1492) دعوت کا کام مسئولیت علماء

 

دعوت کا کام مسئولیت علماء

چند سال قبل مدنی مسجد تبلیغی مرکز کراچی میں مدارس میں کام کرنے والے علماء کی جماعت کو جمع کیا گیا، وہاں کراچی کی شوری کے ایک عالم ہیں جو بنوری ٹاون کے پرانے فضلاء میں سے ہیں۔ مولانا محمد حسین صدیقی صاحب دامت برکاتہم جن کی کئی کتابیں روضہ کے نام سے ہیں، انہوں نے کافی اہم باتیں ارشاد فرمائیں

آپ سب کی تشریف آوری ہمارے لئے باعث خوشی ہے، ہم اسے اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔

پھر انہوں نے ذکر کیا کہ سن 1984ء یا 1985ء میں جب سال لگا کر آئے تو بڑے حضرات بھائی محمد امین صاحب (کراچی کے پہلے امیر) اور بھائی ابراہیم عبدالجبار صاحب رحمہما اللہ اس وقت مرکز میں ہوتے تھے، انہوں نے ہم سے کہا کہ مکی مسجد میں وقت دیا کریں، تو ہم نوجوان تھے، عصر میں یہاں آتے اور بیٹھ جاتے کہ ہمیں تو کچھ آتا ہی نہ تھا، مکی مسجد کے باہر حلیم والا تھا، اس سے حلیم خریدتے اور واپس آجاتے تو بھائی ابراہیم عبدالجبار صاحب رحمہ اللہ ہماری بہت حوصلہ افزائی کرتے۔

بھائی محمد امین صاحب رحمہ اللہ بہت خوش ہوتے اور فرماتے کہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ یہ کام علماء کی سرپرستی میں ہوگا تو خیر کا ذریعہ بنے گا اور لوگوں کو فائدہ ہوگا۔

بھائی ابراہیم عبدالجبار صاحب رحمہ اللہ فرماتے کہ آپ لوگ میرے لئے قابل احترام ہیں، میرے بس میں ہوتا تو علماء کرام کو موتی کے ہار میں پرو کر سینے سے لگا لیتا۔

مزید فرمایا کہ جس طرح کتابوں میں ایک متن ہوتا ہے، ایک شرح ہوتی ہے، ایک حاشیہ ہوتا ہے، تو تبلیغ کے کام میں مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ کی ہدایات مختصر اور جامع ہیں گویا تبلیغ کے کام کا متن ہیں، اور مولانا محمد یوسف کاندہلوی رحمہ اللہ کی ہدایات اس متن کی شرح ہیں، اور جو کچھ زائد چیزیں ہیں تو مولانا محمد انعام الحسن صاحب رحمہ اللہ کا اس پر حاشیہ ہیں، تو یہ ہمارے پاس تبلیغ کا خلاصہ ہے۔

فرمایا کہ تبلیغ کو اگر سمجھنا اور سیکھنا چاہتے ہو تو تین کتابوں کا لازمی مطالعہ کرو

۔1۔ مولانا محمد الیاس کاندہلوی رحمہ اللہ اور ان کی دینی دعوت۔ 

۔2۔ مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمہ اللہ کے مرتب کردہ ملفوظات۔ 

۔3۔ مکاتیب مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ۔ 

۔▪︎ امام التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ تبلیغ کا کام جیسے مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ پر منکشف ہوا تو اللہ نے مجھ پر بھی منکشف کیا تھا، لیکن وہ مجھ پر سبقت لے گئے، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اذان کا قصہ ہے کہ خواب دیکھنے والے بیس (20) صحابی تھے، لیکن جن کو زیادہ فکر تھا ان پر منکشف ہوا اور وہ حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ ہیں۔

۔▪︎ وہ لاہور میں تفسیر کا درس دیا کرتے تھے، بڑے بڑے حضرات اس میں شریک ہوتے۔ ہندوستان سے مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ شامل ہوئے تو انہوں نے درس میں فرمایا کہ ہندوستان میں ایک اللہ والا ہے جو اللہ اللہ کی صدا لگا رہا ہے اس کی سنو۔

۔▪︎ حاجی محمد یامین صاحب رحمہ اللہ اپنے آخری زمانے میں، جب بھی کسی کام کے حوالے سے معاون جماعتیں بنتیں تو اس بات پر زور دیا کرتے کہ کم سے کم ہر جماعت میں دو عالم ہوں۔

۔▪︎ حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ (جو لسبیلہ میں رہائش پذیر تھے) ایک بار بنوری ٹاؤن تشریف لارہے تھے کہ راستے میں رک گئے، لوگ گزر رہے تھے، تو کافی دیر کھڑے رہے اور پھر آکر فرمایا کہ آج مجھ پر تبلیغ کے کام کی حقیقت کھل گئی، یہ کام بہت ضروری ہے، ہم نے عرض کیا کہ حضرت کیا واقعہ ہوا؟ تو فرمایا کہ سڑک پر لوگ گزر رہے تھے تو میں سوچتا رہا کہ لوگ کہاں سے آرہے ہیں کہاں جارہے ہیں، تو دل میں خیال آیا دنیا میں آرہے ہیں اور دنیا سے جارہے ہیں، تو ان کو دین کی طرف متوجہ کرے گا کون؟ ہم تو مدارس میں تدریس میں مشغول ہیں لیکن انہیں کون لے کر آئے گا، تو پھر فورا خیال آیا کہ تبلیغ والے لائیں گے، تو میرے دل میں اس کام کی حقانیت بیٹھ گئی۔

۔▪︎ بنوری ٹاون کے دفتر میں حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کافی اعتراضات کئے، پھر کہا کہ لوگوں کو تبلیغ سے اعتراض نہیں بلکہ تبلیغ والوں کی غلطیوں پر اعتراض ہے، کافی دیر تک کہتا رہا، پھر حضرت نے فرمایا کہ حسن خاتمہ چاہتے ہو تو تبلیغ والوں کے متعلق بدگمانی نہ کرو۔

۔▪︎ ہم اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس عالی مقصد اور محنت کے لئے اللہ نے جمع کیا ہے اور جوڑا ہے، ہمیں یہ کام عطا فرمایا ہے۔ اس کو اپنا سمجھ کر کریں، جہاں دیگر شعبوں سے منسلک ہیں وہیں اس بات کی فکر کریں کہ اوقات کو فارغ کر کے اس میں بھی وقت لگائیں۔

 ماخوذ از: تربیتی نشست سے اقتباس۔

Comments