1491🌻) سلطان رکن الدین بیبرس

سلطان رکن الدین بیبرس 💐

وہ عالم اسلام کا ایک نایاب اور نامور سلطان تھا...وہ ان گنت زبانوں پر عبور رکھتا تھا...عربوں سے عربی میں،منگولوں اور تاتاریوں سے تاتاری زبان میں،یونانیوں سے یونانی میں،حبشیوں سے ان کی زبان میں،اس طرح دوسری اقوام سے ان کی زبان میں گفتگو بڑی روانی سے کرنے کا ماہر تھا...سلطان بننے سے پہلے وہ جگہ جگہ ایک غلام کی حیثیت سے دھکے کھاتا پھرتا تھا لہٰذا اس نے اس دوران میں مختلف زبانوں میں عبور حاصل کر لیا تھا...وقت کی آنکھ نے کبھی اسے ایک گڈریے کی صورت میں دشت قبچاق میں بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے دیکھا،آسمان نے کبھی اسے دمشق شہر میں بردہ فروشوں کی منڈی میں ایک غلام کی حیثیت سے بکتے دیکھا،کبھی اس نے دمشق اور مصر کے امراء کی نوکری اور چاکری کرتے ہوئے وقت گزارا اور کبھی رزم گاہ میں ایک صف شکن لشکری کے سنگ میں بھی دیکھا گیا...اور کبھی وقت کی تیز آنکھ نے اسے اسلامی لشکر کے سالار اعلیٰ کی حیثیت سے بھی دیکھا...مشہور امریکی مورخ اس کے متعلق لکھتا ہے؛اسے اپنے سوا کسی پر اعتبار نہ تھا اس لیے وہ بھیس بدل کر خود گشت لگاتا اور اپنے لیے دشمنوں کی خود ہی مخبری کرتا تھا...وہ اپنے ہم پیالہ،ہم نوالہ ساتھیوں کو چھوڑ کر تنہا نکل جاتا...کبھی اسے مصر میں دیکھا جاتا اور کبھی وہ دوسرے دن فلسطین میں نمودار ہوتا...چار دن بعد لوگ اسے عرب کے ریگزاروں میں دیکھتے اور اس کے چند دن بعد وہ خانہ بدوشوں کی سی تیز رفتاری سے کسی دوسری جگہ لوگوں کو دکھائی دیتا

جن دنوں وہ عالم اسلام کا سلطان بنا ان دنوں منگولوں نے مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر ان کے بیشتر علاقوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور ہلاکو خان مسلمانوں کے علاقوں میں دندناتا پھرتا تھا...ایک بار ایک منگول مغنی کے بھیس میں وہ اکیلا اور تنہا ہلاکو کی سلطنت میں داخل ہوا...کئی دن کے لگاتار سفر کے بعد وہ اس کے علاقوں میں داخل ہونے کے بعد قريہ قریہ بستی بستی اس کے علاقوں کی جاسوسی کرتا رہا...کیونکہ وہ مختلف زبانوں پر عبور رکھتا تھا لہٰذا کسی کو شک نہ ہوا کہ وہ مسلمان ہے یا مسلمانوں کا سلطان

ایک دن اس نے منگولوں کے ایک شہر میں ایک نان بائی کی دکان میں کھانا کھایا اور ایک برتن میں اپنی شاہی انگوٹھی اتار کر رکھ دی...اس کے بعد وہ اپنے علاقے میں واپس آگیا اور ایک قاصد ہلاکو خان کی طرف بھیجا اور اسے کہلایا؛میں تمہاری مملكت میں حالات کا معائنہ کرنے کے لیے فلاں فلاں جگہ گیا تھا...فلاں شہر میں فلاں نان بائی کی دکان پر اپنی شاہی انگوٹھی بھول آیا ہوں...مہربانی کر کے وہ انگوٹھی تلاش کر کے مجھے بھجوا دو کیونکہ وہ انگوٹھی مجھے بے حد عزیز ہے

ہلاکو خان مسلمانوں کے سلطان کی اس جرات اور جسارت پر ششدر رہ گیا...اور وہ اس کی دلیری سے ایسا مرعوب ہوا کہ اس کی انگوٹھی تلاش کر کے اس کی طرف بهجوا دی۔منگولوں کو جب خبر ہوئی کہ مسلمانوں کا سلطان خود بھیس بدل کر ان کے علاقوں میں داخل ہوا تھا تو مؤرخین لکھتے ہیں کہ منگولوں پر سلطان کی ہمت اور شجاعت کی وجہ سے ایک دہشت اور خوف طاری ہو گیا تھا...اور وہ سوچنے لگے تھے کہ جس سلطنت کا حکمران اتنا جری اور جرأتمند ہو،اس کے لشکریوں کا کیا عالم ہوگا اور ہم اس کا مقابلہ کیسے کریں گے

ان دنوں کیونکہ بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ مغرب کے صلیبیوں نے اپنے بڑے بڑے اڈے بنا لیے تھے جہاں سے نکل کر وہ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کی ابتدا کرتے تھے...ان میں زیادہ نامور انطاکیہ کا حاکم بوہیمنڈ تھا...سلطان ایک مرتبہ ایک نصرانی زائر کا بھیس بدل کر صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں جا داخل ہوا اور کئی ماہ تک ان کے عسکری استحکامات،قلعوں اور دوسرے اہم مقامات کا جائزہ لیتا رہا۔وہ تقریباً بائیس ایسے قلعے دیکھنے میں کامیاب ہو گیا جو ان دنوں صلیبیوں کی عسکری قوت کا مرکز تھے اور یہ سارا کام اس نے تن تنہا کیا...اس کے بعد اس نے ایک عجیب ستم ظریفی کی

اس نے ایک قاصد اور ایلچی کا بھیس بدلا اور جنگل میں ایک ہرن کا شکار کر کے وہ ہرن لے کر انطاکیہ کے بادشاہ بوہیمنڈ کے دربار میں جا داخل ہوا اور اسے وہ شکار پیش کرنے کے بعد کہنے لگا...عالی جاہ!مجھے مصر کے سلطان الملک ظاہر نے بھیجا ہے...پتہ چلا کہ آپ کیونکہ شکار کا بہت شوق رکھتے ہیں ان دنوں شکار کے قابل نہیں ہیں لہٰذا انہوں نے یہ تازہ شکار بطور ہدیہ بھیجا ہے...اسے قبول فرمائیے...میرے آقا آپ کے شکر گزار ہوں گے

کہتے ہیں کہ سلطان جب یہ گفتگو کرنے اور شکار انطاکیہ کے بادشاہ کے حوالے کرنے کے بعد وہاں سے نکل گیا تو چند دن بعد انطاکیہ کے بادشاہ پر کسی نے انکشاف کیا کہ جو شخص تمہارے پاس ہرن کا شکار لے کر آیا تھا وہ تو خود مسلمانوں کا سلطان تھا...اس انکشاف پر نصرانیوں کے بادشاہ بوہیمنڈ پر خوف اور لرزہ طاری ہوگیا تھا...ایسے ناقابل یقین معرکے سر انجام دینے والا مصر کا سلطان رکن الدین بیبرس تھا...سلطان بیبرس کا قد طویل تھا..اس کے اعضاء نہایت قوی اور متناسب تھے...انتہائی درجہ کا خوبرو اور خوش وضع تھا...چہرے سے رعب اور وقار ٹپکتا تھا...رنگ سرخ اور سفید تھا...بال سرخ اور آنکھیں نیلی تھیں...بعض مؤرخ یہ بھی کہتے ہیں کہ بچپن میں جب وہ غلام تھا تو اس کی ایک آنکھ خراب ہوگئی تھی...تاہم اس نقص نے سلطان کی خوبصورتی،اس کی خوش روئی اور وجاہت پر کوئی اثر نہ ڈالا تھا...سلطان بیبرس سن بارہ سو تئیس میں وسط ایشیاء میں پیدا ہوا...اس کی ولادت سے کئی سال قبل بلخ،بخارا اور سمرقند وغیرہ کے مسلمان تاجروں کی تبلیغی کوششوں کی بدولت وسط ایشیاء میں اسلام پھیل چکا تھا...بیبرس ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا اور اس کا نام محمود رکھا گیا

اس کا باپ خوارزم شاہی سلطنت میں ایک معزز عہدے پر فائز تھا...بد قسمتی سے حکمران وقت اس سے کسی بات پر ناراض ہو گیا اور اسے پابند سلاسل کر دیا...اس طرح یہ خوش حال خاندان گردش زمانہ کا شکار ہو گیا

جب منگولوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہونا شروع کیا تو انہوں نے جوانوں،بچوں اور عورتوں کو غلام بنا کر فروخت کرنا شروع کر دیا...غلامی کے لیے پکڑے جانے والے ان بچوں میں سلطان بیبرس بھی شامل تھا...سلطان کو بھی دمشق کی بردہ فروشوں کی منڈی میں لایا گیا...پہلی بار جس شخص نے اس کا سودا لگایا اس کے لیے اس نے سو درہم پیش کیے لیکن جب اس نے دیکھا کہ بچے کی نیلی آنکھوں میں سقم ہے تب اس نے وہ سودا منسوخ کر دیا اور سلطان کو خریدنے سے انکار کردیا...سلطان جس کا نام بچپن میں محمود تھا آخر جگہ جگہ دھکے کھاتا پھرا یہاں تک کہ ایک مصری امیر نے اسے خرید لیا...خریدنے والے امیر کا نام علی ابن ورفہ تھا...یہ  علی ابن ورفہ ایک دوسرے مصری امیر کا مقروض تھا...اس نے اس قرض کے عوض محمود کو اپنے قرض خواہ کے حوالے کر دیا

دوسرا امیر جس نے محمود کو خریدا تھا اس کی بیوی نے اپنے چھوٹے بچے کی دیکھ بھال محمود کے سپرد کر دی...بد قسمتی سے ایک دن محمود سے کوئی لغزش ہو گئی...اس پر اس کی مالکہ نے اسے مار مار کر ادھ موا کر دیا اور بری طرح اسے پیٹا

اس موقع پر اس امیر کی بہن بھی وہاں موجود تھی...اس کا نام فاطمہ تھا...اس نے جب محمود کو پٹتے ہوئے دیکھا تو اس کو اس لاوارث اور غلام بچے پر بڑا رحم آیا...اس نے انتہائی سختی سے اپنی بھاوج کو کہا...اگر تم اس غلام کے کام سے خوش نہیں ہو تو اس کو میرے سپرد کر دو

وہ عورت رضا مند ہو گئی اور فاطمہ محمود کو اپنے ساتھ دمشق لے گئی جہاں اس کا اپنا گھر تھا...فاطمہ کا ایک بڑا بیٹا تھا جو فوت ہو گیا تھا اور حسن اتفاق سے اس مرنے والے کی شکل محمود سے ملتی جلتی تھی...اس بنا پر فاطمہ نے اسے اپنے بیٹے کی حیثیت سے اپنے پاس رکھ لیا اور وہ محمود کی بجائے اسے بیبرس کہہ کر پکارنے لگی...یہ فاطمہ بیبرس کے ساتھ مادرانہ شفقت کے ساتھ پیش آتی،اس کا بڑا خیال رکھتی جس طرح اپنے بیٹے کی خدمت کیا کرتی تھی اسی طرح اس کی بھی خوب خدمت کی...فاطمہ نام کی اس عورت کا ایک بھائی تھا جو مصر کے سلطان الملک صالح نجم الدین ایوب کے دربار میں ایک معزز عہدے پر فائز تھا...ایک بار وہ اپنی بہن سے ملنے کے لیے دمشق آیا تو وہاں اس نے بیبرس کو دیکھا،اس کے حالات سنے...لڑکے کے اطوار اس کی عادات اسے اس قدر پسند آئیں کہ اس نے گزارش کرنے کے انداز میں فاطمہ سے بیبرس کو مانگ لیا...فاطمہ نے بیبرس کو اپنے بھائی کے حوالے کر دیا اور اس کا بھائی بیبرس کو دمشق سے قاہرہ لے گیا...اور وہاں اس نے بیبرس کو مصر کے سلطان الملک صالح کی نذر کر دیا

سلطان الملک صال نے بیبرس کے علاوہ اور بہت سے بلکہ بے شمار لاوارث بچوں کو خرید رکھا تھا اور ان کی تعلیم اور تربیت کے لیے اس نے خاص انتظامات کیے ہوئے تھے...بیبرس نے بھی الملک صالح کی سرپرستی میں کتابی علوم اور حربی فنون میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل کی...اس کے بعد وہ حسب دستور مصری لشکر میں بھرتی ہو گیا تھا

اپنی غیر معمولی جسمانی قوت،ذہانت اور وجاہت کی بدولت لشکر کے ایک دستے کا سالار مقرر کر دیا گیا...تا ہم اس وقت تک اس نے کوئی خاص شہرت حاصل نہ کی تھی

اتفاق سے اسی زمانے ساتویں صلیبی جنگ کی ابتدا ہو گئی...ساتویں صلیبی جنگ کی ابتدا فرانس کے بادشاہ لوئی نہم نے کی تھی...اس نے اپنے کام کی ابتدا اس طرح کی کہ مصر پر حملہ آور ہوا...وہ چاہتا تھا کہ پہلے مصر پر حملہ آور ہو اور آگے بڑھ کر پورے فلسطین پر قابض ہو جائے...جن دنوں فرانس کا بادشاہ مصر پر حملہ آور ہوا ان دنوں مصر کا حکمران الملک صالح تھا

اسے حالات کی ستم ظریفی کہیے کے جس وقت فرانس کا بادشاہ مصر پر حملہ آور ہوا اس وقت مصر کا سلطان الملک صالح بری طرح بخار میں مبتلا تھا...بیمار تھا حرکت نہیں کر سکتا تھا تا ہم اس حالت میں بھی وہ منصورہ کے میدانوں میں فرانسیسیوں کے سامنے آیا...اس کی ملکہ شجرة الدر اس موقع پر اس کے ساتھ تھی کیونکہ سلطان بیمار تھا...شجرة الدر ایک نہایت زیرک بلند حوصلہ اور بڑی شجاع خاتون تھی

جن دنوں لوئی نہم مصر کی سرزمینوں میں داخل ہوا بد قسمتی سے مصر کا سلطان الملک صالح فوت ہو گیا...کیونکہ فرانسیسی حملہ آور ہو چکے تھے لہٰذا  شجرة الدر نے سلطان کی موت کو مخفی رکھا کسی پر ظاہر نہیں کیا اور اس کے بیٹے توران شاہ کو جو اس وقت حصن طیفہ کے مقام پر قیام کیے ہوئے تھا،منصورہ کے میدان میں بلا لیا...یہ  شجرة الدر کی بڑی فراخدلی تھی...توران شاہ گو سلطان کا بیٹا تھا لیکن اس کی دوسری بیوی سے تھا  شجرة الدر کا سوتیلا بیٹا تھا...اپنی سوتیلی ماں کے طلب کرنے پر توران شاہ منصورہ پہنچ گیا...منصورہ میں فرانسیسیوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑا...جس وقت فرانسیسی اور مصری لشکر ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اس وقت لوگوں نے دیکھا ایک انتہا درجے کا جفاکش اور دراز قد نوجوان ایک گھوڑے پر سوار ہو کر برق کے کوندوں کی صورت اپنا نیزہ ہلاتا ہوا صلیبیوں پر حملہ آور ہوتا تھا اور اپنے پیچھے دشمن کی لاشوں کے انبار لگاتا چلا جاتا تھا۔فرانسیسی جب اس کو حملہ آور ہوتے دیکھتے تو خوف کے مارے پیچھے ہٹ جاتے تھے...اس طرح اس نے اپنے کئی حملوں کی وجہ سے فرانسیسیوں کی ان گنت صفوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا تھا...اس نوجوان نے اپنے جانبازانہ حملوں سے فرانسیسی لشکر کے اندر ایک تہلکہ برپا کر کے رکھ دیا تھا...یہ انقلاب برپا کرنے والا شہسوار سلطان الملک صالح کا غلام بیبرس ہی تھا...منصورہ کے میدانوں میں لڑی جانے والی اس جنگ میں اس نے اپنی عسکری صلاحیتوں اور جرأت و شجاعت کا ایسا بھر پور مظاہرہ کیا کہ وہ سب مسلمانوں کی نگاہوں کا مرکز بن گیا...منصورہ میں لڑی جانے والی جنگ میں مصریوں کے ہاتھوں فرانسیسیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور فرانس کا بادشاہ لوئی نہم بھی گرفتار کرلیا گیا...انہی جنگوں کے دوران نیا بادشاہ توران شاہ بھی جنگ لڑتے لڑتے مارا گیا...جس کے بعد کثرت رائے سے لشکر کے سالاروں نے ملکہ  شجرة الدر کو الملکتہ المسلمین کے نام سے مصر کی حکمران بنا لیا

فرانس کی جنگ کے دوران پکڑے جانے والے بادشاہ لوئی نہم سے مسلمانوں نے بڑی فراخدلی کا سلوک کیا...اگر مسلمان چاہتے تو قیدی کی حیثیت سے اسے قتل بھی کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا...پہلے فرانس کے بادشاہ کو مصر میں نظر بند کر دیا گیا اس کے بعد مسلمانوں نے مزید فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرانس کے بادشاہ اور اس کے ساتھ قید ہونے والے فرانسیسیوں کو رہا کر دیا...ملکہ شجرة الدر جو اب مصر کی حکمران تھی اس نے مصر پر تقریباً اسی دن حکومت کی ہو گی...اس دوران اس نے غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا...کاروبار حکومت کو اس نے نہایت عمدگی سے چلایا لیکن عباسی خلیفہ بغداد المتعصم باللہ نے عورت کی حکومت کو پسند نہ کیا اور مصری امراء کو پیغام بھجوایا کہ عورت کی بجائے مصر کا حاکم کسی مرد کو بنائیں

چنانچہ خلیفہ بغداد کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے ایک شخص الملک اشرف کو مصر کا بادشاہ بنایا گیا اور مصری لشکریوں کے سالار اعلیٰ معزز الدین کو نئے حکمران الملک اشرف کا شریک کار بنایا تا کہ سلطنت کا کاروبار احسن طریقے سے چلایا جائے...یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملکہ شجرة الدر نے نئے حکمران الملک اشرف سے شادی کر لی تھی...شجرة الدر بذات خود بے چاری ایک کنیز تھی...اور اپنے حسن و جمال اور اپنی شخصیت کے باعث کنیز سے ترقی کرتے کرتے وہ مصر کے حکمران الملک صالح کی ملکہ بن گئی تھی...اس کا ایک بیٹا خلیل نام کا تھا جو  چھ سال کی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا...جس وقت الملک اشرف کو مصر کا بادشاہ بنایا گیا اور مصر کے لشکر کے سپہ سالار کو سلطان کا شریک کار اور مدد گار مقرر کیا گیا تب بیبرس کو مصر میں لشکریوں کے بڑے سالار کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی

جن دنوں بیبرس کو مصر میں لشکریوں کا سالار اعلیٰ مقرر کیا گیا ان دنوں عالم اسلام کی حالت بڑی تشویش ناک تھی...منگول جو اپنے آپ کو قہر خدا وندی سمجھتے تھے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہوتے ہوئے انہوں نے بخارا،سمرقند،بلخ،نیشاپور،ہرات،رے،قزوین اور دوسرے بے شمار شہروں اور قصبوں کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔وہاں کے باشندوں میں اکثر کو انہوں نے بے دردی سے تہہ تیغ کیا...اس قتل عام میں مرد،بچے،بوڑھے ،بیمار معذور کسی کی تخصیص نہ تھی...جو لوگ کسی طرح قتل ہونے سے بچ گئے ان کو غلام بنا لیا گیا

پہلے چنگیز خان مسلمانوں پر یلغار کرتا رہا...اس کے بعد اس کا پوتا ہلاکو خان عالم اسلام پر چڑھ دوڑا اور ایک جرار لشکر کے ساتھ اسلامی ممالک پر اس ہولناک یلغار کا آغاز کیا جس نے عباسی خلافت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر رکھ دیا

ہلاکو خان بغداد پر حملہ آور ہوا...بغداد کی اس نے اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی اور عباسی خلیفہ کو اس نے قتل کر دیا...بغداد شہر کا تباہ ہونا اور خلیفہ کا قتل ہونا کوئی معمولی سانحہ نہیں تھا...اس سے عالم اسلام میں کہرام مچ گیا کیونکہ عباسی خلیفہ کی کمزوری کے باوجود اسے روحانی طور پر ساری اسلامی دنیا کا فرمانروا سمجھا جاتا تھا...اور بڑے بڑے باجبروت مسلمان حکمران اور فاتح اس کے سامنے گردنیں جھکاتے تھے...اس سے خلعت اور سند حکومت حاصل کرنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے

خلیفہ کو قتل اور بغداد کو برباد کرنے کے بعد ہلاکو کا لشکر عراق کے دوسرے شہروں کی طرف بڑھا...تباہی اور بربادی،خوں ریزی اور جہالت ہر طرف پھیلاتے چلے گئے...چند دن کے اندر الریا،نصیبین اور حران کے با رونق شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی...اور وہاں کے باشندوں کو نہایت بے دردی سے قتل کیا

جس وقت ہلاکو خان بغداد عراق کے دوسرے شہروں کو برباد کر چکا تب وہ شام کی سرزمینوں میں داخل ہوا...وہاں بھی لرزہ خیز واقعات کا اعاده کیا...اب منگول عراق اور شام میں دندناتے پھر رہے تھے اور ان کی نگاہیں اب مصر پر جم گئی تھیں...اس لیے شام کو فتح کرنے کے بعد فلسطین سے ہوتے ہوئے وہ مصر کا رخ کرنا چاہتے تھے

مصر میں اس وقت چونکہ حکمران نو عمر سلطان تھا لہٰذا سارے سالاروں نے آپس میں مشورہ کیا کہ عنقریب منگول مصر پر حملہ آور ہونے کی ابتدا کر دیں گے...لہٰذا مصر کا سلطان کسی تجربہ کار شخص کو بنانا چاہیے چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ معزز الدین جو اس سے پہلے نو عمر سلطان کا ایک طرح سے شریک کار اور مدد گار تھا اسے مصر کا سلطان بنا دیا گیا اور بیبرس کو مصر کے سارے لشکروں کا سالار اعلیٰ رکھا گیا...معزز الدین ملک مظفر کے نام سے مشہور ہوا

دوسری طرف منگول عراق اور شام کو پامال کرتے ہوئے فلسطین میں نمودار ہوئے...فلسطین میں اپنے قدم جمانے کے بعد اب ان کی نگاہیں مصر پر جم چکی تھیں اور وہ ہر صورت میں مصر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اس لیے کہ فلسطین اور مصر کے درمیان صحرائے سینا نام کا ایک چھوٹا سا ریگستانی ٹکڑا ہی حائل تھا اور منگولوں کو پختہ یقین تھا کہ وہ اس صحرائی ٹکڑے کو پار کر کے فرعونوں کی سرزمینوں میں قدم رکھ کر وہاں بھی قابض ہو جانے میں کامیاب ہو جائیں گے...وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ اب مسلمانوں کی بجائے دریائے نیل میں ان کی کشتیاں چلا کریں گی...

منگولوں کی اس یلغار کو روکنے کے لیے اب مصر کا نیا سلطان ملک مظفر اور سالار اعلیٰ بیبرس دونوں مل کر اپنے لشکر کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ان کی تربیت کا کام بھی سرانجام دینے لگے تھے...

آخر فلسطین میں قدم جمانے کے بعد ہلاکو نے مصر پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا...اس نے مصر کے سلطان کے نام ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا...یہ اس کا فرمان ہے جو ساری دنیا کا آقا ہے اپنی شہر پناہیں منہدم کر دو،اطاعت قبول کر لو اور اگر ایسا کرو گے تو تمہیں امن اور چین سے زندہ رہنے دیا جائے گا...اگر تم نے یہ بات نہ مانی تو پھر تم کو جو کچھ پیش آئے گا وہ بلند بالا اور جادوانی آسمان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا...

منگول ارواح پرست تھے...ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات کی ہر شے ایک روح رکھتی ہے...نیک اور بد روحوں کو انسانوں کی زندگی پر بڑی حد تک غلبہ حاصل ہے...جادوانی بلند اور بالا آسمان کی روح ان کے ہاں سب سے بڑی اور طاقتور خیال کی جاتی تھی اسی بناء پر منگول اس کی قسم کھایا کرتے تھے...

ہلاکو خان کا یہ خط لے کر اس کے سفیر مصر میں داخل ہوئے کیونکہ ابھی تک کسی مسلمان حکمران نے ان کی اکڑی ہوئی گردن میں خم نہیں ڈالا تھا لہٰذا وہ بڑے اکڑ کر چل رہے تھے...ان کا رویہ انتہائی درجہ کا گستاخانہ تھا اور جب انہیں مصر کے سلطان معزز الدین کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے آداب شاہی کا خیال کیے بغیر ہلاکو خان کا خط معزز الدین کے سامنے پھینک دیا جو ملک مظفر کے نام تھا جو مصر کا سلطان تھا...

اس موقع پر مصر کے سلطان ملک مظفر کی آنکھیں غصے میں شعلے برسا گئی تھیں تا ہم اس نے کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا صبر کیا...اس وقت بیبرس لشکر کے سالار اعلیٰ کی حیثیت سے اس کے قریب بیٹھا ہوا تھا وہ بھی اپنے رد عمل کا اظہار کرنا چاہتا تھا لیکن صبر اور تحمل سے کام لے گیا...

ہلاکو کا خط سن کر مصر کے سلطان ملک مظفر نے ہلاکو خان کے سفیروں سے کہا...ہم نے ہلاکو خان کا کچھ نہیں بگاڑا اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ مصر کو اپنے حال پر چھوڑ دے...ہمارے امن و امان میں خلل نہ ڈالے...

اس پر ہلاکو خان کے ان سفیروں میں سے ایک جو ان کا سرکردہ تھا غصے میں لال بھبھوکا ہو گیا چلا کر کہنے لگا...کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارا وہی حشر ہو جو بغداد کے مغرور خلیفہ کا ہو چکا ہے...اچھی طرح سمجھ لو کہ ہمارے آقا کی قوت لامحدود ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس سے ٹکر نہیں لے سکتی...وہ خوب جانتا ہے کہ تم جیسے خود سر حکمران اور ان کی رعایا سے کیا سلوک کرنا چاہیے...

مصر کے سلطان ملک مظفر نے ان سفیروں کو بڑا سمجھایا کہ اپنی روش سے باز آجائیں لیکن ان کا لب و لہجہ ناقابل برداشت ہوتا چلا گیا...اس موقع پر ملک مظفر نے اپنے بہت سے سالاروں سے مشورہ کیا کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟اکثر سالاروں کی رائے یہ تھی کہ منگولوں کی غیر مشروط اطاعت قبول کر لینی چاہیے اسی میں بہتری اور بھلائی ہے...

اپنے سالاروں کے ان الفاظ پر بیبرس آتش فشاں کی طرح بھڑک اٹھا اور ہلاکو خان کے سفیروں کے سامنے چھاتی تانتے ہوئے اور جرات مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا مصر مسلمانوں کی آخری امید گاہ ہے اور اس کی حفاظت کے لیے ہم سر سے کفن باندھ کر لڑیں گے

مصر کے سلطان ملک مظفر نے جب دیکھا کہ لشکروں کا سالار اعلیٰ اپنی جرات مندی اور جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آتش فشاں کی طرح بھڑک اٹھا ہے اور وہ ہر صورت میں منگولوں کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تب سالار اعلیٰ بیبرس کے ان الفاظ سے اس کے عزم و یقین میں بھی پختگی آگئی لہٰذا بیبرس کی وجہ سے اس نے غضب ناک ہو کر حکم دیا...ان منگول کتوں کی زبانیں گدی سے کھینچ لی جائیں۔ان کا خاتمہ کر دو اور ہماری طرف سے ہلاکو خان کے لیے یہی جواب ہے...

سلطان کا اشارہ پاتے ہی وہاں جو مسلح جوان کھڑے تھے وہ ہلاکو خان کے سفیروں پر جهپٹ پڑے اور آناً فاناً انہیں خاک و خون میں لوٹا کر رکھ دیا...اس کے بعد ہلاکو خان کے ان سفیروں کی لاشیں شہر کی اہم گزر گاہوں پر لٹکا دی گئی تھیں...سلطان ملک مظفر اور بیبرس کے ایسا کرنے سے مسلمانوں میں جو منگولوں کا خوف تھا،وہ جاتا رہا اور وہ منگولوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے...اہل مصر نے منگول سفیروں کو ہلاک کر کے گویا ہلاکو خان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا...اب اہل مصر کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ لڑ کر فتح حاصل کریں یا اپنی جانیں قربان کر دیں۔ان حالات میں مصر کے سلطان الملک مظفر نے منگولوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سارے اختیارات اپنے سالار امیر بیبرس کے حوالے کر دیے تھے... 

امیر رکن الدین بیبرس سے متعلق مؤرخین لکھتے ہیں...وہ ایک کمال کا انسان،ایک بانكا لشکری اور نڈر سپہ سالار تھا۔منگولوں کی طاقت اور قوت کے افسانے سن کر وہ اکثر قہقہے لگایا کرتا تھا اور کہتا تھا۔وقت آنے دو ہم ان مغرور وحشی منگولوں کو بتا دیں گے کہ صرف وہی لڑنا نہیں جانتے...دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کا پنجہ مروڑ سکتے ہیں... 

منگول سفیروں کو قتل کرنے کے بعد مصر کے سلطان ملک مظفر نے امیر رکن الدین بیبرس سے وعدہ کیا کہ اگر وہ منگولوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا تو وہ لشکریوں کے سپہ سالار کے عہدے کے علاوہ مصر کا حاکم بھی مقرر کر دیا جائے گا...

بہر حال امیر رکن الدین بیبرس نے منگولوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگ کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔وہ دن رات تیاری میں لگا رہا...اس نے قاہرہ کے ہر تندرست اور بالغ مرد کے لیے عسکری خدمت لازمی قرار دے دی اور حکم جاری کر دیا کہ جو کوئی بھی معقول عذر کے بغیر لشکر میں بھرتی ہونے سے گریز کرے گا اس کو کوڑے لگائے جائیں گے...

اہل قاہرہ کے علاوہ رکن الدین بیبرس نے اپنے لشکر میں ان پناہ گزین ترکمانوں،عرب بدوؤں اور دوسرے قبائل کو بھی بھرتی کرنا شروع کر دیا تھا جو اس سے پہلے منگولوں کے ہاتھوں نقصان اٹھا چکے تھے اور یہ لوگ بڑے نڈر اور اعلیٰ درجے کے جنگجو تھے جن کی شجاعت پر ہر حال میں بھروسہ کیا جا سکتا تھا...چند ہی دنوں میں رکن الدین بیبرس کے پاس ایک جرار لشکر تیار ہو گیا...اس لشکر میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو منگولوں کے ہاتھوں ستائے گئے تھے یا غلام بنائے گئے تھے،بکتے بكاتے مصر پہنچ گئے تھے اور اب وہ منگولوں سے انتقام لینے کے لیے فن حرب و ضرب میں کمال درجے کی مہارت حاصل کر چکے تھے۔دراصل یہی وہ لوگ تھے جو منگولوں کے آس پاس آباد تھے جو ان کے جنگی طریقوں سے واقف تھے اور منگولوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت اور جرات بھی رکھتے تھے...

جن دنوں امیر رکن الدین بیبرس قاہرہ میں اپنی جنگی تیاریوں میں مصروف تھا انہی دنوں ہلاکو خان فلسطین میں قیام کیے ہوئے تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ اس کا بھائی منگو خان جو اس وقت منگولوں کا خان اعظم تھا وفات پا گیا ہے لہٰذا اس کا جانشین نامزد کرنے کے لیے سارے منگول سرداروں اور سربراہوں کو آبائی دشت میں طلب کر لیا گیا ہے۔

ہلاکو خان کو جب یہ پیغام پہنچا تو اس نے اپنے آبائی دشت کی طرف جانے کا ارادہ کر لیا...اس موقع پر اس کے سپہ سالار قط بوغا اور اس کی بیوی دقوزہ خاتون نے اصرار کیا کہ مسلمانوں کے خلاف ہماری یلغار جاری رہنی چاہیے...رہا سوال خان اعظم منگو خان کا تو وہ اب مر چکا ہے...دقوزہ خاتون جو ہلاکو خان کی بیوی تھی،بنیادی طور پر عیسائی تھی اور مسلمانوں کی تباہی اور بربادی چاہتی تھی لہٰذا وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہلاکو خان واپس جائے...وہ یہ عزم کیے ہوئے تھی کہ ہلاکو کو مصر پر حملہ آور ہونا چاہیے۔اس موقع پر اس نے ہلاکو کو یاد کرایا کہ جس وقت اس کے بھائی منگو خان نے اسے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ کیا تھا تو اس نے حکم دیا تھا کہ ہر صورت مصر کا خاتمہ کر دینا...

لیکن ہلاکو خان نے اپنے سپہ سالار قط بوغا اور اپنی بیوی کی بات نہیں مانی۔اس نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔وہ چاہتا تھا کہ اپنے لشکر کا ایک حصہ ساتھ لے کر جائے...اس نے یہ بھی وجہ پیش کی کہ اس وقت میرا واپس جانا ضروری ہے اس لیے کہ ان دنوں راستے میں گھوڑوں کے لیے خوراک کی صورت میں گھاس مل جائے گی اور اگر میں نے واپس جانے میں تاخیر کی تو سرما کا موسم شروع ہو جائے گا...گھاس ختم ہو جائے گی اور راستے میں مجھے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا...

بہر حال ہلاکو نے واپس جانے کا ارادہ کر لیا اور واپس جاتے وقت اس نے اپنے سپہ سالار قط بوغا سے کہا....میرے بعد اس علاقے کی نگہداری تمہارے ذمے ہے جب تک میں واپس نہیں آتا تم یہیں رہو گے...کہیں پیش قدمی نہ کرنا تمہارے ماتحت منگولوں کا ایک بہت بڑا لشکر ہے اس کے علاوہ آرمینیا اور گرجستان کے عیسائی بھی ہزاروں کی تعداد میں تمہارے ساتھ ہے لہٰذا ان سب کے ساتھ مل کر فتح کیے ہوئے علاقوں کی حفاظت کرنا...قط بوغا نے ہلاکو خان کے حکم کے سامنے سر جھکا دیا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جو فرض اسے سونپا گیا ہے وہ دل و جان سے اسے پورا کرے گا...

اس کے بعد ہلاکو خان لشکر کا ایک حصہ لے کر اپنے آبائی وطن صحرائے گوبی کی طرف روانہ ہو گیا۔اب شام و عراق مکمل طور پر اس کے سالار قط بوغا کی گرفت میں تھے...

قط بوغا ہلاکو کا نہایت قابل اعتماد جرنیل تھا اور مسلمانوں کے علاقوں کو پامال کرنے میں اس نے خاص حصہ لیا تھا...وہ ایک شقی القلب انسان تھا اور اس کی بربریت کے افسانے سارے عالم اسلام میں مشہور تھے...ہلاکو خان کے جانے کے بعد اس قط بوغا نے اپنے لشکر کے ساتھ عین جالوت کے مقام پر پڑاؤ کر لیا تھا اور یہ مقام فلسطین کے مشہور شہر ناصرہ کے قریب تھا...یہ مقام اس کے لیے بڑا مناسب تھا اس لیے کہ وہاں قیام کر کے وہ ایک طرف شام اور عراق پر اپنا تسلط مؤثر طور پر رکھ سکتا تھا اور دوسری طرف جب چاہے مصر کی طرف بھی بڑھ سکتا تھا...

مصر میں امیر رکن الدین بیبرس کو بھی خبر ہو گئی کہ ہلاکو خان واپس اپنے آبائی دشت چلا گیا ہے لہٰذا اس نے ایک ایسا بڑا فیصلہ کیا جو اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا...مصری تو یہ خیال کر رہے تھے کہ وہ منگولوں کے سامنے اپنی سرزمینوں کا دفاع کریں گے لیکن اس موقع پر امیر رکن الدین بیبرس نے اعلان کیا...ہمارا لشکر آگے بڑھ کر ہلاکو خان کے سپہ سالار کے لشکر سے نبرد آزما ہو گا... اس وقت رمضان کے مہینے کا آغاز ہو چکا تھا۔بیبرس کے اعلان نے اس کے لشکریوں کو اس مقدس مہینے میں منگولوں کے خلاف جنگ کرنے کی افضل ترین عبادت سے سعادت اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا...چنانچہ لوگوں نے بڑی خوشی سے رکن الدین بیبرس کے اس فیصلے کو قبول کر لیا لہٰذا ركن الدین اپنے لشکر کو لے کر بڑی تیزی سے فلسطین میں داخل ہوا...

ان دنوں عیسائی دنیا کیونکہ مسلمانوں کے خلاف منگولوں کا ساتھ دے رہی تھی اور بحیرہ روم کے کنارے کنارے نصرانیوں کے بہت سے قلعے بھی تھے لہٰذا اپنے لشکر کے کچھ حصے رکن الدین نے ان قلعوں کے قریب ہی متعین کر دیے تا کہ ان قلعوں میں جو مسلح صلیبی جنگجو ہیں وہ اپنے قلعوں سے نکل کر مسلمانوں کے خلاف منگولوں کی مدد نہ کر پائیں

رکن الدین بیبرس پندرہ رمضان ہجری چھ سو اٹھاون اور پچیس اگست سن بارہ سو ساٹھ کو عین جالوت کے مقام پر منگولوں کے سامنے آیا...کہتے ہیں عین جالوت کے مقام پر مسلمانوں اور منگولوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا...اس جنگ کی وجہ سے اتنا شور اٹھا کہ ارض و سماں کانپ اٹھے...امیر رکن الدین بیبرس نے اس معرکے میں حیرت انگیز عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کیا...اور منگولوں کے ساتھ ٹکرانے سے پہلے ہی اس نے لشکر کے چند انتہائی تربیت یافتہ دستوں کو گھات میں بٹھا دیا تھا...

پہلے اپنے ہلکے پھلکے دستوں کو اس نے آگے بڑھایا انہیں خوب پھیلا دیا...منگولوں نے اپنی پوری طاقت اور قوت سے پہلے ان مصری سواروں پر حملہ کیا...انہیں دھکیلتے ہوئے اندھا دھند آگے بڑھنے لگے تھے...اور یہ سب بیبرس کی تجویز کے مطابق ہو رہا تھا...اس نے پہلے ہی اپنے سواروں کو تاکید کر دی تھی کہ وہ جم کر منگولوں کا مقابلہ نہ کریں بلکہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہو جائیں...

چنانچہ انہوں نے اسی کے مطابق عمل کیا...جب منگول ان پر حملہ آور ہوئے تو وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ وہ وہاں آگئے جہاں رکن الدین بیبرس نے اپنے لشکر کا ایک حصہ گھات میں بٹھا رکھا تھا...اور وہ حصہ منگولوں پر حملہ آور ہونے کے لیے بے چین اور بے تاب تھا...

یکایک گھات میں بیٹھا ہوا وہ لشکر تکبیریں بلند کرتا ہوا نکلا اور منگولوں پر ٹوٹ پڑا...

اس سے قبل کہ منگول اپنے آپ کو سنبھالتے مصر کے وہ لشکری جو پیچھے ہٹے تھے وہ بھی بے مثال جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منگولوں پر ٹوٹ پڑے تھے...ہلاکو خان کے سالار قط بوغا نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ اپنے لشکر کو سنبھالے لیکن اس کی ساری تدبیریں ناکام ہوئیں...مسلمانوں کے تیز اور تند حملوں نے منگولوں کے لشکر کے پرخچے اڑا دیے...منگولوں کے لشکر میں جو گرجستانی اور آرمینیا کے عیسائی دستے تھے ان کا سب سے برا حشر ہوا...مسلمان حملہ آوروں نے انہیں مکمل طور پر روند کر رکھ دیا...تھوڑی ہی دیر میں سلطان ركن الدین بیبرس نے اپنے لشکر کے ساتھ منگولوں کا اس قدر قتل عام کیا ان کی ایسی کمر توڑی کہ انہیں تقریباً روند کر رکھ دیا اور انہیں ایسا چرکہ لگایا کہ پچھلے چالیس سالوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی تھی... 

منگولوں کا سپہ سالار اعلیٰ قط بوغا اس جنگ میں سلطان رکن الدین بیبرس کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا تھا...

یہ درندہ صفت منگول سالار مسلمانوں پر بے پناہ مظالم توڑ چکا تھا اور کسی رعایت کا مستحق نہیں تھا...اسے جب رکن الدین کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ رکن الدین کو مخاطب کر کے کہنے لگا...مسلمانوں نے میدان جیت لیا تو کیا ہوا؟

کیا منگولوں کی گھوڑیوں نے بچے جننا چھوڑ دیے ہیں؟

کیا ان کی عورتیں بانجھ ہو گئی ہیں؟

میرے مرنے کے بعد منگول شہسوار اس شکست کا بدلہ ضرور لیں گے اور تمہیں اور تمہارے ملک کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے کچل کر رکھ دیں گے... 

رکن الدین بیبرس منگولوں کے سپہ سالار کے ان الفاظ پر طنزیہ مسکرایا...اس کا سر کاٹ کر رکھ دیا اور اس کا کٹا ہوا سر نمائش کر کے قاہرہ بھیج دیا گیا...اس کے ساتھ ہی جو بڑے بڑے منگول سالار جنگ میں گرفتار کیے گئے تھے ان کے پاؤں میں بیڑیاں پہنا کر قاہرہ بھیجا گیا...جہاں ان کو گلیوں میں پھرا کر تہہ تیغ کر دیا گیا...اس طرح منگول جن کے متعلق مشہور تھا کہ کوئی ان کو شکست نہیں دے سکتا سلطان رکن الدین بیبرس نے انہیں شکست دے کر انہیں ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچایا...

عین جالوت کی اس جنگ کا شمار تاریخ کی فیصلہ کن جنگوں میں کیا جاتا ہے...اگر اس جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہو جاتی تو دنیا میں ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہ رہتی اور ان کی تہذیب اور ثقافت،تمدن اور تاریخ بالکل برباد ہو جاتی...چنانچہ تمام عالم اسلام میں اس فتح پر بے پناہ مسرت کا اظہار کیا گیا اور شکرانے کی نمازیں پڑھی گئیں 

ہلاکو خان کو اپنے سالار قط بوغا کی شکست کی خبر اس وقت پہنچی جب وہ اپنے آبائی دشت صحرائے گوبی کی طرف جا رہا تھا..اور اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ صحرائے گوبی سے پلٹ کر وہ مصر پر حملہ آور ہوگا اور مصر کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گا...

دوسری طرف امیر رکن الدین بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں کو شکست دے کر ان کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی لیکن اس کا کام ابھی نامکمل تھا..اس لیے کہ منگولوں کو عین جالوت میں شکست دینے کے باوجود وہ دیکھ رہا تھا کہ حلب،حماة، دمشق اور اس طرح اور بہت سے دوسرے مسلمانوں کے شہروں میں منگول دندناتے پھر رہے تھے...اب رکن الدین بیبرس اپنے لشکر کے ساتھ حرکت میں آیا...ایک طوفانی یلغار میں وہ شام کے مختلف شہروں میں جو منگول تھے ان پر حملہ آور ہوا اور انہیں تابڑ توڑ اور لگاتار شکستیں دیں اور ان کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا 

اپنی اس طوفانی مہم میں بیبرس نے ان تمام غدار مسلمانوں کا بھی خاتمہ کر دیا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہلاکو خان سے تعاون کیا تھا اور اس کی کامیابیوں میں اس کے معاون ثابت ہوئے تھے...اس طرح چند دن کے اندر اندر رکن الدین بیبرس نے شام کے تمام شہروں سے منگولوں کا صفایا کر دیا...

وہ یہ بھی جانتا تھا کہ عنقریب ہلاکو پلٹے گا اور مسلمانوں سے انتقام لے گا لہٰذا وہ بھی اپنے لشکر کی تعداد بڑھانا چاہتا تھا...لشکر کو مزید مظبوط اور مستحکم کرنا چاہتا تھا لہٰذا اپنے کچھ سالاروں اور لشکریوں کو اس نے ارض شام میں ہی چھوڑا اور خود واپس قاہرہ کی طرف چلا گیا...قاہرہ میں ان دنوں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا وہ یہ کہ جس وقت امیر رکن الدین بیبرس نے شام اور فلسطین سے منگولوں کا قتل عام کر کے ان کو نکال باہر کیا تو مصر کے سلطان ملک مظفر نے ایک شخص بدر الدین لولو کے بیٹے علاؤ الدین کو حلب کا حاکم مقرر کر دیا...چونکہ بغداد پر حملے کے وقت بدر الدین لولو نے ہلاکو کا ساتھ دیا تھا لہٰذا یہ صورت حال دیکھتے ہوئے بہت سے امراء ملک مظفر کے خلاف ہو گئے لہٰذا انہوں نے اس کا خاتمہ کر دیا اور اس کی جگہ رکن الدین بیبرس کو اپنا سربراہ اور سلطان منتخب کر لیا...اس طرح سترہ ذی قعد ہجری پانچ سو پچاسی سن بارہ سو ساٹھ کو رکن الدین بیبرس مصر کا سلطان بنا...اس کی تخت نشینی کے اعلان پر اہل مصر نے بڑے اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا اس لیے کہ رکن الدین بیبرس نے پہلے منصورہ اور غزہ میں فرانسیسیوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے مصر کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا اور اب عین جالوت میں منگولوں کو عظیم الشان شکست دے کر وہ تمام عالم اسلام بالخصوص اہل مصر کی آنکھ کا تارا بن چکا تھا...چنانچہ جب اسے سلطان بنایا گیا تو اہل مصر نے والہانہ جوش و خروش سے نہ صرف سلطان کی حیثیت سے اس کا استقبال کیا بلکہ اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگی گئیں...دراصل عین جالوت کی فتح نے مصر اور شام میں رکن الدین بیبرس کی ہر دل عزیزی کو اوج کمال تک پہنچا دیا تھا...مصر کے عوام سمجھتے تھے کہ بیبرس کے جذبہ جہاد،شجاعت اور اعلیٰ کردار کی بدولت انہیں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور وہ یہ بھی خیال کرتے تھے کہ سلطان رکن الدین بیبرس ہی منگولوں اور صلیبیوں نبٹنے اور عوام کی امنگوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے...سلطان رکن الدین بیبرس کیونکہ پہلے غلام تھا لہٰذا وہ خود اور اس کے بعد جس قدر اس کے جانشین ہوئے انہیں غلام یا مملوک فرمانروا کہہ کر پکارا جاتا ہے...مصر کا سلطان بننے کے بعد بیبرس نے اپنا لقب الملک ظاہر رکھا چنانچہ تاریخ کے اوراق میں سلطان کو زیادہ تر الملک ظاہر کے نام سے ہی یاد کیا گیا ہے...

مصر کا سلطان بنتے ہی رکن الدین بیبرس نے سلطنت کے اندر تمام مفاسد کا قلعہ قمع کر کے رکھ دیا جو اس سے پہلے پیدا ہو چکے تھے اور خصوصیت کے ساتھ ملک مظفر کے عہد حکومت میں پیدا ہوئے تھے...چنانچہ اس نے کسی تاخیر کے بغیر ہر قسم کے ناجائز ٹیکسوں اور محصولات کو ختم کر دیا...تمام شراب خانوں،قحبہ خانوں اور قمار بازی کے اڈوں کو سختی کے ساتھ بند کروا دیا... 

تخت نشین ہونے کے بعد سلطان بیبرس کے سامنے اہم مسئلہ شام کو منگولوں کے خطروں سے محفوظ رکھنا تھا کیونکہ خدشہ تھا کہ وہ عین جالوت کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کسی بھی وقت شام پر حملہ آور ہو سکتے تھے...اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ شام کی بقا کا انحصار مصر سے مکمل الحاق پر ہے اور جب تک وہ تمام حکام اور رؤسا جو شام میں متعدد چھوٹی چھوٹی املاک اور ریاستوں پر قابض تھے مصر کی بالا دستی تسلیم نہیں کر لیتے اس وقت تک شام ہمیشہ منگولوں اور صلیبیوں کے حملوں کی زد میں رہے گا...چنانچہ ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنی تخت نشینی کے کچھ عرصہ بعد وہ ایک طاقتور لشکر لے کر روانہ ہوا شام میں داخل ہوا اور دمشق میں ایک اجلاس منعقد کر کے شام عمائدین اور اکابر کو اپنی بیعت کی دعوت دی...مسلمانوں کی خوش قسمتی کہ شام کے لوگ بہت زیرک ثابت ہوئے...انہوں نے بلا تامل اس کی اطاعت قبول کر لی اور اس طرح سلطان صرف مصر ہی نہیں شام کا بھی سلطان بن گیا...شام کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد سلطان بیبرس نے اہل شام کو اہل مصر کے مساوی حقوق عطا کیے اور اعلان کیا کہ شام سلطنت اسلامیہ مصر کا دوسرا بازو ہے اور دمشق اس متحدہ سلطنت کا دوسرا مرکز حکومت ہوگا... 

سلطان بیبرس نے شام کے بعض شہروں اور ریاستوں میں قدیم خاندانوں کی امارت برقرار رکھی لیکن ان پر یہ شرط عائد کی کہ مرکزی حکومت کے احکام اور آئین کے پابند ہوں گے...اس طرح شام بھی سلطان بیبرس کی مملكت کا ایک حصہ بن گیا...ان دنوں شام بڑی وسیع سلطنت تھی اس لئے کہ شام میں اس وقت لبنان،اردن،فلسطین اور اسرائیل کے سارے علاقے شامل ہوا کرتے تھے...صرف بحیرہ روم کے کنارے کنارے نصرانیوں کے قبضے میں کچھ قلعے تھے...یہ سارے کام سرانجام دینے کے بعد سلطان بیبرس نے ہلاکو خان کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں...اس نے جہاں اپنے دفاع کو مظبوط کیا وہاں اس نے اپنے لشکر کی تعداد بڑھائی...اس نے حلب شہر سے لے کر عراق تک تمام جنگلوں اور گھاس کے خطوں میں آگ لگوا دی تا کہ حملہ آور منگول آسانی سے پیش قدمی نہ کر سکیں...یہ سارے انتظامات کرنے کے بعد ایک بار پھر سلطان بیبرس ارض شام سے مصر کی طرف چلا گیا تھا...شام سے واپس مصر جانے کے بعد بیبرس نے سب سے پہلے عباسی خلافت کو بحال کیا...ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے ساتھ ہی عباسی خلافت کا خاتمہ ہو گیا تھا...خلافت جیسی بھی تھی ہر صورت میں وہ مسلمانان عالم کے نزدیک عمومی طور پر مرکز ملت کا درجہ رکھتی تھی..اس کے ختم ہو جانے سے مسلمان اپنی دینی اور سیاسی زندگی کے اندر گہرا خلا محسوس کر رہے تھے.. 

سلطان بیبرس بھی اس معاملے میں لوگوں کے جذبات سے بخوبی آگاہ تھا چنانچہ برسراقتدار آنے کے بعد اس نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ خلافت عباسیہ کا از سر نو استوار کیا جائے اور سر دست اس کا مرکز قاہرہ میں ہی قائم کیا جائے...

منگولوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے وقت ایک عباسی شہزادہ نام جس کا ابو القاسم تھا قید میں تھا بعد میں ہنگاموں کے دوران جب بغداد کے قید خانوں سے بہت سے قیدی بھاگ نکلے تو وہ شہزادہ بھی ان قیدیوں کے ساتھ بھاگ نکلا اور ساڑھے تین سال تک گوشہ گمنامی میں پڑا رہا...اتفاق سے سلطان بیبرس کو اس کی جائے قیام کا علم ہو گیا چنانچہ اس نے دس سر کردہ آدمیوں کو بھیجا اور ابو القاسم کو مصر آنے کی دعوت دی...ابو القاسم نے دعوت قبول کر لی اور اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مصر میں داخل ہوا...مصر میں اس کا شاندار طریقے سے استقبال کیا گیا...شہر کو عالیشان انداز میں سجایا گیا اس کے بعد سلطان بیبرس مصر کے قاضی القضا کے علاوہ دوسرے اہم امراء اور منصب داروں نے بھی ابو القاسم کے ہاتھ پر بیعت کی اس طرح پھر خلافت عباسیہ کا سلسلہ شروع ہو گیا...مصر کے اندر سلطان بیبرس نے سکوں اور خطبوں میں نئے عباسی خلیفہ ابو القاسم کا نام جاری کیا..

دوسری طرف ہلاکو خان بھی اپنے آبائی وطن صحرائے گوبی سے لوٹ آیا تھا اور اب وہ مسلمانوں سے اپنے سالار کی شکست کا بدلہ لینے کے متعلق سوچنے لگا تھا...ہلاکو خان کو سلطان بیبرس پر سخت غصہ اور غضب تھا اس لیے کہ سلطان بیبرس نے تاتاریوں کی ہیبت ناک طاقت کے سامنے تلواروں کا بند باندھ کر رکھ دیا تھا...اپنی جرات مندی،اپنی شجاعت اور اپنی زبردست شخصیت کا لوہا اس نے تمام دنیا سے منوا لیا تھا...اب سلطان بیبرس ہی کی وجہ سے عالم اسلام میں مصر اور شام کی مملكت کو مركزی اہمیت حاصل ہو گئی تھی...

دوسری طرف ہلاکو خان سلطان بیبرس کے سامنے ایک نئی طاقت کھڑی کرنا چاہتا تھا...سلطان بیبرس کا مقابلہ کرنے کے لیے منگول اور مشرقی یورپ کے صلیبی آپس میں اتحاد کرنے لگے تھے...اور انہوں نے مصر اور شام کی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے گٹھ جوڑ کرنا شروع کر دیا تھا...

سلطان بیبرس نے دیکھا کہ اس پر حملہ آور ہونے کے لیے منگول مشرقی یورپ کے ملکوں سے اتحاد قائم کر رہے ہیں تو وہ بھی بے کار نہیں بیٹھا...

سلطان بیبرس کی خوش قسمتی کہ اس نے اپنی دانش مندی سے خود منگولوں کی طاقت اور قوت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا..دراصل چنگیز خان کے چار بیٹے تھے جوچی خان،چغتائی خان،اوغدائی خان اور تولائی خان،جوچی خان ان علاقوں کا حاكم مانا گیا تھا جسے آج کل وسط ایشیا کہتے ہیں۔جوچی خان کے دو بیٹے تھے بڑے کا نام باتو خان اور اس سے چھوٹے کا نام برقائی خان،جوچی کے بعد اس کا بیٹا باتو خان ان علاقوں کا حاكم بنا اور باتو کے بعد اس کا چھوٹا بھائی برقائی خان دریائے وولگا کے علاقوں کے آس پاس کا حاكم بن گیا تھا...

مسلمانوں اور سلطان بیبرس کی خوش قسمتی کہ چنگیز خان کے پوتے برقائی خان نے اسلام قبول کر لیا اس کی وجہ سے بہت سے منگول حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے...اب چنگیز خان کے دو پوتے حرکت میں تھے ایک ہلاکو خان جو مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار تھا اور دوسرا برقائی خان جو وسیع سلطنت کا حکمران تھا...ان حالات میں سلطان بیبرس نے ہلاکو خان کا مقابلہ کرنے کے لئے چنگیز خان کے نو مسلم پوتے برقائی خان سے دوستانہ اور بردارانہ تعلقات قائم کرنے کا عزم کر لیا

 اور قدرتی طور پر اسے مسلمانوں سے ہمدردی تھی...دوسری طرف ہلاکو خان اپنے آبائی مذہب پر قائم تھا جبکہ اس کی عیسائی بیوی دقوزہ کی وجہ سے یورپ کے عیسائی ممالک بھی اس کے طرف دار ہو گئے تھے...اس کی عیسائی بیوی ترکوں کے قبیلے قریت کے خاقان کی بیٹی تھی جو نسطوری عیسائی تھا..برقائی خان کیونکہ مسلمان ہو چکا تھا لہٰذا اسے مسلمانوں سے ہمدردی تھی...اس نے اپنی ہمدردی کا اظہار پہلی بار اس وقت کیا جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ آور ہو کر شہر کو برباد کیا تو ہلاکو خان کے نام برقائی خان نے ایک خط لکھا...اس خط میں سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے برقائی خان نے اپنے چچا زاد بھائی ہلاکو کو کہا تھا...تم نے ایک مقدس مقام کی بے حرمتی کی ہے اور اس معاملے میں اپنے خاندان کے دوسرے افراد سے مشورہ نہیں کیا...

برقائی خان کے ان الفاظ کے جواب میں ہلاکو خان اور زیادہ وحشت پر اتر آیا..اس نے برقائی خان کی تنبیہہ کا کوئی اثر نہ لیا اور طنزیہ انداز میں اسے ٹھکرا دیا...وہ اپنی مسلم کشی کی روش پر قائم رہا جن علاقوں کو فتح کرتا وہاں کے مسلمانوں پر بڑی سختیاں کرتا اور عیسائیوں پر مہربانیاں اور الطاف اکرام کی بارش کرتا چنانچہ عیسائی ہلاکو خان کو اپنا مربی اور سرپرست سمجھنے لگے تھے...اس بناء پر ان گنت عیسائی ہلاکو خان کے لشکر میں شامل ہونا شروع ہو گئے تھے اس طرح دن بدن ہلاکو خان کی طاقت اور قوت میں اضافہ ہو رہا تھا...اس موقع پر مشہور مؤرخ ہیرلڈم لکھتا ہے...جدهر جدهر سے ہلاکو خان کے دستے گزرتے تھے مسجدوں کو آگ لگا دی جاتی لیکن کلیساؤں کو کوئی ہاتھ نہ لگاتا تھا...مسلمانوں پر ہلاکو کے مظالم کی یہ خبریں دریائے وولگا کے کنارے مسلمان منگول حکمران برقائی خان کو بھی پہنچ رہی تھیں وہ ہلاکو خان کی مسلم دشمنی اور صلیب نوازی پر سخت پیچ و تاب کھاتا تھا...جب ہلاکو خان کا بھائی اور منگولوں کا خاقان منگو خان مر گیا تو برقائی خان اور ہلاکو خان کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آگئے...چنگیز خان کی اولاد میں سے منگولوں کے لیے خاقان اعظم چننے کے لیے جھگڑے رونما ہو گئے...ان میں برقائی خان نے ایک فریق کا ساتھ دیا اور ہلاکو نے دوسرے کا...اس طرح ان کے درمیان جو پہلے سے اندر ہی اندر سرد جنگ چل رہی تھی وہ اب گرم جنگ میں تبدیل ہونی شروع ہو گئی...جب ہلاکو خان اور برقائی خان کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آگئے تو ہلاکو خان کے لشکر میں وہ منگول جو برقائی خان کے حامی تھے ان میں سے کچھ تو ہلاکو خان کے لشکر سے نکل کر برقائی خان کا رخ کرنے لگے...اور کچھ دستے مصر کا رخ کرنے لگے...مصر میں آکر انہوں نے برقائی خان کی طرح اسلام قبول کر لیا...انہوں نے سلطان بیبرس کے ہاں پناہ لی...سلطان کو انہی پناہ لینے والے منگولوں سے برقائی خان اور اس کی عظیم سلطنت سے متعلق تفصیل معلوم ہوئی..

یہ تفصیل جاننے کے بعد سلطان بیبرس کی نگاہوں نے فوراً بھانپ لیا کہ برقائی خان سے دوستانہ مراسم قائم کرنے میں مسلمانوں کے لیے فوائد ہی نکل سکتے ہیں...چنانچہ سلطان بیبرس نے ایک سفارت مرتب کی اور اس کو قسطنطنیہ کے راستے برقائی خان کے دارالحکومت سرائے شہر کی جانب روانہ کیا...

بد قسمتی سے اس سفارت کو  قسطنطنیہ کے شہنشاہ نے ہلاکو خان کی خوشنودی کی خاطر راستے ہی میں روک لیا اس لیے کہ عیسائی دنیا اس وقت ہلاکو کا ساتھ دے رہی تھی...سلطان بیبرس کی خوش قسمتی کہ انہی دنوں برقائی خان کی طرف سے ایک وفد قاہرہ پہنچا...یہ وفد سلطان بیبرس کی خدمت میں حاضر ہوا اور برقائی خان کی طرف سے ایک خط سلطان بیبرس کو پیش کیا گیا...اس خط میں برقائی نے عین جالوت کے مقام پر ہلاکو خان کو شکست دینے پر سلطان بیبرس کو مبارک باد دی تھی اس وفد کے ارکان نے ایک تحریری خط بھی جو برقائی خان کی طرف سے تھا سلطان بیبرس کے حوالے کیا...اس خط میں لکھا تھا...ہم مسلمان ہیں اور ہم اپنے غیر مسلم رشتہ دار ہلاکو سے لڑ رہے ہیں اس لئے مصر کے سلطان کو چاہیے کہ وہ دریائے فرات کی وادی میں ہلاکو خان کے مقبوضہ جات پر چڑھائی کر دے...

سلطان بیبرس کے لیے چنگیز خان کے مسلمان پوتے برقائی خان کی طرف سے یہ ایک نہایت خوش آئند پیغام تھا...برقائی خان کے پیغام سے سلطان بیبرس سمجھ گیا تھا کہ منگولوں کے خلاف سب سے طاقت ور حلیف جو اسے مل سکتے ہیں وہ خود منگول ہی ہیں چنانچہ اس نے مسلمان ہونے والے منگول برقائی خان کے مشیروں کا پرتپاک انداز میں خیر مقدم کیا...برقائی خان کے سفیروں کو سلطان نے بیش بہا خلعتوں اور اعلیٰ درجے کے تحائف سے نوازا اور مصر میں اس نے اپنے نام کے خطبے کے ساتھ برقائی خان کا نام بھی شامل کیا..اس کے علاوہ سلطان بیبرس نے برقائی خان کے نام ایک طویل خط لکھا...کہا جاتا ہے کہ یہ خط ستر صفحات پر مشتمل تھا اور سلطان نے اس کو اپنے ہاتھ سے لکھا تھا..اس خط میں سلطان نے جہاد سے متعلق قرآن مقدس کی مختلف آیات کے حوالے بھی دیے تھے اور حضور ﷺ کی حدیث مبارکہ بھی رقم کی تھی... 

اس کے علاوہ سلطان بیبرس نے برقائی خان کو یہ بھی لکھا کہ سلطان خود بھی دشت قبچاق کا رہنے والا ہے اور ایک عاجز مسلمان کی حیثیت سے اپنے عظیم نو مسلم بھائی کو سلام بھیجتا ہے...

اپنے خط میں سلطان نے یہ بھی لکھا کہ اس کے کہ یہ سب سے بڑی پر مسرت بات ہے کہ عظیم برقائی خان اپنے چچا زاد بھائی ہلاکو خان کی سرگرمیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے...ہلاکو اسلام کو نیست و نابود کرنے پر تلا ہوا ہے اور یہ عاجز بیبرس اسلام کو بچانے کی جدوجہد کر رہا ہے...اس نے خلافت کو مصر میں بحال کر دیا اور اب وہ ہلاکو خان کے خلاف جہاد کی تیاریوں میں مصروف ہے...سلطان نے یہ بھی لکھا کہ یہ عاجز اپنے بھائی برقائی خان کو یہ اطلاع دینے میں بھی مسرت محسوس کرتا ہے کہ قاہرہ کی جامع مسجد میں عباسی خلیفہ اور میرے نام کے ساتھ برقائی خان کا نام بھی خطبے میں پڑھا گیا ہے...سلطان نے لکھا کہ میں اور سارے مسلمان آپ کے شکر گزار ہوں گے اگر ہلاکو ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے پیش قدمی کرے تو آپ اس کی پشت کی طرف سے حملہ آور ہو جائیں...

یہ خط دے کر سلطان نے برقائی خان کا سفیروں کو نہایت احترام کے ساتھ رخصت کیا...اس کے علاوہ اپنے کچھ سفیر بھی بہت سے قیمتی تحائف دے کر برقائی خان کی طرف روانہ کیے...ان تحائف میں جو سلطان بیبرس نے برقائی خان کو چیزیں بھجوائیں ان میں قرآن پاک کا ایک نادر نسخہ جس پر خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفانؓ کی مہر لگی ہوئی تھی...ہاتھی دانت،آبنوس اور صندل سے بنایا ہوا ایک مرصع تخت،کئی منقش اور زرتار مصلے اور جائے نمازیں،چاندی کی طشتریاں،نقرئی دستوں کی نفیس تلواریں،خوارزم کی زینیں،ریشم کی ڈوری والی دمشقی کمانیں،نیزے،تیر،ترکش،مختلف رنگوں کے نفیس پردے،شمع دان،تكیوں کر خوبصورت غلاف،گاؤ تکیے،سنگی دیگیں...سدھائے ہوئے بندر جن کو ریشمی کپڑے پہنائے ہوئے تھے...تازی گھوڑے،گدھے،زرافے،تیز رفتار اونٹ،اعلیٰ درجے کے طوطے،حبشی غلام،خواجہ سراء اور تربیت یافتہ کنیزوں کے علاوہ اور بے شمار تحائف تھے جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا تھا

قیصر روم نے مصر کی پہلی سفارت کو قسطنطنیہ میں روک رکھا تھا اس لئے خدشہ تھا کہ وہ اس سفارت کو بھی روک لے گا...سلطان نے اس خطرے کا سدباب کرنے کے لیے قیصر روم کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مصر کے سفیروں کو روکا تو وہ اپنی مملكت میں تمام نصرانی تاجروں کو گرفتار کر لے گا...اور قسطنطنیہ سے اپنے تمام تجارتی تعلقات ختم کر دے گا...اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی مملكت کے عیسائی پادریوں سے قیصر روم کو دھمکی دلوائی کہ وہ اس کو كلیسا کا اسقف اعظم تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیں گے...

سلطان کی اس کاروائی سے قیصر روم کے ہوش ٹھکانے آگئے اور اس نے جن سفارت کاروں کو پہلے روکا ہوا تھا انہیں بھی رہا کر دیا اور بعد میں جانے والے سفیروں کو بھی اپنی منزل کی طرف جانے دیا...مصری سفیر جب سرائے شہر میں برقائی خان کے پاس پہنچے تو اس نے ان کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا...سلطان بیبرس کا مکتوب اور تحائف وصول کر کے اس کو بے اندازہ خوشی ہوئی...اس نے سلطان کو شکریہ کا پیغام بھیجا اور پورے تعاون اور مدد کا یقین دلایا...اس طرح ان دونوں عظیم حکمرانوں کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم قائم ہو گئے تھے...برقائی خان کا دارالحکومت اس وقت صرف خيموں کا شہر تھا...اس کا نام سرائے برقائی تھا اس نے سلطان بیبرس کو پیغام بھیجا کہ وہ مصر سے کاریگر اور صناع بھیجے جو اینٹ اور پتھر کی عمارتیں ان کے لیے تعمیر کریں... 

 سلطان نے فوراً بہت سے معمار،صناع اور دوسرے ارباب کمال برقائی خان کی طرف بھیج دیے جنہوں نے چند سال کے اندر اندر خيموں کے اس شہر میں بے شمار مکانات،محلات،مدارس،مساجد،سرائیں اور مہمان خانے تعمیر کر دیے...اس طرح سلطان بیبرس کی بدولت خانہ بدوش منگول نئے تمدن سے روشناس ہوئے... 

برقائی خان کے تخت نشین ہونے کے بعد سمرقند اور بخارا وغیرہ سے بھی بہت سے مسلمان جن میں کئی علماء بھی شامل تھے برقائی خان کے پاس جا کر آباد ہونے لگے...برقائی خان کے کہنے پر ان علماء نے منگولوں کے اندر زور و شور سے اسلام کی تبلیغ کا کام شروع کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے گھر گھر میں اسلام کا چرچا ہونے لگا...برقائی خان کے ہاں اسلام اس قدر تیزی سے پھیلا کہ برقائی خان کے تمام امراء،شہزادوں اور شہزادیوں کے ہاں نماز پڑھانے کے لیے ایک ایک امام اور آذان دینے کے لیے ایک مؤذن مقرر تھا...اور سلطنت کے تمام شہروں میں مكتب قائم کر دیے گئے تھے جن میں رعایا کے بچوں کو قرآن مقدس پڑھایا جانے لگا تھا... 

جب سلطان بیبرس اور برقائی خان میں اتحاد قائم ہو گیا تو سلطان کے کہنے پر بہت سے مصری اور شامی علماء بھی برقائی خان کے پاس پہنچنا شروع ہوئے اور وہاں تبلیغ اسلام کا کام کیا...دوسری طرف بے شمار منگول بھی ہلاکو خان کے ہاں سے نکل کر مصر میں آ کر آباد ہو گئے انہوں نے سلطان کی تبلیغ سے اسلام قبول کر لیا اور اپنے آپ کو اچھا شہری ثابت کرنے لگے                 

چنگیز خان کے پوتے برقائی خان کے ساتھ سلطان بیبرس کے دوستانہ تعلقات کے نہایت عمدہ نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے...عین جالوت میں منگولوں کے لشکر کی ذلت آمیز شکست نے ہلاکو کو غیض و غضب کا مجسمہ بنا دیا تھا اور وہ مصر پر حملہ آور ہونے کے لیے پر تول رہا تھا اور انتہائی غصے کے عالم میں تھا...

دوسری طرف سلطان بیبرس بھی ہلاکو کے حالات سے غافل نہ تھا اور وہ اس کو دندان شکن جواب دینے کے لیے دن رات جنگی تیاریوں میں مصروف تھا...

 اس نے ایک جرار لشکر ہر قسم کے آلات حرب و ضرب سے لیس کر دیا تھا اور اس کو ایسے ڈھنگ سے تربیت دی تھی کہ وہ منگولوں کے حملوں سے مؤثر طور پر نبٹ سکے...اس لشکر میں منگول مسلمانوں کے علاوہ ترک خصوصیت کے ساتھ وہ ترک نوجوان تھے جنہیں غلام بنا لیا گیا اور وہ بکتے بكاتے مصر پہنچ گئے تھے...ان ترکوں کو مملوک کہہ کر پکارا جاتا تھا اور یہ مملوک نہایت کثرت سے بھرتی کئے گئے تھے...ان کا دعویٰ تھا کہ وہ منگولوں کو لوہے کے چنے چبوا کر رکھ دیں گے... 

جس وقت ہلاکو خان سلطان بیبرس پر حملہ آور ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھا اس زمانے میں سلطان بیبرس بھی شام کے مختلف علاقوں میں برق رفتاری سے گشت کرتا رہتا تھا...وہ اپنے لشکر کے ساتھ جہاں بھی قیام کرتا رات کو اپنے خيمے میں جنگی لباس میں سو جاتا اور ایک رات سے زیادہ کسی بھی جگہ قیام نہ کرتا اس کے خيمے پر ہر وقت ایک تیز رفتار گھوڑا تیار رہتا تھا جس پر زین کسی ہوتی تھی تا کہ جس وقت بھی منگولوں کے حملے کی خبر ملے وہ ان کے مقابلے میں بلا تاخیر پہنچ جائے...

اس حلب شہر سے لے کر وادی فرات تک ساری گھاس جلوا دی،درخت کٹوا دیئے اور سرحدی گاؤں خالی کروا دیئے تا کہ منگولوں کو غذا نہ مل سکے اور ان کے گھوڑوں کو چارہ ميسر نہ ہو...

دوسری طرف سے اس نے اپنے طاقتور حلیف برقائی خان کو ہلاکو خان کے لشکر پر عقب سے حملہ آور ہونے پر آمادہ کر لیا تھا...ان حالات میں سن بارہ سو باسٹھ کے جاڑوں میں ہلاکو خان نے اپنے لشکر کے ساتھ حرکت کی مصر اور شام پر حملہ آور ہونے کے لئے حرکت میں آیا...دوسری طرف ہلاکو خان کا چچا زاد بھائی برقائی خان جو اسلام قبول کر چکا تھا وہ بھی ہلاکو خان پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھا اس نے اپنے منگول جاسوس اطراف میں پھیلا رکھے تھے اس نے جب دیکھا کہ ہلاکو خان اپنے لشکر کے ساتھ حرکت میں آرہا ہے تا کہ مصر اور شام پر حملہ آور ہو تو اس نے پشت کی جانب سے ہلاکو خان کے لشکر پر حملہ کر دیا... 

اب ہلاکو عجیب سی الجھن اور کشمکش میں مبتلا ہو گیا تھا اس لئے کہ اب منگولوں کے دو لشکر آپس میں ٹکرا گئے تھے...ہلاکو خان اور برقائی خان کے درمیان لگاتار جھڑپیں شروع ہو گئیں اور ان جھڑپوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا...گو اس جنگ سے کسی سلطنت کا کوئی خاص نقصان نہ ہوا کیونکہ برقائی خان اور ہلاکو خان کی سلطنت کے رقبے اس قدر وسیع تھے کہ ایک کے لئے دوسرے کو زیر کرنا قریب قریب ناممکن تھا...

تاہم اس کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ برقائی خان کے پشت کی جانب سے حملوں کی وجہ سے ہلاکو خان مصر اور شام پر حملہ آور ہونے کے قابل نہ رہا...اب ہلاکو خان کے لئے خطرات اٹھ کھڑے ہوئے تھے...پہلے اس کے سامنے صرف ایک ہی مصر اور شام کا محاذ تھا اب اس کے سامنے دو محاذ تھے ایک مصر اور شام کا دوسرا برقائی خان کا...اب ہلاکو خان بحیرہ خضر کے مشرق اور مغرب کے دونوں طرف اپنے لئے خطرات محسوس کرنے لگا تھا اور وہ دونوں اطراف کی سرحدوں کی حفاظت کرنے پر مجبور ہو گیا تھا...اس کے علاوہ بخارا،سمرقند کے راسخ العقیدہ اور جنگجو مسلمانوں نے بھی ہلاکو کے خلاف اور برقائی کی حمایت میں جہاد کا اعلان کر کے ہلاکو خان کی پریشانیوں میں اضافہ کرنا شروع کر دیا تھا

سلطان بیبرس اور برقائی خان کے اتحاد اور تعاون سے ہلاکو خان سٹپٹا کر رہ گیا تھا اسے یقین ہو گیا تھا کہ کسی بھی وقت برقائی خان اور بیبرس نے بیک وقت اس پر حملہ کر دیا تو ان کے دو طرفہ حملے اسے اور اس کے لشکریوں کو نیست و نابود کر کے رکھ دیں گے...اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہلاکو خان نے اپنی طاقت اور قوت میں اضافہ کرتے ہوئے عیسائی دنیا کی طرف رجوع کیا اور اپنے لئے حلیف تلاش کرنے کی کوشش کی...

سب سے پہلے اس نے قسطنطنیہ کے شہنشاہ کو ایک لچھے دار خط لکھا جس میں اس کی لڑکی ماریہ کا رشتہ اپنے لڑکے اباقا خان کے لئے مانگا...

اس کے ساتھ ہی اس نے انگلستان کے بادشاہ کے علاوہ پاپائے روم کو بھی خط لکھے کہ ہمیں مصر کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے...

قیصر روم نے تو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر ہلاکو کی تجویز منظور کر لی لیکن انگلستان کے بادشاہ اور پاپائے روم نے اپنے اندرونی جھگڑوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں ہلاکو خان کو کوئی حوصلہ افزا جواب نہ دیا...

دوسری طرف سلطان بیبرس کو جب خبر ہوئی کہ ہلاکو خان قسطنطنیہ کے بادشاہ کی بیٹی کا رشتہ حاصل کر رہا ہے اس طرح وہ اپنی طاقت اور قوت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے...جب قسطنطنیہ کے بادشاہ کے ساتھ اس کا رشتہ قائم ہو جائے گا تو لازمی تھا کہ قسطنطنیہ والے اپنے لشکر ہلاکو خان کی مدد کے لئے روانہ کریں گے...ہلاکو خان کے اس اقدام سے بیبرس کو کسی قدر تشویش ہوئی...سلطان بیبرس پہلے ہی ہلاکو خان کے سیاسی داؤ پیچ پر گہری اور کڑی نظر رکھے ہوئے تھا اس نئی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے فوراً برقائی خان کی طرف قاصد بهجوائے اور اسے پیغام دیا کہ ہمارے خلاف مغرب کی عیسائی دنیا کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے ہلاکو خان نے قسطنطنیہ کے شہنشاہ کی بیٹی کا رشتہ مانگا ہے...سلطان بیبرس نے برقائی کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی اپنے بھتیجے نوگائی کے لئے قسطنطنیہ کے شہنشاہ کی دوسری بیٹی کا رشتہ طلب کرے...برقائی خان نے سلطان بیبرس کا یہ پیغام ملتے ہی فوراً اس پر عمل کرنے کا ارادہ کر لیا...اس نے اپنے قاصد قسطنطنیہ کے شہنشاہ کی طرف بهجوائے اور اس سے اپنے بھتیجے کے لئے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا قسطنطنیہ کے شہنشاہ کو برقائی خان کی طاقت اور قوت کا احساس تھا لہٰذا اس نے اپنی دوسری لڑکی کا رشتہ برقائی خان کے بھتیجے نوگائی کو دینے کی حامی بھر لی... 

اس کے ساتھ ہی سلطان بیبرس نے قسطنطنیہ کے شہنشاہ سے ایک تجارتی معاہدہ کر لیا جس کی رو سے دونوں ملکوں کے تاجر ایک دوسرے کی بندر گاہوں میں آ جا سکتے تھے اس طرح سلطان بیبرس نے قسطنطنیہ کے شہنشاہ کو عالمی سیاست میں بالکل غیر جانب دار بنا کر رکھ دیا تھا..اس دوران ہلاکو خان کی بد بختی کچھ اس طرح ہوئی کہ اس کی برقائی خان کے ساتھ جنگ شروع ہوئی...اس جنگ میں برقائی خان اور اس کے بھتیجے نوگائی نے ہلاکو خان کو بد ترین شکست دی...شکست اٹھا کر ہلاکو خان اپنے لشکر کے ساتھ بھاگا اور ایک منجمد دریا کے اوپر سے گزرتے ہوئے اس کے ان گنت لشکری ہلاک ہو گئے...اپنی اس شکست کا ہلاکو خان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ اس جنگ کے بعد وہ مر گیا...اس کی موت کے چند ہی دن بعد اس کی عیسائی بیوی دقوزہ خاتون بھی اس دنیا سے کوچ کر گئی... 

ہلاکو خان اور اس کی بیوی دقوزہ خاتون کے مرنے کا عیسائی دنیا کو بے حد دکھ اور صدمہ ہوا اور انہوں نے مسلمانوں پر الزام لگایا کہ ان دونوں کو چالاک مسلمانوں نے زہر دے کر ہلاک کر دیا ہے کیونکہ وہ دونوں عالم اسلام کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے...

کچھ مغربی لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان دونوں کو زہر دینے میں سلطان بیبرس کا ہاتھ تھا...یہ خیال کچھ مغربی مؤرخوں کا ہے جبکہ غیر جانبدار مؤرخین لکھتے ہیں...ہلاکو خان اور اس کی بیوی دونوں طبعی موت مرے... 

حقیقت خواہ کچھ بھی ہو عیسائوں نے ہلاکو خان اور اس کی بیوی کے مرنے کا بڑا سوگ منایا...اس کی موت کے بعد ایک عیسائی مؤرخ ابن العبری نے جو سلطان بیبرس کا ہم عصر تھا اس نے ہلاکو خان اور اس کی بیوی دقوزہ کی موت پر اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا...ساری عیسائی دنیا کو عیسائی دنیا کے دونوں محافظوں اور رہنماؤں کی موت کا بڑا صدمہ ہوا... 

یہ عیسائی مؤرخ ابن العبری حلطیہ شہر میں پیدا ہوا تھا اور مراغہ شہر میں اس نے وفات پائی...عیسائیوں کے فرقے یعقوبیہ سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے وقت کے نامور مؤرخوں اور طبیبوں میں اس کا شمار کیا جاتا تھا اس نے عربی اور سريانی میں تیس سے زائد کتابیں لکھی تھیں...

ہلاکو اور اس کی بیوی دقوزہ کی موت پر ایک اور عیسائی مؤرخ اسٹیفن نے ہلاکو کا ماتم کرتے ہوئے ان الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا...شہنشاہ،دنیا کا مالک،عیسائیوں کا آسرا مر گیا اور اس کے بعد اس کی بیوی دقوزہ خاتون نے وفات پائی،نیکی میں ان کا مرتبہ قسطنطین اور اس کی ماں ہیلن سے کم نہیں ہے... 

اس طرح ہلاکو خان جو اپنے آپ کو مسلمانوں کے لئے قہر خدا وندی خیال کرتا تھا اپنے انجام کو پہنچا...ان حالات میں ہلاکو خان اگر نہ مرتا اور کچھ مدت اور زندہ رہتا تو اس کے زندہ رہنے سے کوئی فرق نہ پڑتا اس لئے کہ سلطان بیبرس نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اس قدر طاقت اور قوت پکڑ لی تھی کہ وہ کسی بھی محاذ پر اکیلا بھی ہلاکو خان پر ضرب لگا کر اسے شکست دینے کے لئے بالکل تیار اور مستعد تھا بہر حال ہلاکو خان اپنے انجام کو پہنچا          

ہلاکو خان کے خاتمے کے بعد سلطان بیبرس آس پاس کے عیسائیوں کی طرف متوجہ ہوا.. سلطان نہایت راسخ العقیدہ مسلمان تھا لیکن عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف اس کے دل میں ذرہ برابر تعصب نہ تھا...

سلطان بیبرس کی مملكت میں بے شمار عیسائی آباد تھے جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی...ان لوگوں کو عسکری خدمت سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے عوض وہ جزیہ کی ایک معمولی رقم حکومت کو ادا کرتے تھے...

اس کے سوا انہیں شہریت کے مکمل حقوق حاصل تھے اور وہ سلطان کی مملكت کے اندر اپنی مذہبی رسومات بھی نہایت آزادی کے ساتھ ادا کرتے تھے...

سلطان بیبرس کی مملكت میں ان عیسائیوں کے بے شمار گرجے اور راہبوں کی خانقاہیں موجود تھیں...سلطان بیبرس اور اس کی حکومت مساجد کی طرح ان عبادت گاہوں کی بھی پوری حفاظت کرتی تھے...ان گرجوں اور راہب خانوں میں پادریوں نے اپنی درس گاہیں قائم کر رکھی تھیں وہاں ان کو اپنے مذہب کے مطابق تعلیم دینے کی مکمل طور پر آزادی حاصل تھی...سلطان بیبرس کی اس رواداری کے باوجود ارض مشرق کے صلیبی جنہوں نے لبنان،شام اور فلسطین کے کئی علاقوں بالخصوص بحیرہ روم کی ساحلی بندر گاہوں پر غاصبانہ قبضہ کر کے اپنی ریاستیں قائم کر رکھی تھیں۔

...وہ سلطان کو اپنا بد ترین دشمن خیال کرتے تھے اور یہ عیسائی ہر وقت یورپ کے علاوہ منگولوں کے ساتھ مل کر اسلام دشمن سرگرمیوں ملوث رہتے تھے...سلطان نے ان شریر نفس صلیبیوں کے عزائم کو بھانپ لیا اور شام،فلسطین اور لبنان کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرنے کا تہیہ کر لیا تھا...

ان صلیبیوں کو پاپائے روم،فرانس اور انگلستان کے بادشاہوں کی خاص سرپرستی اور مدد حاصل تھی اس لئے ان متعصب حکمرانوں سے دوستانہ روابط کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا...

البتہ قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ کے رویے میں کسی قدر لچک تھی چنانچہ سلطان نے اپنی حکمت عملی کے ذریعے اس کو غیر جانب دار رہنے پر مجبور کر دیا تھا...

قسطنطنیہ کے بعد سلطان نے وینس اور جنیوا کی عیسائی جمہوریت کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے شروع کیے اس لئے کہ ان لوگوں کو مذہبی لڑائیوں میں الجھنے کی نسبت اپنے تجارتی مفادات زیادہ عزیز تھے چنانچہ سلطان نے ان سے تجارتی معاہدے کر کے دوستانہ روابط قائم کر لیے تھے...

ان دونوں جمہوریتوں میں شدید تجارتی رقابت تھی لیکن دونوں ہی سلطان کو اپنا حقیقی دوست تصور کرنے لگے تھے...مغربی مؤرخین نے اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب واقعہ لکھا ہے جسے انہوں نے سلطان بیبرس کی بہترین سیاست سے تعبیر کیا ہے...ان کا بیان ہے کہ ایک دفعہ ان دونوں ریاستوں کے تعلقات سخت کشیده ہو گئے۔فریقین نے سلطان سے درخواست کی کہ وہ ثالث بن کر ان کے جھگڑے کا تصفیہ کروا دے... 

چنانچہ سلطان نے اس معاملے میں ایسا رویہ اختیار کیا کہ دونوں ریاستوں میں صلح ہونے کی بجائے جنگ چھڑ گئی اور ان کے بحری بیڑے بحیرہ روم میں ایک دوسرے کے متصادم ہو گئے..اس طرح سلطان بیبرس نے اپنی حکمت عملی سے ان دونوں ملکوں کی طاقت اور قوت کو کمزور اور پاش پاش کر دیا تھا... 

مغربی مؤرخوں کے اس بیان پر مسلمان مؤرخ لکھتے ہیں...معلوم نہیں مغربی مؤرخوں کے اس بیان میں کس حد تک صداقت ہے تا ہم یہ واقعہ ہے کہ ان دونوں متحارب ریاستوں کے تعلقات سلطان سے بدستور دوستانہ رہے... 

ان واقعات کے چند ہی سال بعد عیسائی دنیا سے روابط کے سلسلے میں سلطان نے ایک قدم اور آگے بڑھایا...

اس دوران سلطان بیبرس کو اپنے مخبروں اور طلایہ گردوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ اٹلی اور صتعلیہ کے فرماں روا منفریڈ اور پاپائے روم میں ان بن ہو چکی ہے یہاں تک کہ پوپ نے اٹلی اور صتعلیہ کے فرماں روا کو كلیسا سے خارج کر دیا ہے...

 اس کی وجہ یہ تھی کہ اٹلی اور صتعلیہ کا فرماں روا منفریڈ ایک علم دوست اور مسلم نواز حکمران تھا۔اس نے اپنی مملكت کے مسلمان باشندوں کو نہ صرف کامل مذہبی آزادی دے رکھی تھی بلکہ کئی مسلمانوں کو اس نے اپنی حکومت کے اندر اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز کر رکھا تھا... 

ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے سلطان بیبرس نے اپنی مملكت کے چوٹی کے عالم اور قاضی ابن واصل کی سرکردگی میں ایک دوستانہ سفارت اٹلی اور صتعلیہ کے بادشاہ منفریڈ کے دربار میں بھیجی...

 منفریڈ نے سلطان کے ان سفیروں کا بہترین اور پرتپاک انداز میں خیر مقدم کیا۔اس وفد کی وجہ سے اٹلی اور صتعلیہ کے حکمران اور سلطان کے درمیان بھی دوستانہ مراسم قائم ہو گئے تھے جب تک سلطان بیبرس اور بادشاہ منفریڈ زندہ رہے ان کے درمیان نہایت خوشگوار تعلقات قائم رہے...ان تعلقات کو اٹلی اور فرانس کے حکمران شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے لہٰذا سن بارہ سو چھیاسٹھ میں پوپ اور فرانس کے بادشاہ کے متحدہ لشکر نے منفریڈ پر لشکر کشی کر دی اور اسے شکست دے کر قتل کر دیا...اس کے قتل کے بعد ہی مصر اور اٹلی کی دوستی بھی ختم ہو گئی...                   

سلطان بیبرس نے اپنی حکومت کے ابتدائی پانچ سالوں میں منگولوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی...ان کی طاقت کو اپنے سامنے کچل کر رکھ دیا تھا یہاں تک کہ ہلاکو اور اس کی بیوی بھی مر چکے تھے...

اس کے ساتھ منگول بڑی تیزی سے اسلام قبول کرنا شروع ہو گئے تھے لہٰذا سلطان نے اب بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ صلیبیوں کے قلعوں کی طرف توجہ مبذول کی...

 ان قلعوں میں زیادہ اہم قيساریہ،ارسوف،صفد،الکرک،بالفورٹ،يافا،انطرطوس،انطاکیہ،حصن لاكراد،المركب،صور،طرابلس،بیروت،صیدا اور عکہ زیادہ مشہور تھے...یہ سارے وہ قلعے تھے جو اس سے پہلے عالم اسلام کے عظیم سپوت سلطان صلاح الدین ایوبی نے نصرانیوں سے چھینے تھے لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد جب مسلمانوں میں کمزوری کے آثار نمودار ہوئے تب یورپ کے عیسائیوں کی مدد سے صلیبیوں نے دوبارہ ان قلعوں پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر انہیں مظبوط اور مستحکم کر کے ایک طرح سے ان قلعوں سے نکل کر مسلمانوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا تھا... 

سخت جنگجویانہ ذہنیت رکھنے والے یہ صلیبی،مسلمانوں کے بد ترین دشمن تھے...انہوں نے اپنے مقبوضات اور ان کے نواحی علاقوں کے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا...حد یہ کہ مسلم دشمنی کے جنون میں ان کی ایک کثیر تعداد ہلاکو کے غارت گر لشکر میں بھی جا شامل ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں کے علاقوں کو تاخت و تاراج کرنے اور بے کس مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں منگولوں سے بھی زیادہ وحشت کا مظاہرہ کیا تھا...

اب سلطان غارت گر اور وحشی منگولوں سے فارغ ہو چکا تھا ان کی کمر توڑ چکا تھا اور انہیں اس قابل نہیں رہنے دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف حرکت میں آئیں لہٰذا سلطان نے اب اپنی عسکری قوت کا رخ ان کی طرف موڑا...

 اب تک سلطان کی طاقت میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔مصر اور شام کو اس نے متحد کر لیا تھا۔ خلافت عباسیہ کا بھی اس نے احیاء کر دیا تھا اور ملک کا نظم و نسق بھی اس نے مظبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیا تھا۔ان سارے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد وہ شام،فلسطین اور لبنان کے صلیبیوں کی طرف متوجہ ہوا جو نہ صرف پورے ساحل پر ایک آہنی جنگی قلعہ بند دیوار بنائے ہوئے جمے تھے بلکہ کئی دوسرے مقامات پر بھی قبضہ جمائے ہوئے تھے... 

عیسائیوں کے ان قلعوں میں بڑے بڑے لشکر تھے۔یہ لشکر نہ صرف خود ان قلعوں سے نکل کر قریبی مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر ان کا قتل عام اور لوٹ مار کرتے تھے بلکہ وہ یورپ کے حکمرانوں کے علاوہ پاپائے روم کو بھی اکثر و بیشتر مصر پر حملہ آور ہونے کے لئے اکساتے رہتے تھے۔

اس طرح ارض فلسطین،لبنان،شام میں ان کی موجودگی ایک ایسے خنجر کی حیثیت رکھتی تھی جو قلب اسلام میں پیوست تھا۔سلطان صلاح الدین ایوبی کے بعد جب ان لوگوں نے ان قلعوں پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا تو یہ جابر بن گئے...انہوں نے یہی خیال کیا کہ اب مسلمانوں کا کوئی حکمران ان سے یہ قلعے چھین نہ سکے گا اور وہ ان قلعوں سے نکل کر آہستہ آہستہ دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ کر کے مسلمانوں کو فلسطین سے نکال باہر کریں گے...

 یہ دور مسلمانوں کے لئے بڑا نازک دور تھا۔مسلمان تمنا کر رہے تھے کہ لبنان،فلسطین اور شام کے ان صلیبیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قدرت ان کے لئے کسی دوسرے صلاح الدین کو کھڑا کر دے۔قدرت نے شاید مسلمانوں کی اس آرزو کو پورا کیا اور سلطان بیبرس صلاح الدین ثانی بن کر نمو دار ہوا اور ان جنگجؤں کو اس نے کیفر کردار تک پہنچانے کا تہیہ کر لیا تھا۔* 

قدرت نے ویسے بھی ان لوگوں کو بڑی ڈھیل دی تھی کہ وہ اپنے مظالم سے باز آئیں لیکن انہوں نے کوئی سبق نہ سیکھا لیکن قدرت نے جب سلطان بیبرس کو صلاح الدین ثانی بنا کر ان کے سامنے کھڑا کیا تو ان کے سارے ولولے،ان کے سارے ارادے کرچی کرچی،پاش پاش ہو کر رہ گئے۔

مشرقی اور مغربی تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ان صلیبیوں کے خلاف سلطان بیبرس کا جہاد سلطان صلاح الدین کے حملوں اور ترک تازیوں سے مشابہہ تھا

مغربی مؤرخین نے ان حملوں کو نہ صرف اختصار کے ساتھ تاریخ کے اوراق میں جگہ دی ہے بلکہ اپنی طرف سے اس میں رنگ بھر کر ایک طرح سے سلطان بیبرس کی اہمیت،اس کی شجاعت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔مغربی مؤرخین سلطان بیبرس کو ایک عظیم فاتح تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ظالم اور غارت گر بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عرب مؤرخین نے ان کے الزامات کو رد کر کے صلیبیوں کے خلاف سلطان بیبرس کی معرکہ آرائیوں کا صحیح نقشہ پیش جڑ کے رکھ دیا تھا۔

آخر کار سلطان انہی جنگجو اور سنگدل صلیبیوں پر ضرب لگانے کے لئے قاہرہ سے طوفانی انداز میں اپنے لشکر کے ساتھ نکلا۔ارض فلسطین میں داخل ہونے کے بعد وہ بڑی برق رفتاری سے شمالی علاقوں کی طرف بڑھا تھا۔صلیبیوں نے سوچا کہ مسلمانوں کا سلطان یا تو آگے لبنان کی طرف نکل جانے گا انطاکیہ یا بیروت پر حملہ آور ہو گا اور انہیں امید تھی کہ بیروت اور انطاکیہ میں صلیبیوں کے بڑے بڑے لشکر ہیں اور ان کے مقابلے میں سلطان بیبرس کامیاب نہیں ہو سکے گا اس بناء پر وہ اپنی طرف سے بالکل مطمئن اور آسودہ تھے۔

لیکن اس وقت صلیبی دنگ رہ گئے جب شمال کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اچانک رات کے وقت سلطان مڑا،آندھی اور طوفان کی طرح اس نے جنوب کا رخ کیا اور جنوب میں ان کے مظبوط اور مستحکم قلعے الکرک کا رخ کیا۔

الكرک ایک قدیم اور انتہا درجے کا مستحکم قلعہ تھا اور اس پر انتہائی کمینہ خصلت صلیبی قابض تھے۔سلطان صلاح الدین کے دور میں بھی یہاں شریر خصلت جنگجو قبضہ جمائے ہوئے تھے اور اس قلعے میں قیام کرنے والے صلیبی ہمیشہ مسلم آزاری اور غارت گری کو اپنا پیشہ بناتے رہے تھے۔یہی وہ لوگ تھے جو اکثر و بیشتر مصر سے حجاز جانے والے حاجیوں کے قافلوں پر حملہ آور ہو کر انہیں لوٹ لیتے تھے ان کا قتل عام کرتے تھے۔حاجیوں کے قافلے ان کی خون آشامیوں کا خاص ہدف تھے۔

مصر سے ارض حجاز کی طرف جانے والا راستہ کیونکہ الکرک کے پاس سے گزرتا تھا لہٰذا اگر مسلمانوں کا کوئی تجارتی قافلہ یا حاجیوں کا کاروان یہاں سے گزرتا تو یہاں کے صلیبی ان پر حملہ آور ہو کر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتے۔مسلمانوں کا قتل عام کرتے اور ان کا مال و اسباب لوٹ لیتے۔

الکرک میں جو صلیبی جنگجو تھے وہ تو یہی امید لگائے بیٹھے تھے کہ مسلمانوں کا سلطان اپنا لشکر لے کر شمال کی طرف نکل گیا ہے لیکن اچانک ایک روز صبح سلطان اپنے لشکر کے ساتھ ان کے سامنے نمودار ہوا تو وہ حواس باختہ ہو کر رہ گئے۔

 *گو انہوں نے شہر کی فصیل کو خوب مستحکم بنا رکھا تھا شہر کے اندر خاصا بڑا لشکر بھی تھا لیکن سلطان جب اپنے انداز میں حملہ آور ہوا تو صلیبیوں کے سارے کس بل اس نے نکال کر رکھ دیئے۔سلطان تلوار کے زور پر شہر کو فتح کرتا ہوا الکرک میں فاتحانہ داخل ہوا۔* 

 *اس داخلے کے وقت سلطان کو اطلاع دی گئی کہ صلیبیوں نے الکرک کے اندر ناصرہ نام کا ایک قلعہ نما تاریخی گرجا بنا رکھا تھا اور اسی گرجے کو وہ اپنی جنگی سرگرمیوں کا مرکز بنائے ہوئے تھے۔* 

 *سلطان نے اس گرجے کو مسمار کرا دیا اور الکرک کی فصیل بھی زمین کے برابر کر دی اس کے بعد پھر کبھی الکرک صلیبیوں کا مرکز نہ بن سکا اور مصری حاجیوں کے قافلے صلیبیوں کے شر سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے۔الکرک کی فتح کے بعد سلطان اپنے لشکر کے ساتھ مصر کی طرف چلا گیا تھا۔چند ماہ اس نے بالکل خاموشی سے گزارے ساتھ ہی تیاری بھی کرتا رہا۔دوسری طرف صلیبی مطمئن تھے کہ شاید مسلمانوں کا سلطان الکرک ہی فتح کرنا چاہتا تھا لہٰذا لوٹ گیا ہے لیکن سلطان کی یہ خاموشی کسی نئے طوفان کی آمد کا پتا دے رہی تھی۔

چند ماہ کے وقفے کے بعد سلطان اپنے لشکر کے ساتھ پھر نکلا۔ارض فلسطین میں داخل ہوا۔مصر سے اس کے نکلنے کے ساتھ ہی بحیرہ روم کے ساتھ جس قدر صلیبیوں کے قلعے تھے وہاں کے لشکر سلطان کا مقابلہ کرنے کے لئے بالکل تیار اور مستعد ہو گئے تھے اور وہ سلطان کی نقل و حرکت پر گہری نگاہ رکھنے لگے تھے۔اس بار سلطان نے صلیبیوں کو پھر حیرت میں ڈال دیا سلطان نے ایک لمبا چکر اور کاوا کاٹا صلیبیوں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ سلطان کیا کرنا چاہتا ہے۔اچانک آندھی اور طوفان کی طرح سلطان ان کے شہر قیساریہ کے سامنے نمودار ہوا۔

 *اس شہر کو قیساریہ اور قیصریہ دونوں انداز میں لکھا جاتا رہا ہے۔یہ شہر گو آج کل ویران پڑا ہے لیکن ماضی بعید میں یہ بڑا بارونق اور بڑا مظبوط اور مستحکم قلعہ بند شہر خیال کیا جاتا تھا۔* 

سلطان نے قیساریہ کا گھیراؤ کر لیا۔

قیساریہ کے اندر جو لشکر تھا اس نے سلطان کے حملے کو کوئی اہمیت نہ دی اس لئے کہ قیساریہ شہر ایک اہم بندرگاہ اور صلیبیوں کا ایک مظبوط مرکز تھا۔وہ یہ خیال کر رہے تھے کہ الکرک کا مظبوط قلعہ اتفاقاً مسلمانوں کے سامنے سرنگوں ہو گیا ہے لیکن مسلمان قیساریہ کو فتح نہیں کر پائیں گے۔

قیساریہ اور اس قسم کے دوسرے قلعے سارے کے سارے بندرگاہوں کی صورت میں خشکی کی جانب بنائے گئے تھے۔دفاعی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ تھا کہ مسلمان اگر خشکی کی طرف سے محاصرہ کریں تو سمندر کا راستہ بہر حال کھلا رہے۔سمندر کے ہی راستے سے یورپ کے ساتھ ان صلیبیوں کا رابطہ رہتا تھا اس کے علاوہ یورپ سے تازہ جنگجو،آلات حرب و ضرب اور ضرورت کا دوسرا سامان بھی ان لوگوں کو ملتا رہتا تھا۔

ان بندرگاہوں میں داخل ہونے کی جگہوں پر بڑے بڑے برج تعمیر کیے گئے تھے جن کے ذریعے سے قلعہ اور شہر کی حفاظت کا کام لیا جاتا تھا۔لبنان اور فلسطین کے ساحل پر ایسے برج آج بھی کئی جگہ موجود ہیں۔قیساریہ صلیبیوں کے قلعوں میں سے انتہائی اہم خیال کیا جاتا تھا۔قلعے کے اندر جو لشکر تھا اس نے ڈٹ کر سلطان کا مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا قیساریہ کے صلیبیوں کو امید تھی کہ انہیں دوسرے صلیبی قلعوں سے سلطان کے خلاف مدد ملتی رہے گی لیکن سلطان نے ایسی غیر معمولی ذہانت اور عسکری مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے قلعے پر حملے کیے کہ صلیبی دنگ رہ گئے۔سلطان نے پہلے قیساریہ کا محاصرہ کر لیا اس محاصرہ کے دوران وہاں کے صلیبیوں کو کسی دوسری طرف سے کوئی مدد نہ پہنچ سکی۔ *اس طرح سات دن کی خون ریز جنگ کے بعد وہ عاجز آ گئے انتہائی عاجزی اور ذلت کے ساتھ انہوں نے سلطان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور سلطان فاتح کی حیثیت سے قیساریہ میں داخل ہوا۔شہر کے اندر جو صلیبیوں نے مظبوط قلعہ بنایا ہوا تھا سلطان نے اسے مسمار کر دیا اور قلعے کی بنیادیں تک کھود دی گئیں۔یوں قیساریہ کی تسخیر کے بعد سلطان نے اس کے دفاعی استحکامات کو اس انداز سے مليا میٹ کیا کہ صلیبیوں کو دوبارہ اس طرف رخ کرنے کی کبھی ہمت اور جسارت نہ ہوئی۔* 

قیساریہ کے مظبوط اور مستحکم قلعے اور شہر کو پامال اور فتح کرنے کے بعد اب سلطان بیبرس نے جنوب کا رخ کیا۔بڑی تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے اس نے صلیبیوں کے ایک اور انتہائی مظبوط اور مستحکم قلعے ارسوف کا رخ کیا۔

سلطان نے آگے بڑھ کر اپنے لشکر کے ساتھ ارسوف کا محاصرہ کر لیا۔ارسوف ہاسپٹلرز کا مرکز اور ان کا مظبوط گڑھ خیال کیا جاتا تھا۔یہ ہاسپٹلر صلیبی جنگجوؤں کا ایک مظبوط اور ناقابل تسخیر گروہ خیال کیا جاتا تھا اور انہوں نے صلیبی جنگوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔قیساریہ شہر کا انجام دیکھ کر ارسوف کے صلیبیوں نے سلطان کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی جنگی تیاریوں کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔ *سلطان نے ان پر جب تابڑ توڑ حملے کر دیئے اور ان کے سارے دفاعی استحکامات کو روندنا شروع کر دیا تب ہاسپٹلرز بڑے پریشان اور فکر مند ہوئے۔آخر کار ان ہاسپٹلرز کے قلعے کو توڑتے ہوئے سلطان اندر داخل ہوا۔اس قلعے کا بھی سلطان نے وہی حشر کیا جو قیساریہ کا ہوا تھا۔سلطان نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی اور اس کی مظبوط فصیلیں اور بلند و بالا برج گرا کر انہیں خواب خیال بنا کر رکھ دیا۔۔

ارسوف کو فتح کرنے کے بعد سلطان قاہرہ چلا گیا اور صلیبی یہی خیال کرنے لگے کہ سلطان اب بار بار پلٹ کر فلسطین پر حملہ آور نہیں ہوگا لیکن وہ دنگ رہ گئے۔چند ہی ماہ کا وقفہ ڈال کر سن بارہ سو چھیاسٹھ میں سلطان اپنے لشکر کے ساتھ پھر فلسطین میں آ نمودار ہوا۔سلطان طوفانی یلغار کرتا ہوا آگے بڑھا اور صلیبیوں کے اس قلعے کا اس نے محاصرہ کر لیا جسے صفد کہہ کر پکارا جاتا تھا۔

 کہتے ہیں یہ قلعہ خاصی بلندی پر واقع تھا اس کے نیچے بڑی گہری خندقیں کھودی ہوئی تھیں جنہیں عبور کرنا مشکل بلکہ ناممكن خیال کیا جاتا تھا۔اس قلعے میں ہیکلی جنگجو کثرت سے رہتے تھے جو اپنے آپ کو ناقابل تسخیر خیال کرتے تھے۔یہ ٹیمپلرز کا ایک گروه تھا جو بڑے سفاک لوگ تھے وہ یروشلم میں ہیکل سلیمانی کے قریب رہتے تھے اس لئے ٹیمپلرز یا ہیکلی مشہور ہو گئے۔شروع میں ان کا مقصد صرف خدمت خلق تھا لیکن آہستہ آہستہ بعد میں یہ ایک جنگجو فرقہ بن کر نمودار ہوا اور مسلم دشمنی کو اس نے اپنا وطیرہ بنا لیا تھا۔ ان سب نے متحد ہو کر فیصلہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے سلطان کا مقابلہ کریں گے اور اس جگہ پر قابض نہیں ہونے دیں گے

لیکن شاید وہ سلطان کی طاقت،قوت اور اس کے حملہ آور ہونے کے انداز سے ناواقف تھے۔سلطان نے جب ان کے قلعے کا گھیراؤ کیا اس کے بعد جب اس نے ان پر جان لیوا حملے کیے ان ہیکلی جنگجوؤں کے پاؤں سے زمین کھسکنا شروع ہو گئی تھی۔سلطان کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے ان ہیکلی جنگجوؤں کی لاشیں بکھرنے لگی تھیں۔یہاں تک کہ سلطان نے زور دار حملے کرتے ہوئے شہر کو فتح کر لیا۔

 *سلطان جب شہر میں داخل ہوا تو مزاحمت کرنے والوں نے سلطان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔سلطان نے قلعے میں داخل ہو کر عام شہریوں کو تو مکمل امان دے دی انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں کوئی ان سے تعرض نہیں کرے گا ان کی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں لیکن صفد شہر میں جو دو ہزار کے لگ بھگ ہیکلی جنگجو بچے تھے جنہوں نے مسلمانوں کی دشمنی کو اپنا پیشہ بنا رکھا تھا سلطان نے انہیں معافی نہ دی اور ان دو ہزار ہیکلی جنگجوؤں کو اس نے موت کے گھاٹ اتار دینے کا حکم دے دیا تھا۔* 

سلطان نے ان کے ساتھ ایسا سلوک اس لئے کیا تھا کہ یہ لوگ صفد کے نواحی علاقوں میں جس قدر پرامن اور بے گناہ مسلمان آباد تھے اکثر و بیشتر ان پر حملہ آور ہوتے،ان کا قتل عام کرتے،ان کا مال و اسباب لوٹ لیتے،گھروں کو جلا دیتے اور کچھ کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے جاتے اور انہیں طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے رہتے تھے لہٰذا سلطان کے نزدیک ان کا یہ جرم ناقابل معافی تھا۔اس لئے اس نے ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دینے کا حکم دے دیا تھا۔ *صفد کی فتح پر مسلمانوں نے سلطان بیبرس کو عماد الدین اور سکندر زماں کے خطابات دیئے اور مشہور مؤرخ فلپ کے مطابق حتیٰ  کہ آج بھی صفد کی فصیل پر ایک کتبہ موجود ہے جس پر لکھا ہوا ہے۔* 

 *"سکندر زماں عماد الدین۔"* 

صفد کو فتح کرنے کے بعد سلطان نے رفاه عامہ کا ایک بہترین کام سرانجام دیا۔اس نے وہاں دریائے اردن پر ایک عظیم الشان پل تعمیر کروایا اس پل کی تعمیر کے بعد وہاں بھی سلطان نے ایک کتبہ نصب کروایا تھا۔مؤرخین لکھتے ہیں کیونکہ آنے والے دور میں دریائے اردن نے اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا تا ہم سلطان بیبرس کا بنایا ہوا پل آج بھی موجود ہے لیکن اب یہ خشکی پر آگیا ہے۔صفد شہر کو فتح کرنے کے بعد سلطان نے فلسطین کے مشہور و معروف شہر یافہ کیا رخ کیا۔یافہ کا موجودہ نام تل ابیب ہے اور یہ صیہونی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت بھی ہے۔سلطان قاہرہ سے اپنے لشکر کے ساتھ نکلا اور سیدھا اس نے یافہ کا رخ کیا۔ان دنوں یافہ صلیبیوں کا ایک بہت بڑا مرکز شمار کیا جاتا تھا لہٰذا انہوں نے جان توڑ کر سلطان بیبرس کا مقابلہ کیا۔وہ ہر صورت میں چاہتے تھے کہ یافہ شہر ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے لیکن سلطان نے اس انداز میں اس قدر زندہ دلی،جرات مندی اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یافہ پر اپنے لشکر کے ساتھ حملے شروع کیے کہ سلطان کی صرف بارہ گھنٹے کی یلغار کو یافہ کے جنگجو برداشت نہ کر سکے اور یافہ کو سلطان نے فتح کر لیا اور قلعے کی فصیل پر سلطان نے اپنا پرچم لہرا دیا تھا۔

یافہ کو فتح کرنے کے بعد سلطان نے اپنے لشکر کے ساتھ ایک انتہائی اہم قلعے ثقیف ارنون کا رخ کیا۔یہ شہر اور قلعہ دمشق اور ساحل سمندر کے درمیان واقع ہے اور مانیال شہر سے نزدیک پڑتا ہے۔ارنون ایک شخص کا نام تھا جس نے یہ آباد کیا تھا لہٰذا اس کے نام پر یہ ثقیف ارنون کہلایا۔یہ انتہاء درجے کا مستحکم قلعہ تھا۔ایک بلند کوہستانی سلسلے کے اوپر واقع ہونے کی وجہ سے اس کے استحکام میں واقعی مزید اضافہ ہوا تھا۔

یہ قلعہ صور اور صیدا شہر کے ساحلی علاقے کو ابعقا اور دمشق سے ملانے والے جنوبی درے کے قریب واقع تھا۔اس قلعے کی اہمیت اس بناء پر بھی تھی کہ یہ جنگجو ٹیمپلرز کا مرکز تھا اور انہوں نے یہاں اتنی عسکری طاقت اور قوت جمع کر رکھی تھی کہ دو وجہ سے اسے ناقابل تسخیر خیال کیا جاتا تھا۔

 *پہلی وجہ یہ کہ یہ انتہائی بلندی پر واقع تھا اور دوسری وجہ اس کے ناقابل تسخیر ہونے کی یہ تھی کہ یہ ٹیمپلرز کا مركزی شہر تھا اور یہاں انہوں نے اپنی ساری قوت جمع کر رکھی تھی۔* 

یہ قلعہ ایک عمودی چٹان پر بنایا گیا تھا۔دریائے لیطانی سے اس کی بلندی ڈیڑھ ہزار فیٹ اور سطح سمندر سے یہ دو ہزار ایک سو ننانوے فیٹ بلند تھا۔اس کی فصیل کا ایک حصہ پتھروں کی چنائی سے اور دوسرا حصہ چٹانیں تراش کر بنایا گیا تھا اور ان چٹانوں کی وجہ سے اس کے استحکام میں زبردست اضافہ ہوا تھا۔

 *کہتے ہیں اس قلعے کا مجموعی رقبہ لگ بھگ چار سو نوے مربع گز تھا اس کی فصیل کی چوڑائی ننانوے فیٹ،فصیل کی بلندی ستاون فیٹ اور کہیں فصیل کی بلندی اٹھہتر فیٹ کے لگ بھگ بھی تھی۔* 

اس قلعے کے جنوب اور مغربی حصے کی طرف ایک انتہائی مظبوط اور مستحکم خندق تھی جو ٹھوس چٹان کاٹ کر بنائی گئی تھی۔یہ خندق کہیں سے اڑتالیس فیٹ گہری تھی اور کہیں اس کی گہرائی ایک سو چوالیس فیٹ کے لگ بھگ بھی تھی۔

اس خندق میں چٹانیں کاٹ کاٹ کر چھوٹے چھوٹے حجرے بنائے گئے تھے جن کے اندر پانی کے میٹھے چشمے جاری تھے۔

 *اس قلعے کی عمودی دیواریں گھاٹیوں کے کنارے سے اوپر اٹھائی گئی تھیں اور ان کے کونوں پر بلند اور مستحکم برج بنا دیئے گئے تھے انہی برجوں کے اندر بیٹھ کر یہاں کے محافظ قلعے کی حفاظت کرتے تھے جن کی وجہ سے قلعے کو ناقابل تسخیر خیال کیا جاتا تھا۔* 

اس قلعے کی فصیل سے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اسے توڑا نہیں جا سکتا نہ ہی اس کے کسی حصے کو مسمار کر کے اندر جایا جا سکتا تھا اس لئے کہ فصیل کا زیادہ حصہ چٹانوں پر مشتمل تھا جنہیں تراش کر فصیل کی شکل دی گئی تھی اور کچھ حصہ اتنے چوڑے چوڑے پتھروں سے بنایا گیا تھا کہ ان کو توڑ کر شہر میں داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔

فصیل کے اوپر جو پتھروں کے بڑے بڑے مستحکم برج بنے ہوئے تھے ان کے اندر یہاں کے جنگجو تیروں اور پتھروں کے ڈھیر لگائے رکھتے تھے اور حملہ آوروں پر تیروں اور پتھروں کی بارش کر کے انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیتے تھے۔

 *اس قلعے کے جنگجو محافظوں کا خیال تھا کہ عام حالات میں اس قلعے پر قبضہ کرنا تو کجا اس پر حملے کا تصور کرنا بھی دیوانے کا خواب معلوم ہوتا تھا۔

 *لیکن کبھی کبھی ایسے مجاہد،ایسے ناقابل تسخیر حکمران بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو صرف ناممكن کو ممکن بنانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں یہی حالت سلطان بیبرس کی بھی تھی۔* 

اپریل سن بارہ سو اڑسٹھ کو سلطان اپنے لشکر کے ساتھ دشوار گزار اور طویل پہاڑی راستوں کو طے کرتا ہوا اچانک اس قلعے کے سامنے نمودار ہوا۔

سلطان نے جب قلعے پر حملے شروع کیے تو قلعے کے اندر جو صلیبی جنگجو تھے انہوں نے سلطان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔سلطان کو بھی اس قلعے کے استحکامات کا بخوبی علم تھا چنانچہ جلد ہی سلطان نے اپنے آخری کام کی ابتدا کی۔

 *تھوڑی دیر جنگ کے بعد سلطان نے جنگ موقوف کر دی۔اچانک ایک طرف سے مسلمانوں کی منجنیقیں نمودار ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سلطان کے حکم پر قلعے کے قریب چھبیس بڑی بڑی منجنیقیں نصب کر دی گئی تھیں۔* 

یہ صورت حال دیکھتے ہوئے قلعے کے اندر جو صلیبی جنگجو تھے وہ سکتے میں آ گئے تھے انہوں نے جب اتنی بڑی بڑی اور اس قدر تعداد میں منجنیقوں کو دیکھا تو بوکھلا کر رہ گئے تھے۔

سلطان نے پہلے فصیل کا جائزہ لیا اس کے بعد اس نے خود مناسب مقامات پر منجنیقیں نصب کرانے کا حکم دیا...سلطان کا حکم ملتے ہی آناً فاناً منجنیقیں اس جگہ نصب کر دی گئیں جہاں سلطان نے کہا تھا اس کے بعد ان منجنیقوں سے جب بڑے بڑے اور بھاری پتھروں کی بارش قلعے کی فصیل پر ہونے لگی تو اس سنگ باری سے صرف قلعے کی فصیل ہی نہیں چٹانیں تک لرزنے کانپنے لگی تھیں...قلعے کو جلد فتح کرنے کے لئے سلطان بیبرس نے دو اقدام کیے۔پہلا یہ کہ بڑی بڑی منجنیقوں کے ذریعے اس نے لگاتار فصیل پر سنگ باری شروع کروا دی تھی۔دوسری یہ کہ اس نے قلعے کا اس سختی سے محاصرہ کیا تھا کہ قلعے کی طرف آنے والے سارے راستے اس نے بند کر دیئے اور قلعے والوں کو باہر سے کوئی بھی چیز ملنے کی توقع نہ رہی...سلطان کے ان دو اقدامات کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ قلعے کے جنگجوؤں کی قوت مدافعت ختم ہوتی چلی گئی اس کے بعد وہ گھبرا اٹھے۔ان میں سے کچھ تو پہلے ہی سلطان کے تیز اور جان لیوا حملوں کے باعث مارے جا چکے تھے باقی نے جب دیکھا کہ اگر ان کے ساتھی اسی طرح مرتے رہے تو ایک دن قلعہ ان سے خالی ہو جائے گا لہٰذا وہ پشتی حصے کی طرف بھاگے۔پشتی حصے کی طرف ساحل تھا اور وہ وہاں سے اپنی جانیں بچا کر بھاگ گئے۔اس طرح سلطان فاتح کی حیثیت سے قلعے میں داخل ہوا اور اس کے سب سے بلند ترین برج پر سلطان نے اپنا علم نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔ثقیف ارنون نام کے اس قلعے کی فتح سے فلسطین کے اندر جس قدر صلیبی جنگجو تھے ان پر بڑی کاری ضرب لگی اور سلطان بیبرس کی طرف سے ان پر ایک طرح کی دہشت سوار ہو گئی تھی اور وہ سلطان کا نام سن کر خوف و ہراس سے لرزنے کانپنے لگ جاتے تھے... 

فلسطین میں ان شاندار اور لگاتار فتوحات نے سلطان بیبرس کے لشکریوں کے حوصلے بلند کر کے رکھ دیئے تھے اور وہ اس خطہ زمین کو ہمیشہ کے لئے صلیبی جنگجوؤں سے پاک کر دینے پر تل گئے تھے۔سلطان بیبرس چونکہ اپنے لشکر میں انتہا درجے کا ہر دل عزیز تھا لہٰذا اس کے لشکری اس کے اشارے پر کٹ مرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے اور ارنون شہر کو فتح کرنے کے بعد سلطان نے صلیبیوں کے ایک بہت بڑے قلعے اور شہر طرابلس کا رخ کیا۔

سلطان کی ان لگاتار فتوحات کی وجہ سے صلیبیوں کے تمام ساحلی علاقے زور و شور سے جنگی تیاریوں میں مشغول ہو گئے تھے کیونکہ کسی کو کچھ علم نہ تھا کہ سلطان بیبرس اب کس کو اپنی یلغار کا نشانہ بنائے گا۔پھر ایک دن ایسا ہوا کہ سلطان اپنے لشکر کے ساتھ طرابلس پہنچا اور شہر سے باہر اس نے اپنے لشکر کا پڑاؤ کر کیا جس پر اہل طرابلس سمجھ گئے کہ اب ان کی باری ہے۔

طرابلس صلیبی جنگجوؤں کا بڑا مرکز اور مظبوط قلعہ تسلیم کیا جاتا تھا اور انہوں نے وہاں بے پناہ جنگی قوت جمع کر رکھی تھی اور وہ قلعہ بند ہو کر مسلمانوں سے ایک طویل جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے...ان دنوں طرابلس شہر کی بڑی اہمیت تھی اس لئے کہ پیداوار کے لحاظ سے یہ انتہائی اہم شہروں میں شمار کیا جاتا تھا۔حلب شہر سے لے کر طرابلس تک لگ بھگ چالیس فرلانگ تک شہر باغوں اور درختوں سے مزين زمین تھی۔یہاں گنا کثرت سے پیدا ہوتا تھا اس کے علاوہ نارنگی،سنترہ،کیلا،لیمو،کھجور خوب ہوتی تھی...اس کے علاوہ طرابلس شہر ایسے مقام پر آباد تھا کہ اس کے تین طرف سمندر اور صرف ایک طرف خشکی تھی اور جب مد و جذر کا وقت آتا تو سمندر کا پانی شہر پناہ تک پہنچ جاتا تھا۔خشکی کی طرف کے پہلو کو ایک زبردست خندق بنا کر محفوظ کر دیا گیا تھا۔یہ خندق فصیل کے مشرق میں واقع تھی اور اس کے پار لوہے کا نہایت مظبوط پھاٹک بنا دیا گیا تھا... 

اس کے علاوہ طرابلس شہر کی فصیل تراشیدہ پتھروں سے بڑی مظبوطی اور عرق ریزی سے بنائی گئی تھی اور ناقابل تسخیر خیال کی جاتی تھی۔فصیل کے استحکام کے لئے اس کے اندر اور باہر بڑے بڑے دمدمے بھی بنا دیئے گئے تھے...سلطان جب اپنے لشکر کے ساتھ طرابلس کے سامنے نمودار ہوا تب طرابلس والوں نے ڈٹ کر سلطان کا مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔طرابلس والوں کے حوصلے اس لئے بھی بلند تھے کہ ان دنوں انطاكيہ کے بادشاہ بوہيمنڈ نے بھی طرابلس میں قیام کیا ہوا تھا اور وہ شاید سلطان بیبرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ہی اہل طرابلس سے صلاح مشورہ کرنے کے لئے آیا تھا...

جس روز سلطان اپنے لشکر کے ساتھ طرابلس پہنچا اس کے بعد جب رات آئی تب سلطان کے مخبروں نے سلطان کو اطلاع کر دی کہ انطاکیہ کا بادشاہ بوہيمنڈ بھی طرابلس میں قیام کیے ہوئے ہے۔یہ خبر سلطان کے لئے بڑی حوصلہ افزا تھی اور اس نے ایک بہت بڑا فیصلہ کر لیا...

سلطان نے ابھی تک طرابلس کا محاصرہ نہیں کیا تھا۔طرابلس کے سامنے اس نے اپنے لشکر کا پڑاؤ کیا تھا۔اگلے روز جب اہل طرابلس جاگے تو انہوں نے دیکھا جس میدان میں ان کے سامنے سلطان نے اپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤ کیا تھا وہ تو بالکل خالی پڑا تھا سلطان اور اس کے سب لشکری غائب تھے...

اہل طرابلس یہ خیال کرنے لگے کہ مسلمانوں کے سلطان کو ان کی عسکری طاقت اور قوت کا اندازہ ہو گیا ہے لہٰذا وہ ان سے ٹکرانا نہیں چاہتا اس لئے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر یہاں سے بھاگ گیا ہے لیکن سلطان نے صلیبی جنگجوؤں کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔سلطان رات کے وقت ہی اپنے لشکر کے ساتھ وہاں سے کوچ کر گیا تھا اور اگلے روز ارض فلسطین کے شمالی حصوں میں ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہوا...طرابلس کو چھوڑ کر سلطان نے نصرانیوں کے سب سے بڑے مشرقی شہر انطاکیہ کو اپنا ہدف بنانے کا عزم کر لیا تھا۔انطاکیہ کا حکمران بوہيمنڈ مشہور مؤرخ ابو الفصا کے الفاظ کے مطابق نہایت ہی شریر نفس اور کمینہ خصلت انسان شمار کیا جاتا تھا اور وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔انطاکیہ ساحل سمندر سے تقریباً چودہ میل کے فاصلے پر ایک انتہائی اہم شہر تھا۔اس شہر کو تین سو قبل مسیح میں ایک بادشاہ سلیوکس اول نے آباد کیا تھا...

سن چونسٹھ قبل مسیح میں رومن سالار پمپی اس شہر پر حملہ آور ہوا اور اس پر قابض ہو گیا اس کے بعد یہ شہر ایشیاء میں رومنوں کا سب سے اہم شہر اور سلطنت روما کی ایشیائی سلطنت کا صدر مقام بھی بن گیا...

اس کے بعد اس شہر پر ایرانیوں نے لگاتار حملے شروع کر دیئے اور کچھ عرصے تک یہ ایرانی حملوں کا تختہ مشق بنا رہا۔سب سے پہلے ایران کے شہنشاہ شاہ پور اول نے سن دو سو اٹھاون میں اور اس کے بعد سن دو سو ساٹھ میں اس شہر کو فتح کیا اور یہاں کے بہت سے لوگوں کو وہاں سے نکال کر دوسرے علاقوں میں آباد کیا۔

سن دو سو چھیاسٹھ سے سن دو سو بہتر تک اس شہر پر قدحر شہر کی ملکہ زنوبیہ قابض رہی۔ان حملوں کے باوجود شہر کی زیب و زینت قائم رہی

آخر سن پانچ سو چالیس میں ایران کے شہنشاہ نوشیرواں نے اس شہر کا محاصرہ کر کے اسے فتح کیا اور اسے بالکل اور مکمل طور پر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور یہاں کے باشندوں کو نکال کر دوسرے علاقوں میں آباد کر دیا...

اس کے بعد رومن شہنشاہ جٹنین نے اس شہر کو دوبارہ آباد کیا۔اس کے بعد رومنوں پر حملہ آور ہو کر یہ شہر عربوں کے قبضے میں چلا گیا اور آج کل یہ شہر مشرقی تركی کا ایک عام شہر شمار کیا جاتا ہے...یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انطاکیہ ہر زمانے کا مشہور و معروف شہر رہا ہے اور نصرانیوں کے نزدیک یہ مقدس مقام کا درجہ رکھتا تھا۔مسلمانوں نے اسے سب سے پہلے فاروق اعظم کے عہد خلافت میں فتح کیا۔چند ہی سال بعد اس کو یونانیوں نے لے لیا مگر بہت جلد مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا...

عرصہ دراز کے بعد پہلی صلیبی جنگ کے دوران صلیبیوں نے اس پر پوری طاقت اور قوت سے حملہ کیا اور سات ماہ کے طویل محاصرے کے بعد انہوں نے اس شہر کو فتح کر لیا۔یہ فتح بھی ایک نو مسلم ارمنی فیروز کی غداری کی مرہون منت تھی جو ایک خفیہ راستے کے ذریعے صلیبیوں کو قلعے کے اندر لے گیا تھا۔اس وقت تک یہ شہر صلیبیوں کے قبضے میں تھا اور یہاں انہوں نے ایک ریاست قائم کر لی تھی اس طرح سے انطاکیہ شہر صلیبیوں کا بہت بڑا مرکز اور انتہائی اہم اور مستحکم شہر شمار کیا جاتا تھا...سلطان بیبرس اس شہر پر ضرب لگا کر ہر صورت میں اسے فتح کرنے پر تلا ہوا تھا اس لئے کہ یہ شہر لگ بھگ ایک سو ستر سال سے لگاتار صلیبیوں کے قبضے میں آ رہا تھا۔یہ شہر بڑا بارونق ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا مظبوط بھی تھا اس لئے کہ اس شہر کے ارد گرد دو چوڑی چوڑی فصیلیں تھیں اس کے علاوہ یہ شہر دریائے اورنٹس کے کنارے پر واقع تھا اور ان سب چیزوں نے اس کے استحکامات کو بڑی تقویت بخشی تھی...

اس شہر میں نصرانیوں کے مقدس مقامات،عظیم الشان گرجے اور مظبوط قلعے تھے۔کہتے ہیں جس وقت سلطان بیبرس اس شہر پر حملہ آور ہوا اس وقت شہر کے اندر دو لاکھ تربیت یافتہ صلیبی جنگجوؤں کا لشکر تھا۔اس کے علاوہ اور بہت سے دوسرے لوگ بھی تھے جو مسلح تھے اور بہترین عسکری تربیت حاصل کیے ہوئے تھے...

سلطان جس وقت اچانک اپنے لشکر کے ساتھ انطاکیہ شہر کے قریب نمودار ہوا تو انطاکیہ کے لوگ دنگ رہ گئے اس لئے کہ انہوں نے تو سنا تھا کہ مسلمانوں کے سلطان نے طرابلس کا رخ کیا ہے اور اس شہر کا اس نے محاصرہ کر لیا ہے۔طرابلس کے محاصرے کا سن کر اہل انطاکیہ بالکل مطمئن تھے۔ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ خطرہ طرابلس پر نہیں ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے...

جس وقت سلطان نے طرابلس کے قریب پڑاؤ کیا تھا اور اس کی خبریں انطاکیہ والوں کو پہنچیں تو وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمان انطاکیہ کی زبردست قوت سے ٹکرانے کی کبھی جرات نہیں کریں گے...لیکن ایک دن جب انہوں نے قلعے اور فصیل کے اوپر کھڑے ہو کر دیکھا کہ انطاکی کے چاروں طرف بے شمار علم کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا تو وہ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات سے دنگ رہ گئے اور یہ علم سلطان بیبرس کے لشکر کے تھے اور پھر یہی لشکر آہستہ آہستہ انطاکیہ شہر کے قریب آتا چلا گیا۔اس کے بعد جب مسلمانوں نے انطاکیہ شہر کے قریب آ کر یک زبان ہو کر تکبیریں بلند کیں تو تکبیروں کی ان صداؤں نے انطاکیہ شہر کو اس کی بنیادوں تک لرزا کے رکھ دیا تھا... 

سلطان بیبرس کا انطاکیہ شہر پر حملہ اچانک بھی تھا۔زوردار اور جرات مندانہ بھی تھا۔وہاں جو صلیبی قوت تھی اس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ سلطان اور اس کے لشکریوں کو روکیں اور انطاکیہ شہر میں داخل نہ ہونے دیں۔انطاکیہ کے لوگ یہ بھی خیال کر رہے تھے کہ ایک تو انطاکیہ شہر کی فصیل بہت بلند ہے ناقابل تسخیر ہے اس کے علاوہ باہر والی فصیل کے اندر ایک اور فصیل بھی تھی جس نے شہر کے استحکام کو پائیدار بنا کر رکھ دیا تھا...لیکن دوسری طرف حملہ آور ہونے والا بھی سلطان بیبرس تھا جو ناممکن کو ممکن بنانے کا ہنر اور صناعی جانتا تھا۔اپنا پہلا ہی حملہ سلطان نے ایسے زوردار انداز میں کیا کہ اس نے انطاکیہ کے مسلح لشکر کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اپنے پہلے ہی حملے میں سلطان اپنے لشکر کے ساتھ فصیل کے ایک حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا...

شہر کے اندر جو صلیبی لشکر تھا اس نے جب دیکھا کہ مسلمان تو شہر کو فتح کرنے کی ابتداء کر چکے ہیں انہوں نے فصیل کے ایک حصے پر قبضہ بھی کر لیا ہے تو انہوں نے اپنی پوری طاقت اور قوت کو صرف کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس حصے سے نکال باہر کرنا چاہا جس پر وہ قابض ہو چکے تھے لیکن وہ دنگ رہ گئے۔وہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹانا تو بہت دور کی بات اپنی جگہ سے پسپا نہ کر سکے۔اس موقع پر انطاکیہ کے لشکر کے ساتھ سلطان بیبرس کا گھمسان کا رن پڑا...اس جنگ کے نتیجے میں سلطان اپنے لشکر کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا۔اب شہر کے گلی کوچوں کے اندر جنگ شروع ہو گئی تھی شہر کی گلیوں میں خون بہنے لگا تھا۔ہر طرف لاشوں کے انبار لگنے لگے تھے...

انطاکیہ کے لوگوں نے جب دیکھا کہ مسلمان تو ان کے شہر کے اندر گھس آئے ہیں تو وہ لشکری جو پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار تھے وہ تو جنگ جاری رکھے ہوئے تھے اب دوسرے لوگ بھی اپنے آپ کو مسلح کرتے ہوئے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔دوسری طرف سلطان اور اس کے لشکریوں کو بھی یہ احساس تھا کہ وہ اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور دشمن کے خلاف برسرپیکار ہیں لہٰذا دشمن کو اپنے سامنے زیر کرنے کے لئے سروں پر کفن باندھ کر جنگ شروع کر دی تھی اس کے علاوہ مسلمان لشکری یہ بھی جانتے تھے کہ اگر انطاکیہ میں وہ پسپا ہو گئے شکست کھا گئے تو پھر مصر اور شام کے اندر بھی ان کی پناہ گاہیں اور ان کے شہر غیر محفوظ ہو کر رہ جائیں گے...گھمسان کی جنگ کے دوران جب مسلمان لشکریوں نے دیکھا کہ سلطان بیبرس ان کے پہلو سے پہلو ملائے انتہائی جرات مندانہ انداز میں دشمن پر حملہ آور ہو رہا ہے اور سلطان کی یہ جرات اور ہمت دیکھتے ہوئے مسلمان لشکری آتش فشانی لاوے کی صورت اختیار کر گئے اس کے بعد تکبیریں بلند کرتے ہوئے انطاکیہ شہر کے لشکر میں جس سمت بھی وہ رخ کرتے اپنے پیچھے مرنے والے صلیبیوں کی لاشوں کے انبار لگاتے چلے گئے تھے... 

شہر کے اندر ہولناک جنگ کے نتیجے میں کافی صلیبی جنگجو مارے گئے جب انہوں نے اپنے لشکر کا اندازہ لگایا تو انہوں نے دیکھا کہ لشکر کا ایک بڑا حصہ ان کے اپنے ہی شہر کے گلی کوچوں میں ہلاک ہو چکا تھا اور جنگ اسی طرح جاری رہی تو مسلمان ان کے بچے کھچے لشکریوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیں گے لہٰذا آپس میں صلاح مشورہ کرنے کے بعد انطاکیہ کے امراء اور سالاروں نے سلطان کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے شکست قبول کر لی اور اطاعت پر آمادہ ہوئے...سلطان بیبرس کے ہاتھوں انطاکیہ شہر کے فتح ہونے سے مشرق کی سرزمینوں میں رومنوں کی قدیم ترین ریاست ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔سلطان نے اب تک جو صلیبیوں کے خلاف ساحل کے ساتھ فتوحات حاصل کی تھیں انطاکیہ کی فتح ان سب سے بڑی فتح تھی اور اس فتح کو مؤرخین عموماً فتح الفتوح کا نام دیتے ہیں...مشہور مؤرخ ابوالفدا لکھتا ہے کہ انطاکیہ شہر کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں صلیبی لشکر کے لگ بھگ سولہ ہزار لشکری موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے تھے اور ان کے لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب لشکریوں کو جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا۔جنگ کے نتیجے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک غلام کی قیمت بارہ درہم اور ایک نوجوان لڑکی پانچ درہم میں فروخت ہونے لگی تھی۔یہاں سے سلطان کو اس قدر وافر مقدار میں مال غنیمت ملا کہ سلطان نے پیمانوں میں درہم اور دینار بھر بھر کر اپنے لشکریوں میں تقسیم کیے

مغربی اور عیسائی مؤرخین تعصب اور جانبداری سے کام لیتے ہوئے اس جنگ کے متعلق لکھتے ہیں...سلطان نے شہر کے تمام پرانے گرجوں اور قلعوں کو نذر آتش کر دیا۔ان میں سے بعض کو عالمگیر شہرت حاصل تھی...

لیکن یہ حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بیان میں کسی حد تک کوئی صداقت ہے اس لئے کہ انطاکیہ میں آج بھی بہت سے پرانے گرجے اور قلعے موجود ہیں...

جس وقت سلطان بیبرس نے انطاکیہ میں قیام کیا تھا اس وقت انطاکیہ کا حکمران بوہيمنڈ طرابلس شہر میں قیام کیے ہوئے تھا...اس کی غیر موجودگی ہی میں حملہ آور ہو کر سلطان نے انطاکیہ کو فتح کر لیا تھا...

شہر کو فتح کرنے اور اس کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد سلطان نے ایک خط لکھا اور قاصد کے ذریعے وہ خط اس نے طرابلس میں مقیم انطاکیہ کے بادشاہ بوہيمنڈ کو روانہ کیا۔اس خط میں سلطان نے لکھا تھا...انطاکیہ میں تمہارے آدمیوں میں سے ایک بھی نہ بچا جو تمہیں اس شہر کے انجام سے مطلع کرتا اس لئے ہم خود یہ ناگوار فرض بجا لاتے ہیں جن استحکامات پر تم کو ناز تھا وہ سب مليامیٹ ہو چکے ہیں کیونکہ ان کی بربادی پر تمہارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے والا بھی کوئی نہیں اس لئے ہم ہی ہمدردی کا یہ فرض بھی ادا کر رہے ہیں... 

کہتے ہیں سلطان بیبرس کا یہ خط جب انطاکیہ کے بادشاہ بوہيمنڈ کو طرابلس میں ملا تو خط کے مندرجات اور انطاکیہ کی فتح ہو جانے کی خبر پر اس کا خون کھول اٹھا۔اس نے یہ سارے حالات یورپ کے مختلف بادشاہوں اور پاپائے روم کی خدمت میں روانہ کیے اور ان سے سلطان بیبرس کے خلاف مدد طلب کی لیکن کوئی بھی سلطان بیبرس کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ کر سکا اور مایوس ہو کر وہ طرابلس سے نکل کر قبرص کی طرف چلا گیا تھا   

انطاکیہ کو فتح کرنے کے بعد سلطان نے اپنی توجہ آرمینیا کی طرف مبذول کی۔آرمینیا کے بادشاہ کا نام بیٹن تھا یہ بڑا متعصب،اسلام دشمنی میں سب سے آگے رہنے والا تھا۔یہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا جس سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکے۔ماضی میں وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ ہلاکو خان اور دوسری منگول قوتوں کا ساتھ دیتا رہا تھا اور جب سلطان بیبرس نے منگولوں کو اپنے سامنے زیر کر دیا اور انہیں اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف آئندہ جنگ کر سکیں اس کے بعد سلطان نے صلیبیوں کے خلاف تلوار بلند کی اور ان کے مختلف شہروں اور قلعوں پر حملہ آور ہو کر فتوحات کا سلسلہ پھیلانا شروع کر دیا تو اس آرمینیا کے حکمران بیٹن نے منگولوں کے بعد صلیبیوں کی بھر پور انداز میں مدد کرنی شروع کر دی تھی لہٰذا سلطان نے اب فلسطین کے کچھ دیگر شہروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پہلے آرمینیا کے بادشاہ پر حملہ آور ہو کر اس کی کمر توڑنے کا ارادہ کر لیا تھا...آرمینیا ایشیائے کوچک کا قریب ترین علاقہ خیال کیا جاتا تھا جو زیادہ تر کوہستانی سلسلوں سے گھرا ہوا تھا۔اس کے شمال کی طرف بلند کوہستانی سلسلے تھے جبکہ جنوب کی طرف بھی ایک کوہستانی سلسلہ تھا جسے جبل طاروس کہہ کر پکارتے تھے۔ان دنوں اس کا مجموعی رقبہ لگ بھگ تین لاکھ مربع کلو میٹر کے قریب تھا۔آج کل اس علاقے میں سے کچھ تركی کے قبضے میں ہے اور کچھ آرمینیا کے پاس۔سلطان بیبرس کی فتوحات کا سلسلہ کچھ اس طرح پھیلا تھا کہ اس کے شامی علاقوں اور انطاکیہ کی سرحدیں اب آرمینیا کے حکمران بیٹن کے علاقوں سے جا ملی تھیں لہٰذا سب سے پہلے سلطان نے آرمینیا کے حکمران بیٹن کا ہی بندوبست کرنے کا ارادہ کیا...سلطان بڑی برق رفتاری سے آرمینیا کی طرف بڑھا اور آرمینیا پر اس نے یلغار کر دی۔اس کا مقصد آرمینیا کے ان کوہستانی علاقوں پر قبضہ کرنا نہ تھا بلکہ آرمینیا کی طاقت اور قوت کی کمر توڑنا تھا تاکہ آئندہ وہ اسلام دشمن قوتوں کا ساتھ نہ دینے پائی...

اس کے علاوہ سلطان آرمینیا کے جنگجوؤں کو منگولوں اور اس کے خلاف دوسری قوتوں کی حمایت اور مدد کی سزا بھی دینا چاہتا تھا...

 *سلطان آرمینیا کے علاقوں میں داخل ہونے کے بعد آندھی اور طوفان کی طرح آگے بڑھتا چلا گیا۔کئی مواقع پر آرمینیا کے بادشاہ بیٹن نے سلطان کی راہ روکنا چاہی لیکن جو لشکر بھی سلطان کے سامنے آیا سلطان نے اسے خس و خاشاک کی طرح اڑا کر رکھ دیا۔اس کے بعد پیش قدمی اور یلغار کرتے ہوئے سلطان آرمینیا کے ایک اہم شہر اونا تک پہنچ گیا۔شہر پر وہ حملہ آور ہوا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر شہر پر قبضہ کر لیا...اس طرح آرمینیا پر حملہ آور ہو کر سلطان نے نہ صرف آرمینیا کے بادشاہ بیٹن بلکہ اس کی عسکری طاقت اور قوت کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔پھر آرمینیا کے بادشاہ بیٹن کی بد قسمتی کہ ان جنگوں کے دوران سلطان نے جہاں اس کے ان گنت لشکریوں کو موت کے گھاٹ اتارا وہاں اس کے بیٹے کو بھی زندہ گرفتار کر لیا۔اپنے بیٹے کی گرفتاری پر بیٹن بڑا پریشان،فکر مند اور بے تاب ہوا لہٰذا اپنے بیٹے کو سلطان سے چھڑانے کے لئے اس نے فديہ میں ایک کثیر رقم سلطان کو ادا کی جس کے جواب میں سلطان نے اس کے بیٹے کو رہا کر دیا... 

سلطان شاید کچھ عرصہ اور آرمینیا میں قیام کرتا اس کے دوسرے بہت سے شہروں کو فتح کر کے مال غنیمت کی صورت میں اپنے لئے اور اپنے لشکریوں کے لئے فوائد حاصل کرتا پر اسی دوران سلطان کے مخبروں اور طلایہ گردوں نے ایسی خبریں دینی شروع کیں جس کی بناء پر سلطان کو آرمینیا سے نکل کر واپسی کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

 *ہوا یوں کہ جن دنوں سلطان آرمینیا میں اپنی ترک تاز اور یلغار میں مصروف تھا اس کے مخبروں نے اطلاع دی کہ سلطان کی وسیع فتوحات کی خبریں یورپ تک پہنچ گئی ہیں اور یورپ میں پھر ایک بار صلیبی جہاد کا وعظ اسی طرح شروع ہو گیا ہے جس طرح اس سے پہلے سلطان عماد الدین زنگی،سلطان نور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ہوا تھا...

ساتھ ہی سلطان کو یہ بھی خبریں پہنچنی شروع ہو گئیں کہ یورپ والوں نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کر لیا ہے اور اب وہ لشکر سلطان کے علاقوں پر حملہ آور ہونے کے لئے پرتول رہا ہے...یہ خبریں سن کر سلطان نے آرمینیا کے اندر اپنی مزید پیش قدمی کو روک دیا۔آرمینیا سے وہ نکلا پلٹا اور یورپی صلیبیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وقت ضائع کیے بغیر وہ قاہرہ پہنچا۔سلطان جب قاہرہ پہنچا تو قاہرہ کے لوگوں نے سلطان کی فتوحات کی وجہ سے اس کا ایسا شاندار استقبال کیا جس کی مثال تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتی۔ساتھ ہی لوگوں نے فتوحات کے بعد سلامتی کے ساتھ سلطان کے واپس آنے پر شکرانے کی نمازیں ادا کیں

یورپی ملکوں میں سب سے پہلے فرانس کا بادشاہ لوئی نہم سلطان کے خلاف حرکت میں آیا...بائیس سال پہلے بھی فرانس کے بادشاہ نے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہو کر ساتویں صلیبی جنگ کی ابتدا کی تھی...اور سلطان بیبرس ہی نے اسے ذلت آمیز شکست دی تھی...اور اسے گرفتار کر کے قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزارا تھا لیکن اس کا مذہبی جوش ابھی تک سرد نہیں ہوا تھا...جب اس نے انطاکیہ کی عیسائی سلطنت کے خاتمے کی خبر سنی تو اس کا خون کھول اٹھا...وہ ارض مقدس کو مسلمانوں سے چھیننے کے خواب ایک بار پھر دیکھنے لگا اسی اثناء میں اس کو پاپائے اعظم کلیمنٹ چہارم کا ایک خط ملا جس میں فرانس کے بادشاہ کو ترغیب دی گئی تھی کہ وہ راہ خدا میں کچھ کام کرے اور ارض مقدس کو مسلمانوں کے پنجے سے چھڑانے کی کوشش کرے...

پاپائے اعظم کا یہ خط پڑھ کر فرانس کا بادشاہ صلیبی جنگ کے لئے بالکل تیار ہو گیا اور دن رات کی جنگی تیاریوں میں مصروف ہو گیا...سن بارہ سو ستر میں وہ صلیبی جنگجوؤں کا ایک بہت بڑا لشکر لے کر فرانس سے ارض مقدس کی طرف روانہ ہوا جس وقت وہ جہاز میں سوار ہو رہا تھا اس وقت اس کے کچھ سالاروں نے مشورہ دیا کہ براہ راست ارض مقدس کی طرف جانے اور اس پر حملہ آور ہونے سے بہتر ہے کہ پہلے شمالی افریقہ کے مسلمانوں کو زیر کر لیا جائے اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو ارض مقدس میں ہمارے لئے دشواریاں اٹھ کھڑی ہوں گی...وہ چاہتے تھے کہ پہلے مصر اور شام کی حکومت پر ضرب لگا کر اسے اپنے سامنے زیر کیا جائے ایسا کرنے کے بعد ارض مقدس پر بھی کسی دقت کے بغیر قبضہ ہو جائے گا...

فرانس کے بادشاہ نے اپنے سالاروں کی اس تجویز کو منظور کر لیا اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوا...سب سے پہلے وہ افریقہ میں تیونس کے ساحل پر اتر گیا...

تیونس میں اس وقت بنو مرین کی حکومت تھی اور یہاں حکومت کرتے ہوئے انہیں ابھی صرف دو تین برس ہی گزرے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے ساحلی علاقوں کا کوئی خاص اہتمام نہ کر سکے تھے تا ہم وہ ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر اپنے ملک کے اندرونی علاقوں میں حملہ آور صلیبیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہو گئے تھے...

دوسری طرف سلطان بیبرس قاہرہ میں بیٹھ کر صورت حال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھا...اس کے مخبر اور طلایہ گرد اسے یورپی حملہ آوروں کی نقل و حرکت سے پوری طرح آگاہ کیے ہوئے تھے...اور اس نے بھی ان یورپی صلیبیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زبردست عسکری تیاریاں شروع کر دی تھیں...

اس کے علاوہ فرانس کا بادشاہ لوئی نہم سلطان بیبرس کے لئے اجنبی اور نا آشنا تو نہ تھا اور اس سے پہلے مسلمان منصورہ کے میدان میں لوئی نہم کو بد ترین شکست دے چکے تھے...

جس وقت لوئی نہم تیونس کے ساحل پر اترا اس وقت بنو مرین ان پر ضرب لگانے کے لئے ملک کے اندرونی حصوں میں پوری طرح تیار تھے...دوسری طرف سلطان بیبرس بھی فرانسیسیوں پر ضرب لگانے کے لئے اپنی تیاریوں کو آخری شکل دے چکا تھا...لیکن ان دو قوتوں کے علاوہ ایک اور قوت بھی اسی دوران حرکت میں آ گئی اور وہ خداوند قدس کی بے آواز لاٹھی تھی...ہوا یوں کہ جس وقت لوئی نہم اپنے لشکر کے ساتھ تیونس کے ساحل پر اترا وہ چاہتا تھا کہ آگے بڑھ کر مسلمانوں پر حملہ آور ہو اور ان کا قتل عام کرے کہ اس کے لشکر میں طاعون کی وبا پھیل گئی...بڑی تیزی سے اس کے لشکری مرنے لگے...اس کا وہی حشر ہوا جو مکہ معظمہ پر حملے کے وقت ابرہہ کے لشکر کا ہوا تھا...تیونس کے ساحل پر ہزاروں صلیبی اپنے بادشاہ سمیت طاعون میں مبتلا ہو کر مر گئے...اور جو باقی بچ گئے ان میں بھگدڑ مچ گئی اور جس کا جدهر منہ اٹھا بھاگ نکلا...اس طرح فرانس کا بادشاہ لوئی نہم جس آٹھویں صلیبی جنگ کی ابتدا مسلمانوں کے خلاف کرنا چاہتا تھا اسے عبرت خیزی میں تبدیل کرتے ہوئے ناکامی اور نامرادی میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا تھا... 

فرانسیسی لشکر کی تباہی اور بربادی اور ان کے بادشاہ کے مر جانے کے بعد انگلستان میں بھی مذہبی جوش اور ابال اٹھ کھڑا ہوا...انگلستان کے بادشاہ ہنری سوئم کا بیٹا ایڈورڈ مذہبی جوش اور جذبے میں آ کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کی ابتدا کرنے پر آمادہ ہوا...ہنری سوئم کا یہی بیٹا ایڈورڈ اس کے بعد ایڈورڈ اول کے نام سے انگلستان کے تخت پر بھی بیٹھا تھا...ایڈورڈ نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کی ابتدا کرنے کے لئے بہت سے رؤسا اور امراء کو اپنے ساتھ ملا لیا...اس طرح وہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر فلسطین کی طرف روانہ ہوا...فلسطین کی طرف سفر کرتے ہوئے ایڈورڈ نے راستے میں کچھ عرصہ صتعلیہ میں بھی قیام کیا یہاں تک کہ اپنے جرار لشکر کے ساتھ فلسطین کے شہر عکہ پہنچ گیا لیکن انگلستان کے اس لشکر کا انجام بھی فرانسیسی لشکر کے انجام سے ملتا جلتا ہی ہوا...فلسطین کے ساحل پر پہنچ کر سب سے پہلے ایڈورڈ ایک شدید ترین بخار میں مبتلا ہو گیا کئی ہفتوں تک لگاتار بخار میں مبتلا رہنے کے بعد جب وہ تندرست ہوا بخار سے اسے نجات حاصل ہوئی تو ایک دن ایک مسلمان قاصد کسی اہم شخصیت کا خط لے کر اس کے پاس پہنچا...

ایڈورڈ نے جونہی خط پڑھنا شروع کیا آنے والے اس قاصد نے بغل سے ایک چھری نکالی اور اس کو گھونپ دی...اس سے ایڈورڈ شدید زخمی ہوا لیکن کئی ماہ زیر علاج رہنے کے بعد اس کی جان بچ گئی لیکن وہ خوف اور دہشت کا شکار ہو گیا تھا...

ایڈورڈ پر اس حملے کے باعث اس کے لشکر کے اندر بھی خوف و ہراس پھیل گیا تھا...یہ صورت حال دیکھتے ہوئے ایڈورڈ کا سارا مذہبی جوش جذبہ کافور ہو گیا اس کا دل ٹوٹ گیا...دوسری طرف انگلستان میں اس کے باپ ہنری سوئم کو جب خبر ہوئی کہ فلسطین میں اس کے بیٹے پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے تو اس نے قاصد پر قاصد بھیج کر اس کو واپس آنے پر زور دینا شروع کر دیا...چنانچہ ایڈورڈ چودہ ماہ فلسطین میں قیام کرنے کے بعد ناکام اور نامراد اپنے وطن کو لوٹ گیا...فلسطین میں اس کے قیام کے دوران انگلستان کے صلیبیوں کو مسلمانوں کے کسی بھی علاقے پر حملہ آور ہونے یا دست درازی کرنے کی ہمت نہ پڑی خود سلطان بیبرس نے بھی ان کو کوئی اہمیت نہ دی...دراصل سلطان چاہتا تھا کہ جونہی انگلستان کے ان لشکریوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی وہ ان کی راہ روکے گا اور سمندر کی جانب بھاگ جانے پر مجبور کر دے گا...

ارض فلسطین میں سلطان بیبرس کی پے در پے متواتر فتوحات نے اس کا رعب اور دبدبہ بٹھا دیا تھا...اور یہ سارے شکست خورده صلیبی فلسطین سے بھاگ کر اب قبرص میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے...وہاں انہوں نے اپنا ایک مستقر بنا لیا ایک بہت بڑا بحری بیڑا تیار کرنا شروع کیا تا کہ اس بحری بیڑے کی مدد سے سلطان بیبرس کے علاقوں پر حملہ آور ہو کر اپنی گزشتہ شکستوں کی تلافی کر سکیں...سلطان کو جب ان کے ارادوں کی خبر ہوئی تو ان کا قلعہ قمع کرنے کے لئے ایک جنگی بحری بیڑا قبرص کی طرف روانہ کیا لیکن بد قسمتی سے یہ بحری بیڑا قبرص نہ پہنچ سکا اس لئے کہ راستے میں ایک خوفناک سمندری طوفان کا شکار ہو گیا تھا...سلطان کو اپنے اس بحری بیڑے کے نقصان کا بہت دکھ اور صدمہ ہوا تا ہم اس نے ہمت نہیں ہاری حکم دیا کہ فوراً ایک نئے بحری بیڑے کی تیاری کا کام شروع کر دیا جائے...چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں سلطان ایک بہت بڑا اور نیا بیڑہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا جو پہلے بحری بیڑے سے بہت بڑا اور مظبوط تھا...اس بحری بیڑے کی تیاری کے بعد اس سے کام لینے کا موقع نہ ملا اس لئے کہ قبرص میں جو صلیبی جا کر جمع ہوئے تھے اور وہ مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہونے کی ٹھان رہے تھے جب انہیں خبر ہوئی کہ سلطان نے ایک بہت بڑا بحری بیڑہ تیار کر لیا ہے تو ان کے حوصلے پست ہو گئے اور اپنے ارادے انہوں نے ملتوی کر دیئے تا ہم سلطان کو اپنے نئے بحری بیڑے کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آنے والے دور میں مسلمانوں کے دشمنوں کو سمندر کے راستے سلطان کی مملكت پر حملہ آور ہونے کی کبھی جرات نہ ہوئی

یورپ کی طرف سے جب صلیبی جنگ کی ابتدا کرنے کا خطرہ ٹل گیا انگلستان اور فرانس کے لشکر ناکام اور نامراد ہو گئے تب سلطان نے پھر اپنے پہلے کام کرنے کی ابتدا کرنے کا تہیہ کیا اور فلسطین میں وہ علاقے جو ابھی تک صلیبیوں کے قبضے میں تھے ان پر حملہ آور ہو کر انہیں فتح کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ سلطان سن بارہ سو اکہتر میں اپنے لشکر کے ساتھ قاہرہ سے نکلا اور حصن الاکراد کا رخ کیا...سلطان بیبرس کی نقل و حرکت اس قدر تیز تھی کہ صلیبی اس کے عزائم کو بھانپ نہ سکے کہ سلطان اب قاہرہ سے نکل کر ان کے کس قلعے یا شہر کا رخ کرے گا...ابھی وہ سلطان سے متعلق قیاس آرائیاں ہی کر رہے تھے کہ وہ کس شہر کو اپنا ہدف بنا سکتا ہے کہ سلطان اپنے لشکر کے ساتھ حصن الاکراد کے سامنے نمودار ہوا اور آناً فاناً اس کا محاصرہ کر لیا... 

یہ قلعہ ایک کوہستانی سلسلے کی چوٹی پر بنا ہوا تھا...زبردست مستحکم قلعہ سمجھا جاتا تھا اور پرانے دور کے قلعوں میں مظبوط ترین خیال کیا جاتا تھا...

یہ قلعہ طرابلس،طرطوس،حمص اور حماة شہروں کے وسط میں پڑتا تھا...اس قلعے میں بیک وقت دو ہزار صلیبی جنگجو رہتے تھے اور وہ طرابلس کے ایک کاؤنٹ کی ملكيت تھا...سلطان جب حصن الاکراد پر حملہ آور ہوا تو اس کی حفاظت پر ٹمپلرز کا ایک لشکر متعین تھا..پہلے انہوں نے ارادہ کیا کہ جنگ کو طول دیں گے،سلطان کا مقابلہ کریں گے...سلطان کو محاصرہ اٹھا دینے پر مجبور کر دیں گے لیکن جب سلطان نے زوردار انداز میں حملے شروع کیے اور ان کے کئی افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تو وہ سلطان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے...

سلطان نے حصن الاکراد کے اس قلعے پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی مرمت کروائی اور حصن الاکراد کی فصیل پر اپنی فتح کا ایک کتبہ بھی نصب کروایا تھا...حصن الاکراد کو فتح کرنے کے بعد سلطان اپنے لشکر کے ساتھ پھر حرکت میں آیا اور ایک بار پھر طرابلس کے سامنے نمودار ہوا...اس سے پہلے بھی سلطان ایک بار طرابلس کے قریب آیا تھا پھر ایک دم وہاں سے ہٹ کر انطاکیہ کی طرف گیا اور اسے فتح کر لیا...اس بار جب سلطان طرابلس کے سامنے نمودار ہوا تب طرابلس کے لوگ لرز کانپ گئے انہیں یقین ہو گیا تھا کہ سلطان اس بار طرابلس کو نہیں چھوڑے گا...

اس کے بعد وہی ہوا جو اس سے پہلے ہو چکا تھا...ایک روز جب طرابلس کے لوگ اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ سلطان اور اس کے لشکری وہاں نہیں تھے اس لئے کہ سلطان نے یکایک محاصرہ اٹھا لیا اور بیروت،صیدا اور صور کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے ایک دم وہ الكریم نام کے قلعے پر حملہ آور ہو گیا...اس قلعے کو ماؤنٹ فورٹ کے نام سے بھی پكارا جاتا تھا...

قلعے میں مقیم صلیبیوں کے لئے یہ حملہ بالکل خلاف متوقع تھا اس لئے کہ ابھی کچھ دن پہلے تو طرابلس کے پاس پڑاؤ کیے ہوئے تھا...اچانک جب ان کے سامنے نمودار ہوا تو وہ دنگ رہ گئے اپنے آپ کو بچانے کے لئے انہوں نے عکہ کے صلیبیوں سے مدد طلب کی تا کہ دو لشکر مل کر سلطان کے سامنے دفاع کریں...لیکن جب تک عکہ سے ان لوگوں کو مدد پہنچتی سلطان نے اپنے حملوں میں تیزی اور شدت پیدا کرتے ہوئے قلعے کے سارے استحکامات کو پامال کر دیا اور قلعے میں داخل ہو گیا...اس طرح یہ قلعہ بھی سلطان کے ہاتھوں فتح ہوا اور اس قلعے پر قبضہ کر کے سلطان نے اسے بالکل منہدم کرنے کا حکم دیا اور اس وقت وہاں سے نکلا جب اس مظبوط قلعے کی بنیادیں تک کھود کر تباہ و برباد کر دی گئیں ایسا سلطان نے اس لئے کیا تھا تا کہ آنے والے دور میں پھر کوئی صلیبی لشکری وہاں قیام کر کے مسلمانوں کے لئے خطرے کا باعث نہ بنے..اور جو قلعے سلطان نے ابھی فتح نہ کیے تھے اور ان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا تھا ان قلعوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا دکھائی دیا...ان کے صلیبی حکمران سر جوڑ کر بیٹھے اور کافی بحث کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ سلطان سے صلح کر لینی چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو سلطان یکے بعد دیگرے سب کو فتح کرتے ہوئے فلسطین سے انہیں مٹا کر رکھ دے گا...

چنانچہ باقی بچنے والے سارے قلعوں نے ایک سفارت تیار کی۔یہ سفیر سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے،نہایت عاجزی اور خجالت آمیز انداز میں صلح کا پیغام دیا اور آئندہ مطیع اور فرمانبردار رہنے کا وعدہ کیا...سلطان کیونکہ بڑا وسیع الظرف انسان تھا صلیبیوں کی منت سماجت پر اس کا دل بھر آیا اور اس نے کچھ شرائط پر ان سے صلح کر لینے پر آمادگی ظاہر کی..پہلی شرط یہ تھی کہ صلیبی اپنے قلعوں کے موجودہ استحکامات میں ہرگز اضافہ نہیں کریں گے...دوسری شرط یہ تھی کہ وہ ان قلعوں اور شہروں میں مقیم مسلمانوں سے رواداری کا برتاؤ کریں گے اور نواحی علاقوں کے مسلمانوں سے بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے...

صلیبیوں نے سلطان کی ان شرائط کو فوراً تسلیم کر لیا اس طرح صلیبیوں نے معاہده کرنے کے بعد آئندہ کے لئے سلطان کا مطیع اور فرمانبردار رہنے کا وعدہ کیا...اس معاہدے کی اہمیت اس لحاظ سے اور بڑھ گئی کہ اس معاہدے پر انگلستان کے بادشاہ کے بھی دستخط ہوئے گویا سب نے سلطان بیبرس کی اطاعت اور فرمانبرداری قبول کی تھی...

منگولوں اور صلیبیوں کو اپنے سامنے جھکانے اور ان کی طاقت اور قوت کا خاتمہ کرنے کے بعد اب سلطان ایک تیسری قوت کی طرف متوجہ ہوا اور یہ باطنی تھے جنہیں حشیشین بھی کہتے تھے...اس تحریک کی بنیاد ایک شخص حسن بن صباح نے رکھی تھی...وہ دنياوی لحاظ سے ایک معمولی حیثیت کا آدمی تھا لیکن اپنی غیر معمولی ذہانت اور بلند ہمتی کی بدولت بڑا عروج حاصل کیا...

اس نے پہلے قلعہ الموت پر قبضہ کیا جو مازندان میں نہایت پیچیده گھاٹیوں کے اندر ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پر بنا ہوا تھا اور کسی دشمن کے لئے خون کے دریا میں تیرے بغیر اس پر قبضہ کرنا محال تھا..حسن بن صباح نے اس قلعے کو اپنا صدر مقام بنایا اور پھر مزید قلعوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا...سلطان ملک شاہ سلجوقی کے آخری دور میں حسن کی قیادت میں باطنیوں نے بڑا زور پکڑا اور ان گنت قلعوں پر قبضہ کر کے اپنی تحریک کو خاصا مظبوط اور مستحکم بنا لیا تھا... 

حسن بن صباح نے دشوار گزار پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک پرفضا گھاٹی میں ایک مصنوعی جنت بھی بنوائی...مؤرخین نے اس مصنوعی جنت کا ایسا دلکش نقشہ کھینچا ہے کہ نگاہوں کے سامنے اصلی جنت کے نظارے گھوم جاتے ہیں...

حسن اپنے کچھ مریدوں کو بهنگ پلا کر مدہوش کر دیتا اور پھر ان کو اسی مدہوشی کی حالت میں اس مصنوعی جنت میں منتقل کر دیا جاتا جہاں انتہائی خوبصورت لڑکیاں رکھی جاتی تھیں...چند دن ان کو اندر رکھا جاتا پھر دوبارہ مدہوش کر کے جنت سے باہر نکال دیا جاتا اور پھر اس کے ذمے کوئی کام لگایا جاتا اور اس سے کہا جاتا کہ وہ کام کرو گے تو دوبارہ اسی جنت میں جاؤ گے لہٰذا وہ لوگ دوبارہ اس جنت میں جانے کے لئے مشکل سے مشکل کام کرنے پر بھی تیار ہو جاتے تھے...اتنی طاقت اور قوت حاصل کرنے کے بعد حسن بن صباح اور اس کے جانشین جس شخص کو اپنا مخالف پاتے اسے کسی مرید کے ہاتھوں قتل کروا دیتے...ان کے آلہ قتل میں عموماً زہر میں بجهی ہوئی تیز دھار کی چھری یا خنجر ہوتا تھا...انہوں نے مسلمانوں کے بے شمار دینی اور پیشواؤں،حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کو قتل کیا جن میں کچھ حکمرانوں کے نام بھی آتے ہیں

 ان بدبختوں نے مسلمانوں کے پشت پناہ اور مجاہد کبیر سلطان صلاح الدین ایوبی پر بھی حملہ آور ہونے سے دریغ نہ کیا یہ الگ بات ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی قسمت کی وجہ سے ان کے ہاتھوں سے بچ نکلا...یہ تحریک لگ بھگ ایک سو ستر سال تک عالم اسلام کے جسد کا ناسور بنی رہی...خدا کی قدرت کہ ان کی مركزی قوت کا خاتمہ بھی ایک دشمن اسلام گروہ کے ہاتھوں ہوا...

ہلاکو خان سیلی بلا کی طرح ان کے قلعہ الموت کی طرف بڑھا اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اس وقت باطنیوں کا حکمران ركن الدین خور شاہ تھا ہلاکو نے باطنیوں کے تقریباً سو سے زیادہ قلعے برباد کر دیے اور بارہ ہزار سے زائد باطنیوں کو قتل کیا...

ہلاکو خان نے اگرچہ باطنیوں پر بڑی کاری ضرب لگائی تھی لیکن وہ ان کا كلیتاً خاتمہ نہ کر سکا اس لئے کہ باطنیوں کے کچھ قلعے شام کے علاقوں میں واقع تھے...سلطان بیبرس نے کیونکہ منگولوں کو شام سے نکال باہر کیا تھا لہٰذا باطنیوں کے وہ قلعے ان کے حملوں سے بچ گئے تھے...

یہ قلعے پہاڑی علاقوں میں نہایت محفوظ مقامات پر بنائے گئے تھے...اور ان کے دفاع کے لئے تحریک کے ان گنت جنگجو ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے...ان لوگوں نے ہلاکو کے ہاتھوں اپنے دوسرے قلعوں سے کوئی سبق حاصل نہ کیا بلکہ صلیبی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر یہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو گئے ساتھ ہی انہوں نے یورپ کے عیسائی بادشاہوں سے بھی مسلمانوں کے خلاف دوستی کی پینگیں بڑھانی شروع کر دی تھیں...اس تحریک کے مسلح لوگوں نے سلطان بیبرس کے خلاف بھی سازشیں کی تھیں اور اطراف کے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا سلطان نے کئی سال تک ان کی شر انگیزیوں کو برداشت کیا لیکن آخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور صلیبیوں کو اپنے سامنے بالکل زیر کرنے کے بعد سلطان ان کی طرف متوجہ ہوا...ایک طوفانی یلغار میں سلطان ان کے قلعوں پر حملہ آور ہوا۔ایک کے بعد دوسرے قلعے کی وہ اینٹ سے اینٹ بجاتا چلا گیا جن لوگوں نے اس کا مقابلہ کیا وہ سلطان اور اس کے لشکریوں کے ہاتھوں انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ مارے گئے...اس طرح اس خونی تحریک کو جہاں ہلاکو کے ہاتھوں نقصان پہنچا وہاں یہ تحریک سلطان بیبرس کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی...ان میں سے جو لوگ بچے اور سلطان سے معافی مانگی انہیں سلطان نے اپنے لشکریوں کی نگرانی میں مصر کے اندر آباد کیا اور انہیں پرامن زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا... 

سلطان نے اب تین قوتوں کو اپنے سامنے زیر کر دیا تھا ایک منگول دوسرے صلیبی اور تیسرے باطنی تحریک...اس کے بعد وہ اپنے لشکر کے ساتھ قاہرہ واپس آگیا لیکن جلد ہی اس کے لئے ایک اور مہم اٹھ کھڑی ہوئی اس لئے کہ سوڈان کے عیسائی بادشاہ ڈیوڈ نے سلطان کے علاقوں پر حملہ آور ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا تھا۔سلطان کو جب اس کے ارادوں کی خبر ہوئی تو سلطان لشکر لے کر قاہرہ سے نکلا اور ڈیوڈ کے خلاف اس نے طوفانی یلغار کی ابتدا کر دی...ڈیوڈ نے چند ایک مقام پر سلطان کے ساتھ مقابلہ کیا لیکن اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا...یہاں تک کہ سلطان ڈیوڈ کے علاقوں میں یلغار کرتا ہوا اس کے انتہائی مظبوط اور مستحکم شہر نوبا تک جا پہنچا...ڈیوڈ نے جب دیکھا کہ کہیں بھی اس کے قدم سلطان کے سامنے جم نہیں سکتے اور سلطان جگہ جگہ اسے شکست دیتا ہوا اس کی ساری مملكت کو اپنی گرفت میں لیتا جا رہا ہے تو اسے خدشہ ہو گیا تھا کہ سلطان اس کی پوری مملكت پر قبضہ کر لے گا لہٰذا تنگ آکر وہ سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا اور گڑگڑا کر معافی کا خواست گار ہوا اور آئندہ سلطان کا مطیع اور فرمانبردار رہنے کا وعدہ کیا ساتھ ہی اس نے تاوان جنگ دینے کے ساتھ ساتھ سالانہ خراج بھی باقاعدہ سے دینے کا وعدہ کیا۔سلطان نے اس وعدے پر اس کی جان بخشی کر دی...

سلطان اس مہم سے فارغ ہوا ہی تھا کہ اس کے لئے ایک اور مہم اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ ہلاکو خان کے بیٹے اباقا خان کی طرف سے تھی...

ہلاکو خان مارا جا چکا تھا کیونکہ منگولوں پر حملہ آور ہو کر ایک طرح سے سلطان نے ان کی کمر توڑ دی تھی لہٰذا غیر مسلم منگولوں نے ہلاکو خان کے بیٹے اباقا خان کے تحت قوت پکڑتے ہوئے ارض شام پر حملہ آور ہو کر مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی...لیکن سلطان بالکل مستعد اور تیار تھا۔منگولوں کو اس نے شام پر چڑھائی کرنے کی مہلت ہی نہ دی...سلطان نے اپنے سپہ سالار امیر کلاؤن کو ان کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا جس نے ہلاکو خان کے بیٹے اباقا خان کے لشکر کو پے در پے شکستیں دیتے ہوئے اسلامی سرحدوں سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا...شکست کھانے کے بعد ہلاکو خان کے بیٹے اباقا خان نے صلیبیوں سے مدد حاصل کر کے اور ان کے تعاون سے ایک بار پھر مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہو کر اپنی گزشتہ شکستوں کا انتقام لینا چاہا لیکن ابھی وہ پیش قدمی ہی کر رہا تھا کہ شام کی سرحدوں کے قریب ایک میدان میں اباقا خان اور سلطان کا ٹکراؤ ہوا...اس ٹکراؤ میں سلطان نے منگولوں کو ایسی بدترین شکست دی کہ اس سے پہلے عین جالوت میں منگولوں کو جو شکست ہوئی تھی یہ شکست اس شکست سے بھی زیادہ رسوا کن اور ذلت آمیز تھی اس سے منگولوں پر ایک طرح سے سلطان کا رعب اور خوف طاری ہو گیا تھا اور آنے والے دور میں انہیں کبھی بھی مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہو کر فوائد حاصل کرنے کی جرات اور جسارت نہ ہوئی...اس جنگ میں منگولوں کو شکست دینے اور مار بهگانے کے بعد سلطان جس وقت دمشق میں مقیم تھا وہ سخت بخار میں مبتلا ہو گیا...طبیبوں نے بہت علاج کیا لیکن کیونکہ سلطان کا آخری وقت آ چکا تھا لہٰذا کسی بھی طبیب کا کوئی علاج کار گر ثابت نہ ہوا اور سلطان سن بارہ سو ستتر کو عالم اسلام کے اس بطل جلیل اور دنیا کے نامور سالار نے ستاون برس کی عمر میں اس فانی دنیا سے کوچ کیا...سلطان کی وفات پر تمام عالم اسلام میں گہرے غم و رنج کا اظہار کیا گیا اور اس کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگی گئیں...اس کے برعکس صلیبیوں،منگولوں اور اس طرح کی دوسری قوتوں نے اپنے سب سے بڑے حلیف کی موت پر بے پناہ مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا...دمشق کو ایک بار پھر یہ شرف حاصل ہوا اس نے اپنے دور کے سب سے بڑے مجاہد اسلام کے جسد خاکی کو اپنی خاک کے اندر جذب کر لیا...اس سے پہلے الملک العادل سلطان نور الدین زنگی،مجاہد کبیر سلطان صلاح الدین ایوبی بھی وہیں دفن تھے..سلطان بیبرس کو بھی وہیں دفن کیا گیا۔اتفاق کی بات کہ تاریخ اسلام کی ان تینوں عظیم شخصیتوں نے صلیبیوں کے خلاف معرکہ آرائیوں میں نام پیدا کیا اور صلیبی قوتوں پر ضرب لگاتے ہوئے مسلمانوں کی حفاظت کی اور تینوں نے دمشق میں سفر آخرت اختیار کیا اور تینوں دمشق ہی میں آسودہ خاک ہوئے...دمشق میں سلطان بیبرس کا مقبرہ اس کے لقب الملک الظاہر کی نسبت سے الظاہر کہلاتا ہے..کہتے ہیں وہاں آج کل عظیم الشان کتب خانے ہیں...مشہور امریکی مؤرخ فلپ کے بیان کے مطابق اس کتب خانے میں دنیا کا ایک قدیم ترین نسخہ موجود ہے جو کاغذ پر لکھا گیا ہے جو مسائل امام احمد بن حنبل کہلاتا ہے اور اس پر جو تاریخ مثبت ہے وہ ہجری دو سو چھبیس ہے...سلطان کی وفات کے بعد صلیبیوں اور منگولوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہو کر فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا نہ کر سکے اس لئے کہ سلطان نے جو لشکر تیار کیا تھا اور اس لشکر میں جو سالار مقرر تھے انہوں نے سلطان کے بعد بھی ان قوتوں پر سلطان ہی کے انداز میں ضرب لگائی...اس طرح سلطان نے عالم اسلام کی حفاظت کے لئے جو حصار قائم کیا تھا وہ اس کے بعد بھی مدتوں قائم رہا اور کوئی اسلام دشمن قوت اس حصار کو پار کر کے مسلمانوں کے لئے نقصان کا باعث نہ بن سکی...اپنے بے مثال کارناموں کی بدولت سلطان جب تک زندہ رہا عمومی طور پر عالم اسلام کے لئے اور بالخصوص اہل مصر اور شام کی آنکھوں کا تارہ بن گیا...اور جب وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا تو اس کے عظیم کارنامے اسلامی تاریخ کے سنہری باب کا حصہ بن گئے۔

  سلطان بیبرس کا لقب الملک الظاہر تھا اور جس کو صلاح الدین ثانی بھی کہا جاتا ہے، سلطان بیبرس کو جو سلطان صلاح الدین ایوبی اور سلطان نور الدین زنگی کی طرح ہی دمشق کی خاک میں دفن کیا گیا، کو تاریخ دانوں نے فراموش کر دیا ہے

Comments

Popular posts from this blog

ـ1508🌻) پندرہ غزائیں جن سے قوت مدافعت بڑتی ہیں (انگلش/اردو)

🌅1543) More than 565 .... Topics

۔28🌻) دینی اداروں اور علماء کے سائٹس وغیرہ