۔13 محرم الحرام 1446 بمطابق 20 جولائی 2024ء
مایوسی پیدا نہ ہونے دیں
باتیں بہت سی ہیں اور مختصر وقت میں ان کو سمیٹنا آسان نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ایسے وقت میں ہمارا یہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے کہ ہم طرح طرح کے سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار ہیں۔ سیاسی اعتبار سے ہم انتشار میں مبتلا ہیں، اقتصادی اعتبار سے بہت پیچھے جا چکے ہیں اور جیسا کہ ابھی جناب نائب صدر صاحب نے فرمایا کہ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ مقروض پیدا ہوتا ہے۔ حالات ایسے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ اس میں خاص طور سے عام انسان میں مایوسی پھیل گئی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟
کس وجہ سے ہم اس مایوسی تک پہنچے ہیں؟
جب کہ قرآن نے ہمیں کہا ہے کہ
"لاَ تَيأسُوْا مِنْ رَوْحِ اللّٰه"(سورۃ یوسف:87)
کسی بھی مرحلے پر اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اور کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچے ہیں؟ اور وہ کیا راستے ہیں جن کے ذریعے ہم اس مایوسی کی دلدل سے نکل سکتے ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہیں اور ان کا جواب دینے کے لیے میں چونکہ دین کا طالب علم ہوں، لہذا دین ہی کی بنیاد پر چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی گزارش
پہلی بات یہ ہے کہ ہم جب سے پاکستان کی ریاست کے حامل بنے، اللہ تعالی نے ہمیں یہ ریاست فرمائی اور اس لیے عطا فرمائی کہ اس پر لا الہ الا اللہ کی بالادستی قائم ہو۔ آپ حضرات میں شاید بہت کم لوگ ہوں گے یا شاید کوئی بھی نہ ہو جس نے پاکستان بنتے ہوئے دیکھا ہو. میں ان چند لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا اور اس کے لیے جو قربانیاں دی گئیں ان کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، جس نے پاکستان کے حق میں نعرے لگائے، بچپن ہی میں سہی لیکن نعرے لگائے۔ اس وقت کا جذبہ ایک عام مسلمان کا یہ تھا کہ ہم ایک ایسا ملک بنانے جا رہے ہیں جو ایک طرف انگریز کی غلامی سے آزاد ہو اور دوسری طرف ہندو کی غلامی سے آزاد ہو۔ پاکستان بنانے والوں کے ذہن میں یہ بات پیوست تھی اور قربانی دینے والوں کے ذہن میں یہ بات بسی ہوئی تھی کہ ہم ایک ایسے ملک میں جا رہے ہیں کہ جس میں نہ انگریز کی غلامی ہوگی اور نہ ہندو کی غلامی ہوگی۔ لیکن افسوس کہ پاکستان کی تحریک کے بانی حضرات پاکستان کی تاریخ کے بالکل ابتدائی سالوں میں ہی دنیا سے رخصت ہوگئے اور ملک کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو کسی نظریے کے تحت نہیں، کسی مقصد کے تحت نہیں بلکہ محض سیاست کے لیے ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے تھے۔ لہذا جس نہج پر ملک کو قائم ہونا تھا اس نہج پر قائم ہونے کے بجائے وہ ایک دوسرے رخ پر چل پڑا۔ وہ رخ کیا تھا؟ وہ رخ یہ کہ جو کچھ ہم نے انگریز کی غلامی میں سیکھا تھا اسی کو ہم نے پاکستان کے اندر رائج کر دیا۔ پوری پوری نقل، پوری پوری کاپی اس انگریزی نظام کی ہم نے یہاں پر اختیار کی اور زندگی کے ہر شعبے میں ہم نے مغرب کو آئیڈیل بنایا۔ مغرب کی طرف سے جو چیز آئے گی وہ
fashionable
ہوگی، وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہو گی اور اسی کو ہم اختیار کر کر کے اس مقام تک ہم پہنچے ہیں جس پر ہم آج ہیں۔ آپ یہ دیکھیے کہ اللہ تعالی نے اس ملک کو کتنے وسائل عطا فرمائے۔ یہاں دریا ہمارے پاس، سمندر ہمارے پاس، پہاڑ ہمارے پاس، معدنیات ہمارے پاس، کون سی قدرتی دولت ہے جو ہمارے پاس موجود نہ ہو؟ لیکن اس کے باوجود ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ہم ان کاموں میں مزید اضافہ یا بہتری لاتے، آپ سب حضرات جانتے ہوں گے کہ جھیل سیف الملوک جو دنیا کی بہترین جھیل ہے، خوبصورت ترین مقام ہے، اس تک پہنچنے کا آٹھ میل کا راستہ ہم پکا نہیں کر سکے، انگریز جہاں تک ریلوے لائن ڈال گیا تھا وہیں تک ریلوے لائن پڑی ہوئی ہے اگر ایک ٹریک تھا تو ایک ہی ٹریک ہے، اُس سے آگے نہیں بڑھے۔
ہم سے کہاں غلطی ہوئی؟
آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ مغرب کے اداروں کے ماتحت ہو رہا ہے، آئی ایم ایف کے ہم غلام ہیں، اُسی آئی ایم ایف کی غلامی نے یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ ہمارا بچہ بچہ لاکھوں کا مقروض ہے۔ سوال یہ ہے کہ غلطی کہاں سے ہوئی؟ جڑ کیا ہے؟ بنیاد کیا ہے جہاں سے ہم گمراہی کے راستے میں پڑے؟ وہ جڑ یہ ہے کہ "آپ نے نعرہ لگایا تھا پاکستان کا مطلب کیا لا إله إلا الله اور لا إله اللہ کو ہم نے فراموش کر دیا اور ہم نے مغرب کو اپنی ہر چیز کے لیے آئیڈیل بنا لیا اور اس کے مطابق ہم چلتے چلے جا رہے ہیں۔" قرآن نے یہ کہا تھا کہ اگر تم سود نہیں چھوڑو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان سن لو۔ قرآن نے یہ الفاظ کسی گناہ کے لیے نہیں کہے، زنا کے لیے نہیں کہے، شراب کے لیے نہیں کہے، سور کھانے کے لیے نہیں کہے، چوری کے لیے نہیں کہے، ڈاکے کے لیے نہیں کہے، لیکن سود کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے کہ اگر تم نہیں چھوڑو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان سن لو۔ تو اب یہ بتائیے کہ جب ہم اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہیں تو کیسے ہم راہ راست پر آسکتے ہیں؟
کیسے ہم فلاح حاصل کر سکتے ہیں؟
کیسے ہم خوشحالی حاصل کر سکتے ہیں؟
اور جتنی مرتبہ اس سود کی لعنت کو ملک سے ختم کرنے کے لیے آوازیں اٹھیں، فیصلے ہوئے، قراردادیں پاس ہوئیں لیکن وہ مغرب کی جو غلامی ذہن پر بیٹھی ہوئی ہے، دماغ پر سوار ہے، اُس کی وجہ سے ہمیں اس منزل کی طرف جتنے قدم بڑھانے چاہیے تھے وہ نہیں بڑھائے۔ میں بہت ممنون ہوں فیڈریشن آف کامرس کا کہ جنہوں نے 2022 ء میں ہماری درخواست پر بڑا اجتماع کیا، ایک بڑی کانفرنس منعقد ہوئی، تمام مکاتب فکر کے علماء اس میں شریک ہوئے، سیاسی قیادت شریک ہوئی، وزیر خزانہ اس میں موجود تھے۔ اس کے اندر ایک بات رکھی گئی لیکن جیسا سینئر نائب صدر صاحب نے فرمایا کہ ایک کمیٹی بھی اس کام کے لیے بنائی گئی تھی اور وہ کمیٹی سرکاری سطح پر اب بھی قائم ہے لیکن افسوس ہے کہ وہ تعطل کا شکار ہے اور فیڈریشن کی طرف سے کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
سیاسی نظام آزاد نہیں تو کیا کریں؟
اصل بات یہ ہے کہ ہمارا جو سیاسی نظام ہے وہ غلام ہے، سیاسی نظام آزاد نہیں ہے۔ اب چونکہ سیاسی نظام غلام ہے لہذا کوئی ایسی تحریک جو اس کو مغرب کی غلامی سے نکالے اور خود مختاری عطا کرے وہ سیاسی سطح پر کامیاب نہیں ہوتی۔ ہم آئی ایم ایف کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ہم اس بات کے بغیر نہیں چل سکتے کہ مغرب ہمیں سپورٹ کرے، ہم اگر ڈیفالٹ کرنے جارہے ہوں تو وہ ہمیں
bail out
کرے۔ اس وجہ سے سیاسی نظام کے ذریعے اسلامی نظام ان حالات میں چلانا مجھے بہت مشکل لگتا ہے۔ لیکن کیا ہم مایوس ہوجائیں؟ چونکہ سیاسی نظام ہمارا ابتر ہے لہذا ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ جائیں؟ مایوس ہو کے بیٹھ جائیں؟
خوب سمجھ لیجئے!! دنیا میں جو انقلابات آتے ہیں وہ صرف حکومت کے ذریعے نہیں آتے۔ وہ عوام کے ذریعے آتے ہیں۔ عوام کے، معاشروں کے مختلف طبقات کے ذریعے آتے ہیں، جب عوام ایک مرتبہ اور معاشرت کے مختلف طبقات ایک مرتبہ یہ طے کر لیں کہ ہمیں آزاد ہونا ہے تو سیاست مجبور ہو کر گھٹنے ٹیک کر آزاد ضرور ہو جائے گی۔ ہم چونکہ ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ سیاسی نظام کوئی بہتر آجائے، کوئی اچھی قیادت آجائے جو ہمارے دکھوں کا مداوا کرے، ہماری تکلیفوں کو دور کرے۔ الیکشن پہ الیکشن ہوتے جارہے ہیں اور ہر الیکشن میں دھاندلی کے نعرے بلند ہوتے ہیں، پھر الیکشن کا مطالبہ ہوتا ہے
اس صورت میں جو گزارش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات ہیں وہ سیاست سے قطع نظر کر کے ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے اکٹھے ہوں، جمع ہوں، سوچیں اور سوچ کر راہ نکالیں کہ ہم کس طرح اس غلامی سے نکل سکتے ہیں؟
مثال کے طور پر سود ہی کا معاملہ ہے، ٹھیک ہے! بالکل واضح بات ہے کہ سیاسی سطح پر اس معاملہ میں سرد مہری ہے اور وہ کوئی سنجیدگی کے ساتھ قدم نہیں اٹھائے گا، اگرچہ میری معلومات ہیں کہ اسٹیٹ بینک میں بھی اس پر کچھ کام ہو رہا ہے اور اسٹیٹ بینک میں اس کے اوپر ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ لیکن جس بلند سطح پر جس تیز رفتاری کی ضرورت ہے وہ نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ تاجر برادری کسی بھی ملک کی شہ رگ ہوتی ہے۔ اگر تاجر برادری مضبوط ہے اور وہ اپنے سامنے ملک و ملت کی فلاح و بہبود کا نقشہ رکھتی ہے تو بالآخر وہ سیاست کو بھی مجبور کرسکتی ہے کہ وہ صحیح راستہ پر آئے۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جیسے دنیا میں
think tank
ہوتے ہیں وہ اس بات پر غور کرتے ہیں، طویل المیعاد منصوبوں پر غور کرتے ہیں اسی طرز پر ہم بھی طے کریں کہ ہمیں کس طرح مرحلہ در مرحلہ آگے بڑھنا ہے۔
مسائل کا حل ہمارے عمل کے ذریعہ ممکن ہے
ہمارے ملک کو بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ میں ایک مثال یہ دیتا ہوں کہ ہماری کرنسی کی جو صورتحال ہے وہ آپ سب جانتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمارے پاس زرمبادلہ کی کمی ہے۔ زرمبادلہ کی کمی کے باوجود ہم امپورٹ پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ سرکاری سطح پر اگر عیاشی اور دیگر ضروری اشیاء کی امپورٹ پر پابندی لگائی جائے تو عالمی طاقتیں درمیان میں آجاتی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ آپ امپورٹ پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا ہے، اس کی ایک دفعہ یہ ہے کہ آپ امپورٹ پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتے۔ حالانکہ امپورٹ پر پابندیاں لگانے سے آئی ایم ایف کو کیا فائدہ ہے؟ اس کو تو یہ چاہیے تھا کہ میں جتنا قرض دے رہا ہوں وہ مجھے واپس ملنے کی گارنٹی ہو، ایسے حالات پیدا ہوں کہ جس کے ذریعے میرا قرض مجھے واپس مل جائے، لیکن آئی ایم ایف کہتا ہے کہ نہیں امپورٹ پر پابندی نہ لگاؤ تاکہ تمہارا زرمبادلہ باہر جائے۔ تو سرکاری سطح پر اگر امپورٹ پر پابندی لگائی جاتی ہے تو عالمی ادارے بیچ میں آکر رکاوٹ ڈالتے ہیں اور چونکہ ہم غلام ہیں لہذا ان کی شرط مانتے ہیں۔ لیکن یہ بتائیے کہ عوام کے اوپر کونسی پابندی ہے جو امپورٹڈ اشیاء استعمال کریں؟ یا تاجروں پر کونسی پابندی ہے کہ وہ ہمیشہ امپورٹڈ اشیاء ضرور خریدیں؟ یا امپورٹڈ اشیاء خرید کر اپنے پاس رکھیں؟ ان پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ لہذا اگر یہ تحریک چلائی جائے کہ تاجر حضرات امپورٹڈ اشیاء کو اپنے پاس نہیں رکھیں گے، جو عیاشی کی چیزیں ہیں، جو غیر ضروری اشیاء ہیں، جن پر ہمارا زرمبادلہ بالکل ضائع ہو رہا ہے، اس کو ہم اپنے پاس نہیں رکھیں گے اور امپورٹڈ چیزیں ہم نہیں منگوائیں گے، اور خاص طور پر وہ امپورٹڈ چیزیں جو ایسے دشمنوں کی مدد کر رہی ہیں جو مسلمانوں کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ حکومت اگر پابندی عائد کرے گی تو بین الاقوامی طاقتیں روک دیں گی لیکن اگر تاجر اور عوام یہ فیصلہ کرلیں کہ ہمیں امپورٹڈ چیزیں استعمال نہیں کرنیں تو پھر امپورٹڈ چیزیں آنا بند ہو جائیں گی۔ اور تاجر حضرات یہ فیصلہ کرلیں کہ ہمیں اپنی ملکی مصنوعات کو فروغ دینا ہے، جو برینڈ باہر کے چل رہے ہیں ان کا مقابلہ کر کے اچھی کوالٹی کی چیز ہم دنیا کے سامنے لائیں گے تو یہ ہزاروں پابندیاں لگا دیں لیکن ہم عمل سے ان پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ اپنی تاجر برادری کے باہمی اتفاق سے، اس بات سے کہ ہم اچھی کوالٹی کی چیز تیار کریں اور نئے برانڈز تیار کریں اس کے ذریعے ہم یہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔
دنیا میں نئے بازار اور دریافت کرنے ہونگے
دوسری بات یہ ہے کہ ہماری گردن پر ایک زبردست طوق یہ پڑا ہوا ہے کہ یورپی یونین کو ہم برآمد کرتے ہیں تو ہمیں سہولیات ملتی ہیں، اور اس کی وجہ سے یورپی یونین ہم پر طرح طرح کی شرطیں لگاتی ہے۔ مثلاً یورپی یونین نے جو ہمیں تھوڑی بہت مراعات دی ہوئی ہیں، اس کے بدلے اس کا مطالبہ ہے کہ وہ ملک میں
LGBT
کو فروغ دیں گے۔ اب اگر ہم اس شرط پر برآمد کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہم
LGBT
کو فروغ دینے کے لیے پابند ہوتے ہیں۔ ان قیدوں سے ہم کیسے نکلیں گے؟ اس کے لیے ہمیں ایک فورم چاہیے جس میں اس بات کی پلاننگ کی جائے۔ ایسے مواقع تلاش کیے جائیں کہ ہم اپنی برآمدات کا رخ مسلمان ملکوں کی طرف پھیر دیں، اور مسلمان ممالک میں اپنی برآمدات کو زیادہ فروغ دیں، تاکہ یورپی یونین کے محتاج نہ رہیں۔ اس مقصد کے لیے اگر سفر کرنا ہے تو سفر کریں، دوسرے مسلمان ملکوں کے اندر جائیں، وہاں کی تاجر برادری سے تعلقات قائم کریں، اس کے نتیجے میں پھر ہم ان پابندیوں کے بغیر برآمدات کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ درآمدات میں بجائے سرکاری پابندیوں کے اپنے اوپر خود پابندیاں عائد کریں، اور برآمدات میں ہم دوسرے اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کریں۔
سود سے چھٹکارا مرحلہ وار ممکن ہے
غرض یہ کہ ہمیں اپنی سوچ کا ایک رخ بدلنا ہوگا ان حالات سے نکلنے کے لیے۔ مایوسی کسی چیز کا حل نہیں ہوتی۔ مایوسی کے بجائے اپنے حالات کو اس طرح ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جس کے ذریعے ہم ان پابندیوں سے، ان غلامی کے شکنجوں سے ہم اپنے آپ کو نکال سکیں۔ لہذا میری گزارش یہ ہے ایک
think tank
ہو آپ حضرات کا، اور وہ صرف شارٹ ٹرم نہیں بلکہ لانگ ٹرم پلاننگ کرے، اور لانگ ٹرم پلاننگ کے اندر یہ باتیں داخل ہوں جن کے بارے میں میں نے گزارش کی ہے۔ سرکاری سطح پر کیا ہوتا ہے کیا نہیں ہوتا یہ ایک طرف، لیکن آپ کو اس سے کون منع کر رہا ہے کہ آپ اپنے ڈیپازٹ اور فائنانسنگ اسلامک بینکوں میں نہ کریں؟ اور اسلامک بینکوں کے اندر بھی وہ جو نمایاں ہوں اور آپ حضرات کی فائنانسنگ کو صحیح طریقے سے سود کے بغیر استعمال کریں؟ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ جو بینک اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کنورٹ کریں ان کے ساتھ تعاون کریں۔ سود کی جو لعنت ہے یہ ہم پر صدیوں سے مسلط ہے پوری دنیا میں، اور اس کا مرکز ہم نہیں ہیں بلکہ اس کا مرکز نیو یارک میں وال اسٹریٹ ہے، اور وہاں سے پوری دنیا کو انہوں نے غلام بنایا ہوا ہے۔ اس شکنجے سے ایک دم سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ اس شکنجے سے نکلنے کے لیے ہمیں مرحلہ وار کوشش کرنی ہوگی۔ ایک پلان ہمارے پاس ہونا چاہیے، وہ صرف حکومت کے ذمہ نہیں بلکہ خود ہماری اپنی تاجر برادری کے باہمی اتحاد کے ذریعے وہ پلان تیار کیا جائے، اور اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ سود سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ فرض کریں حکومت سودی لین دین پر پابندی نہیں لگاتی لیکن سارے بینک، جتنے بینک ہیں وہ کہتے ہیں ہم اسلامی طریقے پر فائنانسنگ کریں گے، تو ہم نے اپنے فعل کے ذریعہ سود سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ یاد رہے کہ صرف قانون کے ذریعے چیزیں حل نہیں ہوتیں، خود عمل سے بہت سی چیزیں حل ہو جاتی ہیں۔
دوسری گزارش
پہلی گزارش مجھے یہی کرنی ہے کہ ہمیں ہر قیمت پر مغرب کی غلامی سے نکلنا ہے۔ اس مغرب کی غلامی سے نکلنے کے لیے آپ حضرات کوئی
think tank
بنائیں، کوئی گروپ بنائیں، کوئی ایسی کمیٹی بنائیں کہ جس میں آپ بیٹھ کر
long term planning
کریں اپنے ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے۔ ہمیں اپنے ملک کو اس مصیبت سے نکالنے کے لیے پاکستانیت کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمارے نظام تعلیم میں یہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ جو بچہ اس نظام تعلیم سے نکلتا ہے وہ مغرب کا غلام بن کر نکلتا ہے، وہ اردو بولنے کو توہین سمجھتا ہے، انگریزی بولنے کو فخر سمجھتا ہے۔ یہ جو ذہنیت پیدا ہو گئی ہے مغرب کی غلامی کی اس غلامی کی ذہنیت کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ ہم کبھی اس بات کو فراموش نہ کریں کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اور اسلام تجارت کو بھی عبادت کہتا ہے۔ نبی کریم سرور دو عالم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ
ألتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْأَمِيْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِیٔنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ
ترجمہ: وہ تاجر جو سچا ہو، امانت دار ہو، وہ قیامت کے دن نبیوں کے ساتھ، صدیقوں کے ساتھ، شہداء کے ساتھ اور صالحین کے ساتھ لکھا جائے گا۔
اس سے بڑی خوشخبری، اس سے بڑی بشارت ایک مسلمان تاجر کے لیے کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ سرکار دو عالم ﷺ اس کو گارنٹی دے رہے ہیں کہ تم قیامت کے دن انبیاء کی صف میں کھڑے ہوگے، تم صدیقین کی صف میں کھڑے ہو گے، تم شہداء اور صالحین کی صف میں کھڑے ہوگے۔ لہذا تجارت محض ایک دنیاوی کام نہیں ہے، یہ ایک عبادت ہے، نبی کریم سرور دو عالم ﷺ کی سنت ہے، نبی کریم ﷺ نے تجارت کی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ
ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ فتح مکہ کے موقع پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ
"آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ میں آپ کے ساتھ تجارت کیا کرتا تھا۔
وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
"ہاں، مجھے یاد ہے کہ تم میرے شریک تھے۔"
ان صاحب نے کہا کہ
"آپ ایسے شریک تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی شریک پایا نہیں۔ لاَ تُدارِيْ وَلاَ تُمارِيْ (آپ نے کبھی صحیح بات سے مداہنت نہیں کی اور کبھی آپ نے کسی معاملہ میں ادنی ناگوار صورت پیدا نہیں کی)۔"
اسلام سب سے بہترین تجارتی اصول سکھاتا ہے
آپ جو ابھی فرما رہے تھے کہ ہمارے جو برینڈ بنتے ہیں اس کے لیے وہاں سے ہدایت آتی ہے، درحقیقت آپ خود ہی فرما رہے تھے کہ یہ ہدایت تو ہمارے رسول کریم ﷺ نے عطا فرمائی۔ دیکھیے مغرب کی یعنی برطانیہ کی بات کر رہا ہوں برطانیہ کا قانون جو ہم پر اس وقت پاکستان میں ہمارے اوپر مسلط ہے اس کا اصول یہ ہے کہ
"Caveat Emptor"
مشتری ہوشیار باش یعنی خریدار کو چاہیے کہ وہ خود دیکھ بھال کر چیز خریدے بیچنے والے کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ بتائے کہ اس میں کوئی عیب ہے یا خرابی ہے۔ یہ برطانوی تصور، انگریزی تصور ہے
"Emptor"
یعنی خریدنے والا۔ اس کو چاہیے کہ تم آگاہ رہو ہوشیار رہو کہ کوئی تمہیں دھوکہ نہ ہو جائے، بائع کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ میری یہ چیز اچھی ہے یا بری ہے یا اس میں فلاں عیب ہے۔ جبکہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد یہ ہے کہ "جو شخص کوئی ایسی چیز بیچے جس کے اندر کوئی عیب ہو تو وہ قیامت تک اللہ کے غضب میں رہے گا جو عیب کی چیز بیچے اور عیب پر متنبہ نہ کرے وہ قیامت تک اللہ کے غضب میں ہے۔ یہ ہے اسلام کی تعلیم۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے "الجالب مرزوق" یعنی جو شخص بازار میں سپلائی بڑھاتا ہے اس کو اللہ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور "المحتكر ملعون" جو ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ ملعون ہے، اس پر اللہ تبارک و تعالی کی لعنت ہے۔ یہ سارے اصول سرکار دو عالم ﷺ نے ہمیں عطا فرمائے۔ اس لیے ہم اپنی طرف سے یہ کوشش کریں کہ یہ ہم صرف تجارت نہیں کر رہے ہیں دنیاوی روزگار کے طور پر نہیں کر رہے ہیں بلکہ عبادت کر رہے ہیں اور وہ عبادت اس لیے کر رہے ہیں کہ اپنے ملک کو، اپنی ملت کو، اپنی قوم کو، غلامی سے نجات دلائیں اس مقصد کے لیے اگر آپ حضرات کوئی
think tank
بنائیں اور اگر اس میں ہماری کسی مدد کی ضرورت ہو تو ہم اس کے لیے حاضر ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ اور ہماری غلامی
دوسری بات یہ ہے اور درحقیقت یہ بات ہم سب کی ضرورت ہے اور وہ ہے فلسطین کا مسئلہ، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میں جہاں پر جاتا ہوں تو مجھ سے رہا نہیں جاتا جب تک اس کی بات نہ کروں یہ بھی اسی غلامی کا ایک حصہ ہے جس کا میں آپ کے سامنے رونا رو رہا ہوں۔ اس وقت مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے آپ سب جانتے ہیں کہ 38 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہو گئے ہیں کل عالمی کوٹ آف جسٹس نے فیصلہ دیا ہے کہ *اسرائیل بالکل ناجائز ریاست ہے،* اقوام متحدہ کی قراردادیں آگئیں اور اس کے باوجود اسرئیل روز اسپتالوں پر، اسکولوں پر، بچوں پر، عورتوں پربمباری کررہا ہے، ظلم و ستم کا پہاڑ اس نے توڑ دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ دیکھیے ہم کیا کر رہے ہیں؟ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک اسلامی ممالک کی ایک دوسرے سے ملی ہوئی ایک زنجیر ہے، مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کڑے سے کڑا ملا ہوا ہے اور سب یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان عورتوں کو، بچوں کو، نو زائیدہ بچوں کو، اسپتالوں کو، اسکولوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن کوئی ملک عملی اقدام کرنے کو تیار نہیں، یہ بھی زبان کو توفیق نہیں ہو رہی کہ کم از کم مذمت ہی کردیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم سب غلام ہیں، مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پورا خطہ جو دنیا کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ جس کے پاس دنیا کی عظیم ترین شاہراہیں ہیں، سوئیس ان کے پاس ہے، باسفورس ان کے پاس ہے، خلیج عدن باب المندم ان کے پاس ہے، جبل الطارق ان کے پاس ہے، آبنائے ہرمز ان کے پاس ہے، ساری اہم شاہراہیں ہیں جو دنیا کے خاکے ہیں جن کے ذریعہ دنیا کا ناطقہ بند کیا جاسکتا ہے وہ ان کے پاس ہے۔ اگر آپ غور کریں تو اس وقت پوری دنیا میں جو مسلمان ہیں، بحیثیت کمیونٹی وہ کبھی اتنے دولت مند اور اتنے باوسیلہ نہیں رہے جتنے آج ہیں۔ تیل ان کے پاس ہے، گیس ان کے پاس ہے، دنیا کی دولت ان کے پاس ہے لیکن غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چونکہ اسرائیل کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے لہذا اس کے خلاف کوئی جملہ بولنا بھی قیامت ہو گیا ہے۔ غزہ کی مدد کرنا تو ایسا ہوگیا ہے کہ کوئی گناہ کیا جارہا ہو، کوئی ظلم کیا جارہا ہو۔ مسلم ملکوں میں ان لوگوں کو پکڑا جارہا ہے جو فلسطین کی آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
خلافت کو دھوکے سے ختم کیا گیا
مغرب نے ہمیں دھوکہ دے کر ختم کیا ہے۔ خلافت عثمانیہ جو کسی وقت قائم تھی، ٹھیک ہے اس میں ضرور کچھ نہ کچھ کمزوریاں بھی تھیں۔ لیکن اگر آپ تاریخ پڑھیں تو برطانیہ نے بعض عرب زعماء کو بہکایا کہ ترک لوگوں نے اپنی خلافت قائم کر رکھی ہے حالانکہ اسلام کے ٹھیکیدار تو آپ ہیں، لہذا خلافت آپ کی قائم ہونی چاہیے، تو بعض علماء، مفتی عبدہ، جمال الدین افغانی وغیرہ دھوکہ میں آگئے۔ انہوں نے کہا آپ ایک مرتبہ ان سے علیحدہ ہوں ہم آپ کو پوری خلافت قائم کر کے دیں گے، عربی خلافت۔ انہوں نے وعدہ کیا، وعدہ کرنے کے بعد جب جنگ عظیم ہوئی تو اس میں برطانیہ غالب آگیا اور اس نے وعدوں سے پھر کر ہر ایک کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا۔ یہ اردن ہے، یہ لبنان ہے، یہ سوریا ہے، یہ مصر ہے، یہ عراق ہے، ان کو تقسیم کر کے اپنا زیرِدست بنالیا۔ آپ خلیج کی ریاستیں دیکھ لیں، ساری دولت ان کے پاس ہے، لیکن چونکہ امریکی اڈے وہاں پر قائم ہیں لہذا وہاں پر چوں چرا نہیں کرسکتے۔ وہاں اگر کوئی شخص نام لے فلسطین کی آزادی کا تو اس کی جگہ جیل ہوگی۔
یہ ایک تاریخی لمحہ ہے
زمانہ ہر وقت ایک جیسا نہیں رہتا،میرا دل یہ کہتا ہے کہ فلسطین کے معاملے میں یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ یہ ایسا لمحہ ہے جسے
now or never
کہا جاسکتا ہے۔ اگر امت مسلمہ اس سے فائده اٹھا لے تو ہمیشہ کے لیے غلامی کا جوا اتار سکتی ہے، ہمیشہ کے لیے غلامی ختم کرسکتی ہے اور اگر اس نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو یاد رکھیے اسرائیل کا "گریٹر اسرائیل" کا جو منصوبہ ہے وہ مدینہ منورہ تک پہنچتا ہے۔ وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا پھر اگر اسرائیل کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں جو اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں یہ قائم نہیں رہیں گی۔ ان کے اوپر بھی پانی آجائے گا۔ لہذا یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمان بیدار ہوں۔ حکومتوں کو چھوڑ دیجیے، میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ حکومتوں کے گلے میں غلامی کے پھندے پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن عام مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس بارے میں بھی کچھ سوچیں کہ اپنے اپنے شعبہ زندگی کے اندر اس
cause
کے لیے کیا کر سکتے ہی؟
ایک طریقہ کار ترتیب دیں، آپ کی اگر کوئی کمیٹی، کوئی گروپ یا آپ کی کوئی نمائنده تنظیم ایسی ہو جو اس موضوع پر غور کرے مثلا: تاجر برادری اپنی حکومت کے پاس وفود بھیجے ان سے بات کریں اور فلسطین کے مظلوموں کی مدد کے لیے کوئی منظم انتظام کرے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امداد بہت جارہی ہے لیکن وہ وہاں پہنچنے نہیں دی جارہی ہے۔ اس کے راستے سے ہم کس طرح رکاوٹیں ختم کر سکتے ہیں؟ اس کے بارے میں اگر مختلف ممالک میں جانا پڑے تو ان کا بھی دورہ کیا جائے اور ان مسائل کو حل کیا جائے۔
خلاصہ میری گزارشات کا یہ ہے کہ ہم ایک مرتبہ یہ طے کرلیں کہ ہمیں غلامی سے نکلنا ہے۔ تاجر برادری آپس میں طے کرلے کہ ہمیں غلامی سے نکلنا ہے۔ ہمیں یہ نہیں دیکھنا کہ مغرب خوش ہوگا یا ناراض ہوگا ہمیں اپنے اقدار کو اور اپنے اصولوں کو نافذ کرنا ہے ۔ ایک مسلمان تاجر کی حیثیت سے عبادت سمجھ کر اللہ تبارک و تعالی کی رضا کی خاطر یہ کام کرنا ہے۔ تو اللہ تبارک و تعالی نے یہ صاف صاف کہا ہے کہ
*اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أقْدَامَكُمْ* (سورة محمد)
ترجمہ: اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا کرے گا۔
اللہ کی مدد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے دین کی مدد کرو گے، اللہ کے بھیجے ہوئے نظام کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا کرے گا۔ یہ کام ہمارے کرنے کا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفيق عطا فرمائے۔ آمین!
آخری گزارش
ایک گزارش آخر میں یہ کرتا ہوں جو ہر مسلمان کے لیے ہے اور وہ یہ ہے کہ صبح کو جب انسان بیدار ہو اور نماز فجر ادا کرے، اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، تو اس کے بعد چند منٹ کے لیے اللہ تبارک و تعالی سے ایک معاہدہ کر لے کہ یا اللہ میں آج کا دن شروع کر رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ یہ دن آپ کی خوشنودی اور آپ کی رضا کے مطابق گزرے، اس میں مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو اس میں مجھ سے کوئی بدعنوانی نہ ہو اور میں خالصتا آپ کی رضا کے مطابق یہ دن گزاروں۔ یا اللہ! میں عہد کرتا ہوں اپنی طرف سے پکا ارادہ کرتا ہوں لیکن اس ارادے کو میں قائم نہیں رکھ سکتا جب تک آپ کی توفیق شامل حال نہ ہو جائے، تو میں آپ سے توفیق مانگتا ہوں کہ میں اپنا دن آپ کی رضا کے مطابق گزاروں۔ ساتھ میں یہ اضافہ کر لیں کہ یا اللہ! کچھ ایسا طریقہ ہمیں بتا سجھا دیجئے کہ جس کے ذریعے ہم غیروں کی غلامی سے آزاد ہو جائیں۔ یہ صبح کو دو تین منت کا کام ہے تو پھر اگر قرآن کریم کی تھوڑی سی تلاوت ہو جائے تو سبحان اللہ اور اس کے ساتھ یہ دعا اور سارا دن ذرا یہ ذہن میں رہے کہ میں نے یہ عہد کیا تھا اور پھر رات کو سونے سے پہلے دو منٹ کہ یا اللہ میں نے آج صبح عہد کیا تھا اور ساتھ ہی آپ سے توفیق مانگی تھی کہ آپ کی رضا کے مطابق زندگی گزاروں، پتہ نہیں میں کہاں بہکا کہاں بھٹکا، جہاں کہیں بھٹکا ہوں اے اللہ اس پر میں مغفرت چاہتا ہوں۔ صبح کو وعده رات کو توبہ یہ عمل ہر انسان اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرے جو میں نے آپ حضرات کے سامنے عرض کیا کہ غلامی سے نکلنا ہے ان شاء اللہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں بے آسرا چھوڑ دیں بے یارو مددگار چھوڑ دیں۔ اللہ تبارک و تعالی کی رحمت سے پوری امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ ان شاء اللہ ہمیں نکالے گا مایوسی کو پاس نہ پھٹکنے دیں۔ مایوسی کفر کی بات ہے۔ مسلمان کا کام مایوس ہونا نہیں اپنی حد تک آخری دم تک وہ کام کرتا رہے۔ حدیث میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
جب قیامت قائم ہونے لگے گی یا بالکل قیامت سامنے آئے گی تب بھی کوئی شخص کہیں پودا لگا رہا ہے تو پودا لگا لے یہ نہ سوچے قیامت تو آ رہی ہے اس کا کیا فائدہ وہ پودا لگا لے قیامت سامنے آرہی ہے تب بھی لگا لے انسان کو اللہ تعالی نے یہ سکھایا ہے کہ تمہارا کام کام کرنا ہے نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہے اور فرمایا کہ اگر تم صحیح طریقے سے کرو گے تو یقینا اللہ تعالی تمہیں کامیابی دے گا۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
Comments
Post a Comment