑ رکھا ہے کہ وہ مہدی حسن عسکری ہیں جو سمارا کی پہاڑیوں سے نکلیں گے۔ اس بارے میں علماء امت نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں جن میں اس نظریہ کو غلط ثابت کیا ہے۔
حضرت مہدی علیہ الرضوان کا نسب
عن ام سلمة قالت سمعت رسول ﷺ يقول المهدي من عترتي من ولد فاطمة. ( ابو داؤد) ❶
ترجمہ: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ”مہدی“ میرے خاندان میں سے حضرت فاطمہ رض کی اولاد سے ہوں گے۔
۔❷ حضرت ابو اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن کی طرف دیکھ کر کہا: میرا بیٹا جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا سردار ہے۔ عنقریب اس کی پشت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام تمہارے نبی کے نام پر ہوگا وہ اخلاق و عادات میں حضور ﷺ کے مشابہ ہوگا، ظاہری شکل و صورت میں آپ ﷺ کے مشابہ نہ ہوگا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینے کا واقعہ بیان فرمایا۔ ( ابوداؤد)
۔❸حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مہدی میری اولاد میں سے ہونگے، روشن و کشادہ پیشانی اور اونچی ناک والے۔ وہ روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی، وہ سات برس تک زمین پر برسرِ اقتدار رہیں گے۔ ( ابوداؤد)
فائدہ: حضرت مہدی والد کی طرف سے حضرت حسن کی اولاد میں سے ہونگے اور ماں کی طرف سے حضرت حسین کی اولاد سے ہوں گے۔ (عون المعبود شرح ابو داؤد کتاب المهدی)
حضرت مہدی علیہ الرضوان سے پہلے دنیا کے حالات اور نبی کریم ﷺ کی پیشن گوئیاں
۔❹ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے یہ رفقاء (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) بھول گئے ہیں یا (وہ بھولے تو نہیں لیکن کسی وجہ سے وہ) ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بھول گئے ہیں۔ خدا کی قسم رسول کریم ﷺ نے کسی بھی ایسے فتنہ پرداز کو ذکر کرنے سے نہیں چھوڑا تھا جو دنیا کے ختم ہونے تک پیدا ہونے والا ہے، اور جس کے ماننے والوں کی تعداد تین سو یا تین سو سے زیادہ ہوگی۔ آپ ﷺ نے ہر فتنہ پرداز کا ذکر کرتے وقت ہمیں اس کا، اس کے باپ کا اور اس کے قبیلہ تک کا نام بتایا تھا۔ ( ابوداؤد )
۔❺ عن حذيفة قال قام فينا رسول الله ﷺ قائما فيما ترك شيئا يكون في مقامه ذالك الى قيام الساعة الا حدثه من حفظه نسىيه من نسىيه قد علمه اصحابه هولاء وانه ليكون من الشى فاُذكره كما يذكره الرجل وجهه الرجل اذا غاب عنه ثم اذا راه عارفه. ( ابو داؤد)
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوۓ اور قیامت تک ہونے والی کوئی بات بیان کرنے سے نہیں چھوڑی۔ جس نے یاد کر لیا اس نے یاد کر لیا اور جس نے بھلایا اس نے بھلا ڈالا۔ بلاشبہ صحابہ اس کا علم رکھتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ جب اس میں سے کوئی بات ہوتی ہے تو مجھے وہ یاد آجاتا ہے جیسے کوئی آدمی کسی کو اس کی غیر حاضری میں یاد کرتا ہے اور پھر جب وہ اس کو دیکھتا ہے تو اس کو پہچان لیتا ہے
۔❶ علامہ ناصرالدین البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ (صحیح وضعیف ابی داؤد : ۴۲۸۴)
۔❷ علامہ ناصرالدین البانی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ (صحیح وضعیف ابی داؤد : ۴۲۸۵)
۔❸ علامہ ناصر الدین البانی نے اس کو حسن کہا ہے۔ (صحیح وضعیف ابی داؤد)
۔❹ علامہ ناصر الدین البانی نے اس کوضعیف کہا ہے۔ (صحیح وضعیف ابی داؤد)
۔❺ علامہ ناصر الدین البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ (صحیح ابی داؤد علامہ البانی)
تیسری جنگِ عظیم اور دجال، قسط: 02
مدینہ منورہ سے آگ کا نکلنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک نہیں آۓ گی جب تک کہ حجاز سے ایک آگ نہ بھڑک اٹھے، جو بصریٰ کے اونٹوں کی گردن روشن کر دے گی۔ (بخاری ومسلم)
فائدہ: اس حدیث میں جس آگ کا ذکر آیا ہے اس آگ کے بارے میں حافظ ابن کثیر اور دیگر مورخین کا کہنا ہے کہ اس آگ کے نمودار ہونے کا حادثہ پیش آچکا ہے۔ یہ آگ جمادی الثانی 650ھ جمعہ کے دن مدینہ منورہ کی بعض وادیوں سے نمودار ہوئی اور تقریباً مہینوں تک چلی۔ راویوں نے اس کی کیفیت دیکھی ہے کہ اچانک حجاز کی جانب سے وہ آگ نمودار ہوئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آگ کا پورا ایک شہر ہے اور اس میں قلع یا برج اور کنگورے جیسی چیزیں موجود ہیں، اس کی لمبائی چار فرسخ اور چوڑائی چار میل تھی۔ آگ کا سلسلہ جس پہاڑ تک پہنچتا اس کو شیشے اور موم کی طرح پگھلا دیتا۔ اس کے شعلوں میں بجلی کی کڑک جیسی آواز اور دریا کی موجوں جیسا جوش تھا۔ اور یہ محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے اندر سے سرخ اور نیلے رنگ کے دریا نکل رہے ہوں، وہ آگ اسی کیفیت کے ساتھ مدینہ منورہ تک پہنچی، مگر عجیب بات یہ تھی کہ اس کے شعلوں کی طرف سے جو ہوا مدینہ منورہ کی طرف آرہی تھی وہ ٹھنڈی تھی۔
علماء نے لکھا ہے کہ اس آگ کی لپیٹیں مدینہ کے تمام جنگلوں کو روشن کئے ہوئے تھیں، یہاں تک کہ حرم نبوی اور مدینہ کے تمام گھروں میں سورج کی طرح روشنی پھیل گئی تھی، لوگ رات کے وقت اس کی روشنی میں اپنے سارے کام کاج کرتے تھے، بلکہ ان دنوں میں اس علاقے کے اوپر سورج اور چاند کی روشنی ماند ہوگئی تھی۔
مکہ مکرمہ کے بعض لوگوں نے یہ شہادت دی کہ وہ اس وقت یمامہ اور بصری میں تھے تو وہ آگ انہوں نے وہاں بھی دیکھی۔
اس آگ کی عجیب خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ یہ پتھروں کو تو جلا کر کوئلہ کر دیتی تھی لیکن درختوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ کہتے ہیں جنگل میں ایک بہت بڑا پتھر تھا جس کا آدھا حصہ حرم مدینہ کی حدود میں تھا اور آدھا حصہ حرم مدینہ سے باہر تھا۔ آگ نے اس آدھے حصہ کو جلا کر کوئلہ کر دیا جو حرم مدینہ سے باہر تھا لیکن جب آگ اس حصہ تک پہنچی جو حرم میں تھا تو ٹھنڈی پڑگئی اور پتھر کا وہ آدھا حصہ بالکل محفوظ رہا۔
بصریٰ کے لوگوں نے اس بات کی گواہی دی کے ہم نے اس رات آگ کی روشنی میں جو حجاز سے ظاہر ہو رہی تھی، بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن دیکھا
(البدایہ والنہایہ: ابن کثیر)
سرخ آندھی اور زمین کے دھنس جانے کا عذاب
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب میری امت پندرہ خصلتوں کا ارتکاب کرے گی تو ان پر بلائیں نازل ہوں گی۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ کون سے افعال ہوں گے؟
فرمایا: جب مالِ غنیمت کو اپنی دولت سمجھا جائے گا، اور امانت کو غنیمت کی طرح سمجھا جائے، اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جائے، اور جب آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے گا، اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے گا، اور اپنے دوست کے ساتھ احسان کرے گا، اور اپنے باپ کے ساتھ بے وفائی کرے گا، اور مساجد میں آوازیں بلند کی جائیں گی، اور قوم کا سب سے ذلیل آدمی قوم کا حاکم ہوگا، اور آدمی کا اکرام اس کے شر سے بچنے کے لئے کیا جائے گا، اور شراب پی جائے گی، (کثرت سے) اور (مرد) ریشم پہنیں گے، اور گانے والیاں، اور گانے بجانے کے آلات بنالئے جائیں گے، اور اس امت کے بعد کا طبقہ پہلے لوگوں پر لعنت کرے گا، پس اس وقت انتظار کرنا سرخ آندھی کا، یا زمین کے دھنس جانے کا، یا چہرے مسخ ہو جانے کا۔ (ترمذی شریف، ج: ۴، ص: ۴۹۴، المعجم الاوسط ج: ۱ ص ۱۵۰)
فائدہ: اس حدیث میں مالِ غنیمت کو اپنی دولت سمجھنے کے بارے میں آیا ہے۔ اس سے مجاہدین کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ مال غنیمت میں بغیر امیر کی اجازت کے کوئی تصرف نہیں کرنا چاہئے۔ ابلیس ہر انسان کو اس کی نفسیات کے اعتبار سے ہی گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ سو اس بارے میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ بلکہ بیت المال میں بھی بغیر اجازت کے کوئی دست درازی نہیں کرنی چاہئے۔ اسی طرح مجاہدین شیطان کے دھوکہ سے بچ کر اپنے جہاد کو مقبول بنا سکتے ہیں، ورنہ کتنے ہی لوگ برسہا برس تک جہاد کرتے رہتے ہیں، لیکن تھوڑی سی مالی خیانت کی وجہ سے اپنا جہاد خراب کر بیٹھتے ہیں۔ اس لئے اس راستے کی نزاکتوں کو ہر ساتھی کو سمجھنا چاہئے۔
شراب اس وقت بھی عام ہے۔ پاکستان اگرچہ ابھی اس سے محفوظ ہے، لیکن جس روشن خیالی کی جانب اس کو لیجایا جا رہا ہے اور اس کا حال تیونس اور ترکی جیسا کرنے کی کوشش میں لگے ہے، جہاں مسجد کے باہر شراب کی دکان ہوتا ہے۔
پہلی امتوں کی روش اختیار کرنا
عن أبي سعيدٍ الخدري رضی اللہ عنہ قال قال رسول الله لتتبعن سنن الذين من قبلكم. شبراً بشبر وذراعاً بذراع حتى لو دخلوا في حجر ضب لاتبعتموهم قلنا يا رسول الله اليهود والنصارى قال فمن. (بخاری: ج: ۳، ص: ۱۲۷۴، مسلم: ج: ۴، ص: ۲۰۵۴، صحیح ابن حبان: ج: ۱۵، ص: ۱۹۵)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم ضرور پہلے لوگوں کی روش اور طریقہ کی مکمل طور پر اتباع کرو گے۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوۓ تو تم بھی ان کی اتباع میں اس میں داخل ہوگے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سے ہم نے دریافت کیا یا رسول اللہ (پہلے والوں سے مراد) یہود و نصاریٰ ہیں؟
تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو اور کون ہیں؟ (یعنی وہی ہیں)۔
فائدہ: اس وقت مسلمانوں کے اندر اکثر وہ بیماریاں پائی جاتی ہیں جن میں پہلی امتیں مبتلاء تھیں۔ زناء، شراب، جوا، بے ایمانی، ناحق قتل کرنا، اللہ کی کتاب میں تحریف کرنا، نبی ﷺ کی سیرت و تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرنا، یہودیوں کی طرح دین کی ان باتوں پر عمل کرنا جو نفس کو اچھی لگتی ہیں اور ان باتوں کو پسِ پشت ڈال دینا جو نفس پر دشوار ہوں، یتیموں اور بیواؤں کا مال کھانا، طاقتور کے خوف یا مالدار سے پیسہ لینے کے لئے احکامِ الٰہی میں تحریف و تاویل کرنا وغیرہ۔
مساجد کو سجانے کا بیان
عـن أنس بن مالك قال قال رسول اللہ ﷺ لا تقوم الساعة حتى يتباهى الناس في المساجد. (صحیح ابن خزیمہ: ج: ۲، ص: ۲۸۲، صحیح ابن حبان: ج: ۴، ص: ۴۹۳)
ترجمہ: حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لوگ مسجدوں (میں آنے اور بنانے) میں ایک دوسرے کو دکھاوا نہ کرنے لگیں۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں آتے وقت بھی ایسے انداز میں آئیں گے کہ ایک دوسرے کو اپنی دولت و سطوت دکھانا مقصود ہوگا، اور مسجدیں بنانے میں بھی دکھاوا ہوگا۔ ہر علاقے ولے ایک دوسرے سے خوبصورت مساجد بنانے کی کوشش کریں گے۔
عن ابى الدرداء رضى الله تعالى عنه قال اذا زخرفتم مساجدكم وحليتم مصاحفكم فالدمار عليكم. (رواه الحكيم الترمذي في نوادر الاصول عن ابي الدرداء ووقفه ابن المبارك في الزهد وابن ابي الدنيافى المصاحف عن ابى الدرداء) ( كشف الخفاء: ج ١ ص ٩٥)
ترجمہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب تم اپنی مساجد کو سجانے لگو گے اور اپنے قرآن کو (زیور وغیرہ سے) آراستہ کرنے لگو گے تو تمہارے اوپر ہلاکت ہوگی۔
عـن بـن عبـاس قـال مـا كثرت ذنـوب قـوم إلا زخرفت مساجدها وما زخـرفـت مـسـاجـدها إلا عند خروج الدجال. فيه اسحاق الكعبي وليث بن ابی سليم وهما ضعيفان. (السنن الواردة في الفتن: ج: ۴، ص: ۸۱۹)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کسی قوم کے گناہ زیادہ ہو جاتے ہیں تو ان کی مسجدیں بہت زیادہ خوبصورت بنائی جاتی ہیں اور خوبصورت مساجد دجال کے خروج ہی کے وقت میں بنائی جائیں گی۔ (اس روایت میں اسحاق الکعبی اور لیث ابن ابی سلیم دونوں راوی ضعیف ہیں۔)
فائدہ: ٹھیک کہتے ہیں کہ غلامی میں قوموں کی سوچیں بھی الٹ جاتی ہیں۔ آج اگر کسی علاقے میں خوبصورت مسجد نہ ہو تو اس علاقے والوں کو یوں سمجھا جاتا ہے جیسے اللہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ جہاں مسجد خوبصورت بنی ہو ان کو کہا جاتا ہے کہ یہ بڑے دین دارلوگ ہیں، لیکن کسی کو پتہ نہیں کہ اللہ کی نظر میں ان کی کیا حقیقت ہے؟
اگر کوئی اہلِ دل ان احادیث کا عملی تجربہ کرنا چاہتا ہے تو کچھ دن ان علاقوں کی مسجدوں میں سجدے کرکے دیکھے جہاں مسجدیں کچی اور سادہ ہوتی ہیں، پھر اس کو سجدوں کی حلاوت کا احساس ہوگا۔
عـن عـلـي رضی اللہ عنہ أنه قال يأتي على الناس زمان لا يبقى من الاسلام إلا إسمه ولا مـن الـقـرآن إلا رسـمـه يـعـمرون مساجدهم وهى من ذكر الله خراب شر أهل ذلك الزمن علما ئهم منهم تخرج الفتنة واليهم نعود. (تفسیر قرطبی: ج: ۱۲، ص ۲۸۰)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف الفاظ رہ جائیں گے، وہ مسجدیں تعمیر کریں گے، حالانکہ وہ اللہ کے ذکر سے خالی ہوگی، اس زمانے میں لوگوں میں سب سے بدترین علماء ہوں گے، انہی سے فتنے نکلیں گے اور ان ہی میں واپس لوٹیں گے۔
فائدہ ¹: اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد ایک ارب چالیس کروڑ تک ہے، لیکن اسلام کی حالت کیا ہے کہ کسی ایک ملک میں بھی اسلامی نظام نہیں ہے، زبان سے تو سب کلمہ پڑھ رہے ہیں کہ اللہ تیرے سوا کسی کو حاکم نہیں مانیں گے لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر سیکڑوں معبود (حاکم) بنا رکھے ہیں۔ سجدے میں گر کر اللہ کی برتری کا اعلان کرنے والوں کی تعداد تو بہت ہے، پر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی حاکمیت اعلی کو انسانوں کے بنائے ہوئے کفریہ جمہوری نظام کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے۔ جو کلمہ مسلمان پڑھتا ہے وہ اس کا اللہ کے ساتھ ایک معاہدہ ہے کہ اب وہ اللہ کے علاوہ ہر قوت کا، ہر نظام کا اور ہر طاغوت کا انکار کرلیا اور نہ تو زبان سے اور نہ ہی اپنے عمل سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرےگا
لیکن آج کے مسلمان اللہ کو بھی راضی رکھنا چاہتے ہیں اور طاغوت کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ قرآن نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا: ﴿ ذلك بـانـهـم قالوا للذين كرهوا ما نزل الله سنطيعكم في بعض الامر﴾ یہ (گمراہی) اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے ان (کافر لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے نازل کردہ (یعنی قرآن) سے نفرت کی، یہ کہا کہ ہم بعض باتوں میں تمہاری پیروی کریں گے
(یعنی قرآن کی ساری باتیں نہیں مانیں گے کچھ تمہاری بھی مانیں گے۔)
فائدہ ²: اس روایت میں علماء سے مراد علماء سوء ہیں۔ علماء سوء کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ: اگر بنی اسرائیل کے علماء کا حال دیکھنا ہو تو علماء سوء کو دیکھ لو۔ (الفوز الکبیر)
سود کا عام ہو جانا
عن أبي هريرة أن رسول اللہ ﷺ قال يأتى على الناس زمان يأكلون فيه الـربـا قـال قيـل لـه الناس كلهم قال من لم يأكله منهم ناله من غباره.
(ابوداؤد: ج ۳ ص۲۴۳، مسند احمد: ج ۲ ص ۴۹۴، مسندابی یعلی: ج ۱۱ ص ۱۰۶)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایساز مانہ آۓ گا کہ اس میں لوگ سود کھائیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ کسی نے پوچھا کیا تمام لوگ (سود کھائیں گے)؟ تو حضرت محمد ﷺ نے فرمایا "ان لوگوں میں سے جو شخص سود نہیں کھائے گا اس کو سود کا کچھ غبار پہنچے گا۔
فائدہ: یہ حدیث اِس دور پر کتنی صادق آتی ہے۔ آج اگر کوئی سود کھانے سے بچا ہوا بھی ہے تو اسکو سود کا غبار ضرور پہنچ رہا ہے۔ اور نام نہاد دانشوروں کے ذریعے سودی کاروبار پر اسلام کا لیبل لگا کر امت کو سود کھلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
منافق بھی قرآن پڑھے گا
عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ ﷺ قال سيأتى على امتى زمان تكثر فيه القراء وتقل الفقهاء ويقبض العلم ويكثر الهرج قالوا وما الهرج يا رسول الله قـال الـقـتـل بينكم ثم يأتي بعد ذلك زمان يقرأ القرآن رجال لا يجاوز تراقيهم ثـم يـأتـى مـن بـعد ذلك زمان يجادل المنافق الكافر المشرك بالله المؤمن بمثل ما يقول هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه. وافقه الذهبي رحمہ اللہ. ( المستدرک على الصحيحين، ج: ۴، ص: ۵۰۴)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئیگا کہ ان میں قراء بہت ہوں گے اور دین کی سمجھ رکھنے والے کم ہوجائیں گے، علم اٹھالیا جائیگا اور ہرج بہت زیادہ ہو جائیگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یہ ہرج کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے درمیان قتل۔ پھر اسکے بعد ایسا زمانہ آئیگا کہ لوگ قرآن پڑھیں گے حالانکہ قرآن انکے حلق سے نہیں اتریگا، پھر ایسا زمانہ آئیگا کہ منافق، کافر اور مشرک مومن سے (دین کے بارے میں) جھگڑا کرینگے۔ حاکم رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس سے اتفاق کیا ہے۔
فائدہ: اس وقت ہر طرح کے پڑھے لکھے لوگ کثرت سے موجود ہیں، مختلف علوم میں تخصص اور ماسٹر کرایا جارہا ہے، لیکن دین کی سمجھ رکھنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں، جو شان ہمارے اسلاف میں نظر آتی تھی کہ باطل کو ہزار پردوں میں بھی پہچان لیا کرتے تھے، اب وہ بات بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ قرآن کی سمجھ اور قرآن کا علم اہلِ علم طبقے میں بھی مفقود نظر آتا ہے، حالانکہ اور علوم میں انتہائی توجہ صرف کی جاتی ہے، معلومات کا سمندر تو بہت نظر آتا ہے لیکن علم کا فقدان ہے۔
منافق اور مشرک قرآن کی آیات کو آڑ بناکر اہلِ حق سے بحث ومبادی کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے باطل اقدامات کو قرآن وسنت سے ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔
حضرت ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا: میں جن باتوں کا اپنی امت پر خطرہ محسوس کرتا ہوں ان میں زیادہ خوف والی بات یہ ہے کہ ان کیلئے مال کی زیادتی ہو جائے گی جس کی وجہ سے ایک دوسرے سے حسد کریں گے اور آپس میں لڑیں گے اور ان کیلئے قرآن کا پڑھنا آسان ہو جائے گا۔ چنانچہ اس قرآن کو ہر نیک، فاسق و فاجر اور منافق پڑھے گا اور یہ لوگ فتنے پھیلانے اور اس کی تاویل کی غرض سے اس کے ذریعہ مومن سے جھگڑا کریں گے۔ حالانکہ اللہ تعالی کے سوا اس کی تاویل وتفسیر کو کوئی نہیں جانتا، (یعنی وہ آیات جن کا علم صرف اللہ ہی کو ہے) اور جو علم میں پختہ کار ہوں گے وہ بھی (ان آیات کے بارے میں) یوں کہیں گے کہ ہم اس قرآن پر ایمان لاۓ۔ ( الآحاد والمثانی: ج ۴ ص ۴۵۳)
فائدہ: مال کی زیادتی اس وقت عام ہے اور عرب ممالک میں مال کی ریل پیل ہے، جس کی وجہ سے تمام فتنے جنم لے رہے ہیں۔ قرآن کا پڑھنا اتنا آسان ہوگیا کہ اب اسکو مختلف ٹی وی چینلز پر عربی رسم الخط کے ساتھ انگلش رسم الخط میں بھی پیش کیا جارہا ہے۔ اس طرح اگر کسی کو عربی میں قرآن نہیں پڑھنا آتا تو وہ انگریزی رسم الخط میں پڑھ سکتا ہے۔ ہر فاسق ومنافق آج قرآن پڑھتا نظر آتا ہے، بلکہ اس میں بغیر علم کے اپنی رائے زنی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ترکی، مصر، تیونس اور امارات کے بعد اب ہمارے ملک میں بھی قرآن کی تفسیر وہ لوگ کر رہے ہیں جنکو ذرہ برابر بھی علم نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک طرف فلموں اور ڈراموں میں کام کرتے ہیں اور امت کو بے حیائی اور بے شرمی کا درس دیتے ہیں اور دوسری جانب اللہ کی کتاب کی ان آیات میں رائے زنی کرتے ہیں جس کا علم اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے
سب سے پہلے خلافت ٹوٹے گی
عن أبي أمامة الباهلي رضی اللہ عنہ عن رسول الله ﷺ قال لتنقضن عرى الاسلام غزوة غزوة فكلما انتقضت عروة تشبـت الـنـاس بـالتـى تـليـهـا فأولهن نقضاً الحكم وآخرهن الصلاة. (شعب الایمان: ج: ۴، ص: ۳۲۶، المعجم الکبیر: ج ۸، ص: ۹۸، مواردالظمآن: ج: ۱، ص: ۸۷)
ترجمہ: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: اسلام کی کڑیاں ضرور ایک ایک کرکے ٹوٹیں گی، چنانچہ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کڑی کو پکڑ لیں گے۔ ان میں سب سے پہلے جو کڑی ٹوٹے گی وہ اسلامی نظامِ عدالت کی کڑی ہوگی اور سب سے آخر میں ٹوٹنے والی کڑی نماز کی ہوگی۔
فائدہ: یعنی مسلمان جس چیز کو سب سے پہلے چھوڑیں گے وہ اسلامی عدالتی نظام ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سب سے پہلے ٹوٹنے والی کڑی ’’امانت‘‘ کی ہوگی۔ شریعت کی اصطلاح میں لفظِ امانت بہت وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ جیساکہ قرآن میں ہے:
انا عرضنا الامانة على السموات والارض والجبال
ترجمہ: بیشک ہم نے’’امانت‘‘ کو زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیش کیا پر انہوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کردیا اور وہ اس (اہم ذمہ داری کے بار) سے ڈر گئے اور اس کو انسان نے اٹھا لیا۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے یہاں امانت کی تفسیر یوں فرمائی ہے۔ ﴿الـذيـن والفرائض والحدود.﴾ ❶ یعنی حقوق، فرائض، اور حدود اللہ یعنی اسلام کے عدالتی نظام سے متعلق احکامات اور یہ سب اسلامی خلافت کے تحت صحیح طور پر انجام پاتے ہیں۔ چنانچہ پہلی چیز جو اس امت سے اٹھے گی وہ خلافت ہوگی، جب خلافت اٹھ جائے گی تو اسلامی عدالتی نظام بھی ختم ہو جاۓ گا اور آخری ٹوٹنے والی کڑی نماز کی ہوگی۔
دجال کی آمد کا انکار
عـن ابـن عبـاس رضی اللہ عنہ خـطب عمر رضی اللہ عنہ فقال إنه سيكون في هذه الامة قوم يكذبون بـالـرجـم ويـكـذبـون بـالـدجـال ويـكـذبون بعذاب القبر ويكذبون بالشفاعة ويكذبون بقوم يخرجون من النار. (فتح الباری: ج: ۱۱ ص ۴۲۶)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور یہ بیان فرمایا: اس امت میں کچھ ایسے لوگ ہونگے جو رجم (سنگسار) کا انکار کریں گے، عذابِ قبر کا انکار کریں گے اور دجال (کی آمد) کا انکار کریں گے اور شفاعت کا انکار کرینگے، اور ان لوگوں (یعنی گنہگار مسلمانوں) کے جہنم سے نکالے جانے کا انکار کریں گے۔
فائدہ: یہودیوں کے مال پر پلنے والی "این جی اوز" اپنے آقاؤں کے اشاروں پر آئے دن اسلامی قوانین کا مذاق اڑاتی رہتی ہیں اور ان کو ختم کرنے کی باتیں کرتی ہیں۔
اس وقت حدود آرڈینینس کی بحث چل رہی ہے اور اس کو اس طرح پیش کیا جارہا ہے گویا یہ کسی انسان کے بناۓ ہوۓ قوانین ہیں۔ اسی طرح کئی عرب مفکر ہیں جو رجم اور دیگر اسلامی قوانین کو اس دور میں (نعوذ باللہ) ازکارِ رفتہ (اولڈ فیشن) قرار دے چکے ہیں۔ نیز دجال کی آمد کا انکار کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ اور آنے والے دنوں میں اس مسئلے کو اختلافی بنا دیا جائے گا۔
۔❶ تفسیر قرطبی: ج ۲۲ ص ۵۶
علماء کے قتل کا بیان
قال رسول اللہ ﷺ ليأتين على العلماء زمان يقتلون فيه كما يقتل اللصوص فيـاليـت الـعـلـمـاء يومئذ تحامقوا. (رواه ابوعمر الدانی فی السنن الواردة في الفتن: ج: ۳، ص: ۶۶۱) ضعيف، فـي سـنـده الـوضـيـن بـن عـطـاء وهـو خزاعی صدوق سئ الحفظ. (التقريب، ج: ۲، ص: ۳۳۱، والميزان، ج: ۴، ص: ۳۳۴)
ترجمہ: حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: علماء پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کو ایسے قتل کیا جائے گا جیسے چوروں کو قتل کیا جاتا ہے، تو کاش کہ اس وقت علماء جان بوجھ کر انجان بن جائیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں ابو ہریرہ کی جان ہے، علماء پر ایسا وقت ضرور آئے گا جب ان کو موت سرخ سونے سے بھی زیادہ محبوب ہوگی۔ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی قبر پر آئے گا تو وہ یوں کہے گا کہ کاش میں اس کی جگہ ہوتا۔ ( مستدرک حاکم: ۸۵۸۱)
حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کی توثیق کی ہے۔
فائدہ: آج کس وحشت وبربریت، بے دردی اور بے حسی کے ساتھ ان عظیم ہستیوں کو قتل کیا جارہا ہے، جو کائنات کے نظام کو فساد اور ظلم سے پاک کرنے کا درس دیتے ہیں۔ جن کی ساری زندگی انسانیت کی فلاح اور کامیابی کا پرچار کرتے گزر جاتی ہے، اللہ کی زمین کو انسانیت کے دشمنوں سے پاک کرنا ہی جن کا مشن ہوتا ہے، انسانیت حیران ہے، عقل محو تماشا ہے، علم کے مینارے خاموش ہیں، دانشور سناٹے میں ہیں کہ آخر امت کے اس طبقہ سے کسی کو کیا دشمنی ہوسکتی ہے، جو دنیا میں حق اور باطل، خیر اور شر، ظلم اور انصاف کے درمیان طاقت کا توازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ طبقہ نہ ہو تو کائنات کا نظام ہی درہم برہم ہو جاۓ، زمین وفضاء میں طاقت کا توازن بگڑ کر رہ جاۓ، شر، خیر پر غالب آنے لگے اور حق وباطل کے معرکے میں باطل سر چڑھ کر بولنے لگے، انسانیت، ابلیسیت کی لونڈی بن کر رہ جائے، خباثت کے ہاتھوں شرافت کا دامن تار تار کر دیا جائے۔
علماء امت کے قتل کو ہر ایک اپنے زاویہ نظر سے دیکھتا ہے، پر کاش نبی ﷺ کے وارثوں کے اس قتل کو نبی ﷺ کی احادیث کی روشنی میں دیکھا جاتا۔ اس وقت جبکہ باطل خیر کے مقابلے میں آخری اور فیصلہ کن جنگ کا اعلان کرچکا ہے، ابلیسیت ہر طرف کھلے عام ننگا ناچ ناچنا چاہتی ہے، اللہ کی حاکمیت و بالادستی کے تصور کو ختم کر کے دجالیت اور یہودیت کا ورلڈ آرڈر لوگوں سے عملاً اور ذہناً منوانا چاہتی ہے تو بھلا ابلیس کے اشاروں اور مشوروں پر کام کرنے والے، ان حق کے میناروں اور امید کے جزیروں کو کیونکر برداشت کرسکتے ہیں، جن کے ایک اشارے اور قلم کی حرکت پر دجال کے مضبوط ایوانوں میں دراڑیں پڑسکتی ہیں، یہ نفوس قدسیہ، جو دجالی قوتوں کی "عظیم طاقت‘‘ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، اور اس دور میں بھی کلمہ لا الہ کا وہی مفہوم بیان کرنے پر پابند ہیں جس کا اعلان کوہِ صفا پر چڑھ کر آج سے چودہ سو سال پہلے کیا گیا تھا، یہ دجال کے مقدمۃ الجیش کو کس طرح ہضم ہوسکتے ہیں۔
علماء حق کے قتل میں براہ راست یہودی خفیہ تحریک فریمیسن ملوث ہے۔ ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں کہ بھاڑے کے قاتل کون ناپاک لوگ تھے؟ لیکن آنے والے دن اس بات کو اور واضح کر دیں گے کہ ان علماء کو راستے سے ہٹائے بغیر فریمیسن اپنے منشور کو پاکستان میں آگے نہیں بڑھا سکتی تھی۔
مولانا اعظم طارق شہید، مفتی نظام الدین شامزئی شہید اور مفتی جمیل خان شہید، مولانا نذیر تونسوی شہید اور مفتی عتیق الرحمن شہید رحمہ اللہ عنہم کی شہادت کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ جن خطوط
پر کام کر رہے تھے وہ عالمی یہوری قوتوں کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ لہٰذا ان حضرات کی شہادت کو فرقہ وارانہ رنگ دینا خود ان شخصیات کی دینی خدمات کو چھوٹا ثابت کرنا ہے۔ جن کے مشن بڑے ہوتے ہیں ان کے دشمن بھی بڑے ہوا کرتے ہیں۔
فالج کا بیان
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: فالج ضرور پھیلے گا، یہاں تک کہ لوگ اس کو طاعون سمجھنے لگیں گے۔ (اس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے) (مصنف عبدالرزاق، ج: ۳، ص: ۵۹۷)
فائدہ: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ظهـر الفساد في البر والبحر بما كسبت أيدي الناس﴾ کہ خشکی اور سمندر میں فساد پیدا ہوگا لوگوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے۔
ممکن ہے انسانیت کے دشمنوں کی جانب سے انسانوں پر ایسے وائرس کے حملے کئے جائیں جو فالج کا سبب بنیں۔ یا پھر ابھی سے لوگوں کو ایسے ٹیکے یا کسی دوائی کے قطرے پلائی جائیں جو آ گے چل کر اس بیماری کا سبب بنیں۔ اس وقت ایسی مشینیں بنائی جاچکی ہیں جن کے ذریعے فضاء میں موجود مختلف بیماریوں کے جراثیم اکٹھے کر کے جراثیمی ہتھیار بنائے جارہے ہیں اور ان سے لوگوں میں بیماریاں پھیلتی ہیں۔
لہٰذا مسلم ممالک کو عالمی یہودی اداروں کی جانب سے دی جانے والی کسی بھی طبی امداد کو پہلے اپنی تجربہ گاہوں میں ٹسیٹ کرا کر ہی عوام تک پہنچانا چاہئے اور کسی بھی ایسی دوائی یا ویکسین کو قبول نہیں کرنا چاہئے جس پر اس کا فارمولا لکھا ہوا نہ ہو۔
پولیو ویکسین کی مہم جس بیہودہ انداز میں چلائی جارہی ہے اس کے بارے میں ملک کے سنجیدہ حلقوں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نہ تو کسی کو اس کا فارمولہ پتہ ہے اور نہ یہ علم ہے کہ اس کی خواراک کی مقدار کیا ہے؟ چونکہ غیر معیاری ویکسین کی خبریں پاکستانی اخباروں میں آچکی ہیں، جس سے پولیو کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیز برطانیہ اور بین الاقوامی سائنسدانوں نے اپنی تحقیقات میں پولیو کے قطروں کو ایڈز، ہڈیوں کے کینسر، جنسی کمزوری اور بے شمار مہلک امراض کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ اس کے سامنے آنے کے بعد ان پر فور پابندی لگنی چاہئے
وقت کا تیزی سے گزرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک قیامت نہیں آسکتی جب تک زمانہ آپس میں بہت قریب نہ ہو جائے، چنانچہ سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتہ کے برابر اور ہفتہ دن کے برابر اور دن گھنٹے کے برابر اور گھنٹہ کھجور کی پتی یا شاخ کے جلنے کی مدت کے برابر ہو جائے گا۔ (ابن حبان، ج: ۱۵، ص: ۲۵۲)
فائدہ: وقت میں برکت کا ختم ہو جانا تو اس وقت ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح سے ہفتہ، مہینہ اور سال گزر جاتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ روحانیت سے غافل انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ وقت میں برکت کے کیا معنی ہے؟ جبکہ پہلے کی طرح اب بھی دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے، ہفتہ میں اب بھی سات ہی دن ہوتے ہیں؟ وقت میں برکت کے معنیٰ اگر اب بھی کسی کو سمجھنے ہوں تو وہ اپنے دن کے معمولات کو فجر کی نماز کے بعد کرکے دیکھے تو اس کو پتہ چل جائے گا کہ جس کام میں وہ سارا دن صرف کرتا تھا وہی کام اس وقت میں بہت کم عرصے میں ہو جائے گا۔
چاند میں اختلاف ہونا
عـن أبي هريرة رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ من اقتراب الساعة التفاح الأهلة وأن يرى الهلال لليلة فيقال هو ابن ليلتين. (المعجم الصغير، ج: ۲، ص: ١١٥)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کی قریبی نشانیوں میں سے ایک نشانی چاند کا پھیل جانا ہے اور یہ کہ پہلی تاریخ کے چاند کو یہ کہا جائے گا کہ یہ دوسری تاریخ کا چاند ہے
فائدہ: اس حدیث میں علماء امت کو بہت غور کرنا چاہئے اور جو صورت حال اس وقت مسلم دنیا میں چاند کے اختلاف کے حوالے سے پیدا ہوچکی ہے اس کو ختم کرنا چاہئے
جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں پیشن گوئی
عن أبي سعيد الخدري رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ والذي نفسي بيده لا تقوم الساعة حتى تكلم السباع الانس وحتى تكلم الرجل عذبة سوطه وشراك نعله وتخبره فخذه بما أحدث أهله من بعده. هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه. وافقه الذهبي رحمہ اللہ. (مستدرک حاکم، ج: ۴، ص: ۵۱۵، ترمذی: ۲۱۰۸)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی، جب تک درندے آدمیوں سے بات نہ کرنے لگیں، اور آدمی کے چابک کا پھندا اور اس کے جوتے کا تسمہ اس سے بات نہ کرنے لگے، اور انسان کی ران اس کو یہ بتایا کرے کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر والوں نے کیا بات کی ہے اور کیا کام کئے ہیں؟
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس سے اتفاق کیا ہے، نیز ترمذی شریف کی روایت کو بھی علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
فائده ¹: درود وسلام ہو محمد ﷺ پر، جنہوں نے ہر میدان میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ یہ بیان آپ کا معجزہ ہی کہا جائے گا کہ ایک ایسے دور میں آپ ﷺ یہ بات بیان فرما رہے ہیں جہاں جدید ٹیکنالوجی کا موجودہ تصور بھی نہیں تھا، لیکن الیکٹرونک چپ کا یہ جدید دور چیخ چیخ کر نبی کریم ﷺ کے بیان کی سچائی کو ثابت کر رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی چپ تیار کی جاچکی ہیں بلکہ زیر استعمال ہیں۔ یہ چپ کسی کو لگائی جائے تو دور بیٹھا دوسرا شخص اس کی تمام باتیں سن بھی سکتا ہے اور اس کو دیکھ بھی سکتا ہے، اس کے علاوہ اگر اس چپ کو نکال کر اس کا ڈیٹا (چپ میں موجود مواد) کمپیوٹر وغیرہ میں ڈاؤن لوڈ کیا جائے تو سب کچھ پتہ چل سکتا ہے کہ اس شخص نے آپ کی غیر موجودگی میں کیا کچھ کیا ہے، ابھی اس کو ٹانگ یا بازو پر باندھ کر استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ بازو یا ران کے گوشت میں پیوست کرنے کے تجربات چل رہے ہیں، اور ممکن ہے ہوچکا ہو۔
فائدہ ²: جانوروں سے گفتگو
آپ سنتے رہتے ہوں گے کہ مغربی ممالک جانوروں کی بولی سمجھنے اور ان سے گفتگو کرنے کے لئے مسلسل تجربات کر رہے ہیں
ہر قوم کا حکمران منافق ہوگا
عن أبي بكرة رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ لا تقوم الساعة حتى يسود كل قوم منافقولهم. (المعجم الاوسط، ج: ۴، ص: ۳۵۵)
ترجمہ: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئےگی جب تک ہر قوم کے حکمراں ان (میں) کے منافق نہیں بن جاتے۔
فائدہ: آقائے مدنی ﷺ نے اس حدیث میں امت کے عمومی مزاج کی نشاندہی کی ہے کہ ان کے اندر بزدلی، کاہلی اور باطل کے سامنے جھک جانے جیسی بیماریاں پیدا ہو جائیں گی، چنانچہ منافقین کی حکمرانی سے بھی ان کی ایمانی غیرت جوش میں نہیں آئے گی۔
پانچ جنگِ عظیم
عن عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ قال ملاحم الناس خمس فينتان قد مضتا وثلاث في هذه الأمة ملحمة الترک وملحمة الروم وملحمة الدجال ليس بعد الدجال ملحمة. ❶
(الفتن نعیم ابن حماد، ج: ۲، ص: ۵۴۸، السنن الواردة في الفتن)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (دنیا کی ابتداء سے آخر دنیا تک) کل پانچ جنگِ عظیم ہیں۔ جن میں سے دو تو (اس امت سے پہلے) گزر چکیں اور تین اس امت میں ہوں گی۔ ترک جنگِ عظیم اور رومیوں سے جنگِ عظیم اور دجال سے جنگِ عظیم اور دجال والی جنگِ عظیم کے بعد کوئی جنگِ عظیم نہ ہوگی۔
فائدہ: اگرچہ مسلمان اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے ایک ہونے والی حقیقت کے لئے خود کو تیار نہیں کر رہے، لیکن کفر اس کا اعلان واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کر رہا ہے۔ اگر کوئی اس انتظار میں ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان آنے کے بعد جنگِ عظیم کا اعلان کریں گے، تو ایسا شخص بس انتظار ہی کرتا رہ جاۓ گا۔ کیونکہ حضرت مہدی کا خروج ایک ایسے وقت میں ہوگا جب جنگ چھڑ چکی ہوگی
فتنوں کا بیان
إن أبا هريرة ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ ستكون فتن القاعد فيها خير من القائم والـقـائـم فيهـا خـيـر مـن الـمـاشي والماشي فيها خير من الساعي من تشرف لها تستشرفه ومن وجد فيها ملجأ فليعذ به۔ (بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: عنقریب فتنے پیدا ہوں گے، ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، اور کھڑا ہونے والا، چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا، سعی کر نے والے سے بہتر ہوگا، اور جوشخص فتنوں کی طرف جھانکے گا، فتنہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا، لہٰذا جو شخص ان فتنوں سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ پائے اور ٹھکانہ پائے تو وہیں پناہ لے لے۔
فائدہ: ’’چلنے والے سے کھڑے رہنے والا اور کھڑے رہنے والے سے بیٹھ جانے والا" اس سے مراد اس فتنہ میں کم کوشش کرنا اور کم مبتلا ہونا ہے۔ وہ فتنہ ایسا ہوگا کہ جو جتنی کوشش کرے گا وہ اتنا ہی اس میں ملوث ہوگا۔ یہ فتنہ کئی قسم کا ہوسکتا ہے۔
انہی میں سے ایک مال کا فتنہ ہے، جس کو آپ ﷺ نے اس امت کے لئے سب سے خطرناک فتنہ قرار دیا ہے۔ اس وقت عالمی سودی نظام کے ہوتے ہوئے جو شخص اس نظام میں زیادہ کمانے کی کوشش کرے گا وہ اتنا ہی خود کو سود میں ڈبوتا جائے گا۔ اور جو کم کوشش کرےگا وہ کم ملوث ہوگا۔ اس طرح چلنے والے سے کھڑا رہنے والا بہتر ہوگا اور کھڑے رہنے والے سے بیٹھنے والا بہتر ہوگا۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کے پاس بکریاں ہوں وہ بکریاں لے کر پہاڑوں یا بیابانوں میں نکل جائے۔
عن انس بن مالک قال قال رسول اللہ ﷺ يأتى على الناس زمان الصابر فيهـم عـلـى دينه کا لقابض على الجمر. قال ابو عيسىٰ هذا حديث غريب من هذا الوجه. ❷
( سنن الترمذی، ج: ۴، ص: ۵۲۶)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت ان میں اپنے دین پر ڈٹ جانے والا اس شخص کے مانند ہوگا جس نے اپنی مٹھی میں انگارہ لے لیا ہو۔
عن أبي هريرة قال إن رسول اللہ ﷺ قال بادروا بالأعمال فتناً كقطع اليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافراً أو يمسي مؤمناً ويصبح كافراً يبيع دينه بعرض من الدنيا. (مسلم، ج: ا، ص: ۱۱۰، صحیح ابن حبان، ج: ۱۵، ص: ۹۶)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اعمالِ صالحہ میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہو جائیں، جو تاریک رات کے ٹکڑوں کے مانند ہوں گے (ان فتنوں کا اثر یہ ہوگا کہ) آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا یا شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر اٹھے گا۔ اپنا دین ومذہب دنیا کے تھوڑے سے فائدہ کے لئے بیچ ڈالے گا
۔ ❶ اس کے تمام راوی صحیح ہیں البتہ اس میں ایک راوی ابوالمغیرۃ القداس مجہول ہیں۔
۔❷ علامہ ناصر الدین البانی نے اس کو صحیح کہا ہے۔
فتنے میں مبتلاء ہونے کی پہچان
عن حذيفة ؓ قال تعرض الفتنة على القلوب فاي قلب کرهها نكتت فيه نكتة بيضاء وأي قلب أشربها نكتت فيه نكتة سوداء. (السنن الواردة في الفتن، ج: ا، ص: ۲۲۷، رواه الحاكم وصححه ووافقه الذهبي، ج: ۴، ص: ۵۱۵)
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: فتنے دلوں پر یلغار کرتے ہیں۔ سو جو دل اس فتنے کو برا جانتا ہے تو اس دل میں ایک سفید نکتہ پڑ جاتا ہے۔ اور جو دل اس (فتنے) میں ڈوب جاتا ہے تو اس (دل) میں ایک کالا نکتہ پڑ جاتا ہے۔
"امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی یہ روایت کی ہے اور اس کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے"۔
عن حذيفة ؓ قال إذا أحب أحدكم أن يعلم أصابته الفتنة أم لا فلينظر فإن كان رأى حلالاً كـان يـراه حـرامـاً فقد أصابته الفتنة وإن كان يرى حراماً كان يراه حلالا فقد أصابته. (هذا حديث صحيح الاسناد على شرط الشيخين ولم يخرجاه. وافقه الذهبي.)( مستدرک، ج: ۴، ص: ۵۱۵)
ترجمہ: اگر تم میں سے کوئی شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ آیا وہ فتنے میں مبتلاء ہوا یا نہیں تو اس کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھے کہ کوئی ایسی چیز جس کو پہلے وہ حرام سمجھتا تھا، اب اس کو حلال سمجھنے لگا ہے تو وہ بلاشبہ فتنے میں مبتلا ہوا، یا کوئی ایسی چیز جس کو پہلے وہ حلال سمجھتا تھا اب اس کو حرام سمجھنے لگا ہے تو وہ بلاشبہ فتنے میں مبتلا ہوا۔
"حاکم رحمہ اللہ نے اس کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس سے اتفاق کیا ہے"۔
فائدہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فتنے میں مبتلاء ہونے کی پہچان بتا دی کہ اگر پہلے کسی چیز کو حرام سمجھتا تھا لیکن اب اس کو حلال سمجھنے لگا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص فتنے میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اگر غور کریں تو اپنی اصلاح کے لئے یہ بہت عمدہ نسخہ ہے
فتنوں کے وقت میں بہترین شخص
عـن بـن عبـاس رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ ﷺ خير الناس في الفتن رجل أخذ بعنان فرسه أو قـال بـرسـن فرسه خلف أعداء الله يخيفهم ويخيفونه أو رجل معتزل في باديتـه يـؤدي حق الله الذي عليه. هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه. ووافقه الذهبي رحمہ اللہ.(المستدرک، علی الصحيحين، ج: ۴، ص: ۵۱۰)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "فتنوں کے دور میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام، یا فرمایا اپنے گھوڑے کی نکیل پکڑے اللہ کے دشمنوں کے پیچھے ہو، وہ اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ کرتا ہو اور وہ اس کو ڈراتے ہوں، یا وہ شخص جو اپنی چراگاہ میں گوشہ نشین ہو جائے، اس پر جو اللہ کاحق (زکوٰۃ وغیرہ) ہے اس کو ادا کرتا ہو۔" حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس سے اتفاق کیا ہے۔
حضرت ام مالک بہنریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فتنہ کا ذکر کیا اور اس کو کھول کر بیان کیا۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اس فتنہ کے زمانے میں سب سے بہتر کون شخص ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان فتنوں کے زمانے میں سب سے بہتر شخص وہ ہوگا، جو اپنے مویشیوں میں رہے اور ان کی زکوٰۃ ادا کرتا رہے، اور اپنے رب کی بندگی میں مشغول رہے، اور وہ شخص (سب سے بہتر ہوگا) جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو (یعنی ہر وقت جہاد کے لئے تیار ہو) اور دشمنانِ دین کو خوف زدہ کرتا ہو، اور دشمن اس کو ڈراتے ہوں۔ (ترمذی شریف، الفتن نعیم بن حماد: ج: ۱، ص: ۱۹۰)
فائدہ ¹: ایسے وقت میں بہترین لوگ وہ ہوں گے جو جہاد میں مصروف ہوں گے، وہ دشمن کو خوف زدہ کرتے ہوں گے اور دشمن ان کو ڈراتا ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے جہاد کی بھی تشریح فرما دی کہ یہاں جہاد سے کیا مراد ہے؟
پھر فرمایا: وہ لوگ بہترین ہوں گے جو فتنوں کے وقت اپنے مال، مویشیوں کو پہاڑوں اور بیابانوں میں لے کر چلے جائیں گے۔ اس میں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ان جگہوں سے دور چلا جائے جہاں دجالی تہذیب کا غلبہ ہو۔
فائدہ ²: مذکورہ حدیث اور کئی دیگر احادیث میں یہ ذکر ہے کہ دجال کے فتنے سے دو قسم کے لوگ محفوظ رہیں گے۔ پہلی قسم مجاہدین جو اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے جہاد کر رہے ہوں گے اور دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنے مال، مویشی لے کر پہاڑوں اور بیابانوں میں چلے جائیں گے۔ اور اللہ کی اطاعت کر رہے ہونگے۔
دوسری قسم کے لوگ صرف اپنا ایمان بچانے کے لئے پہاڑوں میں چلے جائیں گے۔ اور فتنوں کے دور میں ایمان بچانے کے لئے گھر بار چھوڑ دینا بھی اللہ رب العزت کے نزدیک بہت بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ جبکہ مجاہدین صرف اپنے ایمان کی فکر نہیں کر رہے ہوں گے، بلکہ وہ ساری امت کے ایمان کو بچانے کی خاطر اور دجال کے فتنے کا زور توڑنے کی خاطر، دجال اور اس کے ایجنٹوں سے قتال کر رہے ہوں گے۔ اپنا گھر، وطن، ماں باپ، بیوی بچے اور مال و دولت غرض سب کچھ امت کا ایمان بچانے کے لئے قربان کر رہے ہوں گے۔ اس لئے زیادہ فضیلت مجاہدین کی ہی ہوگی
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے ترمذی شریف کی روایت کو صحیح کہا ہے
دین کو بچانے کے لئے فتنوں سے بھاگ جانے کا بیان
وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: "إِنَّ الإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْمَدِينَةِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا" (صحیح مسلم، ج: ۱، ص: ۱۳۱)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور عنقریب اسلام دوبارہ اجنبیت کی حالت کی طرف لوٹے گا جیسے کہ ابتدا میں ہوا تھا اور وہ (یعنی اسلام) سمٹ کر دو مسجدوں کے درمیان چلا جائے گا۔ جیسے سانپ اپنے سوراخ کی طرف سمٹتا ہے۔
فائدہ: حدیث میں لفظ غریب کا ترجمہ اجنبی اور غیر مانوس سے کیا گیا ہے۔ جس طرح ابتدائے اسلام میں لوگ اسلام کو اجنبی اور غیر مانوس سمجھتے تھے، اسی طرح آج بھی اکثر مسلمان اسلام کے بہت سارے احکامات کو اجنبی سمجھنے لگے ہیں اور ان احکامات کے ساتھ ایسا برتاؤ ہے گویا وہ ان کو جانتے ہی نہیں کہ ان احکامات سے بھی ہمارا وہی تعلق ہے جو نماز روزہ وغیرہ سے ہے۔ کہتے ہیں کہ اب تو اس کا دور ہی نہیں رہا، حالانکہ شریعت کا زیادہ بڑا حصہ انہی احکامات (اسلام کا تجارتی اور عدالتی نظام) پر مشتمل ہے۔ اس لئے آج یہی کہا جائے گا کہ اسلام ایک ارب چالیس کروڑ کے ہوتے ہوئے بھی اجنبی بن کر رہ گیا ہے۔
سو ان لوگوں کو رحمۃ للعالمین ﷺ نے مبارک باد دی ہے جو ان جگہوں سے بھاگ جائیں جہاں اسلام اجنبی ہوگیا ہو، اور ایسی جگہ چلے جائیں جہاں اسلام اجنبی نہ بنا ہو، بلکہ وہاں کے لوگ آج بھی اسلام کو اسی طرح پہچانتے ہوں جیساکہ اس کو پہچاننے کا حق ہے، اور آج بھی ان کی زندگی کا مقصد وہی ہو جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کا مقصد تھا، وہ نماز روزے کے ساتھ ساتھ اسلام کے دیگر احکامات کو بھی اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہوں اور اس میں وہ کسی ملامت کرنے والے کے ملامت کی پروا بھی نہ کرتے ہوں اور اس عہد پر اپنی جانیں کٹانے کا عزم رکھتے ہوں کہ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنا قیمتی لہو بہا کر اسلام کو اجنبیت کی حالت سے نکالا، ہم بھی اس کو اجنبیت کی حالت سے نکال کر اس حالت میں لے آئیں گے جہاں وہ اجنبی نہیں رہے گا۔
غرباء والی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے ابوالمحاسن حنفی رحمہ اللہ نے "المعتصر من المختصر" میں غریب کے یہی معنیٰ بیان فرمائے ہیں۔ فرماتے ہیں
"الاسلام طرا على اشياء ليست من اشكاله فكان بذلك معها غريبا كما يـقـال لمن نزل على قوم لا يعرفونه انه غريب بينهم". (المختصر من المختصر من مشکل الآثار: ج: ۲، ص: ۲۶۶)
"یعنی اسلام کو ایسے حالات سے سابقہ پڑ جائے جو اس سے کوئی مناسبت نہ رکھتے ہوں تو اسلام اس صورت میں غریب (اجنبی) ہو جائے گا، جیساکہ اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے جو ایسے لوگوں کے پاس جا پہنچے جو اس کو نہیں جانتے ہوں تو وہ آنے والا ان کے درمیان غریب (اجنبی) ہوگا۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ بہت سے حضرات اس حدیث کو اپنی سستی اور بزدلی کے لئے آڑ بناتے ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کی تیاری کرو تو کہتے ہیں کہ اسلام تو ہر دور میں کمزور رہا ہے، اور اس حدیث کو دلیل میں پیش کرتے ہیں۔ وہ حدیث کے لفظ غریب کو اردو کے غریب کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں۔ جو درست نہیں۔
قال ابو عيـاش سمعت جابر بن عبد الله يقول قال رسول اللہ ﷺ ان الاسـلام بـدأ غريبا وسيعود غريبا فطوبى للغرباء قال ومن هم يا رسول الله قال الذين يصلحون حين يفسد الناس. (المعجم الا وسط، ج: ۵، ص: ۱۴۹، و، ج: ۸، ص: ۳۰۸)
ترجمہ: حضرت ابو عیاش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور ایک بار پھر اسلام اسی اجنبیت کی حالت میں چلا جائے گا، سو مبارک باد ہے غرباء کو۔ پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ غرباء کون ہیں؟
آپ ﷺ نے جواب دیا وہ لوگ، جو لوگوں کے فساد میں مبتلاء ہونے کے وقت ان کی اصلاح کریں گے۔
فائدہ: اس حدیث شریف میں ان لوگوں کو آپ ﷺ نے مبارک باد دی ہے جو دنیا میں فساد عام ہو جانے کے وقت لوگوں کی اصلاح کریں گے اور لوگوں میں سب سے بڑا فساد یہ ہے کہ وہ اللہ کی سب سے بڑی صفتِ حاکمیت میں انسانوں کو شریک بنالیں۔
لہٰذا شریعت کی نظر میں اللہ کی حاکمیت اور قانون کی جانب بلانا سب سے بڑی اصلاح کہلائے گی، جس کے تحت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے گا۔ یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ اس پر قرآن کی آیت ﴿ کنتم خیر امة﴾ کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر گواہ ہے۔
نیز ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غرباء سے مراد مجاہدین ہیں۔
غرباء کی مزید وضاحت ’’مختصر تاریخ دمشق‘‘ کی اس روایت میں ملتی ہے جو آج کے دور کی مکمل عکاس ہے: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا غرباء کو مبارک ہو۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ غرباء کون ہیں؟ فرمایا صالح نیک افراد، جو لوگوں کی بہتات (کے باوجود) کم ہوں گے (ان کی پہچان یہ ہے کہ) ان سے بغض رکھنے والوں کی تعداد محبت کرنے والوں سے زیادہ ہوگی اور ان کی بات نہ ماننے والوں کی تعداد بات ماننے والوں سے زیادہ ہوگی۔
عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول اللہ ﷺ أحب شيء إلى الله تعالى الغرباء قیل ومن الغرباء قال الفرارون بدينهم يبعثهم الله يوم القيامة مع عيسى بن مريم عليهما السلام.(حلیة الاولیاء ابونعیم: ج ا ص ۲۵، کتاب الزہدالکبیر: ج ۲ ص ۱۱۶)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے محبوب لوگ غرباء ہوں گے، پوچھا گیا غرباء کون ہیں؟ فرمایا اپنے دین کو بچانے کے لئے فتنوں سے دور بھاگ جانے والے۔ اللہ تعالی ان کو عیسیٰ بن مریم علیہا السلام کے ساتھ شامل فرمائے گا۔
عـن أبـي سـعيـدن الخدري انه قال قال رسول اللہ ﷺ یوشك أن يكون خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن. (بخاری شریف: ج ۱ ص ۱۵، مصنف ابن ابی شیبہ: ج ۷ ص ۴۴۸، مسندابی یعلی: ج ۲ ص ۲۷۱)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایسا وقت قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور (دور دراز کے) بارانی علاقوں میں دین کو بچانے کی خاطر فتنوں سے بھاگ جائے۔
فائدہ: اس حدیث میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسی جگہوں پر آدمی کا ایمان بچانا مشکل ہو جائے گا جہاں پر جاہلی ابلیسی تہذیب اور اس کا تجارتی نظام عام ہو، کیونکہ اگر یہ وہاں رہے گا تو یقیناً اس کو اس سودی نظام کی حمایت کرنی ہوگی یا کم از کم خاموش رہنا پڑےگا اور یہ خاموش رہنا بھی اس پر راضی رہنے جیسا ہے۔
مبارک باد کے مستحق ہیں وہ نوجوان اور بوڑھے جو اس وقت اپنا ایمان بچانے کے لئے اپنا گھر بار، دھن دولت اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پہاڑوں کو اپنا نشیمن بناچکے ہیں، اور ایک ایسے وقت میں کہ جب ابلیس کے نیو ورلڈ آرڈر نے ہر مسلمان کو سودی کاروبار میں ملوث کردیا ہے اور اگر کوئی براہ راست ملوث نہیں تو اس کو اس سودی نظام کی ہوا ضرور لگ رہی ہے، ایک ایسے وقت میں کہ جب امت کے سب سے معزز اور شریعت کے محافظ طبقے، علماء کرام کو غیر شرعی فتاویٰ دینے پر مجبور کیا جارہا ہے، دجالی قوتیں علی الاعلان اپنی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کر رہی ہیں، اور صرف اللہ کی حاکمیت کے سامنے سر جھکانے کا وعدہ کرنے والے مسلمان، آج غیر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اللہ کے ساتھ کھلا شرک کر رہے ہیں
مقررین خاموش ہیں، الا ماشاء اللہ، اہل قلم .. سوائے چند کے ..... یا تو قلم کے تقدس کو فروخت کر چکے یا پھر باطل کی گیدڑ بھبکیوں نے ان کے قلم کی سیاہی کو منجمد کر کے رکھ دیا ہے۔ قرآن کریم کی ان آیات کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا گیا جو مسلمانوں کو باطل کے سامنے سر اٹھاکر جینا سکھاتی ہیں، جس طرف نظر دوڑاؤ مصلحتوں کی چادریں اوڑھے ایسے مسلمان نظر آتے ہیں کہ اگر ان کے دور میں دجال آجائے اور اپنی خدائی کا اعلان کر دے تو شاید مصلحت کی چادر سے باہر نکلنا پسند نہ فرمائیں، کیونکہ اِس وقت بھی دجال کے ایجنٹ وہی بات کہہ رہے ہیں کہ یا تو ہماری صفوں میں شامل ہو جاؤ یا پھر ہمارے دشمنوں کی
جبکہ نبی اکرم ﷺ کی احادیث بھی یہی مطالبہ کر رہی ہیں کہ اے مسلمانو! اب وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ والی جماعت میں شامل ہو جاؤ۔ اب درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
کیا جہاد بند ہو جائے گا؟
عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ الجهاد ماض منذ بعثني الله إلى أن يـقـاتـل آخـر أمتـى الدجال لا يبطله جور جائر ولا عدل عادل. (ابوداؤد، ج: ۳، ص: ۱۸، کتاب السنن، ج: ۲، ص: ۱۷۶، مسند ابی یعلی: ۴۳۱۱، سنن البیہقی الکبری)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے جب سے مجھے بھیجا اس وقت سے جہاد جاری ہے اور (اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ) میری امت کی آخری جماعت دجال کے ساتھ قتال کرے گی، اس جہاد کو نہ تو کسی ظالم کا ظلم ختم کرسکے گا اور نہ کسی انصاف کرنے والے کا انصاف۔
عن جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ عن النبي ﷺ أنـه قـال لن يبرح هذا الدين قائماً يقاتل عليه عصابة من المسلمين حتى تقوم الساعة. (مسلم، ج: ۳، ص: ۱۵۴۴)
ترجمہ: آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دین باقی رہے گا، اس کی حفاظت کیلئے مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک قتال کرتی رہے گی۔
عن عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه أن رسول اللہ ﷺ قال لا يزال الـجـهـاد حـلـوا أخضر ما قطر القطر من السماء وسيأتي على الناس زمان يقول فيـه قـراء مـنـهـم ليـس هـذا زمـان جـهـاد فـمـن أدرك ذلك الزمان فنعم زمان الجهاد قالوا يا رسول الله واحـد يقـول ذلك فقال نعم من عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين
۔❶ (السنن الواردة في الفتن، ج: ۳، ص: ۷۵۱ )
ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی تب تک جہاد ترو تازہ رہے گا (یعنی قیامت تک) اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان میں پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا دور نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا دور جس کو ملے تو وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی (مسلمان) ایسا کہہ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں (ایسا وہ پڑھے لکھے کہیں گے) جن پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی۔
عـن الـحـسـن أنـه قـال سيأتى على الناس زمان يقولون لا جهاد فإذا كان ذلك فجاهدوا فإن الجهاد أفضل.
(کتاب السنن، ج: ۲، ص: ۱۷۲)
ترجمہ: حضرت ابو رجاءالجزری حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ اب کوئی جہاد نہیں ہے، تو جب ایسا دور آجائے تو تم جہاد کرنا کیونکہ وہ افضل جہاد ہوگا۔
حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ان کے سامنے یہ ذکر کیا گیا کہ لوگ کہتے ہیں (اب) کوئی جہاد نہیں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا یہ بات شیطان نے پیش کی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج: ۶، ص: ۵۰۹)
فائدہ: اگرچہ اس حدیث کا مصداق خلافت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد کا دور واضح ہے، لیکن اس سے زیادہ واضح دور اور کونسا ہوسکتا جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ جاہلوں کا تو کہنا ہی کیا، پڑھے لکھے حضرات بھی جہاد کے بارے میں وہی الفاظ استعمال کر رہے ہیں جن کی طرف آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے۔ خصوصاً (صدر بُش کی قیادت میں تمام صلیبی کفار اور کرائے کے مقامی و غیر مقامی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر نہتے افغان مسلمانوں پر حملے کے نتیجے میں) طالبان کی پسپائی کے بعد تو یوں لگتا ہے جیسے ہوا کا رخ ہی تبدیل ہوگیا ہو۔
سو جہاد کرنے والوں کو کسی کی باتوں یا مخالفتوں اور طعن و تشنیع سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ان کو ان کے رسول ﷺ نے پہلے ہی تسلی دے دی ہے کہ ایسے وقت میں جہاد کرنا افضل جہاد ہوگا۔ مجاہدین کو اخلاص اور اللہ کو راضی رکھتے ہوئے اپنے کام میں لگے رہنا چاہئے۔
۔❶ اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہیں۔
مسلم ممالک کی اقتصادی ناکہ بندی
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ وقت قریب ہے کہ عراق والوں کے پاس روپے اور غلہ آنے پر پابندی لگا دی جائے گی، ان سے پوچھا گیا کہ یہ پابندی کس کی جانب سے ہوگی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ عجمیوں کی جانب سے۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب اہلِ شام پر بھی یہ پابندی لگا دی جائے گی۔ پوچھا گیا کہ یہ رکاوٹ کس کی جانب سے ہوگی؟ فرمایا اہلِ روم (مغرب والوں) کی جانب سے۔ پھر فرمایا رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ میری امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو مال لب بھر بھر کے دےگا اور شمار نہیں کرے گا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے، یقیناً اسلام اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹے گا، جس طرح کے ابتداء مدینہ سے ہوئی تھی حتیٰ کہ ایمان صرف مدینہ میں رہ جائے گا، پھر آپ نے فرمایا کہ مدینہ سے جب بھی کوئی بے رغبتی کی بنا پر نکل جائے گا تو اللہ اس سے بہتر کو وہاں آباد کر دے گا، کچھ لوگ سنیں گے کہ فلاں جگہ پر ارزانی اور باغ و زراعت کی فراوانی ہے تو مدینہ چھوڑ کر وہاں چلے جائیں گے، حالانکہ ان کے واسطے مدینہ ہی بہتر تھا کہ وہ اس بات کو جانتے نہیں۔ ❶ (مستدرک، ج: ۴، ص: ۴۵۲)
فائدہ ¹: عراق پر پابندی کی پیشن گوئی مکمل ہوچکی ہے۔ سو اے ایمان والو! اب کس بات کا انتظار ہے؟
فائدہ ²: مدینہ میں کوئی منافق نہیں رہ سکے گا۔ صرف وہی لوگ وہاں رہ جائیں گے جو اللہ کے دین کی خاطر جان دینے کی ہمت رکھتے ہوں گے، کیونکہ مسلم شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب دجال مدینہ کے باہر آئے گا اور اپنا گرز مارے گا تو اس وقت مدینہ کو تین جھٹکے لگیں گے، جس سے ڈر کر کمزور ایمان والے مدینہ سے نکل کر کفار کے ساتھ مل جائیں گے۔
حضرت ابونضرہ تابعی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھے کہ انہوں نے فرمایا کہ قریب ہے وہ وقت جب اہلِ شام کے پاس نہ دینار لائے جاسکیں گے اور نہ ہی غلہ۔ ہم نے پوچھا یہ بندش کن لوگوں کی جانب سے ہوگی؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رومیوں کی طرف سے۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہ کر فرمایا، حضور ﷺ نے فرمایا: میری آخری امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو مال لپ بھر بھر کر دے گا۔ اور شمار نہیں کرے گا۔ (مسلم، ج: ۲، ص: ۳۹۵)
حضرت ابو صالح تابعی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ مصر پر بھی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ ( مسلم شریف: ۲۸۹۶، ابوداؤد: ۳۰۳۵)
عرب کی بحری ناکہ بندی
عـن كـعـب قال يوشك أن يزيح البحر الشرقي حتى لا يجرى فيه سفينة وحتى لا يجوز أهـل قرية إلى قرية وذلك عند الملاحم وذلك عند خروج المهدئ. (السنن الواردة في الفتن)
ترجمہ: حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ قریب ہے کہ مشرقی سمندر دور ہو جائے گا اور اس میں کوئی کشتی بھی نہ چل سکے گی، چنانچہ ایک بستی والے دوسری بستی میں نہ جا پائیں گے اور یہ جنگِ عظیم کے وقت میں ہوگا، اور جنگ عظیم حضرت مہدی کے وقت میں ہوگی۔
فائده: مشرقی سمندر سے یہاں بحیرۂ عرب مراد ہے، دور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس تک پہنچنا دشوار ہو جائےگا، جس کی وجہ سے وہاں آمد ورفت بند ہو جائے گی۔
آپ ذرا دنیا کا نقشہ اٹھائیں اور امریکن بحری بیڑوں کی موجودہ جگہوں کو دیکھیں تو یہ روایت بہت آسانی سے آپ کی سمجھ میں آجائے گی۔ کراچی کے ساحل سے لے کر صومالیہ تک تمام بحری گزر گاہوں پر عالمی کفر کا قبضہ ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد، بحرِ ہند اور بحرِ عرب میں آنے جانے والے جہازوں کی چیکنگ بہت سخت کی جا رہی ہے۔ خصوصاً پاکستان سے جانے والے جہازوں کی چیکینگ انتہائی سخت ہوتی ہے۔ آئندہ حالات مزید سخت ہوں گے، جس کی وجہ سے سمندر کے راستے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت مشکل ہو جائے گا۔
دنیا کے نقشہ پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس وقت دجالی قوتوں نے مکہ اور مدینہ کی ہر طرف سے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ تمام سمندری راستوں پر ان کا کنٹرول ہے۔ اسی طرح خشکی کی جانب سے بھی ان دونوں شہروں کو مکمل اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے گویا دجالی قوتیں حضرت مہدی تک پہنچنے والی رسد و کمک کو ہر طرف سے روکنا چاہتی ہیں۔ اور ان خاص جگہوں پر اپنا کنٹرول چاہتی ہیں جہاں سے ان کی حمایت کے لئے مجاہدین آسکتے ہیں۔
۔❶ اسی مفہوم کی روایت مسلم شریف کے طرق سے صحیح ہے
مدینہ منورہ کا محاصرہ
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عنقریب مدینہ میں مسلمانوں کا محاصرہ کیا جائے گا، یہاں تک کہ آخری مورچہ سلاح میں ہوگا۔ اور سلاح ایک مقام ہے خیبر کے قریب۔ (مشکوۃ، باب الملاحم رواہ ابوداوُد، صحیح بن حبان: ۶۷۷۱)
فائدہ: خیبر مدینہ منورہ سے ساٹھ میل دور ہے۔ اس وقت امریکی فوجیں مدینہ سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر موجود ہیں
حضرت محجن ابن ادرع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن) لوگوں سے خطاب کیا، چنانچہ تین مرتبہ (یہ) فرمايا: "يـوم الـخـلاص وما يوم الخلاص يوم الخلاص وما يوم الخلاص" کسی نے پوچھا یہ یوم الخلاص کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دجال آئے گا اور احد کے پہاڑ پر چڑھے گا، پھر اپنے دوستوں سے کہے گا کیا اس قصرِ ابیض (سفید محل) کو دیکھ رہے ہو؟ یہ احمد کی مسجد ہے۔ پھر مدینہ منورہ کی جانب آئے گا تو اس کے ہر راستے پر ہاتھ میں ننگی تلوار لئے ایک فرشتے کو مقرر پائے گا، چنانچہ " سبخة الجرف" کی جانب آئے گا اور اپنے خیمے پر ضرب لگائے گا، پھر مدینہ منورہ کو تین جھٹکے لگیں گے، جس کے نتیجے میں ہر منافق مرد وعورت اور فاسق مرد وعورت مدینہ سے نکل کر اس کے ساتھ چلے جائیں گے، اس طرح مدینہ (گناہ گاروں سے) پاک ہو جائے گا اور یہی یوم الخلاص (چھٹکارے یا نجات کا دن) ہے
یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ امام ذہبی نے اس کی توثیق کی ہے اور علامہ ناصر الدین البانی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔ ( مستدرک علی الصحيحين، ج: ۴، ص: ۵۸۲)
فائدہ: دجال جب مسجد نبوی کو دیکھے گا تو اس کو قصرِ ابیض یعنی سفید محل کہے گا، جس وقت نبی کریم ﷺ یہ بات بیان فرما رہے ہیں اس وقت مسجد نبوی بالکل سادہ مٹی اور گارے کی بنی ہوئی تھی اور اب مسجد نبوی کو اگر دور سے یا کسی اونچی جگہ سے دیکھا جائے تو یہ دیگر عمارتوں کے درمیان بالکل کسی محل کے مانند لگتی ہے، مسجد نبوی کی ایک تصویر سیٹیلائٹ سے لی گئی ہے، جس میں مسجد نبوی بالکل سفید نظر آرہی ہے
نیز ایک دوسری روایت جس میں دجال کے وقت میں مدینہ منورہ کے سات دروازوں کا ذکر ہے تو سات دروازوں سے مراد شہر میں داخلے کے سات راستے بھی ہوسکتے ہیں، اور اس وقت مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے سات بڑے راستے ہیں۔
۔1۔ جدہ سے آنے والا۔ 2۔ مکہ مکرمہ سے آنے والا۔ 3۔ رابغ سے آنے والا۔ 4۔ ایئر پورٹ سے شہر میں آنے والا۔ 5۔ تبوک سے آنے والا اور باقی دو راستے ہیں جو مضافاتی علاقوں سے آتے ہیں، اہل ایمان کے لئے انتہائی غور وفکر کا مقام ہے۔ (اعوذ بالله من فتنة الدجال)
اہلِ یمن اور اہلِ شام کے لئے دعا
عن عبد الله بن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا قالوا وفي نجدنا قال اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لـنـا فـي يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنا. فأظنة قال في الثالثة هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان. (بخاری شریف: ۶۶۸۱، مسنداحد: ۵۹۸۷)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: کہ اے اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ہمارے نجد میں بھی، آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ ہمارے شام میں برکت عطا فرما اور ہمارے یمن میں بھی، لوگوں نے پھر کہا ہمارے نجد میں بھی، راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تیسری بار رسول ﷺ نے فرمایا کہ وہاں زلزلے آئیں گے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔
فائدہ: شام اور یمن کی برکت تو آج بھی صاف نظر آرہی ہے کہ اللہ نے اس آخری معرکہ میں فلسطین، شام اور یمن کے مجاہدین کو جو حصہ عطا کیا ہے وہ آپ ﷺ کی دعا ہی کا اثر ہے۔ اس وقت دنیائے کفر کو ہلانے والے شام اور یمن کے جانباز ہی زیادہ ہیں۔ اور خود شیخ اسامہ بن لادن (رحمة الله علیه) کا تعلق بھی یمن ہی سے ہے۔ نجد کا علاقہ، ریاض اور اس کے اردگرد کا علاقہ ہے۔
----------------------------------------------
۔❶ ابوداؤد کی روایت کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے اور ابن حبان کی روایت بھی امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے
تیسری جنگِ عظیم اور دجال، قسط: 17
مختلف علاقوں کی خرابی کا بیان
عن معاذ بن جبلؓ قال قال رسول الله ﷺ: و عـمـران بيت المقدس خراب يثرب، وخراب يثرب خروج الملحمة وخروج الملحمة فتح القسطنطنية وفتـح الـقـسـطـنـطنية خروج الدجال قال ثم ضرب بيده على فخذ الذي حدثه أو منكبه ثم قال إن هذالحق كما انك قاعد ها هنا أو كما أنت قاعد. ❶ (ابوداؤد، ج: ۴، ص: ۱۱۰، مسند احمد، ج: ۵، ص: ۲۴۵، مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ: حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیت المقدس کا آباد ہونا مدینہ کی خرابی کا باعث ہوگا، اور مدینہ کی خرابی جنگ عظیم کا باعث بنے گی اور جنگ عظیم فتحِ قسطنطنیہ کا سبب ہوگی اور فتح قسطنطنیہ دجال کے نکلنے کا سبب بنے گی۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ نے حدیث بیان کرنے والے (یعنی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ) کی ران یا کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ سب اسی طرح حقیقت ہے جس طرح تم یہاں ہو، یا بیٹھے ہو، یا (یہ فرمایا) جیسے تم بیٹھے ہو
فائدہ: شہروں کی خرابی کے حوالے سے جو احادیث آئی ہیں ان میں لفظ ”خراب" استعمال ہوا ہے، جو ہر قسم کا نقصان، مکمل ہو یا جزوی سب کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس لئے ہم نے اس کا ترجمہ خراب سے ہی کیا ہے، کیونکہ حدیث میں بیان کردہ ہر ملک کا نقصان ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ بیت المقدس کی آبادی سے مراد یہودیوں کا وہاں قوت پکڑنا ہے، بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ کے بعد یہودیوں کی ناپاک نظریں مدینہ منورہ پر لگی ہوئی ہیں
جنگ خلیج کے وقت امریکی فوجوں کا جزیرۃ العرب میں آنا درحقیقت اسی منصوبہ کا حصہ ہے، جس کی نشاندہی آپ ﷺ نے فرمائی ہے، یہی وجہ تھی کہ اہلِ ایمان، یہودیوں کی اس سازش کو سمجھ گئے اور اللہ والوں نے امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا، اس طرح اس وقت سے شروع ہونے والی کفر واسلام کی جنگ اب تیزی کے ساتھ فیصلہ کن مرحلہ کی جانب بڑھ رہی ہے
عـن وهـب بـن مـنـبه قـال الجزيرة امنة من الحراب حتى يخرب مصر ولا تكون الملحمة الكبرى حتى تخرب الكوفة فإذا كانت الملحمة الكبرى فتحت القسطنطنية على يد رجل من بني هاشم وخراب الاندلس وخراب الجزيرة من سنابك الخيل واختلاف الجيوش فيها وخراب العراق من قبل الجوع والسيف وخراب ارمينية مـن قبـل الـرجـف والـصـواعـق وخـراب الكوفة من قبل العدو وخراب البصرة من قبل الغرق وخراب أبلة من قبل العدو وخراب الري من قبل الديلم وخراب خراسان من قبل يبت وخراب تبت من قبل السند وخراب السند مـن قبـل الـهـنـد وخراب اليمن من قبل الجراد والسلطان وخراب مكة من قبل الحبشة وخراب المدينة من قبل الجوع. ❷ (السنن الواردة في الفتن، ج: ۴، ص: ۸۸۵)
ترجمہ: حضرت وہب ابن منبہ فرماتے ہیں کہ جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہوگا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے، اور جنگِ عظیم اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کوفہ خراب نہ ہو جائے، اور جب جنگِ عظیم ہوگی تو قسطنطنیہ بنی ہاشم کے ایک شخص کے ہاتھوں فتح ہوگا۔ اور اندلس اور جزیرۃ العرب کی خرابی گھوڑوں کے ٹاپوں اور لشکروں کے اختلاف کی وجہ سے ہوگی اور عراق کی خرابی بھوک اور تلوار کی وجہ سے ہوگی، اور آرمینیا کی خرابی زلزلے اور کڑک سے ہوگی، اور کوفہ کی خرابی دشمن کی وجہ سے ہوگی اور بصرہ کی خرابی ڈوبنے کی وجہ سے ہوگی، اور ابلہ کی خرابی دشمن کی وجہ سے ہوگی، اور رے کی خرابی دیلم کی وجہ سے ہوگی، اور خراسان کی خرابی تبت کی وجہ سے ہوگی اور تبت کی خرابی سندھ کی وجہ سے ہوگی، اور سندھ کی خرابی ہند کی وجہ سے ہوگی، اور یمن کی خرابی ٹڈیوں اور بادشاہ کی وجہ سے ہوگی، اور مکہ کی خرابی حبشہ کی وجہ سے ہوگی، اور مدینہ کی خرابی بھوک کی وجہ سے ہوگی۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جزیرۃ العرب خرابی سے محفوظ رہے گا، جب تک کہ آرمینیا خراب نہ ہو جائے۔ اور مصر خرابی سے محفوظ رہے گا جب تک جزیرۃ العرب نہ خراب ہو جائے۔ اور کوفہ خرابی سے محفوظ رہے گا جب تک کہ مصر خراب نہ ہو جائے، اور جنگِ عظیم اس وقت تک نہیں چھڑے گی جب تک کوفہ خراب نہ ہو جائے اور دجال اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک کفر کا شہر فتح نہ ہو جاۓ۔ ❸ (مستدرک، ج: ۴، ص: ۵۰۹)
حضرت مثجور بن غیلان رحمہ اللہ حضرت عبد اللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد عبداللہ کے ساتھ مسجد سے باہر آئے تو عبداللہ نے فرمایا: خطوں میں زیادہ جلد خراب ہونے والے خطے، بصرہ اور مصر ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ان کو کیا چیز خراب کرسکتی ہے، حالانکہ وہاں تو بڑے معزز اور مالدار لوگ موجود ہیں تو انہوں نے جواب دیا: خونریزی قتلِ عام اور انتہائی بھوک۔ (یہ بات میں ایسے کہہ رہا ہوں) گویا میں بصرہ میں ہوں اور بصرہ گویا بیٹھا ہوا شتر مرغ ہو۔ رہا مصر تو دریائے نیل خشک ہو جائےگا اور یہی مصر کی خرابی کا سبب ہوگا۔ (السنن الواردة في الفتن، ج: ۴، ص: ۹۰۷)
حضرت ابوعثمان النہدی کہتے ہیں کہ میں جریر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ "قطر بل" میں تھا تو انہوں نے پوچھا اس بستی کا کیا نام ہے؟ میں نے کہا "قطر بل" ۔ ابوعثمان کہتے ہیں پھر جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے "دجیل" کی جانب اشارہ کیا (پوچھا اس کا کیا نام ہے) ابو عثمان کہتے ہیں میں نے کہا "دجیل۔" کہتے ہیں پھر انہوں نے "دجلہ" کی جانب اشارہ کیا۔ میں نے کہا وہ "دجلہ" ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر انہوں نے "الصراۃ" کی طرف اشارہ کیا، میں نے کہا اس کو "الصراۃ" کہتے ہیں۔ وہ (جریر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "دجلہ اور دجیل اور قطر بل اور الصراۃ" کے درمیان ایک شہر بنایا جائے گا، جس میں دنیا کی دولت، خزانے اور دنیا کے جابر لوگ جمع کئے جائیں گے، اہلِ شہر دھنس جائیں گے تو یہ شہر لوہے کی کیل سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ زمین میں دھنس جانے والا ہے۔ ( تاریخ بغداد، ج: ۱، ص: ۳۰)
فائدہ: دجیل بغداد اور تکریت کے درمیان سمارا شہر کے قریب ہے۔
عـن اسحاق بن أبي يحي الكعبي عن الأوزاعي قال إذا دخل أصحاب الرايات الصفر مصر فليحفر أهل الشام أسراباً تحت الأرض. ❹ (السنن الواردة في الفتن)
ترجمہ: حضرت اسحٰق ابن ابی یحیٰ الکعبی حضرت اوزاعی سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جب پیلے جھنڈوں والے مصر میں داخل ہوجائیں تو اہلِ شام کو زمین دوز سرنگیں کھود لینی چاہئیں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے مصر والوں سے فرمایا: جب تمہارے پاس مغرب سے عبداللہ ابن عبدالرحمن آئے گا تو تم اور وہ قنطرہ سے قتال کرو گے، جس کے نتیجے میں تمہارے درمیان ستر ہزار مقتول ہوں گے اور وہ تمہیں سرزمینِ مصر اور شام کی ایک ایک بستی سے ضرور نکال دیں گے، اور عربی عورت دمشق کے راستے پر پچیس درہم میں بیچی جائے گی، پھر وہ حمص میں داخل ہوں گے، وہاں وہ اٹھارہ مہینے ٹھہریں گے، اور وہاں مال و دولت تقسیم کریں گے، نیز وہاں مردوں اور عورتوں کو قتل کریں گے۔ پھر ان کے خلاف ایک جری شخص نکلے گا، تو وہ ان سے جنگ کرےگا اور ان کو شکست دے دےگا، یہاں تک کہ ان کو مصر میں داخل کر دے گا۔ (الفتن نعیم بن حماد، ج: ۱، ص: ۲۶۷)
عن سعيد بن سنان عن الأشياخ قال تكون بحمص صيحة فليلبث أحدكم في بيته فلا يخرج ثلاث ساعات ، فيه شيوخ سعيد وهم مجهولون. ❺
(الفتن نعیم بن حماد، ج: ۱، ص: ۴۱۴)
ترجمہ: سعید بن سنان نے شیوخ سے روایت کی ہے، فرمایا (شام کے شہر حمص میں ایک چیخ ہوگی، سو (اس وقت) ہر ایک اپنے گھر میں رکا رہے، تین گھنٹے تک نہ نکلے۔
فائدہ: ان تمام روایات میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ مسلمان دشمن کو دیکھ کر خوابِ غفلت میں نہ پڑے رہیں، اور ایک مسلم ملک کو پٹتا ہوا دیکھ کر دوسرے مسلمان یہ نہ کہیں کہ ہماری باری نہیں آئےگی، بلکہ پہلے سے ہی دشمن کے مقابلے کے لئے تیاری شروع کر دیں۔
عن كعب قال إذا رأيت الرايات الصفر نزلت الاسكندرية ثم نزلوا سُرة الشام فعند ذلك يخسف بقرية من قرى دمشق يقال لها حرستا. (الفتن نعیم بن حماد، ج: ۱، ص: ۲۷۲)
ترجمہ: حضرت کعب سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب تم دیکھو کہ پیلے جھنڈے اسکندریہ میں آچکے ہیں اور پھر وہ وسط شام میں اتر آئیں تو اس وقت دمشق کی بستیوں میں سے ایک بستی، جس کا نام حرستا ہے، دھنس جائے گی۔
فائدہ: حرستا دمشق سے قریب حمص کے راستے میں ہے۔
----------------------------------------------
۔❶ ابوداؤد کی روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے۔
۔❷ فيه عبد المنعم بن ادریس تركه غير واحد و ادريس بن سنان ابو عبد المنعم ترکه دار قطنی وضعفه ابن عدی.
۔❸ مقطع واه (تعليق الذهبي في التلخيص)
۔❹ ضعیف ہے۔
۔❺ اس میں سعید کے شیوخ مجہول ہیں۔
عراق پر قبضے کی پیشن گوئی
عـن عبـدالله بـن عـمـرو ؓ قـال يوشك بنو قنطورا أن يخرجوكم من أرض الـعـراق قـلـت ثم نعود قال أنت تشتهى ذاك قلت أجل قال نعم ويكون لهم سلوة من عيش. (الفتن نعیم بن حماد، ج: ۲، ص: ۲۷۹)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب بنو قنطوراء (اہلِ مغرب) تمہیں عراق سے نکال دیں۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا (کیا عراق سے نکلنے کے بعد) پھر ہم دوبارہ (عراق) واپس آسکیں گے؟ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ایسا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا ضرور (میں ایسا چاہتا ہوں) انہوں نے فرمایا: ہاں! (وہ واپس عراق لوٹ کر آئیں گے۔) اور ان کے لئے (عراق میں) خوشحالی اور آسودگی کی زندگی ہوگی۔
شام اور یمن کے بارے میں دیگر روایات
عـن عبـد السـلام بـن مسـلـمـة سمع أبا قبيل يقول إن صاحب المغرب وبنى مروان وقضاعة تجتمع على الزيات السود في بطن الشام. (الفتن نعیم بن حماد، ج: ۱، ص: ۲۶۷)
ترجمہ: حضرت عبد السلام ابن مسلمہ سے روایت ہے، انہوں نے ابوقبیل کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مغرب والا، بنی مردان اور قضاعہ اندرونِ شام میں کالے جھنڈوں کے نیچے جمع ہوں گے۔
عن كعب قال إن الله تعالى يمد أهل الشام إذا قاتلهم الروم في الملاحم بقطعتين دفعة سبعين ألفاً ودفعة ثمانين ألفاً من أهل اليمن حمائل سيوفهم الـمسـد يـقولون نحن عباد الله حقا حقا نقاتل أعداء الله رفع الله عنهم الطاعون والأوجاع والأوصاب حتى لا يكون بلد أبرأ من الشام ويكون ما كان في الشام من تلك الأوجاع والطاعون في غيرها
(الفتن نعیم بن حماد، ج: ۲، ص: ۴۶۹)
ترجمہ: حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رومی جنگِ عظیم (ملاحم) میں اہلِ شام سے جنگ کریں گے تو اللہ تعالی دو لشکروں کے ذریعے ان (اہلِ شام) کی مدد فرمائے گا، ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ اسی ہزار اہلِ یمن کے ذریعے، جو اپنی بند تلواریں (یعنی بالکل پیک اسلحہ اس سے مراد نیا اسلحہ ہے) لٹکائے ہوئے آئیں گے، وہ کہتے ہوں گے کہ ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں، ہم اللہ کے دشمنوں سے قتال کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے طاعون اور ہر قسم کی تکلیف (بیماری وغیرہ) اور تھکاوٹ کو اٹھالیں گے، حتیٰ کہ شام سے زیادہ کوئی ملک (ان بیماریوں) سے محفوظ نہیں ہوگا، اور شام میں جو تکالیف اور طاعون ہوگا وہ شام کے علاوہ (ملکوں) میں بھی ہوگا۔ (یعنی طاعون اور دیگر بیماریاں تمام جگہوں پر ہوگی، لیکن شام میں سب سے کم ہوگی، اور مجاہدین کو تو اللہ بالکل ہی ان تمام آفتوں سے محفوظ فرمائے گا۔)
اسی روایت میں ہے حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مغرب میں بھیڑ کی مدتِ حمل کے برابر ایک بادشاہ ہوگا جو اہلِ شام کے مقابلے کے لئے جہاز تیار کرے گا، چنانچہ جب بھی وہ جہاز تیار کرےگا تو اللہ تعالیٰ (ان کو تباہ کرنے کے لئے) تیز ہوا کو بھیج دےگا، یہاں تک کہ اللہ ان (جہازوں) کو نکلنے کی اجازت دے دے گا تو وہ "عکا اور نہر" کے درمیان لنگر انداز ہوں گے، پھر ہر لشکر دوسرے کی مدد کرے گا۔
(راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ نہر کون سی ہے؟ (جہاں اہلِ مغرب آکر لنگر انداز ہوں گے) انہوں نے فرمایا: دریائے ارنط (یعنی) نہر حمص۔ اور مہراقہ ’’اقرع اور مصیصہ کے درمیان کا علاقہ ہے"۔
(الفتن نعیم بن حماد: ج ۲ ص ۴۶۹)
۔❶ اس میں بقیہ ابن ولید راوی مدلس ہیں اور یہاں عن سے روایت کی ہے، چنانچہ روایت ضعیف ہے
دریائے فرات پر جنگ Euphrates
عـن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول اللہ ﷺ یوشك الفرات أن يحسر عن كنز من ذهب فمن حضرة فلا يأخذ منه. (بخاری، ج: ۶، ص: ۲۶۰۵، سنن الترمذی، ج: ۴، ص: ۶۹۸)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عنقریب دریائے فرات سے سونے کا خزانہ نکلے گا، لہٰذا جو بھی اس وقت موجود ہو، اس میں سے نہ لے۔
فائدہ: نبی کریم ﷺ نے مال کو اس امت کے لئے فتنہ قرار دیا ہے۔ فرمایا
"ان لـكـل امة فتنة وان فتنة امتى المال". ❶
ہر امت کے لئے کوئی چیز فتنہ رہی ہے اور بیشک میری امت کے لئے فتنہ مال ہے اور فتنے سے دور رہنا ہی فتنے سے بچنے کا سبب ہوتا ہے، اس لئے آپ ﷺ نے اس مال سے دور رہنے کا حکم فرمایا۔ اس حدیث میں نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کے احکامات کو بھلا کر دولت اکھٹی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئےگی، جب تک فرات سے سونے کا پہاڑ نہ نکلے لوگ اس پر جنگ کریں گے اور ہر سو میں سے نناویں مارے جائیں گے، ہر ایک بچنے والا یہی سمجھے گا کہ شاید میں ہی اکیلا بچا ہوں۔ (مسلم، ج: ۴، ص: ۲۲۱۹)
فائدہ: دریائے فرات کے کنارے واقع ’’فلوجہ" کے لئے اتحادی فوجوں اور مجاہدین کے درمیان خونریز جنگ ہوئی ہے۔ اور جھڑپیں ابھی بھی جاری ہیں۔ البتہ اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہاں سونے کے پہاڑ کے بارے میں کافروں کو علم ہے یا نہیں؟ یا پھر یہاں سونے کے پہاڑ سے کچھ اور مراد ہے۔ (واللہ اعلم)
عن ثوبان قال قال رسول الله ﷺ يقتتل عند كنزكم ثلاثة كلهم ابن خليفة ثم لا يصير إلى واحـد منهـم ثـم تـطـلـع الـرايـات السودمن قبل المشرق فيقاتلونكم قتالا لم يقاتله قوم ثم ذكر شيئا فقال إذا رأيتموه فبايعوه ولو حبواً على الثلج فإنه خليفة الله المهدئ. هذا حديث صحيح على شرط الشيخين. وافقه الذهبي. (مستدرک، ج: ۴، ص: ۵۱۰، سنن ابن ماجہ، ج: ۲، ص: ۱۳۶۷)
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: تمہارے خزانے کے پاس تین شخص جنگ کریں گے، یہ تینوں خلیفہ کے لڑکے ہوں گے، پھر بھی یہ خزانہ ان میں سے کسی کی طرف منتقل نہیں ہوگا، اس کے بعد مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے اور وہ تم سے اس شدت کے ساتھ جنگ کریں گے کہ اس سے پہلے کسی قوم نے اس شدت کے ساتھ جنگ نہ کی ہوگی۔ (راوی کہتے ہیں، پھر آپ ﷺ نے کوئی بات فرمائی جو ہم نہ سمجھ سکے)
ابن ماجہ کی روایت میں اس جملے کی تصریح ان الفاظ میں ہے: "پھر اللہ کے خلیفہ مہدی کا خروج ہوگا، پھر فرمایا کہ جب تم لوگ انہیں دیکھنا تو ان سے بیعت کرلینا اگرچہ اس بیعت کے لئے تمہیں برف پر گھسٹ کر آنا پڑے، وہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہوں گے۔
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے۔
فائدہ: اس خزانے سے مراد یا تو وہی فرات والا خزانہ ہے یا وہ خزانہ ہے جو کعبہ میں دفن ہے اور جس کو حضرت مہدی نکالیں گے۔ یہاں دو فریق پہلے سے اس خزانے کے لئے جنگ کر رہے ہوں گے، پھر مشرق سے کالے جھنڈے والے آئیں گے، جو اسلام کی طلب میں آئیں گے، اس کا بیان آگے آئے گا۔
عـن أبـي الـزاعـراء قال ذكـر الـدجال عند عبد الله بن مسعود فقال يفترق الناس عند خروجه ثلاث فرق فرقة تتبعه وفرقة تلحق بأهلها منابت الشيخ وفرقة تاخذ شط هذا لفرات يقاتلهم ويقاتلونة حتى يقتلون بغربي الشام فيبعثون طليعة فيهم فرس أشقر أو أبلق فيقتلون فلا يرجع منهم أحد. هذ حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.(مستدرک علی الصحیحین، ج: ۴، ص: ۲۴۱)
ترجمہ: حضرت ابوزاعراء فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے دجال کا ذکر ہوا تو فرمانے لگے کہ دجال کے وقت لوگ تین جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک جماعت اس کے ساتھ ہو جائے گی، اور ایک جماعت گھر کے بڑے کا قائم مقام بن کر اپنے گھروں میں بیٹھ جائے گی اور ایک جماعت اس فرات کے کنارے ڈٹ جائے گی، دجال ان سے جنگ کرے گا اور یہ دجال سے جنگ کریں گے۔ (لڑتے لڑتے آگے بڑھتے جائیں گے) یہاں تک کہ مغربی شام میں جنگ کریں گے، پھر (ریکی کے لئے) ایک دستہ بھیجیں گے جس میں چتکبرے یا بھورے رنگ کے گھوڑے ہوں گے، یہ (وہاں) جنگ کریں گے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں آئے گا۔
۔❶ الاحاد والمثاني ج:۴ ص: ۴۶
دریائے فرات اور موجودہ صورتِ حال
تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن کو اس وقت کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی جب وہ رونما ہو رہے تھے، البتہ بعد میں چل کر ان کے دور رس اثرات کے بارے میں لوگوں کو علم ہوا، اس دور میں بھی ہمارے سامنے دل دہلا دینے والے اور ذہنوں کو جھنجوڑ دینے والے حادثات رونما ہو رہے ہیں، زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے، واقعات چیخ چیخ کر غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں، لیکن غفلت کے صحراؤں میں بھٹکنے والے نہ معلوم کب تک بھٹکتے رہیں گے، نبی کریم ﷺ کی بیان کردہ احادیث پر عمل کرنا تو دور کی بات آج اکثر مسلمان ان میں غور کرنے کی بھی تکلیف گوارا نہیں کر رہے، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خود کو اس وقت کے لئے تیار کرو جب جہاد ہی ایمان کا معیار ہوگا، جو جہاد سے پیچھے رہے گا اس کا ایمان معتبر نہیں ہوگا، تو کہتے ہیں کہ ابھی وہ وقت بہت دور ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ اپنی بزدلی اور دنیا کی محبت کی وجہ سے جہاد کی تیاری نہیں کرتے۔
کیونکہ اگر وہ اپنے کہنے میں سچے ہوتے تو کچھ تو تیاری کرتے، نیز ان حالات میں تو غور و فکر کرتے جو اس وقت ان علاقوں میں رونما ہو رہے ہیں جن کے بارے میں احادیث میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔
دریائے فرات کے بارے میں کافی احادیث آئی ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جیسے ہی فرات کے کنارے فلوجہ میں جنگ شروع ہوئی تھی تو ایمان والوں کو فکر لاحق ہونی چاہئے تھی، لیکن لگتا یوں ہے کہ مسلمان بھی کفر کی آنکھ (مغربی میڈیا) سے واقعات کو دیکھتے ہیں۔
فرات کے کنارے فلوجہ میں گھمسان کی جنگ بھی لڑی گئی، اور مشرق سے کالے جھنڈے والے بھی وہاں لڑ رہے ہیں اور اس انداز میں لڑ رہے ہیں کہ اس سے پہلے کوئی نہیں لڑا، اگرچہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ وہی لشکر ہے جس کا ذکر اوپر والی حدیث میں آیا ہے، ممکن ہے حدیث والا لشکر بعد میں پہنچے، البتہ جو دو باتیں ہم نے بیان کی ہیں وہ ساری دنیا جانتی ہے کہ حقیقت ہیں۔
جنگ بھی فرات کے کنارے ہے اور کالے جھنڈے والے القاعدہ کے مجاہدین کی بڑی تعداد جو وہاں لڑ رہی ہے وہ سب وہی عرب مجاہدین ہیں جو طالبان کی پسپائی کے بعد مشرق (افغانستان) ہی سے عرب ممالک واپس گئے ہیں۔ اب مزید تحقیق کرنا علماء کرام کا کام ہے کہ مسئلہ بہت اہم ہے اور میڈیا پر کفریہ طاقتوں کا قبضہ ہے۔
ایمان والوں سے گزارش یہ ہے کہ حالات کو احادیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں، ابھی سے اپنے آپ کو جہاد کے لئے تیار کرلیں، اگر دل میں ایمان ہے اور ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ورنہ یہ حقیقت ذہن نشیں رہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان آکر کفار سے قتال کریں گے اس وقت تربیت کا موقع نہیں ملے گا، وہی ان کے ساتھ جا پائے گا جو پہلے سے جہاد کی تیاری کئے ہوگا۔
ابھی وقت ہے بیدار ہونے کا ورنہ ایسا نہ ہو کہ نامعلوم منزلوں کی جانب سفر جاری رہے اور جب ہوش آئے تو قافلہ چھوٹ چکا ہو۔
خروج مہدی کی نشانیاں
حج کے موقع پر منیٰ میں قتلِ عام
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي ذِي الْقَعْدَةِ تُجَاذِبُ الْقَبَائِلُ وَتُغَادِرُ ، فَيُنْهَبُ الْحَاجُّ ، فَتَكُونُ مَلْحَمَةٌ بِمِنًى ، يَكْثُرُ فِيهَا الْقَتْلَى ، وَيَسِيلُ فِيهَا الدِّمَاءُ ، حَتَّى تَسِيلَ دِمَاؤُهُمْ عَلَى عَقَبَةِ الْجَمْرَةِ ، وَحَتَّى يَهْرُبَ صَاحِبُهُمْ فَيَأْتِي بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ ، فَيُبَايَعُ وَهُوَ كَارِهٌ ، يُقَالُ لَهُ: إِنْ أَبِيتَ ضَرَبْنَا عُنُقَكَ ، يُبَايِعُهُ مِثْلُ عِدَّةِ أَهْلِ بَدْرٍ يَرْضَى عَنْهُمْ سَاكِنُ السَّمَاءِ وَسَاكِنُ الْأَرْضِ۔ (أخرجه نعيم بن حماد في"الفتن" (986) ، ومن طريقه الحاكم في "المستدرك" (8537)
ترجمہ: حضرت عمرو ابن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ذی قعدہ کے مہینے میں قبائل کے درمیان کشمکش اور معاہدہ شکنی ہوگی، چنانچہ حاجیوں کو لوٹا جائے گا اور منیٰ میں جنگ ہوگی۔ اور بہت زیادہ قتلِ عام اور خون خرابہ ہوگا، یہاں تک کہ عقبہ جمرہ پر بھی خون بہہ رہا ہوگا۔ نوبت یہاں تک آئے گی کہ حرم والے (حضرت مہدی علیہ الرضوان) بھی بھاگ جائیں گے اور (بھاگ کر) وہ رکن اور مقامِ ابراہیم کے درمیان آئیں گے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی۔ اگرچہ وہ (حضرت مہدی) اس کو پسند نہیں کر رہے ہوں گے۔ ان سے کہا جائے گا کہ اگر آپ نے بیعت لینے سے انکار کیا تو ہم آپ کی گردن اڑا دیں گے۔ پھر وہ بیعت کریں گے، بیعت کرنے والوں کی تعداد اہلِ بدر کے برابر ہوگی۔ ان (بیعت کرنے والوں) سے زمین و آسمان والے خوش ہوں گے۔
مستدرک کی ہی دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لوگ بھاگے بھاگے حضرت مہدی کے پاس آئیں گے تو اس وقت حضرت مہدی کعبہ سے لپٹے ہوئے رو رہے ہوں گے۔ (حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) گویا میں ان کے آنسو دیکھ رہا ہوں۔ چنانچہ لوگ (حضرت مہدی سے کہیں گے) آیئے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ وہ (حضرت مہدی) کہیں گے افسوس! تم کتنے ہی معاہدوں کو توڑ چکے ہو، اور کس قدر خون خرابہ کرچکے ہو، اس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بیعت کرلیں گے۔ (حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ) نے فرمایا (اے لوگو! جب تم انہیں پالو تو تم ان کے ہاتھ پر بیعت کر لینا، کیونکہ وہ دنیا میں بھی مہدی ہیں اور آسمان میں بھی مہدی ہیں۔
فائدہ ¹: اس حدیث میں منیٰ میں خون خرابے کا ذکر ہے۔ اتنا بڑا واقعہ اچانک تو رونما نہیں ہوگا بلکہ باطل قوتیں اس کے لئے پہلے سے ہی تیاریاں کر رہی ہوں گی۔
فائدہ ²: حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کی تعداد جنگِ بدر کے مجاہدین کے برابر یعنی تین سو تیرہ ہوگی، نعیم ابن حماد نے اپنی کتاب "الفتن‘‘ میں اس کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے۔
امام زہری فرماتے ہیں کہ اس سال (حضرت مہدی کے سال) دو اعلان کرنے والے اعلان کریں گے۔ آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: اے لوگو! تمہارا امیر فلاں شخص ہے، اور زمین سے اعلان کرنے والا اعلان کرے گا۔ پہلا (اعلان کرنے والے) نے جھوٹ کہا۔ چنانچہ نیچے اعلان کرنے والے لڑائی کریں گے، یہاں تک کہ درختوں کے تنے خون سے سرخ ہو جائیں گے۔ اور اس دن جس کے بارے میں عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ وہ لشکر ہے جس کو زمینوں والا لشکر (جیش البراذع) کہا جاتا ہے۔ وہ (اپنے گھوڑوں کی) زینوں کو پھاڑ کر ڈھال بنائیں گے، چنانچہ (جب کافروں اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہوگی تو) اس دن آسمان سے آنے والی آواز کا ساتھ دینے والوں میں سے صرف اہلِ بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ مسلمان بچیں گے۔ اس طرح ان (مسلمانوں) کی مدد کی جائیگی۔ پھر یہ اپنے ساتھی کے پاس آئیں گے۔ ❶
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مدینہ کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا۔ وہ آل بیت کو قتل کرے گا تو مہدی اور مبیض مدینہ سے مکہ بھاگ جائیں گے۔ (منتخب کنز العمال، ص: ۳۳، ج: ۶)
۔❶ ضعیف ہے، لیکن نعیم بن حماد نے اسی مفہوم کی روایت دوسری سند سے روایت کی ہے جس میں کوئی نقص نہیں ہے۔
۔❷ رمضان میں آواز کا ہونا
عن فيروز الديلمي ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ يكون في رمضان صوت قالوا يارسول الله في أوله أو في وسطه أو في آخره قال لا بل في النصف من رمضان إذا كانت ليلة النصف ليلة الجمعة يكون صوت من السماء يصعق له سبعون ألفاً ويصم سبعون ألفاً قالوا يا رسول الله فمن السالم من أمتك قال من لزم بيته وتعوذ بالسجود وجهر بالتكبير الله ثم يتبعه صوت آخر فالصوت الأول صوت جبـريـل والثـانـي صـوت الشيطان، فالصوت في رمضان والمعمعة في شوال ويميز القبائل في ذي القعدة ويغار على الحاج في ذي الحجة والمحرم وأما الـمـحـرم أولـه بـلاء على أمتى وآخره فرج لامتى. الراحلة بقتبها ينجو عليها المؤمن خير له من دسكرة تغل مأة ألف. (المعجم الکبیر، ج: ۱۸، ص: ۳۳۲)
ترجمہ: حضرت فیروز دیلمی رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رمضان میں ایک زبردست آواز آئے گی، صحابہ کرام رضي الله عنهم نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ آواز رمضان کے شروع میں ہوگی، یا درمیان میں یا آخر میں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نصف رمضان میں، جب نصف رمضان میں جمعہ کی رات ہوگی تو آسمان سے ایک آواز آئے گی جس سے ستر ہزار لوگ بے ہوش ہو جائیں گے، اور ستر ہزار بہرے ہو جائیں گے۔ صحابہ کرام ؓ نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! تو آپ کی امت میں سے، اس آواز سے محفوظ کون رہےگا؟ فرمایا: جو اس وقت اپنے گھروں میں رہے اور سجدوں میں گر کر پناہ مانگے، اور زور زور سے تکبیریں کہے، پھر اس کے بعد ایک اور آواز آئےگی، پہلی آواز جبرئیل کی ہوگی اور دوسری آواز شیطان کی ہوگی۔
(واقعات کی ترتیب یہ ہے کہ) آواز رمضان میں ہوگی۔ اور معمعہ ❶ شوال میں ہوگی اور ذی قعدہ میں قبائلِ عرب بغاوت کریں گے اور ذی الحجہ میں حاجیوں کو لوٹا جائے گا۔ رہا محرم کا مہینہ تو محرم کا ابتدائی حصہ میری امت کے لئے آزمائش ہے اور اس کا آخری حصہ میری امت کے لئے نجات ہے۔ اس دن وہ سواری مع کجاوے کے جس پر سوار ہو کر مسلمان نجات پائے گا، اس کے لئے ایک لاکھ سے زیادہ قیمت والے اس مکان سے بہتر ہوگی جہاں کھیل و تفریح کا سامان ہوتا ہے۔
فائدہ: اس روایت میں عبد الوہاب بن ضحاک راوی متروک ہیں، چنانچہ یہ روایت ضعیف ہے۔ (مجمع الزوائد، ج: ۷، ص: ۳۱۰)
ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے اور ستر ہزار (گھبراہٹ کے مارے) راستہ بھٹک جائیں گے، ستر ہزار اندھے ہو جائیں گے، ستر ہزار گونگے ہو جائیں گے، ستر ہزار لڑکیوں کی بکارت زائل ہو جائے گی۔
(السنن الواردة في الفتن)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رمضان میں آواز ہوگی، اور ذی قعدہ میں قبائل کی بغاوت ہوگی، اور ذی الحجہ میں حاجیوں کو لوٹا جائے گا، طبرانی نے اس کو الاوسط میں روایت کیا ہے۔ اس میں شہر بن حوشب راوی ضعیف ہیں۔
(مجمع الزوائد، ج: ۷، ص: ۳۱۰)
حضرت یزید بن سندی نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، فرمایا: حضرت مہدی علیہ الرضوان کے خروج کی نشانی یہ ہے کہ مغرب کی جانب سے جھنڈے آئیں گے جن پر بنو کندہ کا ایک لنگڑا شخص سربراہ ہوگا، سو جب مغرب والے مصر میں آجائیں تو اس وقت شام والوں کے لئے زمین کا اندرونی حصہ بہتر ہوگا۔ (السنن الواردة في الفتن)
۔❶ معمعہ جنگ کی گھن گرج یا گھمسان کی جنگ کو کہتے ہیں۔ اور اس کے معنیٰ آگ کی لپیٹ اور حرارت کے بھی ہیں۔ کیونکہ یہ اصل میں "معمعۃ النار" سے لیا گیا ہے جس کے معنیٰ آگ کی لپٹ یا انگارے کے ہیں۔ (لسان العرب)
خروجِ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان
عـن أم سلمة رضي الله عنها قالت سمعت رسول اللہ ﷺ يقول يكون اختلاف عند موت خـلـيـفـة فيخرج رجل من بني هاشم فيأتى مكة فيستخرجه الناس من بيته وهو كارة فيبـايـعـونـه بيـن الـركـن والمقام فيجهز إليه جيش من الشام حتى إذا كانوا بالبيداء خسف بهـم فيـأتيه عصائب العراق وأبدال الشام وينشأ رجل بالشام وأخواله كلب فيجهز اليه جيشاً فيهزمهم الله فتكون الدائرة عليهم فذلك يوم كلب الخائب من خـاب مـن غنيمة كلب فيستفتح الكنوز ويقسم الأموال ويلقى الاسلام بجرانه إلى الأرض فيـعيـش بذلك سبع سنين أو قال تسع سنين. (المعجم الأوسط، ج: ۲، ص: ۳۵، مسندابی یعلی،۶۹۴۰ ❶، ابن حبان: ۶۷۵۷، المعجم الکبیر: ۹۳۱، ابن حبان: ۶۷۵۷)
ترجمہ: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ خلیفہ کی وفات پر اختلاف ہوگا تو خاندان بنی ہاشم کے ایک شخص (اس خیال سے کہیں لوگ مجھے خلیفہ نہ بنا دیں) مدینہ سے مکہ چلے جائیں گے، لوگ (انہیں پہچان کر کہ یہی مہدی آخر الزماں ہیں) گھر سے باہر نکال لائیں گے اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کریں گے۔ (ان کی بیعتِ خلافت کی خبر سن کر) شام سے ایک لشکر ان سے مقابلہ کے لئے روانہ ہوگا، چنانچہ یہ لشکر جب بیداء میں پہنچے گا تو دھنسا دیا جائے گا۔ اس کے بعد ان کے پاس عراق کے اولیاء اور شام کے ابدال حاضر ہوں گے۔ پھر ایک شخص شام سے نکلے گا جس کی ننیہال قبیلۂ کلب میں ہوگی وہ اپنا لشکر ان (بنی ہاشم کے اس شخص) کے خلاف مقابلے کے لئے روانہ کرے گا، اللہ تعالی اس لشکر کو شکست دے گا، جس کے نتیجے میں ان پر آفت آئے گی، یہی "کلب‘‘ کی جنگ ہے۔ وہ شخص خسارہ میں رہے گا جو "کلب‘‘ کی غنیمت سے محروم رہا۔ پھر وہ (مہدی خزانوں کو کھول دیں گے اور مال تقسیم کریں گے اور اسلام دنیا میں مستحکم ہو جائے گا، وہ اس طرح سات یا نو سال رہیں گے۔ اس روایت کو طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے۔ اور اس کے تمام راوی صحیح ہیں۔ (مجمع الزوائد، ج: ۷، ص: ۳۱۵ )
ابو داؤد کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: پھر وہ (مہدی) وفات پا جائیں گے اور لوگ ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔
فائدہ ¹: بنی ہاشم کے وہ شخص جن کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی وہ محمد ابن عبد اللہ ہوں گے جو مہدی کے لقب سے مشہور ہوں گے۔
طبرانی کی دوسری روایت میں ہے کہ بیعت کرنے والوں کی تعداد میدان بدر کے صحابہ کے برابر یعنی تین سو تیرہ ہوگی
(المعجم الاوسط، ج: ۹، ص: ۱۷۶)
فائدہ ²: حدیث میں لفظ ’’مدینہ" سے مراد اگر مدینہ منورہ ہے تو وفات پانے والا حکمران سعودی کا ہی ہوگا جس کے بعد اس کے جانشین پر اختلاف ہوگا۔ اور امیر مہدی مدینہ منورہ سے مکہ آجائیں گے (اختلاف سے بچنے کے لئے) یا لفظ مدینہ سے مراد بادشاہ کا شہر ہے۔ (عون المعبود)
فائدہ ³: حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کی بیعت کی خبر ملتے ہی ایک لشکر ان کے خلاف نکلے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار حضرت مہدی کے انتظار میں ہوں گے اور اپنے جاسوسوں کے ذریعے حرم شریف کی خبریں رکھتے ہوں گے، اس روایت میں صرف اتنا ذکر ہے کہ لشکر بھیجنے والے کی ننیہال بنوکلب میں ہوگی، اس کی تشریح کرتے ہوئے توربشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب سفیانی حضرت مہدی سے اختلاف کرے گا تو ان کے خلاف اپنی ننیہال والوں سے مدد طلب کرے گا۔‘‘ ( عون المعبود)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بنوکلب بھی عرب کے کسی ملک پر حکمران ہوں گے اور اسلام کے دشمن ہوں گے۔ طبرانی کی ہی دوسری روایات میں اس شخص کے بارے میں یہ آیا ہے کہ اس کا تعلق قریش سے ہوگا اور بعض دیگر روایات میں ہے کہ وہ سفیانی کے نام سے مشہور ہوگا، اس کا ذکر ہم آگے کریں گے۔
فائدہ ⁴: بیداء شام میں بھی ہے اور ایک بیداء اردن میں ہے۔ لیکن شارح مسلم امام نووی کے مطابق یہاں بیداء سے مراد مدینہ منورہ والا بیداء ہے۔ جو ذوالحلیفہ کے قریب ہے۔
جب پہلا لشکر بیداء میں دھنس جائے گا تو اس کے بعد حضرت مہدی مجاہدین کو لیکر شام کی طرف جائیں گے اور وہاں دوسرے لشکر سے قتال کریں گے اور اس کو شکست دیں گے۔ اس جنگ کو ہی حدیث میں جنگِ کلب کہا گیا ہے اور اس لشکر کا سردار جو سفیانی کے لقب سے مشہور ہوگا اس کو اسرائیل میں بحیرہ طبریہ کے قریب قتل کریں گے۔ (بحوالہ السنن الوارده في الفتن)
فائدہ ⁵: ’’ابدال‘‘: ابدال اولیا اللہ کے ایک گروہ کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کل ابدال کی تعداد ستر رہتی ہے۔ اس میں سے چالیس ابدال تو شام (سوریا، فلسطین، اردن، لبنان وغیرہ) میں رہتے ہیں اور تیس ابدال باقی ملکوں میں رہتے ہیں۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے "جمع الجوامع" میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے: "ابدال نے یہ جو درجہ پایا ہے وہ بہت زیادہ نماز روزہ کرنے کی وجہ سے نہیں پایا ہے، اور نہ ہی عبادتوں کی وجہ سے ان کو تمام لوگوں سے ممتاز کیا گیا ہے، بلکہ انہوں نے اتنا اعلیٰ درجہ اپنی سخاوتِ نفس (دریا دلی) سلامتی دل، اور مسلمانوں کی خیر خواہی رکھنے کی وجہ سے پایا ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس شخص میں تین صفتیں یعنی رضاء بقضاء (تقدیر پر راضی رہنا) ممنوعہ چیزوں سے مکمل بچنا، اور خدا کے دین کی خاطر غصہ کرنا، پائی جائیں اس کا شمار ابدال کی جماعت میں ہوتا ہے۔ (بحوالہ مظاہر حق جدید، ج: ۵، ص: ۴۴،۴۳ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
فائدہ ⁶: "عصائب‘‘ عصائب بھی اولیا اللہ کے ایک گروہ کا نام ہے۔
۔❶ محقق حسین سلیم اسد کہتے ہیں کہ مسند ابی یعلی کی روایت امام مجاہد کی طریق سے حسن ہے
سفیانی کون ہے؟
عـن عبـد الله بن القبطية قال دخلت أنا و الحسن بن علي على أم سلمة فقال حدثني عن جيش الخسف فقالت سمعت رسول اللہ ﷺ يقول يخرج الشـفـيـانـي بالشام فيسير إلى الكوفة فيبعث جيشاً إلى المدينة فيقاتلون ماشاء الله حتى يقتل الحبل في بطن أمه ويعوذ عائذ من ولد فاطمة أو قال من ولد علي بالحرم فيخرجون إليه فإذا كانوا ببيداء من الارض خسف بهم غير رجل ينذر الناس
( علل بن ابی حاتم، ج: ۲، ص: ۴۲۵)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن قبطیہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں اور حضرت حسن ابن علی رضی اللہ عنہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا (اے ام المومنین) آپ مجھے دھنس جانے والے لشکر کا حال بیان کیجئے۔ تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سفیانی کا خروج شام (موجودہ دور کا اردن، فلسطین، اسرائیل، شام، لبنان۔ راقم) میں ہوگا۔ پھر وہ کوفہ کی جانب روانہ ہوگا تو مدینہ منورہ کی جانب ایک لشکر روانہ کرےگا، چنانچہ وہ لوگ وہاں لڑائی کریں گے جب تک اللہ چاہے حتیٰ کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو بھی قتل کردیا جائے گا، اور (اس انتشار کی صورت میں) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے یا فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک پناہ لینے والا حرم شریف میں پناہ لے گا، لہٰذا (ان کو پکڑنے کے لئے وہ لشکر والے ان کی طرف نکلیں گے، جب یہ لوگ مقام بیداء میں پہنچیں گے تو ان سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، سوائے ایک شخص کے جو لوگوں کو ڈرائے گا۔
فائده ¹: ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے والد نے فرمایا (مذکورہ) راوی عبیداللہ بن قبطیہ ہیں۔
فائدہ ²: امام حاکم رحمہ اللہ نے مذکور مفہوم کی روایت امام بخاری و امام مسلم کی شرط پر نقل کی ہے اور اس کو صحیح کہا ہے۔ امام ذہبی نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔
نعیم ابن حماد نے ’’الفتن‘‘ میں یہ روایت نقل کی ہے: "ہم سے عبداللہ بن مروان نے بیان کیا، انہوں نے ارطاۃ سے، ارطاۃ نے تبیع سے تبیع نے کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عبداللہ ابن یزید عورت کی مدتِ حمل کے برابر حکوت کرے گا، اور وہ الازہر ابن الکلبیہ ہے یا الزہری بن الکلبیہ ہے جو سفیانی کے نام سے مشہور ہوگا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: سفیانی کا نام عبداللہ ہوگا۔ (الفتن نعیم ابن حماد، ج: ۱، ص: ۲۷۹)
الفتن کی روایت ہے کہ سفیانی کا خروج مغربی شام میں "اندر" نامی جگہ سے ہوگا۔ (ج: ۱، ص: ۲۷۸)
فائدہ: ’’اندر" اس وقت شمالی اسرائیل کے ضلع الناصرہ کا ایک قصبہ ہے۔ اسرائیل نے اس پر 24 مئی 1948 میں قبضہ کرلیا تھا۔
شرح مشکوٰۃ مظاہر حق جدید میں یہ روایت نقل کی گئی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ سفیانی (جو آخر زمانہ میں شام کے علاقے پر قابض ہوگا) نسلی طور پر خالد ابن یزید ابن معاویہ بن ابوسفیان اموی کی پشت سے تعلق رکھتا ہوگا۔ وہ بڑے سر اور چیچک زدہ چہرے والا ہوگا۔ اس کی آنکھ میں ایک سفید دھبہ ہوگا، دمشق کی طرف اس کا ظہور ہوگا اس کے ساتھ قبیلہ کلب کے لوگوں کی اکثریت ہوگی، لوگوں کا خون بہانا اس کی خاص عادت ہوگی، یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو بھی ہلاک کردیا کرے گا، وہ جب حضرت مہدی کے خروج کی خبر سنے گا تو ان سے جنگ کرنے کے لیے لشکر بھیجے گا۔ (بحوالہ مظاہر حق جدید، ج: ۵، ص: ۴۳)
فائدہ: مظاہر حق نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
ان روایات کے علاوہ دیگر روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سفیانی حضرت مہدی سے کچھ پہلے شام، اردن، فلسطین میں کسی جگہ ہوگا۔ ’’فیض القدیر" میں ہے کہ ابتدا میں وہ بہت متقی پرہیزگار اور انصاف کرنے والے حکمران کے طور پر سامنے آئے گا، حتیٰ کہ شام کے اندر مسجدوں میں اس کا خطبہ پڑھا جائے گا، پھر جب مضبوط ہو جائے گا تو اس کے دل سے ایمان نکل جائے گا اور ظلم اور بداعمالیوں کا ارتکاب کرے گا‘‘۔ ❶
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو مسلمانوں کے اندر عظیم رہنما اور ہیرو بناکر پیش کیا جائے گا، جیساکہ باطل قوتیں ہمیشہ کیا کرتی ہیں اور جیساکہ بعض روایات میں آیا ہے کہ وہ اہلِ مغرب سے جنگ کرے گا اور ان کو شکست دے دے گا، تو ممکن ہے اس کا یہ جنگ کرنا بھی ایک ڈرامہ ہو، تاکہ عالمِ اسلام کے اندر اس کو فاتح اور عظیم رہنما بنادیا جائے۔
اس کے بعد وہ اپنے اصل روپ میں آئے گا اور مسلمانوں کے خلاف دو لشکر روانہ کرےگا، ایک لشکر مدینہ منورہ کی جانب اور دوسرا مشرق کی جانب، یہ لشکر مدینہ منورہ میں تین دن تک لوٹ مار کرےگا، پھر یہ لشکر مکہ مکرمہ کی جانب جائے گا، جب یہ بیداء کے مقام پر آئے گا تو اللہ تعالیٰ حضرت جبریل علیہ السلام کو اس لشکر کو دھنسانے کا حکم دیں گے، چنانچہ یہ لشکر زمین میں دھنس جائے گا اور دوسرا لشکر بغداد کی طرف جائے گا اور یہ لشکر بھی لوٹ مار اور قتلِ عام کرے گا۔ ❷ جو اس کی مخالفت کرے گا اس کو قتل کر دیا کرے گا، حتیٰ کہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو بھی قتل کر دے گا۔ ❸
نعیم ابن حماد کی الفتن کی بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سفیانی خراسان کے مجاہدین اور عرب مجاہدین کے خلاف بھی لشکر بھیجے گا۔
۔❶ فیض القدیر: ج ۴ ص ۱۲۸۔
۔❷ تفسیر قرطبی: ج ۱۴ ص ۳۱۵
۔❸ مستدرک: ج ۴ ص ۵
نَفسِ زَکِیَّه کی شہادت
عن مجاهد قال حدثني فلان رجل من أصحاب النبي أن المهدئ لا يخرج حتى تقتل النفس الزكية فإذا قتلت النفس الزكية غضب عليهم من في السماء ومن في الأرض فاتي الناس المهدي فرقوة كما تزف العروس إلى زوجها ليلة عرسها وهو يملأ الأرض قسطاً وعدلاً وتخرج الأرض نباتها وتمطر السماء مطرها وتنعم أمتي في ولايته نعمة لم تنعمها قط.
۔❶ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج: ۷، ص: ۵۱۴)
ترجمہ: امام مجاہد فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی نے یہ بیان کیا کہ مہدی اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک نفسِ زکیہ کو قتل نہیں کردیا جاتا۔ چنانچہ جب نفسِ زکیہ قتل کر دیئے جائیں گے تو زمین و آسمان والے ان قاتلوں پر غضبناک ہوں گے، اس کے بعد لوگ حضرت مہدی کے پاس آئیں گے اور انہیں نئی دلہن کی طرح منائیں گے جیسے اس کو حجلہ عرسی میں لے جایا جاتا ہے۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، زمین اپنی پیدوار کو اگا دے گی اور آسمان خوب برسے گا اور ان کے دورِ خلافت میں امت ایسی خوشحال ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہوگی۔
فائدہ: نفسِ زکیہ کو شہید کر دیا جائے گا۔ ان کا خدا کے ہاں محبوب ہونا اس قدر ہے کہ ان کی شہادت پر زمین وآسمان والے غضبناک ہوں گے، نیز وہ اہلِ ایمان کے ہاں بھی بہت مقبول ہوں گے۔
اس روایت میں آپ ﷺ نے اس وقت کے اہلِ ایمان کو تسلی دی ہے کہ کتنی ہی محبوب ہستی کیوں نہ شہید کر دی جائے اس کی وجہ سے اپنا مشن نہیں چھوڑنا، بلکہ منزل کی طرف بڑھتے رہنا۔ کیونکہ بڑی چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے قربانیاں بھی بڑی ہی دینی پڑتی ہیں اور اس مشن کےلئے کائنات کا قیمتی ترین لہو بھی زمین پر گروایا گیا ہے۔ میرے پیارے آقا ﷺ نے اپنا دندانِ مبارک شہید کروایا۔ آپ کے پیارے نواسوں کو اسی راہ میں قربان ہونا پڑا ہے۔
مجاہدین کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ خواہ کتنی ہی محبوب ہستی آپ سے جدا ہو جائے بہت جلد آپ بھی تو ان کے پاس پہنچنے والے ہیں اور پھر اپنے رب سے ملاقات، حوروں کی محفلیں تو سب مجاہدین ہی کو اچھی لگتی ہیں، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے۔ ہاں البتہ یہ دعا ضرور کرتے رہیں کہ یا اللہ تو اپنے دشمنوں کو اپنے دوستوں پر اب ہنسنے کا موقع نہ دینا۔
آپ ﷺ کی پیشن گوئیاں اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں
شاہِ مصر کے خواب کی تعبیر جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بیان فرمائی کہ تم پر سات سالہ قحط آئے گا تو اس قحط سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کے لیے بھی فرما دیا۔ چنانچہ شاہِ مصر نے اس پر عمل کر کے اپنی رعایا کو تباہی سے بچالیا۔ اس امت کے امام محمد عربی ﷺ چودہ سو سال پہلے خبر دے رہے ہیں کہ دیکھو فلاں فلاں مسلم ممالک پر ایسے ایسے حالات آئیں گے، لہٰذا پہلے ہی سے اس کے بارے میں منصوبہ بندی کرکے رکھنا، لیکن مسلمان اپنے پیارے نبی ﷺ کی باتوں کو نہیں مانتے، بلکہ غفلت کی دنیا کے باسی تو اس کو تقدیر کا لکھا کہہ کر اپنی نااہلی کا کھلا مظاہرہ کرتے ہیں۔
حالانکہ اگر آج مغربی میڈیا یہ اعلان کر دے کہ فلاں شہر میں سمندری طوفان آنے والا ہے یا فلاں علاقہ تباہ ہونے والا ہے، لہٰذا چوبیس گھنٹے کے اندر شہر خالی کر دیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ شہر میں ان کا ایک کتا بھی نظر نہیں آئے گا اور اس وقت اس طرح موت کے خوف سے بھاگیں گے جیسے لکھی ہوئی موت کو بھی ٹال سکتے ہوں، لیکن کیا وجہ ہے کہ آقا مدنی ﷺ کی احادیث سننے کے بعد بھی مسلمانوں میں کوئی بیداری پیدا نہیں ہو رہی؟
۔❶ حضرت حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے نزدیک اس روایت کے تمام راوی صحیح ہیں۔البتہ علامہ البانی نے اس کو منکر کہا ہے۔
جنگِ عظیم میں مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر
عن أبي الدرداء أن رسول اللہ ﷺ قال إن فسطاط المسلمين يوم الملحمة الكبرىٰ بالغوطة إلى جانب مدينة يقال لها دمشق من خير مدائن الشام.
۔ ❶ (سنن ابو داؤد، ج: ۴، ص: ۱۱۱، مستدرك، ج: ۴، ص: ٥٣٢، المغني لابن قدامه، ج: ۹، ص: ١٦٩)
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنگِ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (فیلڈ ہیڈ کوارٹر) شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ”الغوطہ‘‘ کے مقام پر ہوگا۔
فائدہ: الغوطہ شام کے دارالحکومت دمشق سے مشرق میں تقریباً ساڑھے آٹھ کلومیٹر ہے، یہاں کا موسم عموماً گرم اور خشک رہتا ہے۔ جولائی میں کم سے کم درجہ حرارت 16.5 ڈگری سینٹی گریڈ اور زیادہ سے زیادہ 40.4 ڈگری رہتا ہے، جبکہ جنوری میں کم سے کم درجہ حرارت 3. 9 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 16.5 ڈگری رہتا ہے۔ یہاں پانی اور درخت وغیرہ وافر مقدار میں موجود ہیں۔
حضرت مہدی علیہ الرضوان کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگیں
حضرت امام مہدیؓ کے دور میں لڑی جانے والی جنگوں میں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حضرت مہدی کے وقت جنگِ عظیم ہوگی، یعنی حق اور باطل کا آخری معرکہ ہوگا جس میں دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک اس کی قوت ختم نہ ہو جائے، لہٰذا یہ جنگِ عظیم کئی بڑی جنگوں پر مشتمل ہوگی۔ نیز یہ صرف حضرت مہدی کے علاقے تک ہی محدود نہیں ہوگی، بلکہ یہ جنگ بیک وقت کئی محاذوں پر چل رہی ہوگی، جن میں ایک محاذ تو وہ ہوگا جس پر خود حضرت مہدیؓ کمانڈ کر رہے ہوں گے۔ دوسرا بڑا محاذ فلسطین کا ہوگا، تیسرا عراق کا ہوگا جس کو حدیث میں دریائے فرات والا محاذ کہا گیا ہے۔ ایک اور بڑا محاذ ہند کا ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹے محاذ ہوسکتے ہیں۔
البتہ ان تمام محاذوں کی مرکزی کمانڈ دمشق کے قریب الغوطہ کے مقام پر حضرت مہدی کے ہاتھ میں ہوگی اور ہر محاذ کے کمانڈر سے حضرت مہدی کا رابطہ ہوگا، عسکری امور پر نظر رکھنے والے اس کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ آج بھی مجاہدین اسی طرح دشمن کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔ مرکزی کمانڈ کہیں ایک جگہ ہے اور ان کے تحت جگہ جگہ مجاہدین دشمن پر یلغار کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آنے والی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان جنگوں کا بیان کرتے وقت نبی کریم ﷺ نے کبھی تو پوری کی پوری تاریخ چند الفاظ میں بیان کردی ہے اور کہیں تھوڑی تفصیل اور کبھی بہت تفصیل بیان کی ہے۔ اس لئے بعض دفعہ واقعات کی ترتیب میں تضاد محسوس ہوتا ہے، حالانکہ حقیقت میں تضاد نہیں ہوتا۔
۔❶ ابوداؤد کی روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے السلسة الصحيحة والضعيفه میں صحیح کہا ہے۔ اور مستدرک کی روایت کو حاکم رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے
رومیوں سے صلح اور جنگ
عن ذي مخبر قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ستصالحون الروم صلحاً أمناً فتغزون انتـم وهـم عدوا من ورائكم فتنصرون وتغنمون وتسلمون ثم ترجعون حتى تنزلوا بمرج ذي تلول فيرفع رجل من أهل النصرانية الصليب فيقول غـلـب الصليب، فيغضب رجل من المسلمين فيدقة، فعند ذلك تغدر الروم وتجمع للملحمة.
۔❶ (مشکوٰۃ، باب الملاحم فصل ثانی، رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: حضرت ذی مخبر رضی اللہ عنہ (نجاشی کے بھتیجے) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ تم اہلِ روم سے امن کی خاطر صلح کرو گے، پھر تم اور وہ اپنے ایک عقب کے دشمن سے جنگ کرو گے، پھر تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہیں مال غنیمت حاصل ہوگا اور تمہارا بچاؤ ہو جائے گا، پھر واپس لوٹو گے، حتیٰ کہ تم سرسبز سطح مرتفع زمین میں اتر جاؤ گے، پھر ایک عیسائی صلیب بلند کرے گا اور کہے گا کہ صلیب غالب آگئی، پھر مسلمانوں میں سے ایک شخص غضبناک ہو جائے گا اور وہ اس صلیب کو توڑ ڈالے گا جس پر اہلِ روم، عہد و معاہدے کو بالائے طاق رکھ کر جنگ کیلئے متحد ہو جائیں گے، اہلِ ایمان بھی اپنا اسلحہ لے کر اٹھیں گے اور جنگ کریں گے اور اس جماعت کو اللہ تعالیٰ اعزاز شہادت سے سرفراز فرمائیں گے۔
صحیح ابن حبان اور مستدرک کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: پھر رومی اپنے بادشاہ سے کہیں گے کہ ہم عرب والوں کے لئے آپ کی جانب سے کافی ہیں، چنانچہ وہ جنگِ عظیم کے لئے اکٹھے ہوں گے اور اسی جھنڈوں کے تحت آئیں گے اور ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار سپاہی ہوں گے
(مستدرک وصحیح ابن حبان)
فائدہ: ¹: "سرسبز سطح مرتفع" یہ ترجمہ حدیث کے الفاظ "مـرج ذي تـلـول" کا کیا ہے۔ کیونکہ ابوداؤد کی شرح "عون المعبود" میں "مرج" کی تشریح سرسبز وسیع زمین اور "ذی تلول" کی تشریح "مـوضـع مرتفع" یعنی بلند جگہ سے کی گئی ہے۔ لیکن اگر یہاں "مرج" کو لفظی معنیٰ میں لینے کے بجائے جگہ کا نام مراد لیا جائے تو عرب کے خطے میں کئی جگہوں کے نام "مرج" ہیں۔ جن میں سے تین لبنان میں ہیں۔
اس جنگ کا ذکر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی مفصل حدیث میں بھی آیا ہے، جس میں یہ وضاحت ہے کہ یہ جنگ بھی حضرت مہدی علیہ الرضوان کے دور میں ہوگی اور یہ صلح بھی حضرت مہدی کے ساتھ رومی بادشاہ کرے گا، لہٰذا اس حدیث کو حضرت مہدی کے خروج سے پہلے کسی اور جنگ کے لئے ثابت کرنا درست نہیں ہے۔
فائدہ ²: مسلمان اور رومی صلح کریں گے، ابھی یہ واضح نہیں کہ عیسائیوں کے کون سے ممالک اس صلح میں شامل ہوں گے، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اکثر عیسائی ممالک کی حکومتیں اگرچہ اس وقت یہودیوں کے ساتھ یعنی امریکی اتحادی نظر آرہی ہیں، لیکن تمام رومن کیتھولک عوام اس میں امریکہ کے ساتھ نہیں ہیں، اور یہی وہ طبقہ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرےگا۔
فائدہ ³: پھر مسلمان اور رومی مل کر اپنے عقب کے دشمن سے لڑیں گے، نعیم ابن حماد نے اپنی کتاب "الفتن" میں حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، جس میں اس عقب کے دشمن کی وضاحت آئی ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں: ”وتـغـزون انـتـم وهـم عـدوا مـن وراء القسطنطنیہ‘‘ یعنی قسطنطنیہ کے عقب کی جانب کا دشمن۔ (الفتن نعیم ابن حماد، ج: ۲، ص: ۴۳۸)
اگر آپ دنیا کے نقشے (گلوب) میں عرب اور اٹلی (روم) کو اپنے سامنے رکھیں تو ان دونوں کا عقب تقریباً امریکہ ہی بنتا ہے۔ (واللہ اعلم)
مسلمان اور رومی مل کر عقب کے دشمن سے جو جنگ کریں گے تو یہ جنگ کہاں ہوگی؟ اس میں یہ ضروری نہیں کہ جنگ دشمن کی سرزمین پر ہی ہو، بلکہ اس دور کے جو حالات احادیث میں آئے ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ عقب کا دشمن خود اسی خطے میں پہلے سے موجود ہوگا۔
فائدہ ⁴: جنگِ عظیم میں نو لاکھ ساٹھ ہزار رومی (اہلِ مغرب) شریک ہوں گے۔
۔❶ ابوداؤد کی روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صیح کہا ہے۔
جنگِ اعماق اور اس کے فضائل
لا تقوم الساعة حتى ينزل الروم بالأعماق أو بدابق فيخرج اليهم جيش من المدينة من خيار أهل الأرض يومئذ فإذا تصافوا قالت الروم خلو بيننا وبين الـذيـن سـبـوا منا نقاتلهم فيقول المسلمون لا والله لا نخلى بينكم وبين إخواننا فـقـاتـلـونـهـم فيـنـهـزم ثلـث لا يتوب الله عليهم أبدا ويقتل ثلثهم و هم أفضل الشهداء عند الله عزوجل ويفتتح الثلث لا يفتنون أبدأ فيفتتحون قسطنطنية فبينما هم يقتسمون الغنائم قد علقوا سيوفهم بالزيتون إذ صاح فيهم الشيطان إن المسيـح قـد خلفكم في أهليكم فيخرجون وذلك باطل فإذا جاؤا الشام خرج فبينما هم يـعـدون للقتال ويسوون الصفوف إذ أقيمت الصلاة فينزل عيسى بـن مـريـم فـأمهم فإذا رآه عدو الله ذاب كما يذوب الملح في الماء فلو تركه لانذاب حتى يهلك ولـكـن يـقـتـلـه الله تعالى بيده فيريهم دمـه في حربته
(مسلم، ج: ۴، ص: ۲۲۲۱، ابن حبان، ج: ۱۵، ص: ۲۲۴)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت سے پہلے یہ واقعہ ضرور ہوکر رہے گا کہ اہلِ روم، اعماق یا دابق کے مقام پر پہنچ جائیں گے، ان کی طرف ایک لشکر مدینہ سے پیش قدمی کرے گا جو اس زمانہ کے بہترین لوگوں میں سے ہوگا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے صف بستہ ہوں گے تو رومی (مسلمانوں سے) کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جو ہمارے لوگوں کو قید کر کے لائے ہیں ہم انہی سے جنگ کریں گے، مسلمان کہیں گے اللہ کی قسم ہم ہرگز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے، اس پر تم ان سے جنگ کرو گے، اب ایک تہائی مسلمان تو بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کی توبہ اللہ کبھی قبول نہ کرے گا اور ایک تہائی مسلمان شہید ہو جائیں گے جو اللہ کے نزدیک افضل الشہداء ہوں گے۔ باقی ایک تہائی فتح حاصل کریں گے۔ (لہٰذا) یہ آئندہ ہر قسم کے فتنے سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اس کے بعد یہ لوگ قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔
(ایک اور روایت میں روم بھی فتح کرنے کا ذکر ہے۔ (راقم) اور اپنی تلواریں زیتون کے درخت پر لٹکا کر ابھی مال غنیمت تقسیم کر رہے ہوں گے کہ شیطان ان میں چیخ کر یہ آواز لگائے گا کہ مسیح دجال تمہارے پیچھے تمہارے گھروں میں گھس گیا ہے، یہ سنتے ہی یہ لشکر روانہ ہو جائے گا اور یہ خبر اگرچہ غلط ہوگی، لیکن جب یہ لوگ شام پہنچیں گے تو دجال واقعی نکل آئے گا، ابھی مسلمان جنگ کی تیاری اور صفیں سیدھی کرنے میں ہی مشغول ہوں گے کہ نمازِ فجر کی اقامت ہو جائے گی اور فوراً بعد ہی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کے امیر کو ان کی (مسلمانوں) امامت کا حکم فرمائیں گے۔
اللہ کا دشمن (دجال) عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر اس طرح گھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے۔ چنانچہ وہ اگر اس کو چھوڑ بھی دیتے تو وہ اسی طرح گھل کر ہلاک ہو جاتا، لیکن اللہ تعالی اس کو انہی کے ہاتھ سے قتل کرائے گا۔ اور وہ لوگوں کو اس کا خون دکھلائیں گے جو ان کے نیزے میں لگ گیا ہوگا۔
فائدہ ¹: اعماق اور دابق شام کے شہر حلب کے قریب دو جگہوں کے نام ہیں۔ (شرح مسلم نووی)
فائده ²: دابق (اعماق) کا جغرافیہ اور موسم:
دابق شام کے شہر حلب سے شمال میں تقریباً بینتالیس (45) کلو میٹر کے فاصلہ پر ترکی کی سرحد کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ ترکی کی سرحد یہاں سے تقریباً چودہ کلو میٹر دور ہے۔ اس کے قریب بڑا قصبہ عزاز ہے۔ اور عمق (اعماق) بھی دابق کے قریب ہی ہے۔
دابق کا عرض البلد 31 36 شمالی اور
طول البلد 16 37 مشرق ہے۔ جولائی کے مہینے میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 4. 40 ڈگری اور کم سے کم 26 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اور جنوری میں کم سے کم منفی 0.4 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 9.2 ڈگری ہوتا ہے۔ سطح سمندر سے اس علاقے کی اونچائی پچاس میٹر سے کم ہے۔
فائدہ ³: کفار اپنے قیدی مانگیں گے
یہاں قیدیوں سے کون سے قیدی مراد ہیں؟
کیا وہ مسلمان قیدی جن کو کافروں نے گرفتار کیا، پھر مجاہدین ان کو کافروں کے قبضے سے چھڑا لائے؟
یا پھر وہ کافر قیدی جن کو مجاہدین نے گرفتار کرلیا ہوگا اور کفار اپنے قیدیوں کا مطالبہ کریں گے اور صرف انہیں مجاہدین سے لڑنا چاہیں گے جنہوں نے ان کے لوگوں کو گرفتار کرلیا ہوگا؟
محدثین کے نزدیک یہاں دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ اکثر محدثین کے نزدیک یہاں پہلی صورت مراد ہے، جبکہ امام نووی رحمہ اللہ نے دونوں صورتیں بیک وقت ممکن لکھی ہیں۔
چنانچہ مسلمانوں کے امیر ان مسلمانوں کو کافروں کے حوالے کرنے سے انکار کردیں گے۔ کیونکہ کسی مسلمان کو کافروں کے حوالے کرنا اسلام میں جائز نہیں، ممکن ہے وہاں بھی نام نہاد دانشور یہ کہیں کہ چند لوگوں کی وجہ سے سب کو مروانا کہاں کی عقلمندی ہے۔؟
فائدہ ⁴: مذکورہ حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کا لشکر مدینہ سے خروج کرےگا، مدینہ سے مراد مدینہ منورہ بھی ہوسکتا ہے اور اگر اس کے لفظی معنی مراد ہیں تو پھر اس سے مراد شام کا شہر دمشق (الغوطہ) بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ جنگ عظیم میں مسلمانوں کا مرکز دمشق کے قریب "الغوطہ" کے مقام پر ہوگا۔
نعیم ابن حماد نے اپنی کتاب "الفتن" میں اس جنگ کے بارے میں ایک طویل روایت نقل کی ہے جس کا ایک حصہ یہ ہے: ( وہ رومی معاہد شکنی کرنے کے بعد متحد ہوکر سمندر کے راستے آئیں گے) اور شام (سیریا اردن فلسطین لبنان) کے تمام سمندر اور زمینی حصے پر قبضہ کرلیں گے، صرف دمشق اور معتق بچیں گے اور بیت المقدس کو تباہ کر دیں گے۔ راوی کہتے ہیں، اس پر عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ! دمشق میں کتنے مسلمان آسکتے ہیں؟ راوی کہتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، دمشق ہر آنے والے مسلمان کے لئے اس طرح وسیع ہو جاۓ گا جس طرح رحم مادر (وقت کے ساتھ ساتھ) بچے کے لئے وسیع ہو جاتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا یا رسول اللہ اور یہ معتق کیا ہے؟ فرمایا شام کا ایک پہاڑ ہے جو حمص کے دریاۓ ’’ارنط‘‘ کے کنارے ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے اہلِ و عیال (اس وقت) معتق (یعنی پہاڑ) کے اوپر ہوں گے، اور مسلمان دریاۓ ارنط کے کنارے ہوں گے۔ الحدیث
۔ ❶ ( الفتن نعیم ابن حماد: ج ۱ ص: ۴۱۸ )
۔❶ اس روایت میں ایک راوی ابن لہیعہ ہیں۔ کتبہ جلنے کے بعد محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
نبی کریم ﷺ کی اس پیشن گوئی کا مطالعہ کرنے کے بعد اگر شام اور لبنان کا نقشہ اٹھاکر دیکھا جاۓ تو سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار ہو جانا چاہئے۔ شام کی اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف عراق ہے جہاں کفر کا متحدہ لشکر قابض ہے، مغرب میں لبنان ہے جہاں سے شامی فوج کے انخلاء کے بعد طرابلس سے لیکر گولان کی پہاڑیوں تک اسی لشکر کا قبضہ ہو جاۓ گا۔ حمص کے قریب دریاۓ ارنط لبنان کی سرحد سے صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ البتہ دمشق سے معتق یعنی حمص شہر کے مغربی جانب تک جبلِ لبنان ہے۔
عـن عبـد الله بن عـمـرو قال أفضل الشهداء عند الله تعالى شهداء البحر وشهداء أعماق انطاكية وشهداء الدجال. ۔❷ (الفتن نعیم بن حماد، ج: ۲، ص: ۴۹۳)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک افضل شہداء بحری جہاد کے شہداء، اعماقِ انطاکیہ کے شہداء، اور دجال کے خلاف لڑتے ہوۓ مارے جانے والے شہداء ہیں۔
ان جنگوں کے شہداء کے بارے میں ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: چنانچہ وہ ایک تہائی جو اس جنگ میں شہید ہوں گے ان کا ایک شہید، شہداء بدر کے دس شہیدوں کے برابر ہوگا، شہداء بدر کا ایک شہید ستر کی شفاعت کرے گا، جبکہ ملاحم (ان خطرناک جنگوں) کا شہید سات سو کی شفاعت کرے گا۔ (الفتن نعیم ابن حماد، ج: ۱، ص: ۴۱۹)
فائدہ: یہ جزوی فضیلت ہے، ورنہ شہداء بدر کا مقام تمام شہداء میں سب سے بلند ہے
۔❷ اس میں اسحاق ابن ابی فروہ راوی متروک ہیں۔
=======> جاری ہے ۔۔۔28
Comments
Post a Comment