1483) تزکیہ نفس

تزکیہ نفس

بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا

رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذۡہُ وَکِیۡلًا

وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا1

حضراتِ محققین نے فرمایا کہ ان آیات کے اندر تزکیۂ نفس کے منازل کو اللہ تعالیٰ نے عجیب انداز میں بیان فرمایا ہے۔ وَاذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَحق سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارا نام لو۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ محمد اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں عجیب انداز، عجیب عنوان سے فرمایا کہ اپنے رب کا نام لیجیے۔ یہاں رب کیوں فرمایا؟

 رب کے معنیٰ ہیں پالنے والا اور پالنے والے سے فطرتاً محبت ہوتی ہے، اسی لیے اپنے ماں باپ سے ہر انسان کو محبت ہوتی ہے۔اس عنوان سے بیان کرکےگویا اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ میر انام محبت سے لیا کرو کیوں کہ میں ہی تمہارا پالنے والا ہوں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں 

عام می خوانند ہر دم نامِ پاک

ایں اثر نہ کند تا نبود عشقناک

عام لوگ ہروقت سبحان اللہ،سبحان اللہ پڑھتے ہیں لیکن یہ ذکر اس وقت تک اثر کامل نہیں کرتا جب تک محبت سے نہ کیا جائے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ بغیر محبت اثر کامل نہیں ہوتا ورنہ اللہ تعالیٰ کا نام بہت بڑا نام ہے۔ اگر غفلت سے بھی زبان سے اُن کا نام نکل جائے تو بغیر اثر کیے نہیں رہ سکتا۔ ایک مجذوب جنگل میں دعا مانگ رہا تھا کہ اے اللہ ... آپ کا نام بہت بڑا نام ہے، جتنا بڑا آپ کا نام ہے اتنا ہم پر فضل و رحمت فرما دیجیے۔ سبحان اللہ ... کیا عجیب انداز تھا مانگنے کا۔ بعض اوقات مجذوبوں سے اور عامیوں سے ایسی دعا نکل جاتی ہے کہ بڑے بڑے حیرت میں رہ جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں 

تمنا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہوتی

اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دلنشیں ہوتی

اور فرماتے ہیں

خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہوکر

تو  اپنا  بوریا  بھی  پھر  ہمیں  تختِ  سلیماں  تھا

۔🛑 تنہائی کے آنسوؤں کی قیمت

اور اگر ذکر کی حالت میں کچھ آنسو بھی نکل آئیں اور تنہائی بھی ہو تو یہ آنسو قیامت کے دن ہمیں عرش کا سایہ دلائیں گے۔ رَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ2؎ خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ تنہائی اور ذکر اللہ کے جو آنسو ہیں،اللہ کی محبت کے جو آنسو ہیں ان پر ستارے رشک کرتے ہیں۔ جب کوئی گناہ گار بندہ رو رو کے اپنی مغفرت مانگتا ہے تو اس کے رونے اور گڑ گڑانے کا اور اس کے آنسوؤں کا اللہ کے نزدیک کیا مقام ہے۔ علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے سورۂ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ کی تفسیر میں ایک حدیثِ قدسی نقل کی ہے۔

(2؎ صحیح البخاری:91/1،باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوٰۃ، المکتبۃ المظہریۃتنہائی 

حدیثِ قدسی کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں کہ وہ کلامِ نبوت ہے جو زبانِ نبوت سے ادا ہو لیکن نبی یہ نسبت کر دے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔

توبہ کے آنسوؤں کی محبوبیت

لہٰذا حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:لَاَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ3؎ گناہ گاروں کا نالہ اور اُن کا رونا اور گڑ گڑا کر مجھ سے معافی مانگنا اور ان کی آہ و زاری اور اشکباری مجھے تسبیح پڑھنے والوں کی سبحان اللہ، سبحان اللہ سے زیادہ محبوب ہے۔مولانا رومی فرماتے ہیں

کہ برابر می کند شاہِ مجید

اشک را در وزن باخونِ شہید

اللہ تعالیٰ گناہ گاروں کے ندامت کے آنسوؤں کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتے ہیں۔ اور مولانا رومی خود اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ندامت کے یہ آنسو پانی نہیں ہیں بلکہ جگر کا خون ہیں، خوفِ خدا سے جب جگر کا خون پانی بن جاتا ہے تب وہ آنسو بن کر نکلتا ہے۔

آنسو نمکین کیوں ہیں؟

اور علامہ آلوسی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنسوؤں کو اس لیے نمکین بنایا کہ آنکھوں میں جہاں آنسو کا مرکز اور مستقر ہے وہاں کوئی زہریلا مادّہ یعنی انفیکشن پیدا نہ ہو، جیسے کہ سمندر میں پچاس فیصد نمک ڈال دیا جس سے آج تک سمندر کے پانی میں زہریلا مادّہ پیدا نہیں ہوتا ورنہ کراچی، مدراس، بمبئی اور دنیا بھر کے جتنے ساحلی علاقے ہیں وہاں زندہ رہنا مشکل ہوجاتا۔ سمندر کی ساری مچھلیاں مر جاتیں، انسان کی غذائیں ختم ہوجاتیں، اسی لیے آنسوؤں کو بھی اللہ تعالیٰ نے نمکین بنا دیا تاکہ میرے بندوں کی آنکھوں میں جو غدود ہیں جہاں ... (3؎ کشف الخفاء ومزیل الالباس:298 (805)، باب حرف الھمزۃ مع النون۔روح المعانی:196/30، القدر(4)، داراحیاءالتراث، بیروت)

آنسوؤں کی تھیلی ہے کہیں اس میں زہریلا مادّہ پیدا نہ ہو جائے۔ سبحان اللہ ... اللہ کی کیا شان ہے۔ اور نمک پر اس وقت مجھے اپنا ایک شعر یاد آگیا

جن کی صورت میں ہو نمک شامل

واجب الاحتیاط ہوتے ہیں

جن کو ہائی بلڈ پریشر کا مرض ہوتا ہے، نمک سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہاں میرے ساتھ کراچی سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب آئے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ اپنے مطب میں میرے دو شعر لکھوا دیجیے۔ ایک جسمانی ہائی بلڈ پریشر کے لیے ہے اور دوسرا روحانی ہائی بلڈ پریشر کے لیے۔ جسمانی ہائی بلڈ پریشر والوں کے لیے یہ ہے

جس غذا میں بھی ہو نمک شامل

واجب الاحتیاط ہوتے ہیں

اور دوسرا شعر روحانی ہائی بلڈ پریشر کے لیے ہے

جن کی صورت میں ہو نمک شامل

واجب الاحتیاط ہوتے ہیں

حفاظتِ نظر کی ایک حکمت

اور جس دن چاند چودہویں تاریخ کا ہوتا ہے،سمندر میں جوار بھاٹا اور اس کی موجوں میں طغیانی آجاتی ہے،لہٰذا جو لوگ زمین کے چاندوں سے اپنی نظر نہیں بچائیں گے ان کے قلب کے سمندر میں جوار بھاٹا اور اتنی زیادہ طغیانی آئے گی کہ بے ساختہ حواس باختہ ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس ذاتِ پاک نے ہمیں نظر کی حفاظت کا حکم دے دیا۔

۔🛑 حرمتِ زِنا کی ایک حکمت

فرانس (ری یونین) میں ایک عیسائی نے سوال کیا کہ اسلام میں زنا کیوں حرام ہے؟

 میں نے کہا اس لیے تاکہ آپ حرامی نہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حلالی رکھنے کے لیے زنا کو حرام فرما دیا۔ جس ملک میں عورت دولتِ مشترکہ ہو وہاں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا نسب صحیح نہیں۔ اسی لیے ان کے قلب میں ماں باپ کی عزت اور عظمت بھی نہیں۔ لندن میں انگریزوں کے ماں باپ جب بڈھے ہو جاتے ہیں تو ان کو مرغی فارم کی طرح باہر پھینک آتے ہیں اور سال میں ایک دفعہ مل آتے ہیں کیوں کہ انگریز جب بالغ ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ پتا نہیں میں کس کا لڑکا ہوں۔ ان کی ماؤں کے پاس نہ جانے کتنے لوگ آتے رہتے ہیں۔ استغفراللہ! اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ جس نے زنا تو درکنار مقدمۂ زنا کو بھی حرام فرما دیا،یعنی نظربازی، جو کہ سبب ہے زنا کا۔ سب سے پہلے زنا آنکھوں سے ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے: زِنَی الْعَیْنِ النَّظَرُ جس نے کسی کی ماں بہن بیٹی یا بے ریش لڑکے کو دیکھ لیا آنکھوں کا زنا ہوگیا۔نظربازی آنکھوں کا زنا ہے، اور زِنَی اللِّسَانِ النُّطْقُ4؎ اور نامحرم عورتوں سے گپ شپ مارنا،بے وجہ باتیں کرنا اور حرام مزہ لینایہ زبان کا زنا ہے۔ حاجی بےچارہ حج عمرہ کرکے پی آئی اے پر یا کسی بھی جہاز پر بیٹھتا ہے، فوراً سامنے ایئرہوسٹس لڑکیاں آجاتی ہیں کہ حضور! کیا کھائیں گے، کیا پئیں گے اور حاجی صاحب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دے رہے ہیں کہ آپا! یہ چاہیے، وہ چاہیے، اور اگر کم عمر ہے تو بیٹی کہتا ہے۔ یہ بیٹی کہنے سے وہ بیٹی نہیں ہوجاتی۔ آج کل بدمعاشیوں کے نئے نئے راستے نکالے گئے ہیں۔ شوہر کہتا ہے کہ یہ مرد میرے یہاں کیوں آتا ہے۔ بیوی صاحبہ کہتی ہے کہ خبردار! خاموش رہنا، یہ ہمارا منہ بولا بھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام فتنوں سے حفاظت فرمائے۔

پالنے والے کا نام محبت سے لیجیے

تو میں عرض کررہا تھا کہ حق سبحانہٗ وتعالیٰ نےوَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ میں رب کا لفظ نازل فرماکر یہ بتادیا کہ اپنے پالنے والے کا نام محبت سے لو۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو ظالم محبت سے اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا وہ اس لفظ کا حق ادا نہیں کرتا، حالاں کہ ان کا نام تو اتنا شیریں ہے کہ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؎

نامِ او چو بر زبانم می رود

ہر بنِ مو از عسل جوئے شود

جب اللہ تعالیٰ کا نام میری زبان سے نکلتا ہے تو میرے جسم کے جتنے بال ہیں شہد کے دریا ہوجاتے ہیں۔یہ شعر تو مثنوی میں فرمایا، اور دیوانِ شمس تبریز جو درحقیقت ان ہی کا کلام ہے لیکن ادب کی وجہ سے اپنے شیخ حضرت شمس الدین تبریزی کی طرف نسبت کر دی، اس میں فرماتے ہیں

اے دل ایں شکر خوشتر یاآنکہ شکر سازد

اے دل! یہ شکر زیادہ میٹھی ہے یا شکر کا پیدا کرنے والا زیادہ میٹھا ہے۔

اے دل ایں قمر خوشتر یا آنکہ قمر سازد

اے دل! یہ چاند زیادہ حسین ہے یا چاند کا بنانے والا زیادہ حسین ہے۔

جس نے لیلیٰ میں ذرا سا نمک ڈال دیا اور مجنوں پاگل ہوگیا، خود اس خالق نمک کا کیا عالَم ہوگا جس نے ساری کائنات کے حسینوں کو نمک عطا فرمایا ہے۔ اس خالق نمک سے دل لگا کر دیکھو۔ جس نے مولائے کائنات کو پالیا واللہ! اس نے تمام لیلائے کائنات کو پالیا۔ اس کے قلب میں حوروں سے زیادہ مزہ آجاتا ہے کیوں کہ حوریں مخلوق ہیں، جنت مخلوق ہے، حادث ہے۔

4؎ صحیح البخاری:978/2 (6652)، باب قولہ:وحرٰم علٰی قریۃ اھلکنٰھا، المکتبۃ المظہریۃ

۔🛑 ذکر اللہ کا مزہ جنت سے بھی زیادہ ہے

اللہ تعالیٰ کے نام کے برابر جنت بھی نہیں ہو سکتی کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ5؎ 

میرا کوئی مثل نہیں۔ جب ان کی ذات کا کوئی مثل نہیں ہو سکتا تو ان کے نام کی لذت کا بھی کوئی مثل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا تو کسی جنتی کو جنت کی کوئی نعمت یاد نہیں آئے گی

چناں مست ساقی کہ مے ریختہ ذکر اللہ کے دو حق

دوستو! میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ ذکر کے دو حقوق ہیں

 نمبر۱) یہ کہ کسی شیخ کامل سے مشورہ کرکے ذکر کیجیے۔جیسے کوئی طاقت کی دوا یا کوئی خمیرہ آپ کسی طبیب سے پوچھ کر استعمال کرتے ہیں۔ ایک کشمیر کے باشندے نے طاقت کے لیے ڈیڑھ پاؤ بادام کھا لیا۔ پھر ساری رات کرتا بنیان اُتار کر لنگی پہن کر پاگل کی طرح پھرتا رہا۔ صبح صبح میرے پاس آیا۔ میں نے کہا کہ اطباء نے لکھا ہے سات عدد یا نو عدد اور زیادہ سے زیادہ گیارہ بادام کھا سکتا ہے اور تم نے ڈیڑھ پاؤ کھا لیا، اس کا یہ اثر ہوا۔ اب آج کھانا مت کھاؤ، صرف دہی کی لسّی پیو اسپغول کا چھلکا ڈال کر، دن بھر میں کم از کم چالیس پچاس گلاس پی جاؤ۔ عشاء تک وہ لسّی پیتا رہا۔ عشاء کے بعد آیا کہ اب جا کر دماغ صحیح ہوا ہے ورنہ پاگل ہو جاتا۔بس اسی طرح شیخ سے مشورہ کی ضرورت ہے کہ کتنا ذکر کریں۔ مجھ کو مولانا شبیر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مہتمم خانقاہ تھانہ بھون حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے نے بتایا کہ حضرت نے ایک شخص کو دو ہزار مرتبہ اللہ اللہ بتایا۔ اس نے پچیس تیس ہزار مرتبہ پڑھ لیا۔ گرم ہو کر خانقاہ تھانہ بھون کے کنویں میں کود گیا۔ جب کودا تو ہم لوگ دوڑے، بڑی مشکل سے اس کو نکالا۔ پھر حضرت نے پانی دَم کر کے پلایا۔ جب اس کو ہوش آیا تو حضرت نے اس کو سخت تنبیہ فرمائی اور خوب ڈانٹ لگائی کہ ظالم! میری بتائی ہوئی تعداد سے زیادہ کیوں ذکر کیا۔ جتنا شیخ بتائے اتنا ہی ذکر کرو۔

ذکر کے لیے مشورۂ شیخ کی اہمیت

خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار پوچھا کہ حضرت! ذکر کے لیے شیخ کے مشورہ کی کیا ضرورت ہے؟

 اللہ کا نام تو بہت بڑا نام ہے، ان کا نام لے کر کیا ہم اللہ والے نہیں بن سکتے؟

 کیا ذکر ہم کو خدا تک نہیں پہنچاسکتا؟

 اس میں شیخ کا مشورہ کیوں ضروری ہے؟ 

حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خواجہ صاحب! اللہ تک تو آپ پہنچیں گے ذکر ہی سے لیکن ایک بات سن لیجیے کہ کاٹتی تو تلوار ہی ہے لیکن کب کاٹتی ہے؟

 جب سپاہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ سبحان اللہ! کیا مثال دی۔ اُولٰئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِہِمْ۔فرمایا کہ اسی طرح خدا تک تو ذکر ہی سے پہنچیں گے لیکن کسی اللہ والے کے مشورہ سے، اس کی دعائیں اور توجہ بھی شامل حال ہوگی، پھر وہ آپ کی دماغی صلاحیت کو بھی دیکھتا ہے کہ یہ کتنا ذکر کر سکتا ہے۔ کتنے لوگ جن کا سچا اور کامل پیر اور مرشد نہیں ہوتا زیادہ ذکر کرکے پاگل ہو رہے ہیں۔ لوگ ان کو مجذوب سمجھتے ہیں حالاں کہ وہ مجذوب نہیں ہیں مجنون ہیں۔ ایک صاحب نے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ مجھے ذکر میں روشنی نظر آ رہی ہے۔ حضرت نے ان کو تحریر فرمایا کہ آپ فوراً ذکر ملتوی کریں اور بادام اور دودھ پئیں اور سر میں تیل کی مالش کریں اور صبح ننگے پاؤں سبزہ پر چلیں اور اپنے دوستوں سے کچھ خوش طبعی کریں۔ مخلوق سے دور تنہائی میں رہتے رہتے اور زیادہ ذکر و فکر کی وجہ سے دماغ میں خشکی بڑھ گئی ہے۔ اس خشکی کی وجہ سے یہ روشنی نظر آرہی ہے۔ یہ ہے شیخ محقق۔ اگر کوئی جاہل پیر ہوتا تو کہتا کہ جب جلوہ نظر آگیا تو اب کھاؤ حلوہ اور لو یہ خلافت لے جاؤ۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ تو خلافت ہی کا اُمیدوار ہوگا لیکن میرے جواب کو دیکھ کر کیا کہے گا! معلوم ہوا کہ شیخ کا مشورہ کتنا ضروری ہے۔

دوستو! یہی عرض کرتا ہوں کہ اگر پیر نہ بنائیے تو مشیر بنانے میں کیا حرج ہے۔یہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کسی کو اپنا دینی مشیر بنا لیجیے، مشورہ لے لیجیے۔ بیعت ہونا تو سنت ہے، مگر حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کسی مصلح کامل سے تعلق میرے نزدیک فرض ہے۔ عادت اللہ یہی ہے کہ اصلاح بغیر اس کے نہیں ہوتی۔

ذکر اللہ کا دوسرا حق کیفیتِ ذکر ہے

تو ذکر کا ایک حق تو اس کی کمیت ہے اور دوسرا حق کیفیت ہے۔ ذکر کماً اور کفیاً کامل ہو یعنی جو مقدار شیخ بتائے وہ مقدار پوری کیجیے۔ اِلّایہ کہ نزلہ، زکام، بخار ہو یا سفر ہو لیکن بالکل ناغہ پھر بھی نہ کریں۔ جیسے سفر میں اگر کھانا نہیں ملتا تو ایک پیالی چائے اسٹیشن کی پی لیتے ہیں جو بالکل نام کی چائے ہوتی ہے تاکہ زکام نہ ہو۔ اسی طرح سفر میں مجبوری ہے تو چلیے لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی ایک ہی تسبیح پڑھ لیجیے اور ایک تسبیح اَللہْ اَللہْ کر لیجیے۔ بغیر اللہ کا ذکر کیے ہوئے سو جانا مناسب نہیں، اور جب حالتِ سفر نہ ہو تو مقدار و کمیت پوری کیجیے۔ اور دوسری چیز کیفیت ہے۔ اللہ کا نام محبت سے لیا جائے، اور اس کی حسّی مثال حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے پیش فرمائی کہ اگر آپ کو ایک گلاس پانی کی پیاس ہے لیکن کوئی ایک چمچہ پانی پیش کرے تو کیا پیاس بجھے گی؟

 معلوم ہوا کہ مقدار بھی پوری ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر پانی تو ایک گلاس بھر کر دیا، مقدار تو پوری کی مگر دھوپ کا جلا ہوا گرم پانی ہو تو بھی پیاس نہیں بجھے گی کیوں کہ کمیت تو صحیح تھی لیکن کیفیت نہیں تھی۔ اسی طرح ذکر کی کمیت و مقدار بھی پوری ہو اور کیفیت بھی صحیح ہو تب نفع کامل ہوتا ہے، جس طرح ہم آپ جسمانی غذاؤں میں سوچتے ہیں کہ کمیت بھی پوری ہو اور کیفیت بھی صحیح ہو۔ مثلاً کباب ہے، اگر وہ ٹھنڈا ہو فریج کا تو مزہ آئے گا؟

 گرم کباب ہو، گرم سالن ہو تو مزہ زیادہ آتا ہے۔

5؎ الاخلاص:4

۔🛑 گرم کھانے کی ممانعت کا مفہوم

اس پر ایک واقعہ یاد آیا کہ بمبئی میں ایک صاحب نے کہا کہ حدیث شریف میں ہے کہ کھانا گرم مت کھاؤ اور مشکوٰۃ شریف لاکر حدیثِ پاک بھی دکھا دی،کیوں کہ فاضل دیوبند تھے۔ میں نے کہا کہ اس کی شرح مرقاۃ لائیے۔ جب شرح دیکھی تو اس میں لکھا تھا کہ صحابہ کھانے کو تھوڑی دیر ڈھانک کر رکھ دیتے تھے۔ تَذْھَبُ فَوْرَۃُ دُخَانِہٖ اَیْ غَلَیَانُ بُخَارِہٖ وَکَثْرَۃُ حَرَارَتِہٖ6؎ یعنی تیزی اور شدت گرمی کی نکل جائے، ایسا نہ ہو کہ بھاپ نکل رہی ہو اور منہ جل جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیثِ پاک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹھنڈا کھانا کھاؤ۔

تب ان مولانا نے کہا کہ جَزَاکَ اللہْ اور پھر مَاشَاءَ اللہْ میرے ہر بیان میں شریک رہے اور میرے کان میں کہا کہ اگر آج اس کی شرح آپ نہ بتاتے تو بہت سے اکابر کے عمل پر شبہ ہو جاتا کیوں کہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب تو گرم گرم چپاتی بار بار منگا کر کھاتے ہیں۔ ہم کو شبہ ہو گیا تھا کہ ہمارے اکابر گرم کھانا کیوں پسند کرتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کمیت بھی پوری کرے اور کیفیت بھی پوری ہو یعنی دردِ محبت سے زمین و آسمان کے خالق کی عظمتوں کو سامنے رکھ کر ربّ العالمین کا، اپنے پالنے والے کا نام لے۔ جیسے مجنوں دریا کے کنارے ریت پر لیلیٰ لیلیٰ لکھ رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ لیلیٰ کا نام کیوں لکھتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ جب دیکھنے کو نہیں ملتی تو اس کا نام لکھ کر اپنے دل کو تسلی دیتا ہوں 

گفت مشق نامِ لیلیٰ می کنم

خاطر خود را تسلی می دہم

6؎ مرقاۃ المفاتیح:140/8،کتاب الاطعمۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت

۔🛑 عنوان:ذکر اللہ کا انعام

اسی طرح ہم آپ مشق نامِ مولیٰ کریں۔ ہم سب اللہ تعالیٰ کا نام محبت سے لیں تو ایک دن ایک اللہ ایسا نکلے گا کہ زمین سے آسمان تک شربت روح افزا بھر جائے گا۔ ہمدرد اتنا شربت نہیں بنا سکتا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ گنے کے اندر رَس پیدا کرتا ہے جس سے شکر بنتی ہے۔ اگر خدا گنوں میں رس نہ پیدا کرتا تو ساری دنیا کے گنے مچھر دانی کے ڈنڈوں کے بھاؤ بک جائیں،لہٰذا جو ذاتِ پاک سارے عالَم کو شکر عطا کرتی ہے اس کے نام میں کتنا رس ہوگا۔ پھر آپ حلوائیوں کے زیادہ ممنون نہ رہیں گے۔ پیسہ ہو کھائیے، منع نہیں کرتا لیکن اللہ کا نام محبت سے لیجیے۔ پھر ساری دنیا کی مٹھائیاں ان شاء اللہ خودبخود روح میں محلول ہو کر اُتر جائیں گی۔ میں نے یہ ملفوظ خود پڑھا ہے کہ سائیں توکل شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ اجی مولوی صاحب! جب میں اللہ کا نام لوں ہوں تو میرا منہ میٹھا ہو جاوے ہے۔ یہ سہارن پور کی بولی ہے۔ پھر قسم کھا کر فرمایا کہ خدا کی قسم! مولوی صاحب میرا منہ میٹھا ہو جاوے ہے۔ شیخ محی الدین ابو زکریا نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اللہ کے نام سے دل تو سب کا میٹھا ہو جاتا ہے لیکن بعض عاشقین سالکین عارفین کا منہ بھی اللہ میٹھا کر دیتا ہے لیکن کوئی ذاکر ایسا نہیں جس کا دل میٹھا نہ ہو جاتا ہو۔ اور ذکر کے بارے میں مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ذکر ذاکر کو مذکور تک پہنچا دیتا ہے، اور فرمایا کہ مجھ سے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں یہ فرمایا کہ عبدالغنی! تم ایک کام کرو کہ صرف سو مرتبہ اللہ کھینچ کر کہو اور تصور کرو کہ میرے بال بال سے اللہ نکل رہا ہے۔ تو فرمایا کہ چوبیس ہزار دفعہ اللہ اللہ کرنے سے جو نفع ہوتا ہے وہ ایک ہی تسبیح میں اللہ تعالیٰ عطا فرما دیں گے۔ یہ ذکر ان کے لیے ہے جن کے پاس زیادہ وقت نہ ہو یا ضعف ہو، کمزوروں کے لیے ہے۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ رستم یا بھولو پہلوان ایک لاکھ ذکر سے جس مقام پر پہنچے گا کمزور لوگ پانچ سو یا ہزار بار اللہ اللہ کرنے سے اسی مقام پر پہنچیں گے کیوں کہ پہنچنے والے کتنا ہی ذکر کرلیں لیکن جب تک پہنچانے والا توجہ نہیں کرے گا کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ جب تک جذب نہ ہو کوئی سالک اللہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ کا راستہ غیر محدود ہے۔ جب غیر محدود طاقت سے اللہ کھینچتا ہے تب جا کر سلوک طے ہوتا ہے اور یہ جو ہم ذکر کرتے ہیں یہ ان کی رحمت کے لیے بہانہ ہے 

کھولیں وہ یا نہ کھولیں در اس پہ ہو کیوں تری نظر

تُو تو بس اپنا کام کر یعنی صدا لگائے جا

اور مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں 

گفت پیغمبر کہ چوں کو بی درے

پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جب کسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہو گے

عاقبت بینی ازاں درہم سرے

تو ایک دن دروازہ سے ضرور کوئی سر نکلے گا۔

۔🛑 ذکر اللہ وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے

فرماتے ہیں کہ اسی طرح جب اللہ اللہ کرتے رہوگے تو ضرور اللہ تک پہنچ جاؤگے۔ ذاکر ایک ہی سانس میں جب اللہ کہتا ہے تو اپنے نام کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دروازہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اَلذَّاکِرُ کَالْوَاقِفِ عَلَی الْبَابِ یعنی اَلَّذِیْ ذَکَرَ کَالَّذِیْ وَقَفَ عَلٰی بَابِ اللہِ جس نے اللہ کہا وہ اللہ کے دروازے تک پہنچ گیا لیکن دروازہ ابھی نہیں کھلے گا، کھٹکھٹاتے رہو، جب ان کو رحم آجائے گا دروازہ کھل جائے گا۔ اور حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہا للہ اللہ کرنے والا ایک نہ ایک دن ضرور صاحبِ نسبت ہو جاتا ہے۔ ذکر کرنے میں تو زمانہ لگ سکتا ہے، سال بھر چھ مہینہ، لیکن فرماتے ہیں کہ جب دروازہ کھلتا ہے، جب نسبت عطا ہوتی ہے تو اس میں تدریج نہیں ہوتی۔ نسبت اچانک عطا ہوتی ہے آنِ واحد میں۔ دنیا میں بھی دیکھیے۔ آپ دیر تک دروازہ کھٹکھٹاتے رہیے، لیکن صاحبِ مکان جب دروازہ کھولتا ہے تو اچانک کھولتا ہے، تھوڑا تھوڑا نہیں کھولتا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے ذرا ناک نکالی، پھر منہ نکالا، پھر سامنے آیا۔ دروازہ اچانک کھلتا ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی نسبت جو اولیاء اللہ کو دیتا ہے یہ اچانک عطا فرماتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اسباب یہ ہیں

۔1)شیخ کا ہونا یعنی صحبتِ اہل اللہ کا التزام

۔۲) ذکر اللہ کا دوام

۔۳) گناہوں سے بچنے کا اہتمام۔

اگر اُمت یہ تین کام کرلے تو اس کے ولی اللہ ہونے میں کوئی شک نہ رہے اور یقیناً ساری اُمت ولی اللہ ہو جائے۔

۔🛑 روحانی حیات صحبتِ اہل اللہ پر موقوف ہے

سب سے پہلے تو کسی مربی اور شیخ کامل سے تعلق کامل ہونا چاہیے اور اس کی صحبت میں اس طرح رہے کہ کچھ دن تسلسل کے ساتھ اس کے ساتھ رہ لے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جیسے انڈا مسلسل اکیس دن جب مرغی کے پروں میں رہتا ہے تب اس میں جان آتی ہے۔ اگر کچھ دن مرغی کے پروں میں انڈا رکھ دو، پھر یا مرغی کو بھگا دو یا انڈا اُٹھا لو تو انڈے میں بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ جس طرح انڈے میں جسمانی حیات کے لیے ایک مدت تک مرغی کے پَروں میں رہنا ضروری ہے،یہاں تک کہ مردہ زردی حیات پا کر بچہ بن جائے، اور پھر وہ چونچ سے چھلکے کی سیل توڑ کر باہر آجاتا ہے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح کم سے کم چالیس دن مسلسل کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ لو مگر اس طرح کہ خانقاہ کی حدود سے پان کھانے کے لیے بھی نہ نکلو۔ چالیس دن بالکل اپنے کو خانقاہ میں محصور کرلو تو اللہ تعالیٰ پھر ایک روحانی حیات عطا فرماتے ہیں جس کو نسبت کہتے ہیں۔ یہ بات چاہے ابھی سمجھ میں نہ آئے لیکن کرکے دیکھیے۔ جیسے زردی سے کہو کہ کچھ دن مرغی کے پَروں کی گرمی لے لو تو بچہ پیدا ہو جائے گا، تو اس زردی میں اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ سُن سکے۔ اسے تو کوئی بس مرغی کے پروں میں رکھ دے یہاں تک کہ اکیس دن بعد بچہ انڈے کے چھلکوں کو توڑ کر بزبانِ حال یہ شعر پڑھتا ہوا نکلتا ہے

کھینچی جو ایک آہ تو زنداں نہیں رہا

مارا جو ایک ہاتھ گریباں نہیں رہا

اللہ والوں کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ ایسی روحانی حیات دیتا ہے کہ سالک غفلت کے تمام تعلقات کو خودبخود توڑ دیتا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! اگر تم دنیوی تعلقات کی دو سو زنجیروں میں ہمیں جکڑوگے تو ہم ان زنجیروں میں نہیں جکڑے جاسکتے

غیر آں زنجیر زُلف دلبرم

گر دو صد زنجیر آری بر درم

اگر دنیوی تعلقات کی دو سو زنجیریں اے اہل دنیا! لاؤگے تو ہم سب کو توڑ دیں گے سوائے اللہ کی محبت کی زنجیر کے کہ اس میں گرفتار ہونے کے تو ہم خود مشتاق ہیں۔

۔🛑 قیامت تک اولیاء اللہ پیدا ہوتے رہیں گے

حکیم الامت مجدد الملت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے قسم اُٹھائی تھی کہ خدا کی قسم! جب کسی ولی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی کرسی خالی نہیں رکھی جاتی۔ فوراً اس کرسی پر دوسرا ولی بٹھا دیا جاتا ہے اور یہ شعر پڑھا تھا

ہنوز آں ابر رحمت درفشاں است

خم و خم خانہ با مہر و نشاں است

آج بھی وہ فیض جاری ہے اور جیسے حکیم اجمل خان نہیں ہیں، مگر ان کے شاگرد کے شاگرد کے شاگرد کو تلاش کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ کیوں کہ آج حکیم اجمل خان نہیں ہیں لہٰذا میں آج کل کے سٹر پٹر حکیموں سے علاج کرانا اپنی توہین سمجھتا ہوں، یہ شخص یا تو پاگل ہے یا بے وقوف۔ جو موجودہ طبیب ہیں آپ ان ہی سے علاج کراتے ہیں۔ اسی طرح روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے اگر ہم حضرت بایزید بسطامی کا، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا انتظار کریں گے تو روحانی صحت ہوچکی۔ بس کچھ انتظار نہ کیجیے، جو موجودہ اہل اللہ ہیں ان سے علاج کرائیے۔

کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کا مطلب

اللہ تعالیٰ نے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ فرمایا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ قیامت تک اہل اللہ کو پیدا فرماتے رہیں،کیوں کہ انہو ں نے اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی زمانہ میں قرآنِ پاک کی تعلیمات پر عمل محال ہو جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حکم نازل کیا کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرکے میرے دوست بن جاؤ اور اپنی غلامی کے سر پر تاجِ ولایت رکھ لو، ابھی تو خالی مؤمن ہو لیکن ولی نہیں ہوسکتے جب تک تقویٰ اختیار نہیں کروگے۔ لیکن تقویٰ کہاں سے ملے گا؟ فرماتے ہیں کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَتقویٰ متقین کی صحبت سے ملے گا، جس کی تفسیر علامہ آلوسی نے کی ہے: اَیْ خَالِطُوْہُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَہُمْ یعنی اتنا زیادہ ساتھ رہو اللہ والوں کے کہ ان ہی جیسے ہوجاؤ۔7؎ جیسے ان کی اشکبار آنکھیں ہیں ہمیں بھی وہ آنسو مل جائیں، جیسے درد بھرے دل سے ان کے سجدے ہوتے ہیں ہم کو بھی نصیب ہو جائیں، جیسے وہ راتوں کو اُٹھ کر اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں، ہم کو بھی وہی توفیق مل جائے، وہ ساری نعمتیں ہم کو بھی مل جائیں جو اللہ والوں کو نصیب ہیں۔ یہ معنیٰ ہیں کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کے کہ اتنا رہو اُن کی صحبت میں کہ ان جیسے ہی بن جاؤ۔ اسی لیے حکیم الامت نے فرمایا کہ کم از کم چالیس دن تسلسل کے ساتھ اللہ والوں کی صحبت میں رہے۔ پہلے زمانہ میں کم سے کم دو سال تک لوگ اللہ والوں کی خدمت میں رہتے تھے، پھر حاجی امداد اللہ صاحب نے یہ مدت چھ مہینے کردی اور پھر حکیم الامت نے ہمارے ضعف و قلتِ طلب کو دیکھ کر چالیس دن کی مدت کردی کہ کم سے کم چالیس دن شیخ کے پاس رہے۔ لیکن شیخ اپنی مناسبت کا تلاش کیجیے،یہ جملہ یاد رکھیے گا۔ بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ اخترؔ سب کو اپنا مرید بنانا چاہتا ہے، اس لیے واضح کرتا ہوں کہ میرے قلب میں ہر گز ایسا خیال نہیں ہے،یہ لوگوں کی بدگمانی ہے، صرف یہ کہتا ہوں کہ جیسے پہلے آپ اپنا بلڈ گروپ ملاتے ہیں تب خون چڑھواتے ہیں، اسی طرح اپنی روحانی مناسبت کو دیکھ لیجیے، جس سے مناسبت ہو اس سے تعلق قائم کیجیے۔

7؎ روح المعانی:56/11 ، التوبۃ (119)،داراحیاء التراث، بیروت

۔🛑 مخلوق سے کنارہ کش ہونے کے کیا معنیٰ ہیں؟

 حق سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں

وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا

اپنے رب کا نام لیجیے اور ساری مخلوق سے کٹ کر اللہ سے جڑ جائیے، لیکن مخلوق سے کٹنے کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ جنگل میں چلے جائیے بلکہ یہ معنیٰ ہیں کہ علاقۂ خداوندی کو تعلقاتِ دنیویہ پر غالب کر دیجیے، اسی کا نام تبتل ہے۔ جس کا دل چاہے تفسیر بیان القرآن دیکھ لے۔تبتل کے معنیٰ رہبانیت کے نہیں ہیں کہ بال بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں جاکر رہنے لگے۔ رہبانیت اسلام میں حرام ہے بلکہ تبتل کے معنیٰ ہیں کہ ہم غیراللہ سے کٹ کر اللہ سے جڑ جائیں۔ دنیا میں رہیں، بیوی بچوں میں رہیں لیکن حق تعالیٰ کا تعلق ہمارے تمام تعلقات پر غالب آجائے۔

ذکر کی ترغیب

رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِاے دنیا والو! تم اپنے دن کےجھگڑوں سے ہم کو یاد نہیں کرتے ہو کہ آج آٹا نہیں ہے، دال نہیں ہے، فلاں کام کیسے ہوگا۔ ارے! جب ہم سورج پیدا کرسکتے ہیں اور دن بناسکتے ہیں تو ہم تمہارے دن کے کاموں کی تکمیل نہیں کرسکتے؟ رَبُّ الۡمَشۡرِقِ کی یہ تفسیر ہے کہ جب میں مشرق پیدا کردیتا ہوں یعنی سورج نکال دیتا ہوں، اتنا بڑا کرّہ جو ساڑھے نو کروڑ میل پر ہے اور سارے عالَم کو روشن کرتا ہے جو اللہ اس کو پیدا کرکے دن پیدا کرسکتا ہے وہ تمہارے آٹے دال کا انتظام بھی کرسکتا ہے، اللہ پر بھروسہ کرکے ذکر شروع کردو۔ ذکر کرتے کرتے خواہ مخواہ وسوسہ آتا ہے لیکن کیا کوئی ذکر چھوڑ کر آٹا خریدنے جاتا ہے؟ خواہ مخواہ شیطان ذکر کے درمیان ہم کو بیکری اور انڈا مکھن میں لگادیتا ہے۔ وَالْمَغْرِبِ اور اگر رات کی تمہیں تشویشات ہیں تو میں ربّ المغرب ہوں، رات کا پیدا کرنے والا ہوں، خالق اللیل ہوں، لہٰذا جب میں رات کو پیدا کرسکتا ہوں تو تمہارے رات کے سب کام بھی بناسکتا ہوں۔ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اللہ کے سوا تمہارا کوئی نہیں ہے لہٰذا اسی کے دروازہ پر سر رکھے پڑے رہو

سر ہما نجا نہہ کہ بادہ خوردئی

جو آخری دروازہ ہے، آخری چوکھٹ ہے اسی پر سر رکھے ہوئے اپنے معمولات پورے کرو۔ اور لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سے صوفیا کے ذکر نفی و اثبات کا ثبوت بھی مل گیا۔ فَاتَّخِذۡہُ وَکِیۡلًا اوراللہ تعالیٰ کو اپنا وکیل بنالیجیے، وہی ہمارا کارساز ہے، اور اگر مخلوق ہماری مخالفت و دُشمنی کرتی ہے تو نبیوں کے بھی دُشمن ہوئے ہیں وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا8؎ لیکن یہ جعل تکوینی ہے، تشریعی نہیں ہے۔ پس جس طرح نبیوں کے دُشمن ہوئے ہیں تو اُمتی کے کچھ نہ کچھ دُشمن ہونا کیا تعجب کی بات ہے۔ کوئی گول ٹوپی کا مذاق اُڑائے گا، کوئی تسبیح کا مذاق اُڑائے گا، کوئی کہے گا کہ میاں یہ بنے ہوئے صوفی ہیں، مکار ہیں لیکن آپ صبر کریں۔ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ اس آیت سے تصوف و سلوک کے ایک اہم مقامِ صبر کا ثبوت مل گیا جو صوفیا کا شعار ہے کہ مخالفین کی ایذاؤں پر صبر کرتے ہیں۔ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا اور ان سے جمال کے ساتھ کیسے الگ ہوں؟ ہجران جمیل کی مفسرین نے کیا تعریف کی ہے؟ فرماتے ہیں:اَلَّذِیْ لَاشَکْوٰی فِیْہِ وَلَا انْتِقَامَ یعنی نہ ان کی شکایت اور غیبت کریں اور نہ انتقام کا خیال ہو کہ چلو ہم بھی ان سے کچھ بدلہ لیں اور ان کو کچھ کہیں۔

تصوف کے مقامات و منازل کا ثبوت قرآنِ پاک سے

علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیرمظہری میں فرماتے ہیں کہ وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ میں ذکر اسم ذات کا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات اللہ ہے، تو جو بزرگانِ دین ذکر اللہ اللہ سکھاتے ہیں یہ ذکر مفرد، ذکر بسیط اور ذکرِ اسم ذات اس آیت سے ثابت ہوگیا۔ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سے ذکر نفی و اثبات کا ثبوت مل گیا۔9؎ اور وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا سے تھوڑی دیر خلوت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول رہنے کی تعلیم کا ثبوت ہے۔ جو خلوت میں تھوڑی دیر مشغول بحق نہیں رہے گا جلوت میں اس کو درد بھرا کلام نصیب نہیں ہوگا۔فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا سے تو کل بھی ثابت ہوگیا مع اس کی تمام وجوہات کے کہ اللہ تعالیٰ ربّ المشرق بھی ہے اور ربّ المغرب بھی ہے۔ جو دن اور رات پیدا کرسکتا ہے وہ ہمارے رات و دن کے کام بنانےپربھی قادر ہے۔مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جو سر پیدا کرسکتا ہے کیا وہ ٹوپی نہیں پہناسکتا؟ بتاؤ! سر قیمتی ہے یا ٹوپی قیمتی ہے؟ جو معدہ بناسکتا ہے وہ دو روٹی نہیں کھلاسکتا؟ اگر معدہ میں کینسر ہوجائے تو دس دس لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں پھر بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اسی طرح مقامِ صبر اور ہجران جمیل کا ثبوت بھی ان آیات میں ہے۔ تصوف کے جتنے منازل ہیں سب ان آیتوں میں ہیں۔

اب صرف دو منزلیں رہ گئیں۔ سورۂ مزمل کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یٰۤاَیُّہَاالۡمُزَّمِّلُ، قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا اس سےتہجدکی نماز اور وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا 10؎ سے تلاوتِ قرآن کا ثبوت ہے۔ یہ دونوں منتہی کے اسباق ہیں۔ جتنے منتہی ہیں سب کا آخری معمول زیادہ تر راتوں کی نماز اور تلاوتِ قرآن ہو جاتا ہے۔ منتہی پر آخر میں ان ہی دو چیزوں کا غلبہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ یعنی نمازِ تہجد اور قرآن کی تلاوت۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ جن کو شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ یہ اپنے وقت کے امام بیہقی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جو ابتدائی سبق تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے آخر میں بیان فرمایا اور جو منتہی کا سبق تھا اس کو پہلے کیوں نازل کیا؟

دیکھیے! دورہ تو بعد میں ملتا ہے، پہلے موقوف علیہ پڑھایا جاتا ہے لیکن یہاں مبتدی اور متوسط کے اسباق بعد میں بیان ہوئے لیکن منتہی کا اعلیٰ سبق پہلے نازل ہوا۔ اس اشکال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ جس پرقرآن نازل ہورہا تھا وہ چوں کہ تمام منتہیین کے سردار ہیں،سیّد المنتہیین،امیر المنتہیین تھے، اُن سے بڑھ کر کون منتہی ہوسکتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے سیّد الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عُلوِمرتبت اور رفعتِ شان کے مطابق پہلے اعلیٰ سبق نازل فرمایا کیوں کہ جن پر قرآن اُتر رہا تھا وہ سب سے اعلیٰ تھے

10؎ المزمل :48 ؎ الفرقان:31

9؎ التفسیر المظہری:111/10، المزمل(9)، داراحیاء التراث، بیروت

۔🛑 کتاب اور صحبت کے متعلق ایک علم عظیم

اب دو باتیں اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس وقت اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ11؎ نازل ہوئی؎

یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست

کتب خانۂ چند ملت بہ شست

وہ یتیم شخصیت جو نبوت سے آراستہ کی جا رہی ہے اس پر صرف اِقۡرَاۡ نازل ہونے کے ساتھ ہی ساری آسمانی کتابیں منسوخ کردی گئیں۔ ابھی قرآنِ پاک مکمل نازل نہیں ہوا لیکن اس وقت جو لوگ ایمان لائے وہ وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ12؎ ہوئے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ صحبت بہت بڑی نعمت ہے۔ شرفِ صحابیت کو اللہ تعالیٰ نے مکمل قرآن نازل ہونے پر مشروط نہیں کیا بلکہ جو ابتدا میں ایمان لائے ان کا درجہ زیادہ فرمایا اور قرآنِ پاک مکمل نازل ہونے کے بعد جو ایمان لائے ان کو صحابیت کا وہ مقام نہیں ملا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو، جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو، جو حضرت عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو ملا۔ معلوم ہوا کہ صحبت بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک آدمی آتا ہے اور حالتِ ایمان میں نبی کو دیکھ لیتا ہے اور فوراً ہی اس کا ہارٹ فیل ہوجاتا ہے، بتائیے! وہ صحابی ہوا یا نہیں؟ ابھی اس نے کوئی عمل نہیں کیا لیکن صحابی ہوگیا۔ اس کے بعد کوئی بہت بڑے بڑے اعمال کرے لیکن نبی کو نہ دیکھے تو ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اس کی ایک اور مثال اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ سورج دیکھ لینے کے بعد پھر کوئی دوسرا لاکھ چاند اور ستارے دیکھے اسے سورج دیکھنے والے کا مقام نصیب نہیں ہوسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آفتابِ نبوت تھے۔ میرا ایک نعت کا شعر ہے

آپ کا مرتبہ اس جہاں میں

جیسے خورشید ہو آسماں میں

دوستو! صحبتِ اہل اللہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس پر اگر کتابوں کی کتابیں لکھی جائیں تو حق ادا نہیں ہوسکتا۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کیا مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور ہم لوگ عالم نہیں تھے؟ لیکن آہ! دنیا میں ہمارا کوئی مقام نہیں تھا، لیکن جب حاجی صاحب کے پاس گئے، نفس کی اصلاح کرائی، ذکراللہ کیا، حضرت حاجی صاحب کی دعاؤں اور توجہات سے اللہ تعالیٰ نے ان علماء کو کیا مقام عطا فرمایا کہ علم و عمل کے آفتاب بن کر چمکے۔ مشکوٰۃ کی حدیث ہے کہ جس نے اللہ والوں کی عزت کی اس نے دراصل اپنے رب کا اکرام کیا اورجَزَآءً وِّفَاقًا13؎کے تحت اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں بھی عزت عطا فرماتے ہیں، مگر حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں عزت کی نیت سے کسی اللہ والے سے تعلق نہ کیجیے، اللہ کے لیے کیجیے۔ عزت تو ان شاء اللہ تعالیٰ خود ملے گی۔

11؎ العلق: 112؎ التوبۃ:100

۔🛑 اللہ والوں کا حق کب ادا ہوتا ہے؟

اور فرمایا میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے کہ دیکھو!آم والوں سے آم لیتے ہو، کباب والوں سے کباب لیتے ہو، کپڑے والوں سے کپڑے لیتے ہو، مٹھائی والوں سے مٹھائی لیتے ہو لیکن اللہ والوں سے اللہ کیوں نہیں لیتے؟ ظالمو! وہاں جاکر بھی بس جھاڑ پھونک اور بوتل میں دم کراتے ہو۔ فیکٹری میں لے جاتے ہو کہ حضور! یہ دھاگے کی فیکٹری ہے، آپ ایک کلو روئی اُٹھاکر مشین میں ڈال دیں۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ یہ قدر کی اللہ والوں کی کہ اُن سے روئی ڈلوائی جارہی ہے، لیکن میں اس کو منع نہیں کرتا۔ بےشک اُن کی برکت ہوتی ہے، لیکن جس کی وجہ سے ان کو یہ برکت ملی وہ اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے۔ یہ تعلق اور محبت اُن سے سیکھیے، تب اللہ والوں کا حق ادا ہوگا۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس نے اللہ والوں سے اللہ کی محبت نہیں سیکھی اس نے اُن کا کوئی حق ادا نہیں کیا اور اُن کی کوئی قدر نہیں کی۔

13؎ النبا:26

دوستو! قبولیت کا وقت ہے، آج جمعہ کا دن ہے۔ یہ دعا کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اکابر اور بزرگوں کے صدقہ میں ہم سب کو سو فیصد صاحبِ نسبت بنادے اور نسبتِ بھی اتنی اونچی عطا فرما کہ اولیائے صدیقین کی نسبت عطا فرمادے۔ اے اللہ! ولایت کی جو آخری منزل ہے وہاں تک ہم سب کو پہنچادے اور ہمارے گھر والوں کو بھی اولیائےصدیقین کی نسبت عظمیٰ عطا فرمادے۔ اے اللہ! آپ کریم ہیں اور کریم کی تعریف ہے کہ جو نالائقوں پر بھی مہربانی کردے۔ اَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِغَیْرِ اِسْتِحْقَاقٍ وَ بِدُوْنِ الْمِنَّۃِ14؎ اس لیے اے اللہ! ہم آپ کو کریم سمجھ کر اور اپنی نالائقیوں کا اعتراف اور یقین کرتے ہوئے آپ سے یہ فریاد کررہے ہیں اور اے اللہ! جہاں جہاں دینی درس گاہیں ہیں ان کو قبول فرما۔ علمائے دین کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمادے۔ جتنے دینی خدام ہیں ان سب کو اور جتنے یہاں حاضرین ہیں سب کو، ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو اور ہمارے احباب کو اے اللہ! سلامتیٔ اعضااور سلامتیٔ ایمان کے ساتھ حیات نصیب فرما، سلامتیٔ اعضا اور سلامتیٔ ایمان کے ساتھ دنیا سے اُٹھائیے۔ اے اللہ! کشمیر میں جو مجاہدین محصور ہیں اُن کی مدد کے لیے غیب سے فرشتے بھیج دے۔ اے اللہ! اپنی قدرتِ قاہرہ کے ڈنڈے سے کفار کو پاش پاش کردے اور محاصرہ توڑ دے۔ اے اللہ! بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں پر رحم فرما۔ سارے عالَم میں جہاں بھی مسلمان مظلوم ہیں اے اللہ! اُن کو مظالم سے نجات عطا فرما۔ اختر کو اور ہم سب کو فلاحِ دارین عطا فرما اور سارے عالَم کے مسلمانوں کو فلاحِ دارین عطا فرما۔

14؎ مرقاۃ المفاتیح: 212/3،باب التطوع، المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان

:13

۔🛑 دستور العمل

وہ دستور العمل جو دل پر سے پردے اٹھاتا ہے، جس کے چند اجزاء ہیں، ایک تو کتابیں دیکھنا یا سننا۔ دوسرے مسائل دریافت کرتے رہنا۔ تیسرے اہل اللہ کے پاس آنا جانا اور اگر ان کی خدمت میں آمد و رفت نہ ہو سکے تو بجائے ان کی صحبت کے ایسے بزرگوں کی حکایات و ملفوظات ہی کا مطالعہ کرو یا سن لیا کرو اور اگر تھوڑی دیر ذکر اللہ بھی کر لیا کرو تو یہ اصلاح قلب میں بہت ہی معین ہے اور اسی ذکر کے وقت میں سے کچھ وقت محاسبہ کے لیے نکال لو جس میں اپنے نفس سے اس طرح باتیں کرو کہ 

”اے نفس ایک دن دنیا سے جانا ہے۔ موت بھی آنے والی ہے۔ اُس وقت یہ سب مال و دولت یہیں رہ جائے گا۔بیوی بچے سب تجھے چھوڑ دیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ سے واسطہ پڑے گا۔اگر تیرے پاس نیک اعمال زیادہ ہوئے تو بخشا جائے گا اور گناہ زیادہ ہوئے تو جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا جو برداشت کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے تو اپنے انجام کو سوچ اور آخرت کے لیے کچھ سامان کر۔ عمر بڑی قیمتی دولت ہے۔ اس کو فضول رائیگاں مت بر باد کر۔ مرنے کے بعد تو اُس کی تمنا کرے گا کہ کاش میں کچھ نیک عمل کر لوں جس سے مغفرت ہو جائے۔ مگر اس وقت تجھے یہ حسرت مفید نہ ہوگی۔ پس زندگی کو غنیمت سمجھ کر اس وقت اپنی مغفرت کا سامان کرلے۔

Comments