1478) شمائل نبوی ﷺ

شمائل نبوی 

آپ ﷺ کی کامل شخصیت کے مختصر پہلو 

۔🔰 مہذب گفتگو

بہت کم گو تھے ۔ٹھہر ٹھہر کے بات کرتے اور بد اخلاقی کا جواب بھی بہترین اخلاق سے دیتے۔لمبی گفتگو نہ کرتے۔

۔🔰 با حیا

آپ پردہ نشیں کنواریون سے بھی زیادہ باحیا تھے۔

۔🔰 صادق

سچ بات کرتے اور مذاق میں بھی کبھی جھوٹ نہ بولتے۔آپ کی صداقت کی گواہی کفار بھی دیتے تھے۔لیکن آپ کو نبی نہیں مانتے تھے

۔🔰 مسکراتا چہرہ

آپ سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے ہر حال میں ۔ اتنے غمون کے باوجود

ہجرت مکہ کے موقع پر جب ہر طرف دشمنوں کا گھیرہ تھا،سفر کی مشکلات تھیں،اپنا وطن عزیز مکہ چھوڑنے کا غم بھی تھا لیکن اس موقع پر بھی ابوبکر صدیق کو تسلی دی کہ نہ ناامید ہو اور نہ اداس ہو

۔🔰 ناگوار یا خوشگوار بات کا اظہار

خوشی کی خبر سن کر یا کسی خوشی کے  موقع پہ آپ کا چہرہ مبارک چمک اٹھتا۔کسی کی بات ناگوار لگتی تو آپ کے چہرے سے ظاہر ہو جاتی۔ لیکن منہ سے کبھی کچھ برا بھلا نہ کہتے۔

۔🔰 عاجزی

انتہائی عاجز تھے۔ نیچے بیٹھنے میں کبھی عار نہ محسوس کرتے ۔ غلام کی دعوت کو بھی قبول کر لیتے معمولی سے معمولی کام بھی خود کر لیتے بیواؤں اور مسکینون میں بیٹھتے اور ان کے کام بھی کر دیتے گدھے کی سواری بھی کر لیتے جوتا خود گھانٹھ لیتے

قمیض پہ پیوند خود لگا لیتے

۔🔰 سخاوت

سب سے زیادہ سخی تھے۔کبھی کسی کو منع نہیں کیا۔دوسروں پہ خرچ کرنے والے تھے۔

کبھی نہ دے سکتے اگر کسی کو تو ادھار لے بھی دوسروں کی مدد کرتے تھے۔

۔🔰 عفو و درگزر

بہت عفو و درگزر اور معاف کرنے والے تھے۔اپنی زات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا انہوں نے۔

کبھی گالی نہیں دی کسی کو۔

طائف کے موقع پہ جب آپ لہولہان ہوگئے اور فرشتہ جبریل نے آکر گرمایا کہ اگر آپ کہیں تو ان دو پہاڑوں کے درمیان طائف والوں کو کچل دیں

آپ نے عرض کیا کہ نہیں،شاید انکی نسلوں میں کوئی اللہ کا نام لیوا ہو ۔ آج ہم اتنی اسلام کی راہ میں اللہ کی خاطر اتنی تکلیف سہ سکتے ہیں ؟

اور آپ نے بدلے کی طاقت کے باوجود بدلہ نہیں لیا۔

۔🔰 غصہ

آپ دوسروں پہ غصہ نہیں کرتے تھے۔نہ لعن طعن اور نہ گالی دیتے ۔ ناراضگی کا اظہار  بھی مہذب طریقے سے کرتے۔

۔🔰 کسی معاملے کے موقع پر طرز عمل

جب کوئی معاملہ پیش آ جاتا تو فورا نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے ۔ قرآن کی اس  آیت کی تفسیر بن کے

اور صبر اور نماز سے مدد طلب کرو

۔🔰 صبر

انتہائی صابر تھے۔اپنے بیٹے کی وفات پہ بھی شکوہ نہ کیا نہ کوئی برے الفاظ منہ سے نکالے۔آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے لیکن صبر کیا۔

اور آپ نے فرمایا کہ:

دل غمگین ہے اور آنکھ سے آنسو جاری ہیں لیکن ہم زبان سے وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو پسند ہے

۔🔰 اہل خانہ کے ساتھ سلوک

گھر والوں کے ساتھ بہترین معاملہ کرتے تھے۔

تمام بیویوں کے ساتھ  برابری کا معاملہ کرتے۔

محبت کرتے اور محبت کا اظہار بھی کرتے۔

بہت نرم دل انسان تھے۔

جائز فرمائش پوری کرتے۔

کھانے میں عیب نہ نکالتے۔

بیویوں کی دلجوئی بھی کرتے ۔

۔🔰 صحابہ اکرام کے ساتھ رویہ

تمام صحابہ کے ساتھ یکساں محبت و ایثار کا رشتہ تھا۔

ہر کوئی یہ محسوس کرتا تھا کہ آپ سب سے زیادہ اس سے محبت کرتے ہیں ۔

۔🔰 بچوں کے ساتھ برتاؤ

آپ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ان سے شفقت سے پیش آتے، پیار سے چھوتے۔نام سے بلاتے۔ان کو چومتے اور اہمیت دیتے تھے۔

دوران نماز بچے آپ کی کمر پہ بیٹھ جاتے تو آپ سجدے کو طویل کر دیتے لیکن ان کو کچھ نہ کہتے

۔💌حضور اکرم ﷺ کا حلیہ مبارک :* حضور اکرم ﷺ کے جمال مبارک کی کما حقہ تعبیر کرنا ممکن نہیں، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی ہمت اور وسعت کے مطابق جو کچھ ضبط فرمایا اس کا خلاصہ پیش ہے 

۔💞ابراہیم بن محمد جو حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے ہیں یعنی پوتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب حضور اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے کہ حضور ﷺ نہ زیادہ لمبے تھے نہ زیادہ پستہ قد بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے، حضور اکرم ﷺ کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لئے ہوئے تھے، نہ آپ ﷺ موٹے بدن کے تھے نہ گول چہرہ کے؛ البتہ تھوڑی سی گولائی آپ کے چہرہ مبارک میں تھی یعنی چہرہ انور نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لمبا بلکہ دونوں کے درمیان تھا- حضور ﷺ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا، حضور ﷺ کی مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں اور پلکیں دراز، بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں (مثلا کہنیاں اور گھٹنے) اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پُر گوشت تھی، آپ ﷺ کے بدن مبارک پر معمولی طور سے زائد بال نہیں تھے، یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بدن پر بال زیادہ ہو جاتے ہیں حضور اقدس ﷺ کے بدن مبارک پر خاص خاص حصوں کے علاوہ جیسے بازو پنڈلیاں وغیرہ ان کے علاوہ اور کہیں بال نہ تھے، آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی، آپ ﷺ کے ہاتھ اور قدم مبارک پُر گوشت تھے، جب آپ ﷺ تشریف لے چلتے تو قدموں کو قوت سے اٹھاتے گویا کہ پستی کی طرف چل رہے ہیں، جب آپ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے تھے یعنی یہ کہ صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے، اس لئے کہ اس طرح دوسروں کے ساتھ لا پرواہی ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہو جاتی ہے، بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف رخ فرماتے

آپ ﷺ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی، نبیوں کے آپ ﷺ ختم کرنے والے تھے، آپ ﷺ سب سے زیادہ سخی دل والے تھے اور سب سے زیادہ سچی زبان والے تھے، سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے- غرض آپ ﷺ دل و زبان، طبیعت، خاندان اوصاف ذاتی اور نسبتی ہر چیز میں سب سے زیادہ افضل تھے- آپ ﷺ کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہوجاتا تھا، یعنی آپ ﷺ کا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اول وہلہ میں دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آجاتا تھا، اول تو جمال و خوبصورتی کے لئے بھی رعب ہوتا ہے شوق افزوں مانع عرض تمنا آداب حسن بارہا دل نے اٹھائے ایسی لذت کے مزے اس کے ساتھ جب کمالات کا اضافہ ہو تو پھر رعب کا کیا پوچھنا

اس کے علاوہ حضور اقدس ﷺ کو جو مخصوص چیزیں عطا ہوئیں، ان میں رعب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا اور جو شخص پہچان کر میل جول کرتا تھا وہ آپ ﷺ کے اخلاق کریمہ و اوصاف جمیلہ کا گھائل ہو کر آپ ﷺ کو محبوب بنا لیتا تھا، آپ ﷺ کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ جیسا باجمال و باکمال نہ حضور ﷺ سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا

۔💌قد مبارک : نہ بہت لمبے نہ پستہ قد بلکہ درمیانہ اور معتدل قد مبارک تھا، بالکل متوسط قد والے سے کسی قدر طویل تھا البتہ آپ کا معجزہ تھا کہ مجمع میں سب سے لمبے معلوم ہوتے تھے۔

۔💌سر مبارک اور بدن مبارک : سر مبارک تناسب کے ساتھ بڑا تھا اور بدن مبارک پر سینہ سے ناف تک بالوں کی ایک لکیر تھی ، اس لکیر کے علاوہ دونوں چھاتیاں اور پیٹ بالوں سے خالی تھا ، البتہ دونوں بازو ، کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر بال تھے، بدن مبارک ٹھوس تھا ، لٹکا ہوا جسم نہ تھا ، بدن کے اعضاء خوبصورت اور نورانی تھے۔

۔💌چہرہ مبارک :.آپ کا رنگ نہایت چمکدار اور کھلتا ہوا تھا، چہرہ مبارک بالکل گول نہ تھا بلکہ تھوڑی سی گولائی تھی، چہرہ مبارک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا، پیشانی مبارک کشادہ تھی، ڈاڑھی مبارک گنجان اور بھرپور تھی، دہن مبارک اعتدال کے ساتھ فراخ تھا، یہ فصیح و بلیغ فرد کی نشانی ہے۔

۔💌آنکھ مبارک : آنکھیں سیاہ تر، پلکیں دراز، آنکھوں کا شگاف تناسب کے ساتھ زیادہ تھا، سرخ دھاریاں بھی تھیں، جب کسی سے بات فرماتے تو بقدر ضرورت دیکھتے اور حیاء کی وجہ سے آنکھیں نیچی فرمالیتے۔

۔💌بال مبارک : بال مبارک کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے، اگر بالوں میں اتفاقاً مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے ورنہ چھوڑ دیتے اور اگر نکالتے تو درمیان سے نکالتے۔

۔💌بھوئیں مبارک : بھوئیں گھنی لیکن باریک تھیں اور بالکل ملی ہوئی بھی نہ تھیں ، دونوں ابرو کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی تھی۔

۔💌ناک مبارک : تناسب کے ساتھ لمبی تھی جس پر نور چمکتا تھا ، ابتداءً دیکھنے والا آپ کو بڑی ناک والا سمجھتا جو کہ نور و حسن کی وجہ سے محسوس ہوتا۔

۔💌رخسار مبارک اور گردن مبارک : رخسار مبارک نرم اور ہموار تھے ، اسی طرح گردن مبارک نرم اور چمکدار تھی۔

۔💌دانت مبارک : دندانِ مبارک باریک اور آبدار تھے، سامنے کے دو دانت مبارک یعنی ثنایا کے درمیان فاصلہ تھا۔ 

۔💌سینہ مبارک : سینہ مبارک چوڑا تھا، دونوں کاندھوں کے درمیان نسبتاً زیادہ فاصلہ تھا، یہ سخاوت و شجاعت کی علامت ہے۔

۔💌رفتار مبارک : تیز چلتے، جھک کر چلتے اور پیر اٹھا کر چلتے یعنی گھسٹتے ہوئے نہیں چلتے تھے، ذرا کشادہ قدم رکھتے، چھوٹے چھوٹے قدم نہیں رکھتے تھے، چلتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ گویا پستی میں اتر رہے ہیں۔

۔💌ہاتھ مبارک اور پاؤں مبارک : کشادہ اور گوشت سے بھری ہوئیں، یہ قوت و شجاعت کی علامت ہے، بازو مبارک بڑے اور ہتھیلیاں چوڑی تھیں، انگلیاں تناسب کے ساتھ بڑی تھیں، کلائیاں مبارک دراز تھیں، تلوے قدرے گہرے تھے۔

الغرض حلیہ مبارک میں ہر ہر چیز کمال حسن کو پہنچی ہوئی تھی 

۔💕جمال حسن کی الفاظ میں تعبیر ناممکن، 

مجسم نور کی کھینچے کوئی تصویر ناممکن💕

۔💌حضور اکرم ﷺ کی مہر نبوت : حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کی مہر نبوت کو آپ ﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان دیکھا جو سرخ رسولی جیسی تھی اور مقدار میں کبوتر کے انڈے جیسی تھی۔

حضرت عمرو بن اخطب صحابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ مہر نبوت کیا چیز تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ چند بالوں کا مجموعہ تھا۔

۔💞مہر نبوت کی مشابہت : روایات میں مختلف مشابہت مذکور ہیں : کبوتری کے انڈے کے مثل، ابھرے ہوئے گوشت کی مثل، مٹھی کے ہم شکل، سیپ کے مثل، بندوق کی گولی کے مثل، مسہری کی گھنڈی کے مثل، نیزے کے خول کی مانند، ہر صحابی نے اپنے اپنے اعتبار سے بیان فرمایا۔

یہ حصہ ابھرا ہوا تھا اور اس جگہ بال تھے، اس پر محمد رسول اللہ اور سر فأنت منصور لکھا ہوا تھا- [علی اختلاف الروایات]

یہ پیدائشی مہر تھی، بعض کے مطابق شق صدر کے موقعہ پر فرشتوں نے لگائی تھی، اس سے ختم نبوت کی طرف اشارہ تھا، اس سے مشک کی خوشبو آتی تھی ممکن ہے کہ پورے معطر بدن کی خوشبو وہاں معلوم ہوتی ہو کیونکہ آپ ﷺ کا پسینہ مبارک خوشبو دار تھا تو وہاں پسینہ ہونے پر زیادہ خوشبو معلوم ہوتی ہو۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کے بال مبارک : حضرت انس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے بال مبارک نصف کانوں تک تھے۔

بال مبارک کی مختلف صورتیں مختلف احوال کے اعتبار سے ہوتی تھیں : وفرہ، لمہ، جمہ (ان کو یاد کرنے کے لئے ہر ایک کا ابتدائی حرف ملالیں تو *ولج* بنتا ہے)

وفرہ : وہ بال جو کانوں کی لو تک ہو۔

لمہ : وہ بال جو کانوں سے نیچے اور کندھوں سے اوپر ہوں۔

جمہ : وہ بال جو کندھوں تک پہنچ جائیں۔

عام طور پر بال مبارک کانوں کی لو تک ہوتے اور جب چھوڑ دیتے تو گردن تک آجاتے، بال کی مسنون مقدار کانوں کی لو اور اس کے قریب ہے، کندھے کے نیچے آجانا خلاف سنت ہے، اگر بال مبارک بہت زیادہ لمبے ہو جاتے تب بھی کندھے تک ہوتے۔بال مبارک میں بیس سے زیادہ سفید بال نہ تھے، صرف چار مواقع پر سر منڈوانے کا ذکر ملتا ہے 

۔1- حدیبیہ،

۔2- عمرة القضاء،

۔3- عمرہ جعرانہ ،

۔4- حجة الوداع-

بال رکھنا سنت ہے اور سنت طریقے سے رکھے جائیں، نئے نئے فیشن کی طرح نہ رکھے، حدیث میں قزع کی ممانعت آئی ہے، قزع کا مفہوم یہ ہے کہ سر کے بعض بالوں کو مونڈا جائے اور بعض کو چھوڑ دیا جائے

۔💌حضور اکرم ﷺ کا بالوں میں کنگھا کرنا : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اپنے سر مبارک پر اکثر تیل کا استعمال فرماتے تھے اور اپنی داڑھی مبارک میں اکثر کنگھی کیا کرتے تھے اور اپنے سر مبارک پر ایک کپڑا ڈال لیا کرتے تھے جو تیل کے کثرت استعمال سے ایسا ہوتا تھا جیسے تیلی کا کپڑا ہو۔

حضور اکرم ﷺ اپنے وضو کرنے میں، کنگھی کرنے میں، جوتا پہننے میں (غرض ہر امر میں) دائیں کو مقدم رکھتے تھے، یعنی پہلے دائیں جانب کنگھا کرتے پھر بائیں جانب، کبھی خود کنگھی فرماتے اور کبھی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کرواتے، یہ گھر کی معاشرت کا نمونہ ہے، آپ ﷺ سے مانگ نکالنا اور سدل کرنا یعنی بالوں کو پیچھے کرنا دونوں ثابت ہیں، مانگ نکالنے کو آخری عمل بتلایا گیا ہے۔ [ملا علی قاری رحمہ اللہ] 

۔💌تیل لگانے کا مسنون طریقہ : آپ ﷺ ڈاڑھی کو کبھی پانی سے سنوارتے کبھی تیل سے، تیل لگانے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ تیل بائیں ہاتھ میں رکھے، دائیں ہاتھ سے دونوں بھوؤں پر لگائے، آنکھوں اور سر پر لگائے، تیل کی ابتداء پیشانی سے کرے کہ اس سے سر کا درد دور ہوتا ہے ، ایک روایت کے مطابق تیل لگاتے وقت بسم اللہ نہ پڑھنے پر ستر شیاطین ساتھ ہو جاتے ہیں۔

۔💌ڈاڑھی میں تیل لگانے کا مسنون طریقہ : پہلے ریش میں لگائے پھر بقیہ ڈاڑھی میں دائیں بائیں کرکے لگائے، ڈاڑھی میں تیل لگانا اور کنگھی کرنا سنت ہے اور ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو طول و عرض سے کم کرنا بھی سنت ہے، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے بھی ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کا کم کرنا منقول ہے، اسی طرح آپ ﷺ اپنی لبوں کو کترتے لیتے تھے اور یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی بھی سنت ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ [ترمذی]

۔💌کنگھی کا مسنون طریقہ : پہلے دائیں جانب، پھر بائیں جانب کرے، تکبر کی نیت نہ ہو تو روزانہ کرے ورنہ ایک دن ناغہ کرے، صفائی ستھرائی کا اہتمام لازمی ہے، بالوں اور لباس کا پراگندہ رکھنا تعلیمات نبوی کے خلاف ہے۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کا خضاب لگانا : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو بالوں کو خضاب کیا ہوا دیکھا۔

آپ ﷺ سے خضاب لگانے اور نہ لگانے دونوں کی بابت روایات ہیں، خلاصہ یہ ہے آپ ﷺ ورس اور زعفران سے بالوں کو دھوتے تو اس کا کچھ اثر باقی رہ جاتا یا عطر و تیل کی وجہ سے خضاب والے معلوم ہوتے یا سر درد کی وجہ سے سر میں مہندی لگائی تو اس کو مجازاً خضاب کہ دیا گیا۔بالوں کو کالا کرنا خواہ خضاب سے ہو یا کالی مہندی سے، مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ براؤن رنگ لگانا جائز ہے۔ [امداد الفتاوی]

۔💌حضور اکرم ﷺ کا سرمہ لگانا : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ تمہارے سب سرموں میں سرمہ اثمد بہترین سرمہ ہے، آنکھ کو بھی روشنی پہنچاتا ہے اور پلکیں بھی اگاتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس سے سونے کے وقت تین تین سلائی آنکھ میں ڈالا کرتے تھے۔

۔💌سرمہ لگانے کا مسنون طریقہ : تین طریقے مسنون ہیں 

۔💕 دونوں آنکھوں میں مشترکہ طور پر تین تین سلائی لگائے۔

۔💕 پہلے دائیں آنکھ میں تین لگائے پھر بائیں آنکھ میں تین لگائے۔

۔💕 دونوں آنکھوں میں الگ الگ دو دو لگائے اور پھر ایک سلائی دونوں آنکھوں میں مشترکہ لگائے۔

آپ ﷺ سفر و حضر میں پانچ چیزیں ساتھ رکھتے تھے : آئینہ، سرمہ دانی، کنگھی، تیل اور مسواک۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کا خوشبو لگانا : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں نہیں لوٹانی چاہئیں : تکیہ، خوشبو اور دودھ، بعض روایات میں تیل کا بھی ذکر ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے جو بہترین خوشبو میسر آتی وہ میں حضور اکرم ﷺ کو لگاتی، یہاں تک کہ اس خوشبو کی چمک مجھ کو آپ ﷺ کے سر اور داڑھی میں نظر آتی۔ [بخاری و مسلم] 

آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ مردانہ خوشبو وہ ہے جس کی خوشبو پھیلتی ہوئی ہو اور رنگ غیر محسوس ہو (جیسے کیوڑہ وغیرہ) اور زنانہ خوشبو وہ ہے جس کا رنگ غالب ہو اور خوشبو مغلوب (جیسے حنا، زعفران وغیرہ-)

آپ ﷺ کے بدن مبارک سے خود خوشبو مہکتی تھی، آپ کا پسینہ مبارک کی خوشبو بھی ہر خوشبو سے زیادہ عمدہ تھی، آپ کا لعاب مبارک کی خوشبو مشک سے زیادہ تھی۔

عطریات میں آپ ﷺ کو عود قماری (ہندوستانی عود کی قسم) بہت پسند تھا، مشک و عنبر بھی استعمال فرمایا اور خالص عود کی دھونی اور عود بمعہ کافور کی دھونی بھی پسند فرمائی، آپ کے پاس عطر دان تھا جس سے خوشبو لگاتے تھے- اجتماعات، مجالس، تہجد، عیدین، احرام میں نیت سے قبل اور زوجین کی باہمی ملاقات کے وقت خوشبو لگانا سنت ہے اور عورت کے لئے ایام سے فراغت کے بعد خوشبو لگانا پسندیدہ ہے

۔💌حضور اکرم ﷺ کا لباس مبارک : حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ حضور ﷺ سب کپڑوں میں کرتے کو زیادہ پسند فرماتے تھے

آپ ﷺ کا کرتا سوت کا بنا ہوا تھا، جو زیادہ لمبا بھی نہ تھا اور اس کی آستین بھی زیادہ لمبی نہ تھی، ایک روایت میں ہے کہ کرتا مبارک ٹخنوں سے اونچا ہوتا تھا، علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نصف پنڈلی تک ہونا چاہیے، علامہ جزری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ آستین پہونچے تک ہو، انگلیوں سے متجاوز نہ ہو

۔💌لباس نبوی کی کیفیت : آپ ﷺ نے مختلف لباس استعمال فرمائے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں 

۔💕 کرتا : سوتی کرتا پسندیدہ تھا اور مرض وفات میں بھی یہی زیب تن تھا

۔💕 جبہ : تنگ آستین والا اونی جبہ تھا، آپ کے پاس شامی اور رومی جبہ بھی تھا، سفر میں استعمال فرماتے تھے، ریشمی جبہ بھی تھا جو دشمن سے مقابلہ کے وقت استعمال فرماتے

۔💕 جوڑا : سرخ دھاری دار جوڑا تھا جو خاص مواقع مثلا جمعہ، عیدین اور استقبال وفود پر زیب تن فرماتے، عام حالات میں لباس سادہ ہوتا تھا

۔💕 نمشین : چمڑے کا صدری نما لباس جو کہ ریشم اور سندس کی بنائی تھی، ریشم کو پٹی میں استعمال کیا تھا، پوری صدری ریشم کی نہ تھی کہ یہ ممنوع ہے

۔💕 برنس : جبہ سے ملی ہوئی ٹوپی جو سردی میں استعمال ہوتی تھی

۔💌حضور ﷺ کی مختلف چادریں : یمنی چادر، اونی چادر، بالوں والی چادر، دھاری دار چادر (خاص مواقع کے لئے) جھالر نما چادر، شامی منقش چادر، مخلوط ریشم کی چادر، کالی چادر، موٹے کنارے والی چادر، زغفرانی چادر

چادر بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، چادر کو مختلف کاموں میں استعمال کرنا مروی ہے مثلا تکیہ بنانا، چادر کے کنارے کو سر پر ڈالنا، چادر کو دائیں کندھے یا بائیں کندھے پر رکھنا اسلاف کا طریقہ ہے اور دونوں کندھوں پر دونوں کنارے ڈالنا ممنوع ہے

۔💞چادر کی مسنون مقدار : دو مقدار مسنون ہیں 

۔1- چار ہاتھ لمبائی، دو ہاتھ ایک بالشت چوڑائی 

۔2- چھ ہاتھ لمبائی، تین ہاتھ چوڑائی

۔💌حضور اکرم ﷺ کا عمامہ مبارک : حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ فتح مکہ میں جب شہر میں داخل ہوئے تو حضور ﷺ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا

حضور ﷺ جب عمامہ باندھتے تو اس کے شملہ کو اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان یعنی پچھلی جانب ڈال لیتے تھے، آپ ﷺ اکثر کالا عمامہ باندھتے تھے کیونکہ آپ کثرت سے تیل لگاتے تھے تو کالے عمامے پر تیل کا اثر زیادہ ظاہر نہ ہوتا تھا

حضور ﷺ سفر میں سفید اور حضر میں سیاہ عمامہ باندھتے؛ البتہ سفر میں کالا عمامہ باندھنا بھی ثابت ہے، بعض علماء کے مطابق اگر عمامہ لباس کا حصہ ہے تو اس میں دوسرے الوان کی گنجائش ہے، ایک موقعہ پر حضور ﷺ زرد قمیض، زرد چادر اور زرد عمامہ میں ملبوس تھے البتہ کسی ایک رنگ کو شعار بنا لینا اور بقیہ ثابت من السنة کو ترک کرنا جائز نہیں۔

۔💌عمامہ کی مقدار 

۔1- چھوٹا عمامہ : چھ ذراع کے بقدر، 

۔2- درمیانہ عمامہ : سات ذراع کے بقدر، 

۔3- بڑا عمامہ : بارہ ذراع کے بقدر-

۔💕عمامہ شملہ اور بغیر شملہ دونوں صورتوں میں باندھنا ثابت ہے اور شملہ کی مقدار کم از کم چار انگلی کے برابر ہو اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ لمبائی ہو، اتنا لمبا ہونا کہ بیٹھنے میں کمر سے متجاوز ہوجائے درست نہیں

۔💌عمامہ باندھنے کا مسنون طریقہ : حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپی پر عمامہ باندھنے کا ہے بغیر ٹوپی کے عمامہ جائز ہے مگر مکروہ ہے-

ٹوپی کو درمیان سے کھلا چھوڑنا صلحاء و علماء کا طریقہ ہے

عارف باللہ مرشدی حضرت واصف منظور صاحب فرماتے ہیں کہ عمامہ خود باندھا جائے، صاف باندھا جائے، صاف رکھا جائے، کھڑے ہوکر باندھا جائے، عمامہ اس طرح باندھا جائے کہ اس سے سنت سے رغبت ہو کراہیت نہ ہو

۔💌حضور اکرم ﷺ کی لنگی مبارک : حضرت عائشہ ؓ  کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ کا وصال دو کپڑوں میں ہوا جس میں ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک موٹی لنگی تھی

حضور ﷺ کا عام معمول لنگی باندھنے اور چادر اوڑھنے کا تھا

آپ کی چادر چار ہاتھ لمبی اور اڑھائی ہاتھ چوڑی تھی اور ایک قول کے مطابق چھ ہاتھ لمبی، تین ہاتھ اور ایک بالشت چوڑی تھی

آپ کی لنگی چار ہاتھ اور ایک بالشت لمبی اور دو ہاتھ چوڑی بتائی جاتی ہے

۔💌لنگی باندھنے کا طریقہ : حضور اکرم ﷺ لنگی نصف ساق تک رکھتے تھے، تہبند کے اگلے حصہ کو نیچا رکھتے اور پچھلے حصہ کو اونچا رکھتے تھے-

۔💌پاجامہ پہننا مستحب ہے : اس کا پہننا مختلف فیہ ہے، راجح قول عدم ثبوت کا ہے؛ البتہ آپ ﷺ کے ترکہ میں پاجامہ تھا، ارشاد نبوی ہے کہ پاجامہ پہنو کہ یہ تمہارے لباس میں زیادہ ستر کے لائق ہے اور عورتوں کو بھی پہناؤ جب وہ باہر نکلیں۔

بعض اہل اللہ مشائخ کو دیکھا ہے کہ وہ پاجامہ اور ازار (لنگی) دونوں کو جمع کرلیتے ہیں۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کے موزے مبارک : بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ نجاشی شاہ حبشہ نے حضور اکرم ﷺ کے پاس سیاہ رنگ کے دو سادے موزے ہدیةً بھیجے تھے، حضور اکرم ﷺ نے ان کو پہنا اور وضو کے بعد ان پر مسح بھی فرمایا۔

۔💌موزے کے متعلق اسوہ حسنہ : چند قسم کے موزے پہننا ثابت ہیں : سیاہ رنگ کے موزے ، چمڑے کے موزے ، دبیز سوتی یا اونی موزے جسکو جورب کہتے ہیں، رموق یعنی چمڑے کا خول جو موزہ پر اسکی حفاظت کے لئے پہنا جاتا ہے۔

۔💞موزے کے آداب 

۔1- پہلے دایاں پہنے پھر بایاں۔

۔2- پہننے سے قبل جھاڑ لے۔

۔3- دونوں پاؤں میں ایک جیسا موزہ پہنے۔

۔4- صاف ستھرا اور موسم کے اعتبار سے پہنے۔

۔5- پھٹے ہوئے موزے پہننے سے اجتناب کرے۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کے جوتے مبارک : قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انسؓ سے دریافت کیا کہ حضور اکرم ﷺ کے نعل شریف کیسے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہر ایک جوتے میں تسمے تھے۔

حضرت ابن عمرؓ بغیر بالوں کے چمڑے کا جوتا پہنتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو ایسا ہی جوتا پہنتے ہوئے اور اس میں وضو فرماتے ہوئے دیکھا ہے، اس لئے میں ایسے ہی جوتے پسند کرتا ہوں ۔

۔💌نعلین مبارک کی کیفیت : نعل مبارک چپل نما تھا اور ہر نعل میں تسمے تھے، ایک روایت کے مطابق درمیان کا تسمہ دہرا تھا۔

نعل مبارک کا تلہ دہرا تھا، گائے کے چمڑے کا بنا ہوا تھا۔

نعل مبارک ایڑی نما تھا، ایک مطلب یہ ہے کہ ایڑی کی جانب کچھ نکلا ہوا تھا تاکہ پیر کا کچھ حصہ بھی باہر نہ رہے- دوسرا مطلب ایڑی کی جانب چمڑے کی ایک پٹی تھی جس سے پیر کو باندھ لیتے جیسے سینڈل نما چپل میں ہوتا ہے۔

نعل مبارک کا اگلا حصہ مثل زبان کے گولائی لئے ہوئے تھا ، بعض علماء نے محراب کی شکل میں بتلایا ہے۔

نعل مبارک دباغت شدہ چمڑے کا تھا جس پر بال نہ تھے ، یہ عربوں میں اہل وسعت لوگ استعمال کرتے تھے۔

چمڑے کی زردی کی وجہ سے نعل مبارک بھی زرد رنگ معلوم ہوتا تھا۔

نعل مبارک کی لمبائی ایک بالشت دو انگل،  چوڑائی ٹخنے کے قریب سات انگل اور وسط قدم میں پانچ انگل اور اوپر پنجہ کے پاس سات انگل تھی، دونوں تسموں کے درمیان دو انگل کا فاصلہ تھا۔

۔💌جوتے پہننے کے آداب 

۔💕حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص تم میں سے جوتا پہنے تو دائیں سے ابتداء کرنی چاہیے اور جب نکالے تو بائیں سے پہلے نکالے، دایاں پاؤں جوتا پہننے میں مقدم ہونا چاہیے اور نکالنے میں مؤخر۔

۔💕جوتے یا چپل بیٹھ کر پہنے اور کھڑے ہوکر بھی پہن سکتا ہے۔

۔💕ایک جوتا یا چپل پہن کر چلنا بے وقوفی ہے۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کی رفتار :* حضرت علی رضی اللہ عنہ جب آپ ﷺ کا ذکر فرماتے تو یہ فرماتے تھے کہ جب آپ ﷺ چلتے تھے تو ہمت اور قوت سے پاؤں اٹھاتے (عورتوں کی طرح سے پاؤں زمین سے گھسیٹ کر نہیں چلتے تھے۔ چلنے میں تیزی اور قوت کے لحاظ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ) گویا اونچائی سے اتر رہے ہیں ۔

حضور اکرم ﷺ جب تشریف لے چلتے تو کچھ جھک کر چلتے گویا کہ بلندی سے اتر رہے ہیں۔

۔💞رفتار مبارک کی کیفیت : تیز رفتاری سے چلتے، چستی سے چلتے سستی سے نہ چلتے، قدم مضبوط اٹھاتے، پاؤں گھسٹ کر نہ چلتے اور ذرا جھک کر چلتے کہ یہ تواضع کی علامت ہے، ادھر ادھر چلتے ہوئے نہ دیکھتے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ چلتے تو پیچھے چلتے۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کی سواریاں : حضور اکرم ﷺ نے اونٹ، اونٹنی، گھوڑے، خچر اور گدھے وغیرہ پر سواری فرمائی ہے۔

۔💕آپ ﷺ کی اونٹنیوں کے نام یہ ہیں : قصوی، جدعاء، صہباء، عضباء۔

۔💕آپ ﷺ کے اونٹ کے نام یہ ہیں : عسکر، ثعلب

۔💕آپ ﷺ کے گھوڑوں کے نام یہ ہیں : لزاز، سکب، سبحہ، مرتجز، مرتجل، ورد، یعسوب، یعبوب 

۔💕آپ ﷺ کے گدھوں کے نام یہ ہیں : عفیر، یعفور 

۔💕آپ ﷺ کے خچروں کے نام یہ ہیں : دلدل، فضہ

عارف باللہ مرشدی حضرت واصف منظور صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی اپنی شاندار گاڑی کو حضور اکرم ﷺ کی کسی بھی سواری سے اعلی سمجھتا ہے اور آپ ﷺ کی سواری کو گھٹیا سمجھتا ہے، اس نے آپ ﷺ کی توہین کی، ہاں! عمدہ اور سہولت والی سواری اتباع سنت کی نیت سے اختیار کرنا جائز بھی ہے اور پسندیدہ بھی۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کی نشست : حضرت قیلہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو مسجد (میں کچھ ایسی عاجزانہ صورت) میں گوٹ مارے بیٹھے دیکھا کہ میں رعب کی وجہ سے کانپنے لگی۔

اس طرح بیٹھنے کو عربی میں قرفصاء، حبوة اور اردو میں اکڑوں بیٹھنا، گوٹ مارنا کہتے ہیں۔

بعض روایات میں احتباء کا لفظ بھی آیا ہے ، "قرفصاء" اور "احتباء" میں فرق یہ ہے کہ قرفصاء میں پنڈلیوں کو ہاتھ سے باندھا جاتا ہے اور احتباء میں پیٹھ اور پنڈلیوں کو کپڑے سے باندھا جاتا ہے

حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا، اس وقت حضور اکرم ﷺ اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھے ہوئے تھے۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کا تکیہ لگانا : جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو ایک تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا جو بائیں جانب رکھا ہوا تھا۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تو ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔

۔💌ٹیک لگانے کی چار صورتیں 

۔💕 دائیں یا بائیں پہلو کو دیوار یا تکیہ سے لگانا۔

۔💕 ہتھیلی سے زمین پر سہارا لینا۔

۔💕 چار زانو ہو کر کسی گدی پر بیٹھنا۔

۔💕 کمر کو گاؤ تکیہ یا دیوار سے لگانا۔

ٹیک لگا کر کھانے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ اس حالت میں آدمی بے فکر ہو جاتا ہے جو کہ شرعی اور طبی اعتبار سے ناپسندیدہ ہے اور دوسرا یہ تواضع کے خلاف بھی ہے۔

۔💌تکیہ نبوی کی مختلف کیفیات : آپ ﷺ کے مختلف تکیے تھے:

۔💕 بالوں والا تکیہ جس کا بھراؤ کھجور کی چھال تھی۔

۔💕 چمڑے کا تکیہ جس کا بھراؤ کھجور کی چھال تھی۔

۔💕 چمڑے کا تکیہ جس کا بھراؤ گھاس اذخیر سے تھا۔

۔💌تکیہ کے علاوہ کسی اور چیز پر سہارا لینا : حضور اکرم ﷺ کی طبیعت ناساز تھی اس لئے حجرہ شریف سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ پر سہارا کئے ہوئے تشریف لائے اور صحابہ کو نماز پڑھائی، حضور اکرم ﷺ اس وقت ایک یمنی منقش چادر لئے ہوئے تھے۔

فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آپ ﷺ کے مرض الوفات کی حالت میں حاضر ہوا، حضور اکرم ﷺ کے سر مبارک پر اس وقت زرد پٹی بندھی ہوئی تھی، میں نے سلام کیا حضور اکرم ﷺ نے جواب کے بعد ارشاد فرمایا کہ اے فضل! اس پٹی سے میرے سر کو خوب زور سے باندھ دو، پس میں نے تعمیل ارشاد کی، پھر حضور اکرم ﷺ بیٹھے اور میرے مونڈھے پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور مسجد کو تشریف لے گئے۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کی انگوٹھی مبارک : حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشی تھا۔

آپ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی تھی اس سے خطوط وغیرہ پر مہریں لگاتے تھے پہنتے تھے۔

آپ ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی تھا۔

آپ ﷺ نے جب اہل عجم کو تبلیغی خطوط لکھنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے عرض کیا کہ عجم بلامہر والے خط کو قبول نہیں کرتے اس لئے حضور اکرم ﷺ نے انگوٹھی بنوائی

آپ ﷺ کی انگوٹھی کا نقش محمد رسول اللہ ﷺ تھا اس طرح کہ محمد ﷺ ایک سطر میں تھا رسول دوسری سطر میں لفظ اللہ تیسری سطر میں ہوتا تھا۔

آپ ﷺ نے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی کے پاس تبلیغی خطوط لکھنے کا قصد فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا حضور! یہ لوگ بدون مہر کے خطوط قبول نہیں کرتے ہیں اس لئے آپ ﷺ نے ایک مہر بنوائی جس کا حلقہ چاندی کا تھا اس میں محمد رسول اللہ منقش تھا۔

آپ ﷺ جب بیت الخلاء میں تشریف لے جاتے تو اپنی انگوٹھی نکال کر تشریف لے جاتے ۔

آپ ﷺ سے دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ دونوں میں انگوٹھی پہننا ثابت ہے۔

آپ ﷺ نے ایک چاندی کی انگوٹھی بنوائی، اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رہتا تھا اس میں محمد رسول اللہ کندہ کرایا تھا اور لوگوں کو منع فرمادیا تھا کہ کوئی  شخص اپنی انگوٹھی پر یہ کندہ نہ کرائے، یہ وہی انگوٹھی تھی جو حضرت معقیب رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیر اریس (بئر خاتم جو کہ مسجد قبا کے ساتھ ہے) میں گر گئی تھی۔

۔💞آپ ﷺ کے پاس متعدد انگوٹھیاں تھیں 

۔1 ایک پر محمد رسول اللہ منقش تھا۔

۔2- ایک کا نگینہ چاندی کا تھا۔

۔3- ایک کا نگینہ حبشی تھا۔

۔4- ایک کا نگینہ عقیق پتھر کا تھا جس کا رنگ سیاہ تھا۔

۔💞چند اہم احکام 

۔💕مرد کے لئے صرف چاندی کی انگوٹھی کی اجازت ہے۔

۔💕 انگھوٹی کو مؤثر سمجھنا غلط ہے البتہ اتباع سنت کی نیت سے عقیق پتھر استعمال کرنا جائز ہے۔

۔💕 حضرت گنگوہی اور حضرت سہارنپوری رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا روافض کا شعار ہے ، اس سے اجتناب بہتر ہے۔

۔💕 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بغرض زینت دائیں ہاتھ اور بغرض مہر بائیں ہاتھ میں پہنے ، بہرحال اس کا تعلق ذوق سے ہے اور ذوق نبوی کو اپنایا جائے۔

۔💕 انگوٹھی ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی خنصر میں پہنی جائے اور اس کے ساتھ والی انگلی بنصر میں بھی اجازت ہے ، شہادہ اور وسطی (درمیانی انگلی) میں ممنوع ہے اور ابہام (انگوٹھا) موزوں نہیں۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کا کھانا تناول فرمانا : حضور اکرم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھوتے تھے، یہ عمل سنتِ انبیاء کرام علیہم السلام ہونے کے ساتھ ساتھ فقر کو دور کرنے کا بھی ذریعہ ہے، اسی طرح آپ ﷺ کی عادت شریفہ تین انگلیوں سے کھانا تناول فرمانے کی تھی اور ان کو چاٹ بھی لیتے تھے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔

۔💌کھانے میں برکت کے مسنون اسباب 

۔💕ابتداء طعام میں بسم اللہ پڑھنا۔

۔💕کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھونا۔

۔💕دائیں ہاتھ سے کھانا۔

۔💕اپنے سامنے سے کھانا، درمیان سے نہ کھانا۔

۔💕انگلیوں کا چاٹنا۔

۔💕برتن کو صاف کرنا۔

۔💕دسترخوان پر گرے ہوئے ٹکڑوں کو کھانا۔

۔💕مل کر کھانا انفرادی نہ کھانا۔

اگر ایک ہی نوعیت اور قسم کا کھانا ہو تو برتن کے درمیان سے کھانا بے برکتی کا باعث ہے اور اگر مختلف اقسام کا کھانا ہو درمیان سے کھانے میں حرج نہیں۔

حضور اکرم ﷺ نے کبھی کھانا میز پر تناول نہیں فرمایا،  نہ چھوٹی طشتریوں میں نوش فرمایا، نہ آپ ﷺ کے لئے کبھی چپاتی پکائی گئی۔

زمین پر بیٹھ کر کھانا سنت ہے اور کرسی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا بوقت ضرورت جائز ہے۔ 

حضرت یونس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حضور اکرم ﷺ کھانا کس چیز پر رکھ کر کھاتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہی چمڑے کے دسترخوان پر۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کی روٹی : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی وفات تک آپ ﷺ کے اہل وعیال نے مسلسل دو دن کبھی جو کی روٹی سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔

آپ ﷺ کے گھر میں جو کی روٹی کبھی نہیں بچتی تھی، اور آپ ﷺ نے تمام عمر میں کبھی جو کی روٹی سے بھی دو دن پے درپے پیٹ نہیں بھرا

۔💞روٹی تناول فرمانے کی کیفیت : آپ ﷺ نے مختلف روٹیاں مختلف نوعیت سے تناول فرمائیں : جو کی روٹی، گیہوں کی روٹی، گھی کی روٹی، جو کی روٹی کھجور کے ساتھ، کبھی روٹی گوشت، کبھی روٹی گھی، کبھی روٹی سرکہ، کبھی روٹی زیتون-

روٹی درمیانی رکھی جائے کہ یہ برکت کا باعث ہے نہ بہت چھوٹی اور نہ بہت بڑی، روٹی کا اکرام کیا جائے، اس کے ٹکڑوں کو ادھر ادھر نہ پھینکا جائے۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کا سالن : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سرکہ بھی کیسا اچھا سالن ہے۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا تم کھانے پینے کی خاطر خواہ نعمتوں میں نہیں ہو حالانکہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا کہ ان کے ہاں معمولی قسم کی کھجوروں کی مقدار نہ ہوتی تھی کہ جس سے شکم سیر ہو جائے۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زیتون کا تیل کھانے میں بھی استعمال کرو اور مالش میں بھی اس لئے کہ بابرکت درخت کا تیل ہے۔

حضور اکرم ﷺ کو کدو مرغوب تھا، آپ اس کو تلاش کرکے نوش فرماتے۔

حضور اکرم ﷺ کو میٹھا اور شہد بے انتہا پسند تھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بونگ کا گوشت کچھ لذت کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ کو زیادہ پسند نہ تھا، بلکہ گوشت چونکہ گاہے گاہے پکتا تھا اور یہ جلدی گل جاتا، اس لئے حضور اکرم ﷺ اس کو پسند فرماتے تھے، تاکہ جلدی سے فارغ ہو کر اپنے مشاغل میں مصروف ہوں۔

۔💞مختلف گوشت کھانے کی مختلف نوعیت : آپ ﷺ سے مختلف طریقے سے مختلف قسم اور نوعیت کا گوشت کھانا ثابت ہے : دست کا گوشت، پیٹھ کا گوشت، شانے کا گوشت، گردن کا گوشت، بھنا ہوا گوشت، بغیر روٹی کے تنہا گوشت، نمک لگاکر خشک گوشت، شوربا دار گوشت، ہڈی دار گوشت، کدو کے ساتھ گوشت، بکری کا گوشت، اونٹ کا گوشت، گھوڑے کا گوشت، نیل گائے کا گوشت، خرگوش، مرغی، چکور پرندہ، سرخاب پرندہ، مچھلی، اسی طرح پائے کھانا بھی ثابت ہے۔

گائے کے گوشت کے بارے میں بعض روایات کے مطابق دستر خوان پر لایا جانا مروی ہے مگر صراحت سے نوش فرمانے کا ذکر نہیں۔

۔💌یہ کھانے مرغوب تھے 

۔💕حلوہ : آٹے اور گھی سے بنی میٹھی چیز۔

۔💕ہریسہ : گوشت اور کوٹے ہوئے گیہوں سے تیار کردہ، حلیم کے مشابہ۔

۔💕حیس : کھجور، پنیر اور گھی سے بنی میٹھی چیز۔

۔💕خزیرہ : یہ بھی ایک قسم ہے۔

۔💕خبیص : گھی، گیہوں اور شہد سے تیار کردہ۔

۔💕ستو : جو کا ستو

۔💕دشیشہ : آٹے، گوشت اور کھجور سے تیار کردہ-

۔💕اس کے علاوہ سرکہ، ثرید، پنیر دودھ اور زیتون بھی مرغوب تھے۔

۔۔💌حضور اکرم ﷺ کا پیالہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک لکڑی کا پیالہ نکال کر دکھایا جس میں لوہے کے پترے لگ رہے تھے ، آپ نے فرمایا کہ یہ حضور اکرم ﷺ کا پیالہ ہے ، کہا جاتا ہے کہ ان کے صاحبزادے حضرت نضر بن انس رحمہ اللہ کی میراث سے یہ پیالہ آٹھ لاکھ درہم میں فروخت ہوا تھا، امام بخاری رحمہ اللہ نے بصرہ میں اس پیالہ سے پانی بھی پیا لوگ کہتے ہیں کہ وہ اور پیالہ تھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو اس پیالہ سے پینے کی سب انواع پانی، نبیذ، شہداور دودھ سب چیزیں پلائی ہیں ۔

۔💞پیالوں کی تفصیل : حضور اکرم ﷺ کے استعمال میں مختلف پیالے رہے جن کی تفصیل یہ ہے 

۔💕لکڑی کا پیالہ : یہی پیالہ وہ ہے جس کا اوپر روایت میں ذکر آیا۔

۔💕شیشہ کا پیالہ : پانی پینے کے لئے استعمال فرمایا۔

۔💕تانبے کا پیالہ : وضو کرنے اور پانی پینے کے لئے استعمال فرمایا۔

۔💕مٹی کا پیالہ : شوربا دار گوشت نوش فرمانے اور پانی پینے کے لئے استعمال فرمایا۔

۔💕بڑا پیالہ : یہ اتنا بڑا تھا کہ اس کو چار آدمی اٹھاتے تھے۔

۔💕ان کے علاوہ کچھ پیالوں کے نام یہ ہیں : رمال ؛ مغیث ؛ قمر ؛ ریان اور مخضب

 (پتھر کا تسلا)

عام طور پر آپ ﷺ لکڑی کا پیالہ استعمال فرماتے تھے۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کے مشروبات : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کو پینے کی سب چیزوں میں میٹھی اور ٹھنڈی چیز مرغوب تھی۔

آپ ﷺ کے لئے ٹھنڈا پانی مدینہ منورہ سے دو منزل یعنی 36 میل کی مسافت پر واقع مقام سقیا سے لایا جاتا تھا۔

حضور اکرم ﷺ نے زمزم کا پانی کھڑے ہونے کی حالت میں نوش فرمایا۔

آپ ﷺ پانی پینے میں تین سانس لیا کرتے تھے اور یہ فرماتے تھے کہ اس طریقہ سے پینا زیادہ خوشگوار اور خوب سیراب کرنے والا ہے، ایک روایت میں ہے کہ جب پانی نوش فرماتے دو دفعہ سانس لیتے تھے۔

آپ ﷺ کے مشروبات فطری اور قدرتی تھے، مصنوعی مشروبات آپ ﷺ کے زمانے میں نہ تھے

آپ ﷺ کے مشروبات میں شہد، شہد ملا پانی، دودھ، دودھ ملا پانی، رات کا باسی ٹھنڈا پانی، نقیع اور نبیذ تھے۔

۔💕"نقیع" بنانے کی صورت یہ ہے کہ انگور یا کھجوروں کو پانی میں محض بھگو دیا جائے، اس کو جوش نہ دیا جائے، اس طرح انگور یا کھجوروں کی مٹھاس اس پانی میں آجاتی ہے اور ایک عمدہ قسم کا شربت بن جاتا ہے اور یہ شربت بہت مزیدار بھی ہوتا ہے اور بدن کو فائدہ بھی پہنچاتا ہے، چنانچہ خرما کا نقیع معدہ کے نظام کو درست کرتا ہے اور کھانے کو جلد ہضم کرتا ہے جب کہ انگور کی نقیع جسم کی زائد حرارت کو دفع کرنے کی خاصیت رکھتا ہے۔ 

۔💕"نبیذ" بھی اسی طرح بنتا ہے مگر کچھ فرق ہے کہ نبیذ کی صورت میں انگور یا کھجوروں کو پانی میں بھگوکر کچھ دن تک کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اس میں کچھ ہلکی سی تیزی اور تغیر پیدا ہو جائے، لیکن اتنی تیزی یا اتنا زیادہ تغیر نہ ہو جو نشہ آور ہو جانے کی حد تک پہنچ جائے کیونکہ جس نبیذ میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے، اس کا پینا قطعا حرام ہے، نبیذ بھی ایک فائدہ مند مشروب ہے یہ جسم کی طاقت و قوت میں اضافہ کرتا ہے اور عام صحت کی محافظت کرتا ہے ۔ 

واضح رہے کہ نبیذ انگور اور کھجور کے علاوہ دوسری چیزوں مثلا شہد، گیہوں اور جو وغیرہ سے بھی بنتی ہے۔ [مظاہر حق]

۔💌حضور ﷺ کا مختلف پھل تناول فرمانا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ جب کسی نئے پھل کو دیکھتے تو اس کو حضور ﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کر دیتے تو حضور یہ دعا پڑھتے 

۔💎[[اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي ثِمَارِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِهِ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ قَالَ ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ يَرَاهُ فَيُعْطِيهِ ذَلِکَ الثَّمَرَ]] 

ترجمہ : اے اللہ ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما اور ہمارے شہر میں برکت فرما اور ہماری اس چیز سے جو صاع اور مد سے ناپی جاتی ہے اس میں برکت عطا فرما، اے اللہ! واقعی حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور بے شک میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، انہوں نے (جن چیزوں کی) دعا (اپنے آباد کردہ) شہر مکہ مکرمہ کے لئے کی ہے (جس کا بیان آیت فاجعل أفئدۃ من الناس تھوی الیہم وارزقہم من الثمرات میں ہے کہ لوگوں کے قلوب مکہ کی طرف مائل فرمادے اور پھلوں کی روزی ان لوگوں کو میسر فرما،) وہی دعا اس سے دوچند مقدار میں مدینہ منورہ کے لئے کرتا ہوں۔

۔💌مختلف پھل تناول فرمانا : حضور ﷺ سے مختلف پھل کھانا منقول ہے 

۔1 کھجور : آپ کو کھجور میں عجوہ کھجور بہت پسند تھی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح سات عجوہ کھجور کھالے اس دن اسے کوئی جادو یا زہر کا اثر نہ ہوگا۔آپ ﷺ سے کھجور کے ساتھ دوسری چیزیں ملا کر کھانا بھی مروی ہے مثلا کھجور اور مکھن، کھجور اور خربوزہ، کھجور اور تربوز، کھجور اور ککڑی، کھجور پانی اور کھجور دودھ وغیرہ بھی کھانا منقول ہے اور کھجور کی گھٹلی بائیں ہاتھ سے پھینکنا سنت ہے۔

۔2- کباث (پیلو کا پھل)

۔3- زیتون

۔4- انجیر 

۔5- انگور 

۔6- کشمش 

۔7- انار

۔8- شہتوت

۔9- سفر جل بہی 

آپ ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ اپنے علاقے کے پھل کو تناول فرماتے جب اس کا موسم ہوتا اور جب موسم کا پہلا پھل آتا تو اسے بوسہ دیتے، آنکھوں سے لگاتے اور یہ دعا پڑھتے 

۔💎[[اللہم کما اطعمتنا أوله فاطعمنا آخرہ]]

بعض روایات میں یہ دعا ہے

۔💎[[اللہم کما أریتنا أوله أرنا آخرہ]]

اور پھر پہلا پھل کسی بچے کو دیتے

۔💌حضور ﷺ کے گفتگو کا انداز : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی، بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیتے تھے

آپ ﷺ (بعض مرتبہ) کلام کو (حسب ضرورت) تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ آپ کے سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں

آپ ﷺ کی تمام گفتگو ابتدا سے انتہا تک منہ بھر کر ہوتی تھی (یہ نہیں کہ نوک زبان سے کٹتے ہوئے حروف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی متکلم کے ذہن میں رہی جیسا کہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے) جامع الفاظ کے ساتھ (جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور معانی بہت ہوں) کلام فرماتے تھے

آپ ﷺ کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا، نہ اس میں فضولیات ہوتی تھی اور نہ کوتاہیاں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو، آپ سخت مزاج نہ تھے، نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے، اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو، اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے، اس کی مذمت نہ فرماتے تھے؛ البتہ کھانے کی اشیاء کی نہ مذمت فرماتے، نہ تعریف فرماتے (مذمت نہ فرماتے تو ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کی نعمت ہے، زیادہ تعریف نہ فرمانا اس لئے تھا کہ اس سے حرص کا شبہ ہوتا ہے؛ البتہ اظہارِ رغبت یا کسی دلداری کی وجہ سے کبھی کبھی خاص خاص چیزوں کی تعریف بھی فرمائی ہے) دنیا اور دنیاوی امور کی وجہ سے آپ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا (چونکہ آپ کو ان کی پرواہ بھی نہ ہوتی تھی اس لئے کبھی دنیوی نقصان پر آپ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا) البتہ کسی دینی امر اور حق بات سے کوئی شخص تجاوز کرتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لا سکتا تھا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا

آپ ﷺ کی عادت شریفہ انگلی سے توحید کی طرف اشارہ فرمانے کی تھی، اس لئے غیر اللہ کی طرف انگلی سے اشارہ نہ فرماتے تھے، جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے تھے اور جب بات کرتے تو ملا لیتے (کبھی گفتگو کے ساتھ؛ ہاتھوں کو بھی حرکت فرماتے) اور کھلی داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصہ پر مارتے(ایک روایت میں ہے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو بائیں ہتھیلی پر مارتے) اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرماتے یا درگزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیاء کی وجہ سے آنکھیں گویا بند فرما لیتے، آپ کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی، اس وقت آپ ﷺ کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے

۔💌حضور اکرم ﷺ کا مسکرانا اور ہنسنا : حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا۔

حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا۔

آپ ﷺ کی ذات مبارک خوش مزاج اور خندہ دھن تھی، ہر ایک کے ساتھ مسکرا کر ملتے، جب کوئی آپ کے پاس آتا تو چہرے کی مسکراہٹ پاتا تو آپ کا دست مبارک پکڑ لیتا اور چوم لیتا، کھل کھلا کر ہنسنے کی عادت نہ تھی کہ جس سے دانت ظاہر ہوجائیں، عادت مبارکہ مسکرانے کی تھی اور یہی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی عادت شریفہ رہی، اگر کبھی ہنسی آجاتی تو منہ مبارک پر ہاتھ رکھ لیتے تھے، تبسم کے وقت ایک خاص روشنی نکلتی تھی جس کا اثر دیواروں پر ظاہر ہوتا تھا۔

خوشی کی بات پر چہرہ مبارک گلنار ہوجاتا تھا اور غصہ کی بات پر چہرہ مبارک سرخ ہوجاتا تھا۔

ُ۔💕خوشی اور مسرت کے موقع پر یہ دعا پڑھتے

[[الحمد للہ الذی بنعمته تتم الصالحات]]

علماء فرماتے ہیں کہ خلوت میں متواصل الاحزان ہوتے اور جلوت میں تبسم کا غلبہ زیادہ ہوتا۔

۔💌حضور اکرم ﷺ مزاح فرمانا : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہم سے مذاق بھی فرمالیتے ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں! مگر میں کبھی غلط بات نہیں کہتا۔

خوش طبعی اور دائرہ اخلاق میں رہتے ہوئے مزاح کرنا سنت ہے؛ البتہ کسی کی دل آزاری کرنا یا خلاف واقعہ بات کرنا ناجائز ہے، اہل اللہ و مشائخ کی بھی عادت مزاح کی رہی ہے

۔💌آپ ﷺ کے مزاح کے واقعات : ایک موقع پر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مزاحا فرمایا کہ یا ذالاذنین! (اے دو کان والے)

۔💞حضرت انس رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی سے بطور مزاح کے فرمایا کہ یا ابا عمیر ما فعل النغیر؟ (اے ابو عمیر! وہ نغیرہ کہاں جاتی رہی؟)

۔💞ایک شخص نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ کوئی سواری کا جانور مجھے عطا فرما دیا جائے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک اونٹنی کا بچہ تم کو دیں گے، سائل نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔

۔💞ایک صحابی جن کا نام زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ تھا، جنگل کے رہتے تھے، وہ جب حاضر خدمت ہوتے تو جنگل کے ہدایا سبزی ترکاری وغیرہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے اور وہ جب مدینہ منورہ سے واپس جانے کا ارادہ کرتے تھے تو آپ ﷺ شہری سامان خورد و نوش کا ان کو عطا فرماتے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زاہر ہمارا جنگل ہے اور ہم اس کے شہر ہیں، آپ ﷺ کو ان سے خصوصی تعلق تھا، حضرت زاہر رضی اللہ عنہ شکل و صورت عام سے تھے، ایک مرتبہ کسی جگہ کھڑے تھے کہ آپ ﷺ تشریف لائے اور پیچھے سے ان کی آنکھوں پر ہاتھ مبارک رکھ لئے اور ارشاد فرمایا کہ کون شخص ہے جو اس غلام کو خریدے؟ حضرت زاہر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر آپ مجھے فروخت فرمادیں تو کھوٹا اور بے قیمت پائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں! اللہ کے نزدیک تو تم کھوٹے نہیں ہو یا یہ فرمایا کہ بیش قیمت ہو۔

۔💞آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا فرما دیجئے کہ حق تعالیٰ شانہ مجھے جنت میں داخل فرمادے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہو سکتی! وہ عورت رونے لگی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ حق تعالیٰ جل شانہ سب اہل جنت عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنا دیں گے۔

۔💞حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ خادم رسول ہیں، ایک مرتبہ زیادہ سامان اٹھائے ہوئے تھے تو فرمایا کہ تم تو سفینہ (کشتی) ہو۔

۔💞حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ نے صبح صادق سمجھنے کے لئے دو دھاگے (سفید و سیاہ) تکیے کے نیچے رکھے تو فرمایا کہ تمہارا تکیہ تو بہت لمبا ہے (کہ اس کے نیچے آسمان آگیا)۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کا سونا اور آرام فرمانا : حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جس وقت آرام فرماتے تھے تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھتے تھے اور یہ دعا پڑھتے :

۔💎[[رَبِّ قِنِي عَذَابَکَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ]]

ترجمہ : اے اللہ! مجھے قیامت کے دن اپنے عذاب سے بچائیو-

بعض اکابر فرماتے ہیں کہ بائیں کروٹ سونا امراء و سلاطین کا طریقہ ہے، چت یعنی سیدھا سونا انبیاء سابقین علیہم السلام کا طریقہ ہے اور دائیں کروٹ سونا خاتم النبیین ﷺ کا طریقہ ہے اور منہ کے بل یعنی اوندھے منہ سونا شیاطین کا طریقہ ہے، بعض روایات میں منہ کے بل سونے کو دوزخی کا سونا بتلایا ہے۔

حضرت حذیفہ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جب بستر پر لیٹتے، تو [[اللَّهُمَّ بِاسْمِکَ أَمُوتُ وَأَحْيَا]] پڑھتے تھے۔

ترجمہ : اے اللہ! میں تیرے ہی نام سے مرتا (سوتا) اور تیرے ہی نام سے زندہ ہوں گا (سو کر اٹھوں گا)

اور جب جاگتے تو یہ دعا پڑھتے 

۔💎[[الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانًا بَعْدَمَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُور]]

*ترجمہ :* تمام تعریفیں اللہ جل جلالہ کے لئے ہیں جس نے موت کے بعد زندگی عطا فرمائی اور اسی پاک ذات کی طرف قیامت میں لوٹنا ہے

آپ ﷺ ہر رات جب بستر پر لیٹتے تو دونوں ہاتھوں کو دعا مانگنے کی طرح ملا کر ان پر دم فرماتے تھے اور سورت اخلاص اور معوذتین تین مرتبہ پڑھ کر تمام بدن پر سر سے پاؤں تک جہاں جہاں ہاتھ جاتا پھیر لیا کرتے تھے، تین مرتبہ ایسے ہی کرتے، سر سے ابتدا فرماتے اور پھر منہ اور بدن کا اگلا حصہ پھر بقیہ بدن پر ہاتھ پھیرتے۔

سونے کے مسنون اعمال 

۔💕 باوضو سونا ، جو شخص طہارت کی حالت میں رات گزارے پھر اس رات کرجائے تو وہ شہید ہوگا۔

۔💕سوتے اور جاگتے وقت مسواک کرنا سنت ہے، آپ ﷺ کی یہ عادت شریفہ رہی ہے۔

۔💕سونے سے قبل سرمہ لگانا اور گنگھی کرنا بھی آقا ﷺ کا طریقہ ہے۔

۔💕چراغ گل کردینا، چولہا بند کردینا، دروازہ بند کردینا، مشکیزہ کا منہ بند کردینا اور برتن ڈھک دینا سنت ہے۔

۔💕سونے سے قبل بستر جھاڑنا، بستر میں تکیہ کا استعمال کرنا سنت ہے، آپ ﷺ کا تکیہ عموما چمڑے کا تھا جس کا بھراؤ چھال تھا۔

۔💕آپ ﷺ کی عادت مبارکہ گرمی و سردی میں سونے کی جگہ تبدیل فرماتے تھے اور یہ تبدیلی شب جمعہ سے فرماتے، گرمی میں باہر آرام فرماتے اور سردی میں گھر میں آرام فرماتے۔

سونے کے بعض اہم آداب 

۔💕سونے سے قبل رات کو استنجاء کے پانی وغیرہ کا بندوبست کرلینا۔

۔💕رات کو گھر میں اکیلا نہ سونا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ منع فرماتے تھے۔

۔💕بلا منڈیر کی چھت پر سونا ممنوع ہے۔

۔💕کھانے کے فورا بعد نہ سونا کہ یہ طبی اعتبار سے بھی مضر ہے، ارشاد نبوی ہے کہ کھانے کو ذکر اور نماز کے ذریعے ہضم کرو۔

۔💕رات سونے سے قبل آپ ﷺ کچھ معمولات کا اہتمام فرماتے تھے، احادیث میں سونے سے قبل ان معمولات کا ذکر ہے، ان کو پڑھا جائے اور سب نہ ہوسکیں تو بعض کا اہتمام کرلیا جائے : سورة السجدة، سورة ملک، سورة زمر، سورة بنی اسرائیل، مسبحات (جن سورتوں کی ابتداء تسبیح سے ہوتی ہے : سورہ حدید، سورہ حشر، سورہ صف، سورہ جمعہ، سورہ تغابن اور سورہ اعلی) سورہ بقرة کی آخری آیات، سورہ آل عمران کی آخری دس آیات، آخری چاروں قل، آیت الکرسی۔ 

ان کے علاوہ دیگر معمولات یہ ہیں : تین مرتبہ استغفار پڑھنا، تسبیحات فاطمی کا ورد کرنا، دورد شریف پڑھنا اور سونے کی دعائیں پڑھنا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ ایک مرتبہ سوئے اور خراٹے لینے لگے، آپ ﷺ  کی یہ عادتِ شریفہ تھی کہ جب سوتے خراٹے لیتے تھے، معلوم ہوا کہ معمولی خراٹے لینا برا نہیں اور اس پر طعن کرنا درست نہیں۔

۔💌حضور اکرم ﷺ بستر مبارک : امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں حضور اکرم ﷺ کا بستر کیسا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں حضور اکرم ﷺ کا بستر کیسا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا کر کے ہم حضور اکرم ﷺ کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے، ایک روز مجھے خیال ہوا کہ اس کو چوہرا کر کے بچھا دیا جائے تو زیادہ نرم ہو جائے گا میں نے ایسے ہی بچھا دیا، حضور اکرم ﷺ نے صبح کو دریافت کیا کہ میرے نیچے رات کو کیا چیز بچھائی تھی ؟ میں نے عرض کیا کہ وہی روز مرہ کا بستر تھا رات کو اسے چوہرا کر دیا تھا کہ زیادہ نرم ہوجائے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس کو پہلے ہی حال پر رہنے دو، اس کی نرمی رات کو مجھے تہجد سے مانع ہوئی۔

آپ ﷺ سے چارپائی پر سونا ثابت ہے، آپ کی ایک چارپائی کے پائے ساگوان لکڑی کے تھے، اعتکاف کے ایام میں اسطوانہ ابولبابہ کے پاس آپ کی چارپائی بچھادی جاتی اور بستر لگا دیا جاتا۔

آپ ﷺ کی چارپائی کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی، آپ کے سرہانے چمڑے کا تکیہ ہوتا جس کا بھراؤ کھجور کی چھال تھی، اسی طرح آپ سے کھجور کی چٹائی پر بغیر بستر کے سونا بھی منقول ہے۔

بستر نبوی کے مختلف احوال 

۔💕کبھی کھجور کی چھال سے بنی ہوئی چارپائی پر بغیر بستر آرام فرمایا۔

۔💕کبھی کھجور کی چھال سے بنی ہوئی چارپائی پر بستر کے ساتھ آرام فرمایا۔

۔💕کبھی چمڑے کے ٹکڑے پر آرام فرمایا۔

۔💕کبھی کھجور سے بنی ہوئی چٹائی پر آرام فرمایا۔

۔💕کبھی زمین پر بغیر بستر کے آرام فرمایا۔

۔💕کبھی ریت پر آرام فرما ہوئے تو کبھی سیاہ چادر پر، کبھی کمبل پر آرام فرما ہوئے تو کبھی ٹاٹ کے بورئیے پر؛ البتہ عام معمول چارپائی پر بغیر بستر آرام فرمانے کا تھا

آپ ﷺ کی زندگی میں تعیشات نہ تھے، نرم اور گدے دار بستر کو پسند نہ فرماتے، رات کو سونے کے لئے علیحدہ لباس ہوتا تھا۔

۔💌حضور اکرم ﷺ کی گریہ و زاری : حضور اکرم ﷺ سے مختلف احوال پر گریہ و زاری کا ذکر ملتا ہے، جن میں سے چند یہ ہیں 

۔💕حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اس وقت آپ ﷺ کے رونے کی وجہ سے سینہ مبارک سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے ہنڈیا کا جوش ہوتا۔

۔💕حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ قرآن شریف سناؤ، میں نے عرض کیا کہ حضور! آپ ہی پر تو نازل ہوا ہے اور آپ ہی کو سناؤں؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ دوسرے سے سنوں، میں نے امتثال حکم میں سنانا شروع کیا اور سورة النساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا : [فکیف اذا جئنا من کل امة بشهید وجئنا بک علی ھٰؤلآء شهیدا] تو میں نے حضور اکرم ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا کہ دونوں آنکھیں گریہ کی وجہ سے بہہ رہی تھیں۔

۔💕آپ ﷺ کے زمانہ میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا، آپ ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز شروع فرمائی ، جس میں ہر ہر رکن بہت طویل ہوتا تھا، آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، اخیر سجدہ میں شدت غم اور جوش سے سانس لیتے رہے اور روتے رہے اور حق تعالیٰ شانہ کی بارگاہ عالی میں یہ عرض کرتے رہے کہ اے اللہ! تو نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میری موجودگی تک امت کو عذاب نہ ہوگا، اے اللہ! تو نے ہی یہ وعدہ کیا تھا کہ جب تک یہ لوگ استغفار کرتے رہیں گے عذاب نہیں ہوگا، اب ہم سب کے سب استغفار کرتے ہیں،جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب نکل چکا تھا۔

۔💕آپ ﷺ کی صاحبزادی یا نواسی کی وفات ہوئی تو آپ ﷺ کی باندی حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا چلا کر رونے لگیں، آپ ﷺ نے فرمایا کیا اللہ کے نبی کے سامنے ہی چلا کر رونا شروع کر دیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! آپ بھی تو رو رہے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ رونا ممنوع نہیں، یہ اللہ کی رحمت ہے (کہ بندوں کے قلوب کو نرم فرمائیں اور ان میں شفقت ورحمت کا مادہ عطا فرمائیں) پھر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مومن ہر حال میں خیر ہی میں رہتا ہے حتی کہ خود اس کا نفس نکالا جاتا ہے اور وہ حق تعالیٰ شانہ کی حمد کرتا ہے۔

۔💕آپ ﷺ اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی قبر پر تشریف فرما تھے اور آپ کے آنسو جاری تھے۔

۔💕حضور اکرم ﷺ نے اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات پر ان کو ان کی پیشانی پر بوسہ دیا، اس وقت حضور اکرم ﷺ کے آنسو ٹپک رہے تھے۔

۔💕ایک مرتبہ آپ ﷺ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، منہ مبارک رکھ کر خوب روتے رہے، جب ہٹے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو فرمایا کہ اے عمر! یہ آنسو بہانے کی جگہ ہے۔

۔💕اہل علم فرماتے ہیں کہ ایک رونا صالحین کا ہے جو یارب نفسی نفسی کی صدا لگاتے ہیں ، ایک رونا انبیاء سابقین علیہم السلام کا ہے جو یارب قومی قومی کی صدا لگاتے ہیں اور ایک رونا سید الانبیاء و المرسلین ﷺ کا ہے جن کی صدا ہے یا رب امتی امتی!! 

۔💕ایک روایت میں ہے کہ روؤ اور رونا نہ آئے تو رونے کی شکل بناؤ، ایک روایت میں یہ دعا آئی ہے کہ 

۔💎[[اللَّهمَّ ارزُقْني عينَيْن هطالتَيْن يشفيانِ القلبَ بذُروفِ الدُّموعِ من خشيْتِك قبل أن يكونَ الدَّمعُ دمًا والأضراسُ جمْرًا]]

اللہ کی محبت اور اس کے خوف سے رونے والی آنکھیں مانگنا سنت نبوی ہے



Comments