۔1463🌻) مولانا یوسف بنوری رحم اللہ

مضمون۔1)حق و باطل کی آویزش میں ختمِ نبوت اُمت کی آخری پناہ گاہ

حضرت مولانا احمد یوسف بنوری مدظلہٗ 

 اس بابرکت مہینے میں، جو اپنے نام کے لحاظ سے بہار کا مہینہ ہے۔ اس چمن میں بہار آئی ہے، اور ہم آپ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم  کے مبارک ذکر، ان کی ختمِ نبوت اور ان کی ناموس و عصمت کے تحفظ کے عنوان سے جمع ہیں، کہیں اور جمع ہوتے یا کہیں اور مل بیٹھنے کا موقع ملتا تو کہنے کا بھی حساب دینا پڑتا اور جمع ہونے کا بھی حساب دینا پڑتا۔ یہاں جمع ہیں تو اُمید یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے لیے اس کو ذخیرۂ آخرت بنائے گا۔ بہت مبارک اور بہت محترم ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس محنت کو گلی گلی، کوچے کوچے، نگر نگر میں زندہ کیا ہوا ہے۔ یہ عشقِ نبی ﷺ کی شمع ہے جو رات میں بھی جلتی ہے اور دن میں بھی روشنی دیتی ہے، یہ چراغ ہیں جو صدیوں سے جل رہے ہیں اور آج اس کا ہم نمونہ دیکھ رہے ہیں۔ بالکل صحیح ہے کہ میرے لیے خود شرف ہے کہ میں اس کا میزبان بنوں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ محنت ان بزرگوں اور ان اکابرین کی ہے جنہوں نے سر پر کفن باندھنا پڑا تو سر پر کفن باندھا، مسندِ حدیث چھوڑنا پڑی تو مسندِ حدیث سے کچھ دیر کے لیے توقُّف اختیار کیا، قلم و قرطاس کا میدان سجانا پڑا تو صاحبِ قلم و قرطاس ہوئے، شہادت کا عروسی جامہ پہننا پڑا تو جامہ پہنا، تب جا کر یہ سلسلے اور یہ محفلیں آباد ہوئیں۔

معرکۂ ایمان و مادیت

 واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں معرکے بہت سے برپا ہیں اور مختلف عنوانوں سے انسان باہم آویزش کا شکار ہیں، آمیزشیں بھی جاری ہیں، مختلف عنوانوں سے جھگڑوں اور خطرناک صورت حالوں کا انسانوں کو سامنا ہے، لیکن بنانے والے نے بتایا ہے کہ اس کائنات میں اصل معرکہ اور اصل مقابلہ ایک ہی ہو رہا ہے۔ باقی جتنی چیزیں ہیں وہ ضمنی، عارضی اور وقتی ہیں۔ یہ ایسا معرکہ ہے جو صدیوں بلکہ قرنوں سے چلا آرہا ہے اور اس معرکے کا آغاز ہمارے اور ہمارے آباء و اجداد کی موجودگی میں نہیں، بلکہ اس سے کہیں پہلے کُل انسانیت کی پیدائش سے پہلے شروع ہوگیا تھا، اور یہ وہ معرکہ ہے جس میں براہِ راست اللّٰہ تبارک و تعالیٰ مدعی بن کر کھڑا ہوا، اور اس نے کہا کہ میں اس کائنات میں ایک جیتی جاگتی سمجھدار مخلوق کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجنے والا ہوں

"وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً" (البقرۃ: 30)

ترجمہ: "اور جس وقت ارشاد فرمایا آپ کے رب نے فرشتوں سے کہ ضرور میں بناؤں گا زمین میں ایک نائب۔" (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

جب آسمان و زمین پتا نہیں کس حالت میں تھے، زمین اپنے کس مرحلۂ تخلیق سے گزر رہی تھی، ابھی پانی اور سمندر اپنی کس ترتیب اور روانی و طغیانی سے گزر رہے تھے، ہم اس کے بارہ میں پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات کے باوجود اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، اس وقت اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے قدسی صفات فرشتوں کی مجلس میں فیصلہ کر دیا کہ اب اس دنیا میں، میں جیتی جاگتی مخلوق پیدا کر رہا ہوں اور وہ میرا خلیفہ و نمائندہ ہوگا، ہم اسے اختیار دیں گے، اس کی سب سے بڑی آزمائش یہ ہوگی کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار کے باوجود میری بندگی اختیار کرے گا۔ تفصیلات معلوم ہیں، میں جس طرف اشارہ کر رہا ہوں، ان واقعات سے آپ میں سے ہر ایک واقف ہے، اس موقع پر جنات میں سے ایک فرد، قرآن نے جس کا نام بتایا جاتا ہے: "ابلیس"

"کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہٖ" (الکہف: 50)

ترجمہ: "وہ جنات میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم سے عدول کیا۔"

 (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

وہ باری تعالیٰ کے مقابلے میں کھڑا ہو گیا اور اس نے باری تعالیٰ کی بات ماننے سے انکار کر دیا، نہ صرف بات ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ کہا کہ اب جس مشن کے لیے آپ حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجیں گے اور اس کی نسل سے جو معاملہ شروع ہوگا، میں مقابلے میں کھڑا ہو جاؤں گا اور میں اس مشن کو کامیاب ہونے نہیں دوں گا۔ میں اس کائنات میں بندوں کو اپنے اختیار سے آپ کی حکومت، آپ کی عبادت اور آپ کا نظام قائم کرنے نہیں دوں گا۔

انسانی آزمائش اور دو سلسلے: "تسویلِ شیطانی اور وحیِ ربانی"

باری تعالیٰ جو خلاقِ عالم، خالقِ شش جہات، ساری کائنات سے بالا ہے، اس نے یہ ادعاء قبول فرما لیا اور کہا

"وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ وَاجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْہُمْ." (الاسراء: 64)

ترجمہ: "اور ان میں سے جس جس پر تیرا قابو چلے اپنی چیخ و پکار سے اس کا قدم اُکھاڑ دینا اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لانا اور ان کے مال اور اولاد میں اپنا ساجھا کر لینا اور ان سے وعدہ کرنا۔" (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

حاصل یہ کہ جو کرنا ہے کرو، جو چیز تمہارے بس میں ہے، اختیار کرنے کی ہے، کرو میں باری تعالیٰ اور خالقِ کائنات ہونے کے باوجود تمہیں مہلت دیتا ہوں "إلی یوم الدین" تا روزِ محشر۔ میں اس کے مقابلے میں ایک سلسلۂ ہدایت قائم کروں گا، میں اس کے مقابلے میں ایسے لوگوں کا انہی انسانوں میں سے انتخاب کروں گا جنہیں خود اپنے شرفِ کلام سے مشرف کروں گا، ان پر میری وحی آیا کرے گی، ان پر میرا کلام نازل ہوا کرے گا اور وہ انسانوں کو سیدھا رستہ بتائیں گے

"فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ. وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَااُولٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ." (البقرۃ : 38،39)

ترجمہ: "پھر آوے تمہارے پاس میری طرف سے کسی قسم کی ہدایت، سو جو شخص پیروی کرے گا میری اس ہدایت کی تو نہ کچھ اندیشہ ہوگا ان پر اور نہ ایسے لوگ غمگین ہوں گے۔ اور جو لوگ کفر کریں گے اور تکذیب کریں گے ہمارے احکام کی، یہ لوگ ہوں گے دوزخ والے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔" (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کو دنیا میں بھیجنے کے بعد یہ بتا دیا کہ اپنی نسل کو یہ پیغام دینا کہ دو آوازیں لگیں گی، دو جگہوں سے پکارا جائے گا، دو سلسلے تمہارے سامنے آئیں گے، ایک وہ لوگ ہوں گے جن کا ہم انتخاب کریں گے

"إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّ آلَ إِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ." (آل عمران: 33)

ترجمہ: "بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے (نبوت کے لیے) منتخب فرمایا ہے حضرت آدم کو اور حضرت نوح کو اور حضرت ابراہیم کی اولاد (میں سے بعضوں) کو اور عمران کی اولاد (میں سے بعضوں) کو تمام جہان پر۔" (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

جنہیں ہم چنیں گے، جن کے اوپر عصمت کی چادر ہم تانیں گے، جن کی پیدائش سے لے کر آخری عمر تک تمام جزئیات ہم طے کر دیں گے، وہ عام انسانوں کی طرح زمین پر چلتے پھرتے نظر آئیں گے، مگر ہوں گے ہمارے نمائندے، زبان سے ان کی بات نکلے گی، لیکن وہ ہماری بات ہوگی ... "وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی  إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔" (النجم: 03،04)

ترجمہ: "اور نہ آپ اپنی خواہشِ نفسانی سے باتیں بناتے ہیں، ان کا ارشاد نری وحی ہے جو اُن پر بھیجی جاتی ہے۔" (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

ان کی بات وحی کہلائے گی، بولیں گے وہ، فیصلہ ہمارا ہوگا۔ وہ اشارہ کریں گے، چاند دو ٹکڑے ہو جائے گا، ان کے فیصلوں سے اُمتوں کی تاسیس ہوگی، ان کی بنائی ہوئی اُمت حزب اللّٰہ بن جائے گی اور ان کے مقابلے پر آنے والی اُمت حزب الشیطان کہلائے گی۔ یہ سلسلہ، یہ معرکہ اور یہ آواز ہے جو اصلاً اس دنیا کے ہر انسان کو درپیش ہے۔ یہ جنگ ہے جس میں ہم ڈال دئیے گئے ہیں، یہ زاویہ ہے کہ جس زاویے سے دیکھیں تو کائنات کی تفہیم بہتر ہو جاتی ہے اور ہمیں سمجھ آنے لگتا ہے کہ اس کائنات میں اصل میں کن طاقتوں کی آمیزش اور آویزش چل رہی ہے، یہاں کیا معرکے ہیں؟

 اور ہم کس رخ کی طرف چل رہے ہیں

 "ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

 چراغِ  مصطفوی ؐ سے  شرارِ بو لہبی

ہم سب واقف ہیں کہ یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک پہنچا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا" یعنی"ہم نے ہر نبی کے لیے دشمن بنائے ہیں (انسانوں میں سے بھی اور جنات میں سے بھی)۔" اور اس کے لیے لفظ ہے: "یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ"، "وہ ایک دوسرے کو بھی وحی کرتے ہیں۔"وحی کا لفظ ہے، یعنی وہ بھی ان کو الہام کرتے ہیں، دنیا کی خوبصورت باتیں، خوبصورت نعرے، خوبصورت نشوونما، تاکہ جو پیغمبر کا سلسلہ ہے، تاکہ اس سے رشتہ کاٹ دیا جائے، اس تعلق میں دراڑ آجائے، یہ پیغمبروں کی بات قابلِ فہم نہ رہے، اس میں شکوک و شبہات کے پردے آجائیں، انسانوں کے لیے حقیقی وحی، حقیقی نبوت اور اللّٰہ کا حقیقی پیغام سمجھنا مشکل سے مشکل تر بنا دیا جائے، ان کے لیے جس طرح اللّٰہ تبارک و تعالیٰ انتخاب و اصطفا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے انسانوں میں ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں جو شیطان کے اس اغوا اور اس چال کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ اس کی بنائی ہوئی اُمت کے مقابلے میں ایک اپنی بنائی ہوئی اُمت کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ پیغمبروں کے بعد ہر زمانے میں یہی صورتحال ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے صحابیؓ تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں نے جنت کا انتخاب کیا تھا، مگر اس پوری اُمت کو بگاڑ کر یہودیت کی شکل بن گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے قرآن کریم میں "انصار اللّٰہ" کہلاتے ہیں، نصرتِ دین کے لیے وہ کھڑے ہوئے اور کہا: "نَحْنُ اَنصَارُاللّٰہِ" (الصف: 41) یعنی "ہم اللّٰہ کے (دین) کے مددگار ہیں۔" مگر اس کے بعد، شیطان کے اغوا کا شکار ہوئے اور مسیحیت کے روپ میں آج دو ارب انسان حضرت عیسٰی علیہ السلام کو مان کر بھی ان کو ماننے والے نہیں رہے۔ وہ بات کر رہے ہیں کہ ہم حضرت عیسٰی علیہ السلام کو مان رہے ہیں، وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی یاد مناتے ہیں، ان کے لیے گرجے بناتے ہیں، ان کی عبادت کرتے ہیں، ان کا تذکرہ کرتے ہیں، مگر قرآن کا فیصلہ ہے کہ یہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے نئی اُمت کھڑی کر دی ہے، اس پیغام میں اور اس دعوت کے اندر رکاوٹ بنادی گئی ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے بعد یہ اُمت تھی، جسے اسی ختمِ نبوت کی نعمت و برکت کی وجہ سے تا قیامت اللّٰہ کی دعوت اور اس کا پیغام دنیا تک پہنچانا تھا۔

عقیدۂ ختمِ نبوت

قادیانیت نے یہ فریب دیا کہ نبوت ایک خدائی نعمت ہے، جسے جاری رہنا چاہیے۔ مگر انہیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ بارش نعمت ہے، رحمت ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ بارش زحمت کیسے بن جاتی ہے! ہم جانتے ہیں کہ دھوپ اللّٰہ کی نعمت ہے، جب وہ ایک خاص موقع میں ایک خاص مناسبت سے اپنی جلوہ سامانیاں دکھائے، یہی دھوپ اپنی حدود سے بڑھ جائے اور بے وقت ہو جائے تو یہ دھوپ زحمت بن جاتی ہے، یہی روشنی انسانوں کو راہ دکھانے کا باعث بنتی ہے، جب وہ ایک خاص زاویے سے بڑھے اور راستہ دکھائے اور اگر یہ روشنی آپ کی آنکھوں کا رخ کرلے تو آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، جو صلاحیت موجود بھی ہے وہی نکل جاتی ہے۔ نبوت، پیغمبریت اور اللّٰہ تعالیٰ کا شرفِ کلام، اللّٰہ تعالیٰ کی غیر معمولی رحمت تب تھے جب یہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آتے تھے، اللّٰہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتے تھے، ورنہ اس کا ختم اور مکمل ہو جانا اُمت کے لیے غیر معمولی رحمت ہے۔ یہ غیر معمولی فضل کا سامان تھا کہ جو بات اللّٰہ تعالیٰ کو بندوں سے کہنا تھی، وہ مکمل کردی گئی

"الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِیْنًا." (المائدہ: 03)

ترجمہ: "آج کے دن تمہارے لیے تمہارے دین کو میں نے کامل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام تمام کر دیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لیے پسند کرلیا۔"

 (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

یعنی سلسلۂ نبوت مکمل کردیا گیا

اداءِ امانت

اس کے بعد اس امت کا موقع تھا، اس امت نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن کو دنیا میں اس طرح پہنچایا کہ دنیا میں کوئی چیز اس پائے کے استناد کے ساتھ پہنچنا ممکن نہیں ہے، جسے ہم علمی اصطلاح میں تواتر اور اجماع کہتے ہیں، وہ اس لحاظ سے کامل طریقے سے پہنچا کہ کوئی یہ کہنے کی جرأت تو کر سکتا ہے یا یہ کہنے کا یارا تو رکھ سکتا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا (نعوذباللّٰہ) ذاتی کلام ہے، مگر اللّٰہ تعالیٰ کا فرستادہ نہیں، یہ تو ایک آدمی گفتگو کر سکتا ہے، سوال کر سکتا ہے، ہم جواب دیں گے کہ نہیں ... یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، آپ ؐ کا خود تراشیدہ نہیں ہے، مگر علم کی دنیا میں یہ بات کہنا ممکن ہی نہیں رہتا کہ جو قرآن مسلمان پڑھتے ہیں، جو قرآن اُن کے ہاتھوں میں ہے، یہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نہیں دیا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے، اگر اس کا کوئی انکار کرتا ہے تو پھر انسانوں کے جملہ علوم کا انکار کرنا پڑے گا، کیونکہ پھر انسانوں کے پاس نقلِ علم کا کوئی ذریعہ نہیں رہ سکتا۔

حصولِ علم کے ذرائع

اس وقت ہمیں کم از کم سمجھانے کا موقع میسر ہے اور ہمیں قدرے تفصیل سے بات کرنے کا موقع مل رہا ہے، مگر میں پھر بھی اس کی فلسفیانہ جہت کی طرف نہیں جاؤں گا۔ انسانی علم جو نقل ہوکر آتا ہے، ایک تو وہ ہے جسے آپ دیکھتے ہیں، آپ نے دیکھا کہ ہمارے سامنے ایک آدمی آ رہا ہے، جا رہا ہے، یہ علم ہے جو ہم مشاہدے سے حاصل کرتے ہیں، مگر آپ اپنے علم کا جائزہ لیں کہ کیا ہم تمام چیزوں کو مشاہدے کی بنیاد پر مانتے ہیں؟ 

ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، اس مشاہدہ کے علاوہ ہمارے علم کا ایک بہت بڑا ذریعہ خبر پر مبنی ہوتا ہے، ہم دوسرے کے بتائے ہوئے علم کو خود بھی سمجھتے ہیں، آگے منتقل بھی کرتے ہیں۔ انسانوں کی دوسری مخلوقات میں امتیاز کی ایک خاص وجہ خبر کا علم ہے۔ ہم جانتے ہیں نا کہ پاکستان کس نے بنایا؟

 پاکستان بنانے میں شریک کون کون تھے؟ 

تحریک پاکستان کے رہنما کون کون تھے؟ 

اس سے پہلے دہلی میں حکومت کس کی تھی، دنیا میں حکومتیں کس کی تھیں؟ 

ہم جانتے ہیں کہ تاج محل بنانے والا شاہ جہاں تھا، اس نے کس خاص غرض سے بنایا؟ 

لاہور کی بادشاہی مسجد کس نے بنائی تھی؟

 یہ تمام علم خبر کا ہے، یہ ہم تک خبر پہنچی ہے۔ یہ تمام چیزیں ہمارے مشاہدے میں نہیں آئیں، ہم تو اس وقت نہیں تھے، مگر ان چیزوں کو مانتے ہیں، یہ وہ علم ہے جس کی بنیاد خبر ہے۔ یہ خبر کا علم جس مضبوط ترین ذریعہ سے نقل ہوتا ہے وہ تواتر اور اجماع ہے، قرآن کریم بھی اسی تواتر اور اجماع سے نقل ہوا ہے اور یہ ذریعہ حتمی اور آخری طریقہ کار ہے، چنانچہ اس کا انکار ممکن ہی نہیں رہا کہ کوئی یہ کہہ سکے کہ یہ قرآن کریم وہ نہیں ہے۔

سنت کی حفاظت و قطعیت ختمِ نبوت کی برکت

پورے اعتماد کے ساتھ نہ صرف یہ قرآن بلکہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دین کی بعض وہ روایات جسے سنت کہتے ہیں، اس کا بڑا حصہ بھی مکمل اسی اعتماد کے ساتھ تواتر تک پہنچ گیا۔ ہر ایک کو معلوم ہے، ہم پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ

 فجر کی رکعتیں کتنی ہیں؟ دو

 ظہر کی؟ چار

عصر کی؟ چار

 مغرب کی؟ تین

 عشاء کی چار

قرآن کریم میں ان کی تعداد موجود نہیں ہے، مگر اُمت نے دین پہنچانے میں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے اتنا کمال کیا کہ پورا سنت کا دین بھی کامل طریقے سے ہم تک پہنچایا۔ قرآن کریم کے علاوہ دیگر سنت کا دین ہے، دونوں کا ذریعہ ایک ہی ہے، یعنی پوری اُمت کا اتفاق اور تواتر۔ یہ پورا دین ختمِ نبوت کی برکت سے پہنچا، پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زبانی روایات پہنچانے کا ایک پورا دور شروع ہوا اور اس پورے دور میں محدثین کرام نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سوانح، کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کس موقع پر کیا ارشاد فرمایا، علم و عقل کے تمام معیارات کی روشنی میں اس کو جتنا ممکن ہوسکا ظنِ غالب اور یقین کے درجے تک پہنچا دیا، جسے ہم حدیث کی صورت میں علم کہتے ہیں۔ یہ تمام کام ختمِ نبوت کی برکت سے ہوا۔

 یہ سلسلہ کیوں قائم ہوا؟

 اس لیے کہ اس کائنات میں جو اصل معرکہ درپیش ہے کہ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی بات ہر فرد تک پہنچے، تاکہ قیامت کے دن جب اللّٰہ تبارک و تعالیٰ سوال کرے کہ اس نے اپنی بات کیا کہی تھی؟

 اپنے بندوں سے کیا چاہا تھا؟

 تو بندے یہ نہ کہیں کہ ہمارے پاس ذریعہ نہیں تھا، ہم تو بعد میں پیدا ہوئے تھے، ہم نے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے میں آنکھ نہیں کھولی تھی، ہمیں نہیں معلوم کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کیا بات کہی؟

 مگر ختمِ نبوت کی برکت سے پوری اُمت اتفاق و اتحاد و اجماع کے ساتھ یہ پورا دین آگے تک منتقل کر رہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

"إِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ." (الحجر:24)

ترجمہ: "واقعی میرے ان بندوں پر تیرا ذرا بھی بس نہ چلے گا، ہاں! مگر جو گمراہ لوگوں میں تیری راہ پر چلنے لگے (تو چلے)۔" (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے اسی معرکے کے شروع میں فرما دیا تھا کہ بعض بندے ایسے ہوں گے، جن پر تمہارا زور نہیں چلے گا، تمہاری اہلیت اور تمہاری شیطانی طاقت کا یہ زور ان کے اوپر نہیں چل سکے گا۔ اس کا مصداق بن کر اُمت یہ دین آگے تک پہنچاتی رہی۔

دجالوں کا دجل اور تلبیسِ ابلیس

عزیزانِ گرامی! آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اشارہ فرما دیا تھا کہ ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا اور میں بھی تمہیں دجال سے ڈرا رہا ہوں۔ دجال، دجل سے ہے۔ یہ ایک شخصیت ہوگی، یہ فرد ہوگا جو اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ آخری زمانے کے اندر آئے گا، لیکن اس کے پیچھے ایک پورا نظام کار فرما ہوگا، اس کے پیچھے دجل و تلبیس کی ایک پوری دوڑ کار فرما ہوگی۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی خبردار فرمایا تھا کہ اس دجل کے مختلف نمائندے ہوں گے، ان میں سے خطرناک ترین نمائندہ وہ ہوگا جو براہِ راست میری نبوت پر حملہ آور ہو جائے گا، وہ نبوت جو انسانوں کو بچانے کے لیے سب سے محفوظ طریقہ ہے، وہ ابلیس کا سب سے بڑا نمائندہ اس نبوت کے خلاف کھڑا ہوگا اور انسانوں کا رشتہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ کی نبوت سے کاٹنے کی کوشش کرے گا، اور ایک روایت ابوداؤد میں ہے جسے آپ نے سماعت کر رکھا ہوگا کہ تیس سے زیادہ ایسے دجال و کذاب آئیں گے جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نبوت پر حملہ آور ہوں گے۔

معرکۂ حق و باطل اور کرنے کا کام

ہم چھوٹے لوگ ہیں، مگر ان اکابر کی رہنمائی کی روشنی میں اگر ان پورے حالات کا جائزہ لیں، تو ہمارے سامنے اس وقت معرکے کے خدوخال نمایاں ہوگئے ہیں۔ ہمیں سمجھ میں آرہا ہے کہ اس وقت صورت حال کیا درپیش ہے؟ ابلیس کی طاقتیں کن نمائندوں کو لے کر کیا صورتحال اختیار کر رہی ہیں؟ 

ان کی زد کہاں پڑ رہی ہے؟

 کون سے فتنے ہیں جو اس وقت متوجہ ہیں؟

 اور ان کے بچانے کے لیے کون سی آواز ہے جو لگائی جاتی ہے؟

 کون سی جگہ ہے جہاں اُمت کو پناہ مل جائے؟

 یہ معرکہ اور اس کے فیصلے ہو چکے، اس معرکے کی پشت پر خود اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کھڑا ہے، اس معرکے کی پشت پر اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی طاقتیں کھڑی ہیں، وہ اپنے تمام فیصلے فرما چکا ہے۔ انسانوں اور ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ اس معرکے میں ہمیں کیا کردار اد اکرنا ہے؟

آسمانی مذاہب سے بے زاری کی تحریکیں

آپ تاریخی لحاظ سے دور دیکھ رہے ہیں، پیغمبروں کا یہ دور جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ختم ہوا اور آپ کا دین مکمل ہوا۔ تو اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں سولہویں صدی کے اندر یورپ میں نشاۃِ ثانیہ کی تحریک کا آغاز ہوا، اور اس تحریک کے آغاز میں پورے اہتمام سے کوشش کی گئی کہ انسانوں کا تعلق وحیِ الٰہی سے کاٹ دیا جائے۔ یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وحیِ الٰہی سے حاصل ہونے والا علم نہ صرف کافی نہیں ہے، بلکہ انسانوں کی ترقی میں یہ رکاوٹ ہے۔ نشاۃِ ثانیہ کے عہد کے بعد، عیسائیت کے اندر پروٹسٹنٹ فرقے کا ظہور ہوا اور عیسائیت کے اندر کلیسا کو اپنے تمام جبر و ستم کے بعد حکومت سے دیس نکالا دے دیا گیا اور ریاست و حکومت کے ساتھ اس کا تعلق ختم کر دیا گیا۔ دنیا میں سیکولر اسٹیٹ کے قیام کی صورتیں ہوئیں اور دنیا کو بتایا گیا کہ مذہب کا تعلق ریاست سے نہیں ہے، مذہب کا تعلق جب بھی ریاست کے ساتھ قائم ہوگا تو یہ دنیا میں مسائل کا باعث بنے گا۔

اس کے بعد اس کے نمائندے باہر نکلے اور 1857ء کے زمانے میں، اور 1923ء تک پورے عالمِ اسلام کے اندر مسلمانوں کی کوئی حکومت باقی نہیں رہی، مسلمانوں کی ریاست نام کی کوئی چیز نہیں رہی، یہاں مشرق سے لے کر پورا ہندوستان، پورا عرب، یہ تمام علاقے جو تھے' بندر بانٹ کے نتیجے میں کچھ برطانیہ کے حصے میں آگئے، کچھ فرانسیسی انقلاب کا شکار ہوگئے، کہیں ولندیزی استبداد قائم ہوا اور خلافتِ اسلامیہ کا پورا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد اگلا حملہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی تہذیب اور ان کی وحی کے معاملے میں بھی جنگ شروع کردی گئی، یہ 1857ء کے بعد کا زمانہ ہے۔

فتنۂ مرزائیت اور اسلامی اَساس پر حملے

ایک طرف مرزا کی نبوت کا فتنہ شروع ہوا، مسلمانوں کی تعلیم کا فتنہ شروع ہوا اور مسلمانوں کی تعلیم کی نئی اَساسیں مرتب کر دی گئیں۔ یہی زمانہ شروع ہوا جس زمانے میں دجل سے رنگینیاں اور ترقیات کے نام پر بتایا گیا کہ اب تک انسان انتہائی کسمپرسی میں تھے، یہ نئی دنیا قائم ہوگئی ہے۔

مادیت کے فتنے اور خود ساختہ محسنین کی جدید فہرست

آپ اہتمام کے ساتھ اگر یہ تاریخ پڑھیں، اس میں دنیا کو بتایا گیا کہ محسنین کی جو فہرست ہے، اس میں نئے کیریکٹر آئے۔ لوگ بڑے اہتمام سے پوچھتے ہیں کہ یہودیوں نے تو دنیا کو دوائیوں کا علاج دیا، یہ جس اسپیکر کے ذریعے میں آپ سے بات کر رہا ہوں، یہ ان سے ملا، دنیا میں لائٹوں کا اہتمام ان سے ہوا، سفر و نقل کا اہتمام انہی کے ذریعے ہوا، آئن اسٹائن، نیوٹن، اسٹیفن ہاکنگ آئے، دنیا میں جہاز بن گئے، نئی نئی خلائیں قبضہ کی جا رہی ہیں، اس کے مقابلے میں یہ کیا عقیدہ ہے کہ آپ نے اس کو مان لیا، قبلے کا رخ یہاں کر لیا، وہاں کرلیا، ان چیزوں کی کیا ضرورت ہے؟ 

انسانیت کو تو اس کی ضرورت ہے کہ اس کو دو وقت کی روٹی ملے۔ یہی وہ دور ہے جب دنیا میں مارکس ازم کا فلسفہ شروع ہوا، اور معیشت کے نام پر بتایا گیا کہ نئی ترتیب قائم کی جائے، زمین اور ملکیت کے نام پر نئے فلسفے گھڑے گئے۔ تو اب بتایا یہ جا رہا ہے کہ انسانیت کے محسن پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام نہیں ہیں، یہ نئے ہیروز ہیں، معاشرے میں نئے طبقات کا وجود بنایا گیا۔ اس سے پہلے دانشور یا اہلِ علم کے لیے علماء یا مذہبی لوگ تھے، اس کے بعد ایک نیا طبقہ پیدا ہوا، جس نے صحافت کے نام پر نئی چیزیں پیدا کیں۔ میں یہیں رک کر آپ سے یہ عرض بھی کرتا چلوں کہ ظاہری بات ہے کہ جتنی چیزوں کے نام لے رہا ہوں ان تمام چیزوں کے نفع سے ہم بھی استفادہ کر رہے ہیں، اور ان تمام چیزوں کو باطل محض کہنے کو ہم بھی تیار نہیں ہیں، کیوں کہ یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ اگر یہ چیزیں باطل محض ہوتیں تو اللّٰہ تعالیٰ اسے باقی نہ رکھتا۔ باطل کے ہر درے میں نفع کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے اسے بقاء مل جایا کرتی ہے۔ لہٰذا ان کی بقاء کے ظاہری اسباب موجود رہے، جس سے ہم آج استفادے کو بالکل تیار ہیں، مگر اس کے نتیجے میں کوشش کی گئی کہ نیا انسان تیار کیا جائے۔

مضمون 2 ... فتنے اور امت محمدیہ 

 بقلم : محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ

سب سے بڑا صدمہ اس کا ہے کہ مصلحین کی جماعتوں میں جو فتنے آج کل رونما ہو رہے ہیں‘ نہایت خطرناک ہیں‘ تفصیل کا موقعہ نہیں‘ لیکن فہرست کے درجہ میں چند باتوں کا ذکر ناگزیر ہے

۔1- مصلحت اندیشی کا فتنہ

یہ فتنہ آج کل خوب برگ و بار لارہا ہے‘ کوئی دینی یا علمی خدمت کی جائے‘ اس میں پیش نظر دنیاوی مصالح رہتے ہیں‘ اس فتنہ کی بنیاد نفاق ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دینی و علمی خدمات برکت سے خالی ہیں۔ 

۔2- ہر دلعزیزی کا فتنہ

جو بات کہی جاتی ہے‘ اس میں یہ خیال رہتا ہے کہ کوئی بھی ناراض نہ ہو‘ سب خوش رہیں‘ اس فتنہ کی اساس حب جاہ ہے۔

 ۔3- اپنی رائے پر جمود و اصرار

اپنی بات کو صحیح و صواب اور قطعی و یقینی سمجھنا‘ دوسروں کی بات کو درخور اعتناء اور لائق التفات نہ سمجھنا‘ بس یہی یقین کرنا کہ میرا موقف سو فیصد حق اور درست ہے اور دوسرے کی رائے سو فیصد غلط اور باطل- یہ اعجاب بالرائے کا فتنہ ہے اور آج کل سیاسی جماعتیں اس مرض کا شکار ہیں- کوئی جماعت دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتی‘ نہ حق دیتی ہے کہ ممکن ہے کہ مخالف کی رائے کسی درجہ میں صحیح ہو یا یہ کہ شاید وہ بھی یہی چاہتے ہوں جو ہم چاہتے ہیں‘ صرف تعبیر اور عنوان کا فرق یا الا ہم فالاہم کی تعیین کا اختلاف ہو۔ 

۔4-سوء ظن کا فتنہ

ہر شخص یا ہر جماعت کا خیال یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے اور ان کی نیت بخیر ہے اور باقی تمام جماعتیں جو ہماری جماعت سے اتفاق نہیں رکھتیں‘ وہ سب خود غرض ہیں‘ ان کی نیت صحیح نہیں‘ بلکہ اغراض پر مبنی ہیں‘ اس کا منشاء بھی عجب و کبر ہے۔ 

۔5- سوء فہم کا فتنہ

کوئی شخص کسی مخالف کی بات جب سن لیتا ہے تو فوراً اسے اپنا مخالف سمجھ کر اس سے نہ صرف نفرت کا اظہار کرتا ہے‘ بلکہ مکروہ انداز میں اس کی تردید فرض سمجھی جاتی ہے۔ مخالف کی ایک ایسی بات میں جس کے کئی محمل اور مختلف توجیہات ہو سکتی ہیں‘ وہی توجیہ اختیار کریں گے جس میں اس کی تحقیر و تذلیل ہو‘ کیا ﴿ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ﴾ ( یقیناً بعض گمان گناہ ہیں) اور ”إیاکم والظن؛ فإن الظن أکذب الحدیث“( بدگمانی سے بچا کرو؛کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اور بڑے بڑے جھوٹ اسی سے پیدا ہوتے ہیں) کی نصوص مرفوع العمل ہوچکی ہیں؟․

 ۔6-بہتان طرازی کا فتنہ

مخالفین کی تذلیل و تحقیر کرنا‘ بلاسند ان کی طرف گھناؤنی باتیں منسوب کرنا۔ اگر کسی مخالف کی بات ذرا بھی کسی نے نقل کر دی‘ بلا تحقیق اس پر یقین کر لینا اور مزے لے لے کر محافل و مجالس کی زینت بنانا‘ بالفرض اگر خود بہتان طرازی نہ بھی کریں‘ دوسروں کی سنی سنائی باتوں کو بلا تحقیق صحیح سمجھنا‘ کیا یہ نص قرآنی ﴿اِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا﴾ الآیة( اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر تو تحقیق کرلو) کے خلاف نہیں؟ 

۔7- جذبہٴ انتقام کا فتنہ

کسی شخص کو کسی شخص سے عداوت و نفرت یا بدگمانی ہے‘ لیکن خاموش رہتا ہے، لیکن جب ذرا اقتدار مل جاتا ہے ‘ طاقت آجاتی ہے تو پھر خاموشی کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘ گویا یہ خاموشی معافی اور درگزر کی وجہ سے نہیں تھی‘ بلکہ بیچارگی و ناتوانی اور کمزوری کی وجہ سے تھی‘ جب طاقت آگئی تو انتقام لینا شروع کیا‘ رحم و کرم اور عفو درگزر سب ختم۔ 

۔8-حبِ شہرت کا فتنہ

کوئی دینی یا علمی یا سیاسی کام کیا جائے‘ آرزو یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ داد ملے اور تحسین و آفرین کے نعرے بلند ہوں‘ درحقیقت اخلاص کی کمی یا فقدان سے اور خود نمائی و ریاکاری کی خواہش سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے‘ صحیح کام کرنے والوں میں یہ مرض پیدا ہوگیا اور درحقیقت یہ شرکِ خفی ہے‘ حق تعالیٰ کے دربار میں کسی دینی یا علمی خدمت کا وزن اخلاص سے ہی بڑھتا ہے اور یہی تمام اعمال میں قبول عند اللہ کا معیار ہے‘ اخبارات‘ جلسے‘ جلوس‘ دورے زیادہ تر اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔

 ۔9- خطابت یا تقریر کا فتنہ 

یہ فتنہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ لن ترانیاں انتہا درجہ میں ہوں‘ عملی کام صفر کے درجہ میں ہوں‘ قوالی کا شوق دامن گیر ہے‘ عمل و کردار سے زیادہ واسطہ نہیں۔ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَاتَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَاتَفْعَلُوْنَ﴾  ترجمہ:۔کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے‘ بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے یہاں کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو “۔ (ترجمہ شیخ الہند) خطیب اس انداز سے تقریر کرتا ہے گویا تمام جہاں کا درد اس کے دل میں ہے‘ لیکن جب عملی زندگی سے نسبت کی جائے تو درجہ صفر ہوتا ہے۔ 

۔10- پروپیگنڈہ کا فتنہ

جو جماعتیں وجود میں آئی ہیں‘ خصوصاً سیاسی جماعتیں ان میں غلط پروپیگنڈہ اور واقعات کے خلاف جوڑ توڑ کی وبا اتنی پھیل گئی ہے جس میں نہ دین ہے اور نہ اخلاق‘ نہ عقل ہے نہ انصاف‘ محض یورپ کی دین باختہ تہذیب کی نقالی ہے‘ اخبارات‘ اشتہارات ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ تمام اس کے مظاہر ہیں۔ 

۔11- مجلس سازی کا فتنہ

چند اشخاص کسی بات پر متفق ہوگئے یا کسی جماعت سے اختلاف رائے ہو گیا‘ فوراً اخبار نکالا جاتا ہے بیانات چھپتے ہیں کہ اسلام اور ملک ‘ بس ہماری جماعت کے دم قدم سے باقی رہ سکتا ہے۔ نہایت دل کش عنوانات اور جاذبِ نظر الفاظ و کلمات سے قراردادیں اور تجویزیں چھپنے لگتی ہیں‘ امت میں تفرق و انتشار اور گروہ بندی کی آفت اسی راستے سے آئی ہے۔ 

۔12- عصبیت جاہلیت کا فتنہ 

اپنی پارٹی کی ہربات خواہ وہ کیسی ہی غلط ہو‘ اس کی حمایت و تائید کی جاتی ہے اور مخالف کی ہر بات پر تنقید کرنا سب سے اہم فرض سمجھا جاتا ہے‘ مدعئی اسلام جماعتوں کے اخبار و رسائل‘ تصویریں‘ کارٹون‘ سینما کے اشتہار‘ سود اور قمار کے اشتہار اور گندے مضامین شائع کرتے ہیں‘ مگر چوںکہ ”اپنی جماعت “ کے حامی ہیں‘ اس لیے جاہلی تعصب کی بنا پر ان سب کو بنظر استحسان دیکھا جاتا ہے‘ الغرض جو اپنا حامی ہو وہ تمام بدکرداریوں کے باوجود پکا مسلمان ہے اور جو اپنا مخالف ہو‘ اس کے نماز روزہ کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے۔ 

۔13- حب مال کا فتنہ

حدیث میں تو آیاہے کہ ”حب الدنیا رأس کل خطیئة“دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے‘ حقیقت میں تمام فتنوں کا قدر مشترک حب جاہ یا حب مال ہے‘ بہت سے حضرات ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً﴾  کو دنیا کی جستجو اور محبت کے لیے دلیل بناتے ہیں‘ حالآںکہ بات واضح ہے کہ ایک ہے دنیا سے تعلق اور ضروریات کا حصول، اس سے انکار نہیں‘ نیز ایک ہے طبعی محبت ‘ جو مال اور آسائش سے ہوتی ہے‘ اس سے بھی انکار نہیں‘ مقصد تو یہ ہے کہ حبِ دنیا یا حبِ مال کا اتنا غلبہ نہ ہو کہ شریعتِ محمدیہ اور دینِ اسلام کے تمام تقاضے ختم یا مغلوب ہو جائیں‘ اقتصاد و اعتدال کی ضرورت ہے‘ عوام سے شکایت کیا کی جائے‘ آج کل عوام سے یہ فتنہ گزر کر خواص کے قلوب میں بھی آرہا ہے‘ الا ماشاء اللہ! اس فتنے کی تفصیلات کے لیے ایک طویل مقالے کی ضرورت ہے‘ حق تعالیٰ توفیق عطا فرمائے‘ ہم ان مختصر اشاروں کو حضرت رسول اللہ کی محبت کی ایک دعا پر ختم کرتے ہیں: ”اللّٰهم ارزقني حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی إلیک‘ اللّٰهم ما رزقتني مما أحب فاجعله قوةً فیما تحب وما زویت عني مما أحب فاجعله فراغاً لي فیما تحب‘ اللّٰهم اجعل حبک أحب الأشیاء إليّ من نفسي (بصائر وعبر (1/99)


Comments