؛1519🌻) عصرِ حاضر اور ظہورِ مہدی علیہ السلام

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

"وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا"
  ترجمہ": اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس  زمین میں رہو سہو پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے لے آئیں گے۔" سورۃ الاسراء: ۱۰۴۔
تشریح : اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کو 
سرزمینِ مصر و فلسطین اور دنیا بھر میں رہنے کی اجازت عنایت فرمائی مگر قربِ قیام اور نزولِ مسیح کا موقع جب آئے گا، تب بنی اسرائیل کو روئے زمین کے مختلف اطراف و اکناف سے جمع کرکے فلسطین واپس لے آئیں گے۔
موجودہ دور میں پوری دنیا سے یہودیوں کا فلسطین منتقل ہونا اور  مسلمان بستیوں کو منہدم کرکے یہودیوں کی آباد کاری کرنا اس آیتِ مبارکہ میں بیان کی گئی پیشن گوئی کی حتمی تکمیل کی طرف بنی اسرائیل کو  یہاں آباد کرنے کا سلسلہ معلوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس کے اردگرد آبادیاں زیادہ ہو رہی ہیں اور مئی جون ۲۰۱۸ میں امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب سے القدس منتقل ہو گیا ، اس صورت حال میں اگر چہ وقتی پریشانی ہر دردِ دل رکھنے والے مسلمان کو ہوتی ہے، مگر شاید تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ "ظہورِ مہدی" کی خاطر فوج جمع کرنے کے لیے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے باوجود مجتمع کر رہا ہے، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے
 " وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَٰرِثِينَ" 
ترجمہ: اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کر دئیے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انھیں (ملک کا) وارث کریں۔
اس آیتِ مبارکہ میں طاقتور کے مقابلے میں کمزور پر اپنا احسان کرکے پیشوا بنانا اور حکومتوں کا وارث ٹھہرانے کا خدائی قانون بیان فرمایا گیا۔ اگر عصر ِ حاضر میں برمی اور شامی مسلمانوں پر کیے گئے مظالم کے بعد ظہورِ مہدی  کی صورت میں کفار سے بدلہ لینے کے لیے اس آیت مبارکہ کو دوبارہ پڑھا جائے، تو یہ خدائی قانون اپنے تکمیلی مراحل کی طرف گامزن نظر آ رہا ہے۔اسی کی طرف ایک دوسری حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر مدینہ منورہ کی خرابی کا باعث ہوگی اور مدینہ کی خرابی اس بات کی نشانی ہے کہ  امام مہدیؒ کی قیادت میں پہلے شام کے سفیانی  طاقتوں کے خلاف جنگ ہوگی اور پھر مغربی قوتوں کے خلاف اعماق میں"ملحمۃ الکبریٰ" لڑی جائے گی۔
احادیث مبارکہ میں ظہورِ مہدی سے پہلے مختلف علامات بیان کی گئی ہیں جن میں چند یہ ہیں

۔۱۔سرزمینِ شام پر روسی طاقتوں کا مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے آنا ۔
۔۲۔شام میں مسلمانوں کا آپس میں حکومت کے لیے لڑنا۔
۔۳۔بعض مسلمانوں کا اسلامی نظام کے قیام کے لیے اپنی اولاد سمیت شام میں رہ کر لڑنا اور شہید ہونا۔
۔۴۔دجال اور ظہورِ مہدی سے چند سال پہلے دھوکہ بازوں، فساق، کم عمر اور کمزور لوگوں کا حکومت اور اہم عہدوں پر فائز ہونا
۔۵۔فوج اور پولیس کا زیادہ ہونا۔
۔۶۔اہل عراق کے بہترین لوگوں کا سرِزمین  شام منتقل ہونا اور شام کےشریر لوگوں کا عراق منتقل ہونا۔

عصر حاضر سرزمینِ شام پر بنو قنطوراء (یعنی روسی  افواج  ) کا مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے آنا ظہورِ مہدی کی واضح دلیل ہے، اسی طرح حکومت کی خاطر شام میں مسلمان آپس میں کئی گروہوں میں بٹ گئے ہیں،  جب کہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اخلاص کے ساتھ لڑنے والے بھی آج شام میں موجود ہیں،ان کے علاوہ بیان کی گئی دیگر  علامات کئی سالوں سے ہمارے ملک پاکستان اور دیگر کئی ممالک میں پورے ہوتی ہوئی ہمیں نظر آرہی ہیں۔ان علامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قربِ قیامت کی نشانیوں میں ایک بڑی نشانی یعنی ظہورِ مہدی کا دور تقریباً پہنچ چکا ہے۔

Comments