۔1580🌻) پیارے نبی ﷺ کی پیاری سنتیں

نقش قدم نبی ﷺ کے ہیں جنت کے راستے

اللہ  پاک  سے  ملاتے  ہیں  سنت کے راستے

۔🏵 ) نیند سے بیدار ہونے کے بعد سنت مبارک
ہاتھوں سے چہرے اور آنکھوں کو ملنا۔
نیند سے اٹھنے کی دعا پڑھنا۔
نیند سے بیدار ہونے کی دعا
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا، وَ اِلَیْهِ النُّشُوْرُ.
ترجمہ:
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مار کر زندگی بخش دی، اور (ہم کو) اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔
(صحيح البخاري، 8/85، قاهرة)، (صحيح مسلم، 8/78، بيروت)
اچھی طرح مسواک کرنا
عضو کرنے میں دوبارہ مسواک کرنا
جو بھی پہنے(شلوار ، پاجامہ ، کرتا ، قمیص ، جوتا وغیرہ) پہلے دایاں پھر بایاں
اور نکالے پہلے بایاں پھر دایاں
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تین مرتبہ ہاتھوں کو اچھی طرح دھولیں

۔🌹 بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت سنتیں اور اداب
جوتا پہن کر داخل ہونا
انگھوٹی یا کوئ چیز ہو جس پر اسلامی کلمات ہو بیت الخلاء میں نہ لے جاۓ
جب بیت الخلاء جائے تو داخل ہونے سے پہلے بِسْمِ الله کہے اور یہ پڑھے
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ
ترجمہ:
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتاہوں، خبیث جنوں سے مرد ہو یا عورت۔
(صحيح البخاري، 1/48، قاهرة)، (سنن الترمذي، (2 /503)، بيروت)
حدیث شریف میں ہے کہ شیطانوں کی آنکھوں اور انسانوں کی شرم گاہوں کے درمیان بِسْمِ الله آڑ بن جاتی ہے
پہلے بایاں پاؤں اندر رکھنا۔
سخت ضرورت کے علاوہ بات نہ کریں
زمین کے قریب ہو کر ستر کھولنا۔
قضائے حاجت کو وقت چہرہ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ کرنا۔
طہارت کرتے ہوئے بایاں ہاتھ استعمال کرنا۔
پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا۔
بیت الخلاء سے نکلتے وقت
دایاں پاؤں پہلے باہر نکالنا۔
جب بیت الخلاء سے نکلے تو غُفْرَانَكَ کہے، اور یہ پڑھے
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَذْھَبَ عَنِّی الْأَذٰى وَعَافَانِیْ
ترجمہ:
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے مجھ سے ایذادینے والی چیز دور کی، اور مجھے چین دیا۔
(السنن الكبرى للنسائي، ٩/ 35، بيروت)، (مشکاۃ شریف)
بعض جگہ بیت الخلا نہیں ہوتا تو صفائی کے لیے طاق یعنی
۔3.۔۔5...ڈھیلے یا بضرورت ٹوایلٹ پیپر لے لے
اور اڑ کی جگہ جاۓ جہاں کسی کا نظر نہ پڑے
پیشاب کی جگہ نرم ہو کہ اپ کو چینٹے نہ پڑے
کھڑے ہو کر پیشاب نہ کریں
پیشاب کے بعد استنجا سکھانا ہو تو اڑ میں سکھاۓ

۔🌹 ... جب گھر سے نکلے تو یہ دعا پڑھے
بِسْمِ اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ
ترجمہ:
میں اللہ کا نام لے کر نکلا، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، گناہوں سے بچنے اور عبادت کرنے کی طاقت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔   (سنن الترمذي، 5/490، بيروت)، (مشکاۃ شریف)
حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص گھر سے نکل کر یہ دعا پڑھ لے تو شیطان ہٹ جاتا ہے یعنی اس کے بہکانے اور ایذاء دینے سے باز رہتا ہے۔:

۔🌹 گھر میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھے
اور اس کے بعد اپنے گھر والوں کو سلام کرے
اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللّٰهِ وَلَجْنَا، وَعَلَی اللّٰهِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا۔
ترجمہ:
اے اللہ! میں تجھ سے اچھا داخل ہونا اور اچھا نکلنا مانگتا ہوں۔ ہم اللہ کا نام لے کر داخل ہوئے، اور ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا۔
(سنن أبي داود، 4/486، بيروت)، (مشکاۃ شریف)

۔🌹مسجد میں داخل ہوتے وقت
جب مسجد میں داخل ہو تو دایاں پاوں پہلے داخل کریں اعتکاف کا نیت کریں ( کہ میں اعتکاف کانیت کرتا ہوں ) اور یہ دعا پڑھے
اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِكَ
ترجمہ:
اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
(صحيح مسلم، 2/155، بيروت)
جب مسجد سے نکلے تو تو بایاں پاوں پہلے نکالے اور
یہ دعا پڑھے
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ
ترجمہ:
اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔
(صحيح مسلم ١/ 494، بيروت)، (مصنف عبد الرزاق الصنعاني، ١/ 426، بيروت)

۔🌹) مسواک کرنے کا سنت طریقہ
فقہاء نے مسواک کا یہ طریقہ لکھا ہے کہ مسواک دائیں ہاتھ سے اِس طرح پکڑے کہ سب سے چھوٹی انگلی کو مسواک کے نیچے رکھ کر اُس کے برابر والی تینوں انگلیاں مسواک کے اوپر رکھے، اور انگوٹھا مسواک کے سر کی طرف نیچے رکھے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 114)
"وفي البحر والنهر: والسنة في كيفية أخذه أن يجعل الخنصر أسفله والإبهام أسفل رأسه وباقي الأصابع فوقه، كما رواه ابن مسعود".
پھر پہلے اوپر والے دانتوں کو دائیں طرف سے تین مرتبہ صاف کرے پھر بائیں طرف والے دانتوں کو، اسی طرح نیچے والے دانتوں کو پہلے دائیں طرف سے تین مرتبہ صاف کرے، اس کے بعد بائیں طرف والے دانتوں کو صاف کرے، نیز مسواک سے زبان اور گلے کو صاف کرنا بھی مسنون ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 114)

۔🏵 ) وضو کی سنتیں
۔(۱) نیت کرنا
۔(۲) تسمیہ سے شروع کرنا
۔(۳) دونوں ہاتھ گٹوں تک تین بار دھونا
۔(۴) مسواک کرنا
۔(۵) تین بار منہ بھر کر کلی کرنا
ُ۔(۶) تین بار ناک میں داہنے ہاتھ سے ناک کے نرم حصے تک پانی چڑھانا اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا
۔(۷) داڑھی کا خلال کرنا
۔(۸) ہاتھ پاوٴں کی انگلیوں کا خلال کرنا
۔(۹) وضو میں دھلنے والے اعضاء کو تین تین بار دھونا یعنی تین بار چہرہ دھونا، تین بار دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھونا، تین بار دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا
۔(۱۰) ایک بار پورے سر کا مسح کرنا
ُ۔(۱۱) پھر کان اور گردن کا مسح کرنا، کان اور گردن کے مسح کے لئے نیا پانی لینے کی ضرورت نہیں
۔(۱۲) ترتیب قائم رکھنا
۔(۱۳) پے در پے کرنا یعنی ایک عضو کے سوکھنے سے پہلے دوسرے عضو کو دھو لینا
بعض حضرات نے بعض مستحبات کو بھی سنن میں شامل کیا ہے اس لیے تعداد میں اختلاف ہو سکتا ہے۔

۔💐 ) غسل میں تین چیزیں فرض ہیں، باقی سنت
اس طرح کلی کرنا کہ سارے منہ میں پانی پہنچ جائے۔
ناک میں پانی ڈالنا جہاں تک ناک نرم ہے۔
سارے بدن پر پانی پہنچانا۔
ان تین چیزوں کے علاوہ باقی چیزیں سنت ہیں، ان کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور اگر نہ کرے تو بھی غسل ہو جاتا ہے مگر سنت کے موافق نہیں ہوتا۔ غسل کرنے کا مسنون طریقہ درج ذیل ہے
غسل کرنے والے کو چاہیے کہ پہلے گٹوں تک دونوں ہاتھ دھوئے پھر استنجے کی جگہ دھوئے، ہاتھ اور استنجے کی جگہ پر نجاست ہو تب بھی اور نہ ہو تب بھی ہر حال میں ان دونوں کو پہلے دھونا چاہیے۔
پھر جہاں بدن پر نجاست لگی ہو اسے پاک کرے۔
پھر وضو کرے۔ اگر کسی چوکی(اسٹول) یا پتھر پر بیٹھ کر غسل کر رہا ہے تو وضو کرتے وقت پیر بھی دھولے اور اگر ایسی جگہ ہے کہ پیر بھر جائیں گے اور غسل کے بعد پھر دھونے پڑیں گے تو سارا وضو کرے مگر پیر نہ دھوئے۔
وضو کے بعد تین مرتبہ اپنے سر پر پانی ڈالے، پھر تین مرتبہ داہنے(سیدھے) کندھے پر اور پھر تین بار بائیں(الٹے) کندھے پر پانی ڈالے اس طرح کہ سارے جسم پر پانی بہہ جائے۔ ایک مرتبہ پانی بہانے کے بعد پہلے سارے جسم پر اچھی طرح ہاتھ پھیر لے پھر دوسری بار پانی بہائے تاکہ سب جگہ اچھی طرح پانی پہنچ جائے، کہیں سوکھا نہ رہے۔
پھر اس جگہ سے ہٹ کر پاک جگہ میں آجائے اور پیر دھوئے اور اگر وضو کے وقت پیر دھو لیے ہوں تو اب دھونے کی حاجت نہیں۔ اس طرح غسل مکمل ہو جائے گا۔
مذکورہ بالا طریقہ کے علاوہ اور بھی چند باتیں ہیں جن کا غسل کرتے وقت خیال رکھنا چاہیے
غسل کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرے۔
پانی بہت زیادہ نہ پھینکے اور نہ بہت کم لے کہ اچھی طرح غسل نہ کرسکے۔
ایسی جگہ غسل کرے کہ اسے کوئی نہ دیکھے۔
غسل کرتے وقت باتیں نہ کرے۔
غسل کے بعد کسی کپڑے سے اپنا بدن پونچھ ڈالے۔
بدن ڈھکنے میں بہت جلدی کرے، یہاں تک کہ اگر وضو کرتے وقت پیر نہ دھوئے ہوں تو غسل کی جگہ سے ہٹ کر پہلے اپنا بدن ڈھکے پھر دونوں پیر دھوئے۔
اگر تنہائی کی جگہ ہو جہاں کوئی نہ دیکھ پائے تو ننگے ہوکر نہانا بھی درست ہے، چاہے کھڑے ہوکر نہائے یا بیٹھ کر، لیکن بیٹھ کر نہانا بہتر ہے کیوں کہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
نہاتے وقت زبان سے کلمہ یا کوئی دعا نہ پڑھے۔
اگر غسل کے بعد یاد آئے کہ فلانی جگہ سوکھی رہ گئی تھی تو پھر سے نہانا واجب نہیں، بلکہ جہاں سوکھا رہ گیا تھا اسی کو دھولے، لیکن فقط ہاتھ پھیر لینا کافی نہیں ہے بلکہ تھوڑا پانی لے کر اس جگہ بہا لینا چاہیے، اور اگر کلی کرنا بھول گیا ہو تو اب کلی کرلے، اگر ناک میں پانی نہ ڈالا ہو تو اب ڈال لے، غرض کہ جو چیز رہ گئی ہو اب اس کو کرلے، نئے سرے سے غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔
سر کے  سب بال بھگونا اور ساری جڑوں میں پانی پہنچانا فرض ہے، اگر ایک بال بھی سوکھا رہ گیا یا ایک بال کی جڑ میں پانی نہیں پہنچا تو غسل نہیں ہوگا۔ البتہ خواتین کے بال اگر گُندھے ہوئے ہوں تو بالوں کا بھگونا معاف ہے لیکن سب جڑوں میں پانی پہنچانا فرض ہے، ایک جڑ بھی سوکھی نہ رہنے پائے اور اگر بغیر بال کھولے سب جڑوں میں پانی نہ پہنچ سکے تو بال کھول ڈالے اور بالوں کو بھی بھگودے۔
انگوٹھی، چھلےوغیرہ بہتر ہے کہ اُتار کر غسل کرے، البتہ اگر انگوٹھی، چھلے پہنے ہوں تو انہیں خوب ہلالے تاکہ پانی سوراخوں میں پہنچ جائے۔ اسی طرح خواتین نتھ اور بالیوں کو خوب ہلائیں اور اگر بالیاں نہ پہنے ہوں تب بھی سوراخوں میں پانی ڈال لیں، ایسا نہ ہو کہ پانی نہ پہنچے اور غسل صحیح نہ ہو۔
کان اور ناک میں بھی خیال کرکے پانی پہنچانا چاہیے، پانی نہ پہنچے گا تو غسل نہ ہوگا۔
(ماخوذ از بہشتی زیور، مؤلفہ: حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ

۔💐) نماز میں اکیس (۲۱) سنتیں ہیں
۔(۱) تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔
۔(۲) دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔
۔(۳) تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔
۔(۴) امام کو تکبیر تحریمہ اور ایک رُکن سے دوسرے میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر حاجت بلند آواز سے کہنا۔
۔(۵) سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔
۔(۶) ثنا پڑھنا۔
۔(۷) تعوّذ یعنی اَعُوْذُ بِا للّٰہ الخ پڑھنا۔
۔(۸) بِسْمِ اللّٰہ الخ پڑھنا۔
۔(۹) فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہٴ فاتحہ پڑھنا۔
ُ۔(۱۰)آمین کہنا۔
۔(۱۱) ثنا اور تعوّذ اور بسم اللہ اور آمین سب کو آہستہ پڑھنا۔
۔(۱۲) سنت کے موافق کوئی قرأت کرنا یعنی جس جس نماز میں جس قدر قرآن مجید پڑھنا سنت ہے اس کے موافق پڑھنا۔
۔(۱۳) رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا ۔
۔(۱۴)رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔
۔(۱۵) قومہ میں امام کو سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور مقتدی کو رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا ۔ اور منفرد کو تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔
ُ۔(۱۶) سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے پھر دونوں ہاتھ پھر پیشانی رکھنا۔
۔(۱۷) جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔
۔(۱۸) تشہّد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر انگلی سے اشارہ کرنا۔
۔(۱۹) قعدہ اخیرہ میں تشہّد کے بعد درود شریف پڑھنا۔
۔(۲۰) درود کے بعد دعا پڑھنا۔
۔(۲۱) پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔


۔💐) جمعہ کے دن مسنون و مستحب اعمال
۔(۱)غسل کرنا۔(۲)مسواک کرنا۔(۳)خوشبو لگانا۔( ۴)عمدہ لباس پہننا۔( ۵)تیل لگانا ( ۶)نماز فجر میں امام کا سورہ سجدہ اور سورہ دہر کی تلاوت کرنا-(۷)نماز جمعہ کے لئے پیدل جانا-(۸)جمعہ کے لئے مسجد میں جلدی جانا-(۹)امام کے قریب بیٹھنا-(۱۰)جمعہ کے خطبے کو خاموشی کے ساتھ سننا-(۱۱)نماز جمعہ میں امام صاحب کا سورہ اعلی اور سورہ غاشیہ یاسورہ جمعہ اور سورہ منافقین کی تلاوت کرنا ( ۱۲)جمعہ کے دن درود پاک کثرت سے پڑھنا
جمعہ کے دن دعا مانگنا خاص کر دونوں خطبوں اور عصر سے مغرب کے درمیان واضح رہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان دعا صرف دل دل میں کی جائے زبان سے نہیں
اور نہ ہی اس کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں
جہاں تک مسئلہ ہے کہ جمعہ کے دن کون سی سورت کی تلاوت کرنا افضل ہے تو جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرنا افضل ہے احادیث شریفہ میں اس کے بڑے فضائل مذکور ہیں چنانچہ نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے روز سورہ کہف پڑھے وہ اگلے آٹھ دن تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا،حتی کہ اگر دجال نکل آئے تو اس کے فتنے سے بھی محفوظ رہے گا

۔ 🏵 کھانے کی چند اہم سنتیں
۔(۱) کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا
(شمائل ترمذی ۱۲، سنن وآداب ۷۵)
۔(۲) اجتماعی طور پر کھانا
(سنن أبی داوٴد، کتاب الأطعمة / باب فی الاجتماع علی الطعام ۲/۵۲۸رقم: ۳۷۶۴دار الفکر بیروت)
۔(۳) دستر خوان بچھانا
(صحیح البخاری، کتاب الأطعمة / باب الخبز المرقق والأکل علی الخوان والسفرة ۲/۸۱۱رقم: ۵۳۸۶دار الفکر بیروت)
۔(۴) جوتے چپل اُتار کر کھانا
(مجمع الزوائد، کتاب الأطعمة / باب خلع النعال عند الأکل ۵/۲۳رقم: ۷۹۱۲د)
۔(۵) بسم اللہ پڑھ کر کھانا
۔(۶) دائیں ہاتھ سے کھانا
(صحیح البخاری، کتاب الأطعمة / باب التسمیة علی الطعام والأکل بالیمین ۲/۸۰۹رقم: ۵۳۷۶دار الفکر بیروت)
۔(۷) کھانے میں عیب نہ نکالنا
(صحیح البخاری، کتاب الأطعمة / باب ما عاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم طعامًا قط ۲/۸۱۴رقم: ۵۳۷۶دار الفکر بیروت، صحیح مسلم ۲/۱۸۷رقم: ۲۰۶۴بیت الأفکار الدولیة )
۔(۸) تین انگلیوں سے کھانا
(صحیح مسلم، کتاب الأشربة / باب استحباب لعق الأصابع واقصعة وأکل اللقمة الساقطة الخ ۲/۱۷۵رقم: ۲۰۳۲بیت الأفکار الدولیة، شمائل ترمذی ص: ۶۱رقم: ۱۴۱المکتبة الإسلامیة داکا بنغلادیش)

۔🌴 سنت شرعی لباس اور چند بنیادی شرائط
۱:…مرد حضرات کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے،جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم چھپ جائے اور ایسا لباس پہننا سنت ہے جس سے ہاتھ،پیر اور چہرے کے علاوہ مکمل جسم چھپ جائے۔ عورتوں کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے، جس سے ہاتھ،پیر اور چہرے کے علاوہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔
نوٹ: یہاں لباس کا بیان ہے نہ کہ پردے کا، غرضیکہ غیر محرم کے سامنے عورت کو چہرا ڈھانکنا ضروری ہے۔
۔۲:… لباس نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو، مثلاً: مرد حضرات کے لیے ریشمی کپڑے اور خالص سرخ یا زرد رنگ کا لباس۔
۔۳:… ایسا تنگ یا خفیف لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں۔
۔۴:… مردوںکا لباس عورتوں کے مشابہ اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔
۔۵:… مردوں کا لباس زیادہ رنگین اور عورتوں کا لباس زیادہ خوشبو والا نہ ہو۔
۔۶:… مردوں کا لباس ٹخنوں سے اوپر جبکہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔
۔۷:… کفار ومشرکین کے مذہبی لباس سے مشابہت نہ ہو۔

آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا پسندیدہ لباس ’’سفید پوشاک‘‘
۔🌴 رنگین لباس کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات و عمل
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  زیادہ تر سفید لباس پہنا کرتے تھے، اگرچہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیے ہیں۔ رنگین لباس چادر یا عبایہ یا جبہ کی شکل میں عموماً ہوا کرتا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص اور تہبند عموماً سفید ہوا کرتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ: ’’یہ کافروں کا لباس ہے، اس کو نہ پہنو۔‘‘   (مسلم: ۲۰۷۷)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تو میں ارغوانی گھوڑے پر سوار ہوںگا اور نہ پیلے رنگ کے کپڑے پہنوں گا جو ریشمی حاشیہ والے ہوں اور فرمایا کہ: خبردار رہو کہ مردوں کی خوشبو وہ خوشبو ہے جس میں رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ خوشبو ہے جس میں خوشبو نہ ہو، رنگ ہو۔ (مشکوۃ، ص: ۳۷۵)
ارغوان ایک سرخ رنگ کا پھو ل ہے، اب ہر سرخ رنگ کو ارغوانی کہا جاتا ہے۔
حضرت ابی رِمثہ رفاعہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ ‘‘      (ابو داؤد: ۴۰۶۵۔ ترمذی: ۲۸۱۳)
حضرت براء رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا قد درمیانی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ دھاریوں والی چادر میں ملبوس دیکھا۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کوئی خوبصورت منظر نہیں دیکھا۔‘‘   (بخاری،ج: ۱۰، ص:۲۵۸  ومسلم:۲۳۳۷)
حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ:’’ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سرخ دھاریوں والی یمنی چادر کو بہت پسند فرماتے تھے۔ ‘‘    (بخاری ومسلم)
وضاحت: بعض روایات میں وارد ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ پوشاک استعمال کی ہے، جبکہ دیگر احادیث میں مردوں کو سرخ اور پیلے کپڑے پہننے سے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس بظاہر تضاد کی محدثین و علماء نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ خالص سرخ یا خالص پیلے کپڑے نہیں پہننے چاہئیں، البتہ سرخ یا پیلے رنگ کی دھاریوں والے (یعنی ڈیزائن والے) کپڑے پہنے جاسکتے ہیں۔

۔🌴 آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قمیص
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ: ’’ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں میں قمیص زیادہ پسند تھی۔‘‘ (ترمذی: ۱۷۶۲، ابو داود: ۴۰۲۵)
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے جو اوصاف احادیثِ صحیحہ میں مذکور ہیں، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: ’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔‘‘ (ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد، وغیرہ)
’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔‘‘     (ابو داود، ابن ماجہ)
’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔‘‘ (ابو داود، ج:۲،ص:۲۰۳۔ ترمذی)
کبھی کبھی انگلیوں کے سرے تک۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔

۔🌴 آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمامہ
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ اکثر اوقات سفید ہی ہوا کرتا تھا اور کبھی سیاہ اور کبھی سبز۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ عموماً ۶/۷ ذراع لمبا ہوا کرتا تھا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے، یعنی عمامہ شریف کا ’’شملہ‘‘دونوں کندھوں کے درمیان لٹکا رہتا تھا۔ ‘‘ (مشکوۃ، ص: ۳۷۴)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ :’’فتح مکہ کے دن نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔  (مسلم، ترمذی)
حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ :’’میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔‘‘   (ترمذی)
نوٹ:شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی کم از کم مقدار چار انگل ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ ہے۔

۔🌴 آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ٹوپی
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم عموماً سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سر سے چپکی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے، البتہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی ٹوپی اُٹھی ہوئی ہوتی تھی۔ علامہ ابن القیمv اپنی بلند پایہ کتاب ’’زاد المعاد في ہدي خیر العباد‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین و فقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے، نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورۃ الاعراف :۳۱) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے، لہٰذا ہمیں نماز ٹوپی پہن کر ہی پڑھنی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔ امام ابوحنیفہ نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے محدث شیخ ناصر الدین البانی  ؒ نے بھی اپنی کتاب’’تمام المنۃ‘‘کے صفحہ: ۱۶۴ پر تحریر کیا ہے کہ زیرِ بحث مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

۔🌴 آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا جبہ
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک طیالسی کسروانیہ جبہ مبارک نکالا جس کا گریبان ریشم کا تھا اور اس کے دونوں دامن ریشم سے سلے ہوئے تھے، اور فرمایا کہ: یہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، جب وہ وفات پاگئیں تو اسے میں نے لے لیا۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے۔ اب ہم اسے بیماریوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس سے شفاء حاصل کرتے ہیں۔ (مشکوٰۃ، ص: ۳۷۴)
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی اور شامی اونی جبوں کا بھی استعمال کیا ہے
۔(بخاری ومسلم)

۔🌴 آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اِزار
(یعنی تہبند و پائجامہ وغیرہ)
اِزار اُس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے نچلے حصہ میں پہنا جاتا ہے۔ عموماً نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  تہبند کا استعمال فرماتے تھے، کبھی کبھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ بھی استعمال کیا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا تہبند ناف کے اوپر سے نصف پنڈلی تک رہا کرتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  بھی عموماً تہبند استعمال کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اجازت سے پائجامہ بھی پہنتے تھے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہیے۔ نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان اِجازت ہے۔ لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔‘‘  (ابو داود، ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظرِ عنایت نہیں فرمائے گا۔‘‘    (بخاری ،ج:۱۰،ص: ۲۱۷)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔‘‘  (بخاری،ج:۱۰، ص: ۲۱۸)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما   روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لٹکانا تہبند، قمیص اور عمامہ میں پایا جاتا ہے، جس نے ان میں سے کسی لباس کو بطور تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔ ‘‘ (ابو داود: ۴۰۹۴۔ نسائی، ج:۸، ص:۲۰۸)
حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما   فرماتے ہیں کہ: ’’جو حکم نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ کے متعلق فرمایا، وہی حکم قمیص کا بھی ہے۔‘‘(ابو داود)
مذکورہ ویگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام نے اس مسئلہ کی مذکورہ شکلیں اس طرح تحریر فرمائی ہیں: نصف پنڈلی تک لباس: نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
ٹخنوں تک لباس: رخصت یعنی اجازت
تکبر کے بغیر ٹخنوں سے نیچے لباس : مکروہ
تکبرانہ ٹخنوں سے نیچے لباس : حرام۔
عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچا ہونا چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا
حضرت ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  نے سوال کیا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں؟
تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ (نصف پنڈلی سے) ایک بالشت نیچے لٹکائیں۔ ‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر پھر بھی ان کے قدم کھلے رہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’وہ (نصف پنڈلی سے) ایک ذراع (شرعی پیمانہ جو تقریباً ۳۰ سینٹی میٹر کا ہوتا ہے) نیچے لٹکالیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔‘‘  (ابو داود: ۴۱۱۹۔ ترمذی: ۱۷۳۶)

۔🌴 آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لباس میں درمیانہ روی
رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ وعمدہ و قیمتی لباس بھی پہنے ہیں، مگر ان کی عادت نہیں ڈالی۔ ہر قسم کا لباس بے تکلف پہن لیتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’ جس نے دنیا میں شہرت کا کپڑا پہنا، بروز قیامت اللہ تعالیٰ اُسے ذلت کا کپڑا پہنائے گا۔ ‘‘  (ابوداؤد، باب فی لباس الشہرۃ)
حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’ہمارے سامنے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا   نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور موٹا تہبند نکالا، پھر فرمایا کہ: نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارکہ ان دونوں میں قبض کی گئی۔‘‘  (بخاری،ج:۲،ص:۸۶۵) 
ام المؤمنین حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ: مجھ سے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو تمہیں دنیا سے اتنا کافی ہو جیسے سوار مسافر کا توشہ، اور امیروں کی مجلس سے اپنے آپ کو بچاؤ اور کسی کپڑے کو پرانا نہ سمجھو، حتیٰ کہ اس کو پیوند لگالو۔ ‘‘  (ترمذی: ۱۷۸۰)
یہ انتہائی قناعت کی تعلیم ہے کہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار نہ ہو۔ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ ‘‘  (ترمذی: ۲۸۲۰)
یعنی اگر مال اللہ تعالیٰ نے دیا ہو تو اچھے کپڑے پہننے چاہئیں ۔
حضرت معاذ بن انس  رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ڈر سے لباس میں فضول خرچی سے اپنے آپ کو بچایا، حالانکہ وہ اس پر قادر تھا تو کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے سامنے اس کو بلائے گا اور جنت کے زیورات میں سے جو وہ چاہے گا اس کو پہنایا جائے گا۔   (ترمذی: ۲۴۸۳)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گندے کپڑے پہنے ہوئے حاضر خدمت ہوا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا اس شخص کو کوئی چیز نہیں ملی کہ یہ اپنے کپڑے دھو سکے؟۔‘‘   (نسائی، مسند احمد)
غرض یہ کہ حسبِ استطاعت فضول خرچی کے بغیر اچھے و صاف ستھرے لباس پہننے چاہئیں۔

۔🌴 لباس کے متعلق آپ ﷺ کی بعض سنتیں
دائیں طرف سے کپڑا پہننا سنت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب قمیص زیبِ تن فرماتے تو دائیں طرف سے شروع فرماتے۔‘‘     (ترمذی، ج:۱، ص:۳۰۲)
اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ دائیں آستین میں ڈالتے، پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں ڈالتے۔

۔🌴 نیا لباس پہننے کی دعا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے: عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے:
’’اَللّٰھُمَّ  لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہٖ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ۔‘‘ (ابو داود، ترمذی)
’’اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘

۔🌴 پائجامہ پہننے کا طریقہ
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات میں ہے کہ پائجامہ /شلوار بیٹھ کر پہنیں۔ بعض احادیثِ ضعیفہ میں کھڑے ہوکر پائجامہ وغیرہ پہننے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، مثلاً: جس نے بیٹھ کر عمامہ باندھا یا کھڑے ہوکر سراویل (پائجامہ یا شلوار) پہنی تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا جس کی کوئی دوا نہیں۔ یہ حدیث شیخ شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ’’کشف الالتباس في استحباب اللباس‘‘ میں ذکر کی ہے۔ ہمارے علماء کرام ہمیشہ احتیاط پر عمل کرتے ہیں، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنا پائجامہ وغیرہ بیٹھ کر پہنیں، اگرچہ کھڑے ہوکر پہننا بھی جائز ہے۔

۔🌴 بالوں کی چادر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتے ہیں کہ: ’’ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  جب ایک مرتبہ صبح کو مکان سے تشریف لے گئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پر سیاہ بالوں کی چادر تھی۔‘‘  (شمائل ترمذی)

۔🌴 ریشمی لباس کے متعلق آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات
ریشمی لباس پہننا مردوں کے لیے حرام ہے، البتہ ۲ یا ۳ یا ۴ اُنگل ریشمی حاشیہ والے کپڑے مردوں کے لیے جائز ہیں۔ نیز خارش اور کھجلی کے علاج کے لیے ریشمی لباس کا استعمال مردوں کے لیے جائز ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’جس مرد نے دنیا میں ریشمی کپڑے پہنے وہ آخرت میں ریشمی کپڑوں سے محروم کر دیا جائے گا۔‘‘    (بخاری، مسلم)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:’’ دنیا میں صرف وہی مرد ریشمی کپڑے پہن سکتا ہے جس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ ‘‘  (بخاری، مسلم)
حضرت ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ریشمی کپڑے اور سونے کے زیورات میری اُمت کے مردوں پر حرام ہیں۔ ‘‘   (ترمذی: ۱۷۲۰)
حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ :’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ریشم کے پہننے سے منع فرمایا ہے، مگر ایک یا دو یا تین یا چار انگلیوں کی مقدار۔‘‘      (بخاری، اللباس: ۵۸۲۹، مسلم ،اللباس والزینہ: ۲۰۶۹)
حضرت انس  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ:’’ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر  رضی اللہ عنہ  اورحضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ  کو خارش کے علاج کے لیے ریشم کے کپڑے پہننے کی اجازت عطا فرمائی۔‘‘    (بخاری، مسلم)

۔🌴 لباس میں کفار و مشرکین سے مشابہت
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی طور پر (یعنی لباس اور غیر لباس میں) کفار و مشرکین سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے: ’’ جس نے جس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہو جائے گا۔ ‘‘ (ابو داود: ۴۰۳۱)
لباس میں مشابہت کرنے سے خاص طور پر منع فرمایا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے، اس کو نہ پہنو۔ ‘‘ (مسلم: ۲۰۷۷)
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  نے آذربائیجان کے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ عیش پرستی اور مشرکوں کے لباس سے بچو۔  (مسلم: ۲۶۰۹)
مردوں اور عورتوں کے لباس میں مشابہت
حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں سے (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتے ہیں، اسی طرح لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتی ہیں۔ ‘‘   (بخاری)

۔🌴 پینٹ و شرٹ اور کرتا و پائجامہ کا موازنہ
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ لباس میں اصل جواز ہے، انسان اپنے علاقہ کی عادات و اطوار کے مطابق چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے، ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ کفار و مشرکین کا لباس نہ ہو۔ پینٹ و شرٹ یقیناً مسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے، لیکن اب یہ لباس عام ہو گیا ہے، چنانچہ مسلم اور غیر مسلم سب اس کو استعمال کرتے ہیں، لہٰذا پینٹ و شرٹ مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ استعمال کرنا جائز تو ہے، البتہ پینٹ و شرٹ کے مقابلے میں کرتا و پائجامہ کو چند اسباب کی وجہ سے فوقیت حاصل ہے:
۔1:… کرتا و پائجامہ عموماً سفید یا سفید جیسے رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ پینٹ و شرٹ عموماً رنگین ہوتی ہیں۔ احادیث صحیحہ کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ اللہ جل شانہ کے حبیب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سفید پوشاک زیادہ پسند فرماتے تھے، نیز عام طور پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس سفید ہی ہوا کرتا تھا۔
۔2:… قیامت تک آنے والے انسانوں کے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قمیص بہت پسند تھی۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کے جو اوصاف احادیث میں ملتے ہیں وہ شرٹ کے بجائے موجودہ زمانے کے کرتے (ثوب /قمیص) میں زیادہ موجود ہیں۔
۔3:… اگرچہ اس وقت پینٹ و شرٹ کا لباس مسلم و غیر مسلم سب میں رائج ہوچکا ہے، لیکن ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پینٹ و شرٹ کی ابتداء مسلم کلچر کی دین نہیں، جبکہ کرتہ و پائجامہ کی بنیادیں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہیں، کرتا یعنی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے قمیص کا ذکر کرچکا ہوں، جہاں تک پائجامہ کا تعلق ہے تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تہبند کا استعمال فرماتے تھے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ استعمال کیا یا نہیں؟ اس کے متعلق بعض محققین نے اختلاف کیا ہے، لیکن تمام محققین و محدثین و فقہاء و علماء متفق ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پائجامہ خریدا تھا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے پائجامہ پہنتے تھے۔
۔4:… کسی بھی زمانہ میں دنیا کے کسی بھی کونے میں علماء و فقہاء کی جماعت نے پینٹ وشرٹ کو اپنا لباس نہیں بنایا۔

۔🌴 وضاحت
موجودہ زمانہ کے پائجامہ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  کے زمانے کے پائجامہ میں فرق ممکن ہے، مگر دونوں کی بنیاد و اَساس ایک ہونے کی وجہ سے ان شاء اللہ فضیلت حاصل ہوگی، جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  اور موجودہ زمانہ کی مساجد میں ضرور فرق ملے گا، مگر بنیاد و مقاصد ایک ہونے کی وجہ سے موجودہ زمانہ کی مساجد کو وہ فضیلت ضرور حاصل ہوگی جس کا تذکرہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ہوا ہے۔
کسی معین شخص کے تنگ پائجامہ کا کسی معین شخص کی کشادہ پینٹ سے موازنہ کرکے فیصلہ کرنا صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ عموماً پینٹ پائجامہ کے مقابلہ میں تنگ ہوتی ہے اور جسم کی ساخت کے حساب سے بنائی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سنتوں کے مطابق لباس پہننے والا بنائے۔ جامعہ علوم اسلامی علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

۔🏵 سنت بال رکھنے کی مقدار اور اس کا حکم
۔1۔۔احادیثِ مبارکہ  سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ  ﷺ سر پر بال رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، عام حالت میں کانوں کی لو تک بال رکھا کرتے اور کبھی وہ بڑھ کر  کاندھے کے قریب بھی پہنچ جایا کرتے؛ اس لیے عام حالات میں بال  رکھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے، لیکن  آپ ﷺ  نے بال رکھنے سے متعلق بہت سی ہدایات بھی دی ہیں کہ اگر کوئی شخص بال کاٹے تو پورے کاٹے ، سر کے کچھ حصے کے بال کاٹنا اور  کچھ حصے کے بال رکھنا جیسا کہ غیر اقوام کا طریقہ ہے، یہ درست نہیں ، اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی تعلیم دی کہ جو شخص بال رکھے ان کا اِکرام بھی کرے،  یعنی کنگھی اور تیل وغیرہ کا اہتمام کرے اور بال کو صاف ستھرا رکھے اور  اس کو پراگندہ ہونے سے بچائے۔
۔2۔۔ بال رکھنا جس طرح سنت ہے، اسی طرح بال کاٹنے کو بھی بعض محدثین نے اور بالخصوص ہمارے فقہاءِ نے سنت کہا ہے، اور ہر جمعہ بالوں کے حلق کو مستحب کہا گیا ہے۔
۔3۔۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ  آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرکے کہ" جنابت کے غسل میں اگر ایک بال بھی خشک رہ گیا تو اس کا غسل نہیں ہوگا۔۔۔الخ"  فرماتے ہیں: "اسی وجہ سے میں نے اپنے  بالوں سے دشمنی کرلی، یعنی انہیں خوب جڑ سے کاٹتا ہوں،  " اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ سر کے بال حلق کیا کرتے تھے، علامہ طیبی رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس طرح بال رکھنا سنت ہے اسی طرح بالوں کو خوب اچھی طرح  کاٹنا بھی سنت  ہے، ایک تو اس لیے  کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو دیکھا اور اس پر سکوت  فرمایا،  گویا یہ آپ ﷺ کی تقریر ہے، اور اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ قول  اور فعل کی طرح تقریرِ رسول اللہ ﷺ بھی حدیث ہی ہوتی ہے۔ نیز خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی سنتوں کے اتباع کا بھی ہمیں حکم ہے۔ تاہم ملاعلی قاری رحمہ نے اس  کو سنت  کہنے پر اشکال کیا ہے اور حلق کو رخصت کہا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی معمول رہا اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر کبھی نکیر نہیں کی۔ نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج یا عمرے کے احرام سے حلال ہوتے وقت سر منڈوانے والوں کے لیے تین مرتبہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا فرمائی، اور تیسری مرتبہ کے بعد بال کاٹنے والوں کے لیے رحمت کی دعا فرمائی۔

۔4۔۔  علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء  فرماتے ہیں : اگر کسی شخص کے لیے  بال رکھ کر اس میں تیل لگانا اور خیال کرنا مشکل ہو تو  اس کے لیے حلق مستحب ہے، اور جس کے لیے  بالوں کا خیال رکھنا مشکل نہ ہو  ان کے لیے بال رکھنا افضل ہے۔
۔5۔۔ اگر  ولی یا سرپرست اپنے ماتحتوں کے بارے میں یہ بہتر سمجھے کہ وہ بال رکھ کر اس کا خیال نہیں رکھ سکیں گے، یا اس میں لگ کر  وہ دوسری اہم ضروریات سے غافل ہو جائیں گے، یا  تعلیمی ضرویات وغیرہ  جیسے اہم امور میں مشغولیت کی وجہ سے وہ انہیں بال کٹوانے کا حکم دے تو یہ اس کے لیے جائز ہے،  حدیث  مبارک میں ہے آپ ﷺ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے تین دن بعد ان کے بچوں کو بلایا اور حلاق کو بلا کر ان سب کو گنجا کرا دیا، اس حدیث کے تحت ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: باوجود یہ کہ بال رکھنا افضل ہے، آپ ﷺ نے ان بچوں کے بال اس لیے کٹوائے کہ ان کی ماں اسماء بنت عمیس شوہر کی جدائی کی وجہ سے سخت ترین صدمہ سے دو چار تھی ، ان کو غم کی وجہ سے اتنی فرصت کہاں ملتی کہ وہ  بچوں کے بال میں تیل ، کنگھی کرتیں؛  اس  لیے آپ ﷺ نے ان کے بال کٹوادیے، اس کے بعد ملاعلی قاری رحمہ اللہ ، عبد الملک رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کو اپنے ماتحت بچوں کے حلق وغیرہ کا حق ہے۔
لہذا   بڑے بال رکھنا بھی سنت ہے اور  بال کٹوانا  بھی سنت ہے،   اور  کسی کو یہ کہنا کہ بڑے قد والے  پر زلفیں اچھی لگتی ہیں ، یا سنت کے مطابق بال رکھنے کو نامناسب وضع قطع قرار دینا،  درست نہیں ہے ، باقی جو شخص زلفیں رکھنا چاہے اسے چاہیے کہ وہ درج ذیل باتوں  کا اہتمام کرے:
۔1- بال سنت کی پیروی میں رکھے، نہ کہ اپنے نفس کی خواہش اور چاہت پوری کرنے کے لیے۔
۔2- کاندھے سے نیچے تک بال نہ  رکھے، بلکہ عمومی احوال میں کانوں کی لو تک بال رکھے۔
,۔3- بالوں کو صاف ستھرا رکھے، ان کا اکرام کرے۔
۔4- یہ ذہن نشین رکھے کہ زلفین رکھنا بلاشبہ سنت ہے، لیکن یہ سنت ایسی نہیں جیسے داڑھی رکھنا سنت ہے کہ اسے مونڈنا یا ایک مشت سے کم کرنا جائز ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایسے ہی سنت ہے جیسے عمامہ پہننا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے کہ کوئی اس پر اتباعِ سنت کی نیت سے عمل کرے تو اجر ہے، لیکن اسے سنت اور اچھا سمجھنے کے باوجود اختیار نہ کرے تو گناہ نہیں ہے۔ نیز داڑھی بڑھانے کا
حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے، اور فقہاءِ کرام نے روایات کی روشنی میں داڑھی کی کم سے کم مقدار ایک مشت بیان فرمائی ہے، اور یہ بھی صراحت کی ہے کہ  ایک مشت سے زائد اتنی ہی داڑھی رکھی جاسکتی ہے، جس سے شخصی وجاہت اور وقار متاثر نہ ہو، ورنہ اسے کاٹنا ہی چاہیے، اور یہ مقدار ہر شخص کے اعتبار سے الگ  ہو سکتی ہے، بعض لوگوں کے ساتھ  قدرے طویل داڑھی بھی خوب صورت معلوم ہوتی ہے، جب کہ بعض لوگوں کے اعتبار سے مشت سے تھوڑی سی بھی زیادہ مقدار نامناسب معلوم ہوتی ہے، لہٰذا اس موقع پر اگر کوئی سمجھانے کے لیے اتنی مقدار کو نامناسب کہے تو وہ فی نفسہ داڑھی کو نامناسب کہنا نہیں ہوتا، بلکہ اس شخص کے لیے مشت سے زائد داڑھی کو نامناسب کہنا ہوتا ہے، اسی طرح سر کے بال رکھنے میں ہر شخص ایک جیسا نہیں ہے، بعض افراد کے  بال گردن یا کاندھے تک پہنچ جائیں تو بھی خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، اور بعض افراد کے بال کانوں کی لو سے نیچے ہوں تو مناسب معلوم نہیں ہوتے، اور بعض لوگ بالوں کی وضع ایسی بنالیتے ہیں کہ وہ مناسب معلوم نہیں ہوتے، لہٰذا اگر اس موقع پر کوئی عالم از راہِ نصیحت کسی کو سمجھاتا ہے تو وہ سنتِ رسول اللہ ﷺ کو غلط نہیں کہہ رہا ہوتا، بلکہ اس شخص کے اعتبار سے اس کے وقار کے متاثر ہونے کی بات کرتا ہے

۔🏵 عیادت اور بیمار پرسی کی کچھ سنتیں
۔1۔ عیادت کے واسطے جانے کے لیے وضو کرنا سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے وضو کیا اور اچھا وضو کیا اور ثواب کے ارادے سے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی تو اس کو دوزخ سے ساٹھ برس
(کی مسافت کے) بقدر دور کردیا جاتا ہے۔ (ابوداؤد)
۔2۔ مریض کے جسم پر ہاتھ رکھ کر یہ دُعا پڑھنا سنت ہے: ‘‘اَذْھِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَاْ شِفَآءُ اِلاَّ شِفَاءَ کَ شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سُقْمًا’’ (مسلم)
۔3۔ قرآنی آیتیں پڑھ کر دم کرنا سنت ہے۔ (بخاری)
۔4۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مسلمان کی عیادت کرتا ہے اور سات مرتبہ یہ کہتا ہے:۔
۔”اَسْأَلُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیَکَ” …۔
ترجمہ:…۔” میں اللہ رب العزت سے جو عرش عظیم کا مالک ہے دُعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے”۔
تو اللہ تعالیٰ اسے شفایاب فرما دیتے ہیں بشرطیکہ اس کا وقت نہ آگیا ہو۔ (ابوداؤد)
۔5۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اس کی زندگی کے بارے میں اس کا غم دور کرو، اس لیے کہ یہ (تسلی اگرچہ) کسی چیز کو ٹال نہیں سکتی۔ مگر مریض کا دل خوش ہوتا ہے۔ (ترمذی)۔
۔6۔ بہترین عیادت وہی ہے جس میں عیادت کرنے والا جلد اُٹھ کھڑا ہو، کہیں زیادہ دیر بیٹھنے سے مریض پریشان نہ ہو جائے یا گھر والوں کے کام میں خلل نہ پڑے، ہاں اگر مریض کو ضرورت ہے تو وہ دوسری بات ہے
(کتاب الجنائز)۔
۔7۔ شہد کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا: “شفاء للنّاس” اس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔
کلونجی کے متعلق صحیح بخاری میں فرمایا گیا کہ کلونجی میں ہر بیماری کے لیے دوا ہے سوائے سام کے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ سام کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موت۔ (بخاری)
۔8۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
شفاء تین چیزوں میں ہے پچھنے لگوانے میں، شہد پینے اور آگ داغنے میں اور میں اپنی اُمت کو آگ داغنے سے منع کرتا ہوں۔ (بخاری)
۔9۔ علاج کے دوران نقصان پہنچانے والی چیزوں سے پرہیز کرنا سنت ہے۔ بیمار پرسی رات میں بھی جائز ہے جو لوگ اسے منحوس کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
۔10۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کے پاس اس کی مزاج پرسی کرنے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آدمی کے پاس جاتے جس کی مزاج پرسی کرنا ہوتی تو فرماتے:۔
۔‘‘لَاْ بَاْسَ طُھُوْرٌ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی’’۔
یعنی کوئی ڈر نہیں اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے۔(بخاری)

۔🌹۔ حجامہ لگوانا بھی سنت ہے۔

۔🏵 سفر کے اداب اور سنت طریقہ

سفر انسانی زندگی کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ انسان روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل، معاش کی حصولیابی اور رشتہ داروں سے ملاقات کی غرض سے نقل مکانی کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اس کے لیے بہت سی رخصتیں دے رکھی ہیں۔ اس سلسلے میں چند آداب درج ذیل ہیں
سفر شروع کرنے سے پہلے نماز استخارہ ادا کی جائے
نماز استخارہ کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد مسنون دعا پڑھے  ﴿صحیح البخاری، کتاب الاستخارہ﴾
مسافر کے لیے مستحب ہے کہ سفر سے پہلے وصیت لکھ لے ، جس کے اندر آپسی حقوق و معاملات کی وضاحت کرے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
’’کوئی بھی مسلمان جو وصیت کرنا چاہتاہو، اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ رات گزارے، مگر یہ کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی ہو۔‘‘﴿صحیح بخاری:۲۷۳۸، صحیح مسلم :۱۶۲۷﴾
مسافر سفر کرنے سے پہلے اہل خانہ کے نان و نفقہ کا انتظام کر دے۔جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ بیوی اور بچوں کا نان و نفقہ شوہر پر واجب ہے۔ کسی کے لیے جائز نہیں کہ اس سلسلے میں کوتاہی کرے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے ’’انسان کے گنہگار ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ان کو ضائع کردے، جن کی خانگی کفالت کرتا ہے
﴿سنن ابوداؤد، :۱۶۹۲،سنن نسائی ۹۱۷۷ وغیرہ﴾
مسافر پر ضروری ہے کہ سفر شروع کرنے سے پہلے والدین سے اجازت طلب کرے۔ اگر والدین اجازت دیں تو سفر شروع کرے ورنہ سفر سے باز رہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یمن سے ہجرت کرکے آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا: ’’کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’ہاں! وہاں میرے والدین ہیں‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’کیا تمہارے والدین نے ہجرت کرنے کی اجازت دی ہے؟‘ اس نے کہا: نہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ان کے پاس جاؤ اور اجازت طلب کرو ، اگر اجازت دے دیں تو جہاد کرو ،ورنہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘﴿سنن ابوداؤد :۲۵۳۰ وغیرہ﴾
ایک دوسری روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے والدین کو روتا چھوڑ کر آیا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے والدین کے پاس جاؤ اور جس طرح سے تم نے ان کو رلایا ہے ویسے ہی ہنساؤ۔
‘‘﴿سنن ابوداؤد :۲۵۲۸﴾
انسان جب سفر کا ارادہ کرے اور اس کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہوں اور ان میں سے کسی ایک کے ساتھ سفر کرنا چاہتا ہو تو ان کے مابین قرعہ اندازی کرے اور جس بیوی کا نام قرعہ میں آئے، اس کو اپنے ہمراہ لے جائے۔ جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ جب آپ سفر کا ارادہ کرتے تو آپ امہات المؤمنین کے مابین قرعہ اندازی کرتے اور قرعہ میں جس کا نام آتا، اس بیوی کو اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے تھے۔ 
﴿صحیح بخاری :۲۵۹۳، صحیح مسلم :۲۴۴۵﴾
مسافر کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے خویش و اقارب کو الوداع کہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’استودعکم اللہ الذی لاتضیع ودائعہ‘‘ ﴿سنن ابن ماجہ :۲۸۲۵﴾
مسافر بحالت سفر بہتر ساتھی کی مصاحبت اختیار کرے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص جس سے دوستی کرتا ہے، اسے دیکھے۔‘‘ ﴿سنن ابوداؤد :۴۸۳۳﴾،
دوسری حدیث میں ارشاد نبوی ہے: ’’تم مومن کی ہی صحبت اختیار کرو اور تمہارا کھانا صرف متقی شخص ہی کھائے۔‘‘﴿سنن ابوداؤد :۴۸۳۴،سنن ترمذی،۲۳۹۵﴾
اسی طرح سے ایک حدیث کے اندر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے ساتھی کی مثال عطر فروش اور بُرے ساتھی کی مثال لوہار سے دی ہے۔‘‘ 
﴿صحیح بخاری :۵۵۳۴، صحیح مسلم:۲۶۲۸﴾
٭انسان تنہا سفر کرنے سے گریز کرے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اگر لوگوں کو تنہائی کی مشکلات کا علم ہو جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی سوار رات میں تنہا سفر کرے گا۔‘‘ ﴿صحیح بخاری:۲۹۹۸﴾
جمعرات کے دن سفر کا آغاز مستحب ہے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے علاوہ دیگر ایام میں بہت ہی کم سفر کے لیے نکلا کرتے تھے۔﴿صحیح بخاری:۲۹۴۸﴾
مسافر کے لیے ضروری ہے کہ اپنے قافلے کے ساتھ گھنٹی، بانسری یا اس طرح کا دوسرے آلات ضرب اور کتا وغیرہ نہ رکھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’فرشتے اس قافلے کے ہمراہ نہیں ہوتے، جس میں کتے یا گھنٹیاں ہوں۔‘‘﴿ صحیح مسلم:۲۱۱۴﴾
مسافروں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں تاکہ اس کی رہ نمائی میں منزلِ مقصود بحسن خوبی پہنچا جاسکے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب لوگ سفر پر نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں۔‘‘﴿سنن ابوداؤد :۲۶۰۹﴾
جب سفر کے لیے گھر سے نکلے تو یہ دعا پڑھے
بسم اللّٰہ توکلت علی اللّٰہ، ولاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ، الہم انی اعوذبک أن أضلَّ أو أُضََّ ، أو اُزَلَّ ، أو أظلم أو اُظلم، أوأجھل أویجھل علیّ‘‘   ﴿سنن ابوداؤد:۵۰۹۴، سنن ترمذی:۳۴۲۷﴾
٭سواری پربیٹھنے کے بعد یہ دعا پڑھے
﴿اللّٰہُ اکبر، اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، ﴿سبحان الذی سخرلنا ہذا وماکنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون﴾ اللہم انا نسألک فی سفرنا ہذا البرو التقویٰ من العمل ماترضی، اللھم ھوِّن علینا سفرنا ہذا ولہو عنا بعدہ، اللھم أنت الصاحب فی السفر، والخلیفۃ فی الأھل، اللھم ان أعوذبک من و عثائ السفر وکآبۃ المنظر وسوئ المنقلب ، فی المال والأہل...﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپسی کی صورت میں بھی یہی دعا پڑھتے تھے۔ ان کلمات ﴿آیبون تائبون عابدون، لربنا حامدون﴾ کے اضافے کے ساتھ۔ ﴿صحیح مسلم:۱۳۴۲﴾

٭مسافروں کو بحالت سفر آرام کے غرض سے کسی جگہ رکنا ہو تو اکٹھا رہیں اور دور متفرق نہ ہوں۔ کیونکہ بعض صحابہ کرام بحالت سفر آرام کے غرض سے کسی جگہ رکتے تو دور وادیوں میں پھیل جاتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان گھاٹیوں اور وادیوں میں تمہارا پھیلنا شیطان کی جانب سے ہے۔ اس کے بعد صحابہ کرام اس کیفیت سے قیام کرتے تھے کہ اگر ان پر ایک کپڑا پھیلا دیا جائے تو اس کپڑا تلے تمام افراد آجائیں
﴿ سنن ابوداؤد :۲۶۲۸﴾

٭مسافر کو بحالت سفر کسی جگہ آرام کی غرض سے ٹھہرنا ہو تو ثابت شدہ دعائیں پڑھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دورانِ سفر کسی جگہ آرام کی غرض سے اترتے تو یہ دعا پڑھتے: اعُوذُ بکلمات اللّٰہ التامات من شرما خلق اور اس کا فائدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ جب تک انسان اس جگہ سے کوچ نہ کرجائے اس کو کوئی بھی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔﴿صحیح مسلم :۲۷۰۹﴾

مسافر کے لیے ایک مستحب امر یہ ہے کہ سواری جب بلندی پر چڑھے تو ’’اللہ اکبر‘‘ کہے اور پست زمین یا وادی میں اترے تو ’’سبحان اللہ‘‘ کہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’جب ہم دورانِ سفر بلند جگہ پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور پست زمین یا وادی میں اترے تو سبحان اللہ کہتے۔ ﴿صحیح بخاری :۲۹۹۳﴾

٭اسی طرح سے اگر مسافروں کا گزر کسی گاؤں یا بستی سے ہو تو گاؤں یا بستی میں داخل ہونے کی یہ دعا پڑھے:

﴿’’اللھم رب السموٰت السبع وماأظللن، ب رب الأرضین السبع وما أقللن، رب الشیاطین ومأ أضللن، ورب الریاح و ماذرین، أسالک خیرہذہ القریۃ و خیرأھلھا، و خیرمافیہا، وأغوذبک من شرھا و شرأھلھا و شرما فیہا ﴾

٭بحالت سفر رات کے وقت خصوصاً ابتدائی رات میں چلنا مستحب ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’رات کی تاریکی کو لازم پکڑو کیونکہ رات میں زمین سمیٹ دی جاتی ہے۔‘‘﴿سنن ابوداؤد:۲۵۷۱﴾

٭بحالت سفر انسان کو بکثرت دعا کرنی چاہیے۔ کیوں کہ دعا سفر کی قبولیت کا ایک اہم وقت ہوتا ہے۔ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’تین دعائیں مقبول ہوتی ہیں، اس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے: مظلوم کی بددعا، مسافر کی دعا اور لڑکے کے حق میں اس کے والد کی بددعا۔‘‘ ﴿سنن ابو داؤد:۱۵۳۶﴾

٭ضرورت کی تکمیل کے بعد انسان اپنے آبائی وطن کی واپسی میں جلدی کرے۔

ارشاد نبوی ہے: ’’سفر عذاب کاایک حصہ ہے جو انسان کو کھانے پینے اور نیند سے روکتا ہے۔ جب تمہاری ضرورت پوری ہو جائے تو اپنے اہل خانہ کی طرف جلد واپس آجاؤ۔‘‘ ﴿صحیح بخاری :۱۸۰۴﴾

٭مسافر کے لیے سفر سے واپسی کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دعاؤں کو پڑھنا چاہیے۔ مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس آتے تو ہر اونچی زمین پر تین بار تکبیر پکارتے اور کہتے :

﴿لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیٔ قدیر، آیبون تایبون عابدون ساجدون لربنا حامدون، صدق اللّٰہ وحدہ و نصرعبدہ وھزم الأحزاب وحدہ﴾﴿صحیح بخاری :۱۷۹۷﴾

٭مسافر جب لمبے سفر سے واپس آئے تو بلا ضرورت رات کے وقت گھر نہ جائے۔ الا یہ کہ اہل خانہ کو اس نے اپنے رات میں آنے کی خبر دے دی ہو۔ جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کو رات کوگھر جانے سے روکا ہے۔‘‘ ﴿صحیح بخاری:۱۸۰۱﴾

دوسری روایت سے اس ممانعت کی حکمت کا علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’تاکہ پراگندہ بال والی عورت کنگھی کرے اور جس عورت کا شوہر بہت دنوں سے غائب تھا وہ استرا استعمال کرے۔‘‘ ﴿صحیح مسلم :۱۹۷۸﴾

٭مسافر کے لیے ایک مستحب امر یہ ہے کہ سفر سے واپسی کے وقت اپنے محلے کی مسجد میں جاکر دو رکعت نماز ادا کرے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ ﴿صحیح بخاری :۴۴۳﴾

شہر کو واپس آئے تو اس صورت میں معانقہ ﴿گلے ملنا﴾ مستحب ہے۔ صحابہ کرام کے بابت وارد ہے کہ جب ان کی آپس میں ملاقات ہوتی تو ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو ایک دوسرے سے گلے ملتے۔‘‘

٭سفرسے واپسی کے وقت احباب کو جمع کرنا اور کھانا کھلانا بھی مستحب ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے، آپ نے اونٹ یا گائے ذبح کیا۔‘‘﴿صحیح بخاری :۳۰۸۹﴾

واضح ہو کہ اس کھانے کو نقیعہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام یا سردار جب کسی سفر سے واپس آئے تو اپنے ماتحتوں کو کھانا کھلائے اور اسلاف کرام نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔

مسافر کو چاہیے کہ دورانِ سفر شریعت کی رخصتوں کو اختیار کرے۔ جیسے نمازوں کا قصر کرنا، موزوں پر مسح کی مدت میں اضافے کو اختیار کرنا، جمع بین الصلوتین اور ایّامِ صوم میں افطار کرنا اور روزے سے نہ رہنا وغیرہ وغیرہ۔

کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ رخصتوں کو اختیار کرنے کو اسی طرح پسند کرتا ہے جس طرح سے معصیت کے کاموں کی انجام دہی کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘ ﴿مسند احمد:۲/۱۰۸﴾

۔💐) نقش قدم نبی ﷺ کے ہیں جنت کے راستے
            اللہ  پاک  سے  ملاتے  ہیں  سنت کے راست

۔🏵 اگر کوئی شخص شریعت کے مطابق سنّت طریقہ سے نکاح کرنا چاہے تو اسکا طریقہ ؟

جب کوئی شخص نکاح کرنا چاہے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی تو پیغام دینے سے پہلے ایک دوسرے کے حالات اور اس کی عادات و اطوار کی خوب جستجو کرلے، جہاں خوب تحقیق و تفتیش سے تمام باتیں مزاج کے موافق معلوم ہوں وہاں لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے ولی (سرپرست) کو پیغام نکاح بھیجا جائے، مستحب ہے کہ لڑکے کا ولی یا خود لڑکا پیغام بھیجنے سے پہلے استخارہ کرلیے، اسی طرح لڑکی والوں کو بھی چاہیے کہ استخارہ کے بعد ہی پیغام نکاح منظور کریں، اس کے بعد باہمی رضامندی سے عقد نکاح کے لیے کوئی دن مقرر کرلیں، مستحب یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہو اور عصر بعد کا وقت ہو اور نکاح مسجد میں ہو، اور لڑکے والے لڑکی والوں کے یہاں جائیں اور اپنے ساتھ بارات میں تین چار سے زائد افراد نہ لیجائیں۔ اور پھر مجلس نکاح میں خطبہ مسنونہ کے بعد گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو، اور گواہ دین دار اور با شرع لوگوں کو بنایا جائے، فاسق جیسے داڑھی منڈانے والوں کو گواہ نہ بنایا جائے اور پھر اعزہ و احباب غیرہ زوجین کو مبارک باد دیں اور یہ دعا پڑھیں
بَارکَ اللہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ وَجَمَعَ بَیْنَکُمْا فِیْ خَیْرٍ
(لڑکی کو دعا دیں تو لکِ اور علیکِ کے کاف کو زیر دیں) اور شب زفاف کے بعد لڑکے والے حسب استطاعت دعوت کریں جس کو لیمہ کہتے ہیں اور اس میں اسراف، فضول خرچی اور ریا و نمود وغیرہ سے مکمل پرہیز کیا جائے اور غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ اور نکاح سے متعلق تمام کارروائیوں میں
منکرات؛ ویڈیو گرافی، بے پردگی وغیرہ اور غیر شرعی رسومات سلامی وغیرہ سے بھی احتراز کیا جائے اور سادگی کو بطور خاص ملحوظ رکھا جائے۔ یہ نکاحِ مسنون کی مختصر وضاحت ہے اور اگر آپ مزید تفصیل چاہتے ہوں تو علم الفقہ: ۶/656-649، اسلامی شادی اور بہشتی زیور ۶:۲-۴۶ کا مطالعہ کریں
دارالعلوم دیوبند

۔💐) نقش قدم نبی ﷺ کے ہیں جنت کے راستے
            اللہ  پاک  سے  ملاتے  ہیں  سنت کے راست

۔🏵 بچہ کی پیدائش کے بعد کے امور اور مسنون عمل

۔1.بچہ/بچی کو پاک کرنا
بچے کی پیدائش کے بعد اس کے بدن میں جو رطوبت لگی ہوئی ہوتی ہے، اس کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ رطوبت پاک ہے، اس لیے وہ بچہ غسل سے پہلے بھی پاک ہے بشرطیکہ اس کے جسم میں خون  یا کوئی اور ناپاکی نہ لگی ہو، اور امام صاحب کے قول ہی کو مفتیٰ بہ قرار دیا گیا ہے،جب کہ  صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک وہ رطوبت ناپاک ہوتی ہے، اور صاحبین کا قول احتیاط پر مبنی ہے، تاہم غسل ماہر طبیب کے مشورہ سے دیا جائے

۔2. تحنیک کروانا
کسی بزرگ، اللہ والے سے بچہ/بچی کی تحنیک کروائی جائے،  تحنیک لغت میں کہتے ہیں: کھجور کو باریک کرکے بچہ کے منہ کے اندر تالو پر ملنا۔ اگر پکی کھجور میسر نہ ہو، تو تر کھجور سے، ورنہ کسی بھی میٹھی چیز سے تحنیک کی جاسکتی ہے،  عمومی احوال میں میٹھی چیزوں میں شہد سب سے زیادہ بہتر ہے
۔3.کان میں اذان و اقامت
اس کے بعد مستحب یہ ہے کہ اس کے داہنے  کان میں اذان دی جائے اور بائیں کان میں اقامت دی جائے، اگر بچہ خدانخواستہ  وینٹی لیٹر میں ہو تو باہر ہی سے اذان دے دی جائے۔
حضرت ابو رافعؓ کی روایت ہے، فرماتے ہیں :
"’’میں نے رسول اللہ ﷺ  کو دیکھا حسن بن علی کی ولادت کے بعد کان میں اذان دیتے ہوئے‘‘۔
اذان کے وقت استقبالِ قبلہ کا لحاظ رکھا جائے، البتہ  کانوں میں انگلیاں نہ ڈالی جائیں، بلکہ ہاتھوں کو چھوڑ دیا جائے، اور   "حيّ علی الصّلاة"اور"حيّ علی الفلاح"کے وقت چہرہ دائیں بائیں پھیرا جائے۔

۔4.عقیقہ اور اس کا جانور
عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں: حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ ’’عقیقہ‘‘ کی برکت سے بچہ کے اُوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں،عقیقہ میں لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ذبح کیا جائے، جیسا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لڑکے کی جانب سے دو بکریاں، یا بڑے جانور میں دو حصے رکھنا، اور لڑکی پیدا ہو، تو ایک بکراذبح کرنا، یا بڑے جانور میں ایک حصہ رکھنا، مستحب ہے۔

۔5.عقیقہ کا دن
بہتر یہ کہ بچے کے پیدا ہونے کے ساتویں دن عقیقہ کردیا جائے، ارشادِ نبویؐ ہے
ترجمہ:  "ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہوتا ہے،  پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا حلق کیا جائے"۔
اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہو تو  پھر چودہویں دن، ورنہ اکیسویں دن، اگر اِن دِنوں میں عقیقہ نہ کرسکے، تو عمر بھر میں کسی بھی دن میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے، البتہ بہتر ہے کہ جب بھی عقیقہ کیا جائے، پیدائش سے ساتویں دِن کا لحاظ کیا جائے، یعنی اگر منگل کے دن پیدائش ہے تو پیر کے دن عقیقہ کرلیا جائے

۔6.نومولود کے سر  کے بال کاٹنا اور چاندی صدقہ کرنا
عقیقہ کے دن نومولود کے سر کے بال کاٹ دینے کے بعد بالوں کے ہم وزن  چاندی یا اس کے وزن کے بقدر رقم  صدقہ کرنا مسنون ہے۔ اگر نومولود خدانخواستہ وینٹی لیٹر میں ہو تو اس کے بال بعد میں کاٹ لیے جائیں۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے عقیقے میں ایک بکری ذبح کی اور فرمایا: فاطمہؓ! اس کا سر منڈواؤ اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرو۔

۔7.زعفران لگانا:
عقیقہ کے دن سر منڈانے کے بعد بچہ کے سر پر زعفران وغیرہ خوش بو  لگانے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

۔8.بچہ/بچی کا نام رکھنا
بہتر ہے کہ جس دن عقیقہ کیا جائے اسی دن بچہ/بچی  کا اچھا سا نام بھی رکھ دیا جائے۔

۔9.بچہ کا ختنہ کرنا:
ختنہ اسلام کا شعار اور سنتِ مؤکدہ ہے، اس لیے بچپن ہی میں بچے کی ختنہ کا اہتمام ہونا چاہیے،ختنہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں ہے، اس لیے اس میں بچہ کی صحت اور حالت کو دیکھ کر مناسب وقت تجویز کرنا چاہیے۔

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری

۔🏵 انسان کے فوت ہونے کے بعد کے کچھ اعمال
کسی کی روح نکل جائے
تو اس کی آنکھیں بند کر دو
سارے اعضاء ٹھیک کردو
ہاتھوں کو اس کے کنارے کر دو
انگلیوں اور جوڑوں کو ڈھیلا کر دو
منھ کو اس طریقہ سے باندھ دو کہ ایک کپڑا ٹھوڑی کے نیچے سے نکالو اور اس کے دونوں کنارے سر پر لے جاؤ اور گرہ لگا دو تاکہ منھ نہ پھیلے
فقہائے کرام نے تشریح کی ہے کہ میّت کے اعضاءکو درست کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو صحیح طریقے سے غسل دیا جا سکے۔ کیوں کہ بسا اوقات مرنے کے بعد بدن سخت ہو جاتا ہے ، جس کی وجہ سے غسل کے وقت  پانی تمام اعضاء تک نہیں پہنچتا ہے اور غسل ناقص رہتا ہے۔ اس لیے میّت کے اعضاء مرنے کے بعد فورًا درست کر دیئے جائیں، تاکہ غسل کے وقت پانی تمام اعضاء تک یقینی طور پر بآسانی پہونچ جائے

اگر میّت آدمی ہو ، تو اس کے منھ اور آنکھوں کو بند کرتے وقت مندرجہ ذیل دعا پڑھی جائے

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِفلان وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِى الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِى عَقِبِهِ فِى الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ اللَّهُمَّ افْسَحْ لَهُ فِى قَبْرِهِ وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ

اے اللہ  ! فلاں  (فلاں کی جگہ میّت  کا نام لے) کی مغفرت فرما، ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما اور اس کے پسماندگان میں اس کا خلیفہ بن جا۔ اے اللہ! تو ہماری اور اس کی بخشش فرما اور اس کی قبر کو  کشادہ اور منوّر فرما۔ (مسلم شریف)
اور اگر میّت عورت ہو، تو مندرجہ ذیل دعا اس طرح پڑھی جائے
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِفلانة وَارْفَعْ دَرَجَتَهَا فِى الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهَا فِى عَقِبِهَا فِى الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهَا يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ اللَّهُمَّ افْسَحْ لَهَا فِى قَبْرِهَا وَنَوِّرْ لَهَا فِيهِ
آنکھ بند کرتے وقت مندرجہ ذیل دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں
بِسْمِ اللهِ وَعَلى مِلَّةِ رَسُوْلِ اللهِ
(شروع کرتا ہوں ) اللہ  کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ۔
بِسْمِ اللهِ وَعَلى مِلَّةِ رَسُوْلِ اللهِ اللّهُمَّ يَسِّرْ عَلَيْهِ أَمْرَهُ وَسَهِّلْ عَلَيْهِ مَا بَعْدَهُ وَأَسْعِدْهُ بِلِقَائِكَ وَاجْعَلْ مَا خَرَجَ إِلَيْهِ خَيْرًا مِمَّا خَرَجَ عَنْهُ
(شروع کرتا ہوں ) اللہ کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔اے اللہ اس کی (موجودہ) حالت کو آسان فرما۔ آنے والے مراحل میں آسانی پیدا فرما۔ اس کو اپنی ملاقات سے مشرف  فرما، اس کی آخرت کو دنیا سے بہتر بنا دے۔
اگر ممکن ہو، تو روح نکل جانے کے بعد میّت کے پاس کوئی خوشبو دار چیز لوبان وغیرہ سلگا دیا جائے؛ تاکہ اگر موت کے بعد یا موت سے پہلے میّت کے جسم سے کوئی بدبو دار چیز نکلی ہو، تو اس کی بدبو دور ہو جائے
حیض و نفاس والی عورت اور جنبی میّت کے پاس نہ بیٹھے
میّت کو غسل دینے سے پہلے اس کے پاس قرآن مجید پڑھنا مکروہ ہے . دوسرے اذکار درست ہیں۔

۔🏵 سونے سے پہلے بعض سنت اور اداب
جن برتنوں میں کھانے پینے کی چیزیں ہوں ان کو اچھی طرح ڈھانپ کر سوئیں
اگر آگ جل رہی ہو یا چولہے وغیرہ میں سلگ رہی ہو تو اسے بجھا کر سوئیں
بستر پر لیٹنے سے پہلے اس کو اچھی طرح جھاڑ لیں ہوسکتا ہے کوئی نقصان دہ چیز ہو
سرمہ دانی پاس رکھیں اور سوتے وقت سرمہ استعمال کریں
ہوسکے تو باضو سوئیں
اور سونے سے پہلے مسواک کرنا بھی سنت ہے
بستر پاک صاف اور سخت ہو
اتنا نرم نہ ہو کہ صبح کی نماز کے لیے اٹھنے میں مانع بنے دائیں کروٹ پر سوئیں
سونے کی دعا پڑھے
زکر ازکار کرکے سویے
رات کو اگر کوئی برا خواب آئے تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر کروٹ بدل کر سو جائیں

۔🍁 معاشرت کی چند سنتیں ۔۔۔۔
۔1.سلام کرنا مسلمانوں کے لئے بہت بڑی سنت ہے .حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تا کید فر مائی ہے . ہر مسلمان کو سلام کرنا چاہئے خواہ اسے پہچانتا ہو یا نہ ہو .کیونکہ سلام اسلامی حق ہے .کسی کے جاننے اور شنا سائی پر موقوف نہیں .
۔2. بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر بچوں پر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا اس لئے بچوں کو بھی سلام کرنا سنت ہے .
۔3. سلام کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ زبان سے السلام علیکم کہے ہاتھ سے یا سر سے یا انگلی کے اشارے سے سلام کرنا یا اس کا جواب دینا سنت کے خلاف ہے .
۔4. کسی مسلمان سے ملاقات ہو تو سلام کے بعد مصافحہ کرنا مسنون ہے ۔۔۔ عورت عورت سے مصا فحہ کر سکتی ہے .
۔5 . کسی مجلس میں جاؤ تو جہاں موقع ملے اور جگہ ملے بیٹھ جاؤ دوسروں کو اٹھا کر خود بیٹھ جانا گناہ کی بات اور مکروہ ہے .
۔6. اگر کوئی شخص مجلس میں آئے اور جگہ نہ ہو تو پہلے سے بیٹھنے والوں کو چاہئے کہ ذرا مل کر بیٹھ جائیں اور آنیوالے مومن بھائی کے لئے گنجائش نکال دیں .
۔7. کہیں اگر صرف تین آدمی ہوں تو ایک کو چھوڑ کر کانا پھوسی (سر گوشی)کی اجازت نہیں کہ خواہ مخواہ اس کا دل (شبہات کی وجہ سے ) رنجیدہ ہو گا اور مسلمان بھائی کو رنجیدہ کرنا بڑا گناہ ہوگا.
۔8. کسی کے مکان پر جانا ہو تو اس سے پہلے اجازت لے کر داخل ہونا چاہئے .
۔9. جب جمائی آئے تو سنت ہے کہ ،منہ بند کر لے اور اگر منہ کوشش کے باوجود بند نہ رکھ سکے تو بائیں ہاتھ کہ پشت کو منہ پر رکھ لے اور ہا ہا کی آواز نہ نکالے کہ یہ حدیث میں ممنوع ہے .
۔10.اگر کسی کا اچھا نام سنو تو اس سے اپنے مقصد کے لئے نیک فال سمجھنا سنت ہے اور اس سے خوش ہونا بھی سنت ہے.بد فالی لینے کو سخت منع کیا گیا ہے .جیسے راستہ چلتے کسی کو چھینک آگئی تو یہ سمجھنا کہ کام نہ ہوگا .یا کوا بولا یا بندر نظر آیا ،یا الو بولا ان سے آفت آنے کا گمان کرنا سخت نادانی اور بالکل بے اصل اور غلط اور گمراہی کا عقیدہ ہے.اسی طرح کسی کو منحوس سمجھنا یا کسی دن کو منحوس سمجھنا بہت برا ہے .
سنت پر عمل کر نے سے بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جاتا ہے اس لئے اہتمام سے اس پر عمل کرنا چاہئے

استخار ے کے معنی ہیں خیر طلب کرنا، یعنی: اپنے معاملے میں اللہ سے خیر اور بھلائی کی دعا کرنا، استخارے کے بعد اصل چیز دل کا رجحان ہے ، اس میں خواب کا نظر آنا ضروری نہیں ہے ، جس طرف دل مائل ہو، اُسی میں خیر سمجھنا چاہیے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا: “یا أنس! إذا صممتَ بأمر، فاستخر رَبَّک فیہ سبع مرات، ثم انظر إلی الذی سبق إلی قلبک، فإن الخیرَ فیہ” (شامی: ۲/۴۰۹-۴۱۰، دار إحیاء التراث العربی) حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں استخارے کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے جس سے مقصود طلب اِعانت علی الخیر ہے ، یعنی استخارے کے ذریعے بندہ خدا تعالی سے دعا کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں، اُسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لیے خیر نہ ہو،وہ کرنے ہی نہ دیجیے ”۔ الخ
(انفاس عیسی: ۲/ ۲۷۵بحوالہ استخارہ کیسے کریں، ص: ۲۳، مطبوعہ لاہور) (مستفاد: شامی: ۲/۴۰۹- ۴۱۰، کتاب الصلاة، مطلب فی رکعتی الاستخارة، ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت، امداد الفتاوی: ۲/۵۶۸، رسالہ نافع الاشارة الی منافع الاستخارہ، زکریا، دیوبند) اور استخارہ جیسے خود کیا جاتا ہے ، دوسرے سے بھی کرایا جاسکتا ہے ؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ خود استخاہ کیا جائے ، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا طریقہ جو ثابت ہے ، اُس میں خود استخارہ کرنے کا ذکر ہے اور سوال میں دوسرے سے استخارہ کر کے فورا جواب ملنے کا جو ذکر ، اُس کا اعتبار نہیں ہے ۔استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھی جائے ، اس کے بعد پوری توجہ کے ساتھ یہ دعا پڑھے

اللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ، أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہ فَاصْرِفُہُ عَنِّیْ ے

۔🌸 استخارے کا مسنون طریقہ
استخار ے کے معنی ہیں خیر طلب کرنا، یعنی: اپنے معاملے میں اللہ سے خیر اور بھلائی کی دعا کرنا، استخارے کے بعد اصل چیز دل کا رجحان ہے ، اس میں خواب کا نظر آنا ضروری نہیں ہے ، جس طرف دل مائل ہو، اُسی میں خیر سمجھنا چاہیے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا: “یا أنس! إذا صممتَ بأمر، فاستخر رَبَّک فیہ سبع مرات، ثم انظر إلی الذی سبق إلی قلبک، فإن الخیرَ فیہ” (شامی: ۲/۴۰۹-۴۱۰، دار إحیاء التراث العربی) حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں استخارے کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے جس سے مقصود طلب اِعانت علی الخیر ہے ، یعنی استخارے کے ذریعے بندہ خدا تعالی سے دعا کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں، اُسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لیے خیر نہ ہو،وہ کرنے ہی نہ دیجیے ”۔ الخ
(انفاس عیسی: ۲/ ۲۷۵بحوالہ استخارہ کیسے کریں، ص: ۲۳، مطبوعہ لاہور) (مستفاد: شامی: ۲/۴۰۹- ۴۱۰، کتاب الصلاة، مطلب فی رکعتی الاستخارة، ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت، امداد الفتاوی: ۲/۵۶۸، رسالہ نافع الاشارة الی منافع الاستخارہ، زکریا، دیوبند) اور استخارہ جیسے خود کیا جاتا ہے ، دوسرے سے بھی کرایا جاسکتا ہے ؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ خود استخاہ کیا جائے ، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا طریقہ جو ثابت ہے ، اُس میں خود استخارہ کرنے کا ذکر ہے اور سوال میں دوسرے سے استخارہ کر کے فورا جواب ملنے کا جو ذکر ، اُس کا اعتبار نہیں ہے ۔استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھی جائے ، اس کے بعد پوری توجہ کے ساتھ یہ دعا پڑھے

اللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ، أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہ فَاصْرِفُہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہ ۔ قَالَ وَیُسَمِّیْ حَاجَتَہ
(صحیح البخاری رقم: ۱۱۶۶، سنن الترمذی ۴۰۸، سنن أبی داوٴد ۱۵۳۸)
ترجمہ:- اے اللہ! میں آپ کے علم کے ذریعہ خیر کا طالب ہو، اور آپ کی قدرت سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور آپ کے فضلِ عظیم کا سائل ہوں، بے شک آپ قادر ہیں اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور آپ کو علم ہے کہ میں لاعلم ہوں، اور آپ چھپی ہوئی باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اے اللہ! اگر آپ علم کے مطابق یہ کام (یہاں اس کام کا تصور کرے ) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کار کے اعتبار سے ) بہتر ہے ، تو اسے میرے لئے مقدر فرمائیے ، اور اسے میرے حق میں آسانی کرکے اس میں مجھے برکت سے نوازے ، اور اگر آپ کو علم ہے کہ یہ کام (یہاں کام کا تصور کرے ) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کے اعتبار سے ) برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے ہٹادے اور جس جانب خیر ہے وہی میرے لئے مقدر فرمادے ، پھر مجھے اس عمل سے راضی کردے ۔دعا پڑھتے ہوئے جب ہٰذا الأمر پر پہنچے تو دونوں جگہ اس کام کا دل میں دھیان جمائے جس کے لئے استخارہ کررہا ہے یا دعا پوری پڑھنے کے بعد اس کام کو ذکر کرے ۔ دعا کے شروع اور اخیر میں اللہ کی حمد وثناء اور درود شریف بھی ملالے ، اور اگر عربی میں دعا نہ پڑھی جاسکے تو اردو یا اپنی مادری زبان میں اسی مفہوم کی دعا مانگے ۔لہذا صورت مسئولہ میں آپ جس امر کے بارے میں بھی استخارہ کریں، استخارے کے بعد دل کے میلان کو دیکھیں، جس طرف دل کا رجحان ہو، اسی میں خیر سمجھیں؛واضح رہے کہ استخارہ کی وجہ سے کسی امر کا کرنا یا نہ کرنا لازم اور ضروری نہیں ہوجاتا ہے ، نیز استخارے کے ساتھ ساتھ اہم امور میں مشورہ بھی مسنون ہے
دارالعلوم دیوبند

۔🌺 صلاۃ الحاجۃ کا مسنون طریقہ
صلاۃ الحاجۃ بھی عام نفل نماز کی طرح ایک نماز ہے ، جو اس نیت سے پڑھی جاتی ہے کہ اپنی کسی غرض کے لیے اللہ تعالی سے اس کے بعد دعا کی جائے۔
 حدیث میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خاص حاجت یا اس کے کسی بندے سے کوئی خاص کام پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وضو کرے خوب اچھی طرح، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور رسول اللہﷺ پرصلاۃ و سلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یہ دعا کرے

'' لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ، وَالْعِصْمَةَ مِنْ کُلِّ ذَمنْبٍ، وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَّالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَه وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَه وَلَا حَاجَةً هِيَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ''

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی

۔🌺 عمامہ پہننا مسنون ہے
یہ سنن عادیہ میں سے ہے ،یعنی اس کا اختیار کرنا بہتر ہے اور اس کے ترک پر نکیر کرنا صحیح نہیں ہے ؛ لہٰذا اگر کوئی شخص ٹوپی اوڑھتا ہے ، تو اس پر نکیر نہیں کی جاسکتی، ہمارے اَکابر رحہم اللہ میں سے اکثر حضرات عمامہ کا استعمال فرماتے تھے اور اِس وقت بھی اکثر اکابر عمامہ استعمال فرماتے ہیں، بعض مستقل پہنتے ہیں اور بعض کبھی کبھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صرف ٹوپی کا پہننا ثابت ہے اور جو حضرات زیادہ تر ٹوپی استعمال فرماتے ہیں، وہ بھی عمامہ کی مخالفت نہیں فرماتے ، عمامہ کی ترغیب دینے کی اِجازت ہے ؛ لیکن اُسے واجب یا لازمی قرار دینا اور تشدد اختیار کرنا اور جو عمامہ نہ پہنے اُس کی تحقیر کرنا صحیح نہیں ہے 
سنت کی دو قسمیں ہیں
۔(۱) سننِ ہدیٰ
۔(۲) سنن زوائد
سننِ ہدیٰ یعنی عبادات وغیرہ سے متعلق موٴکدہ سنتوں کا ترک موجب موٴاخذہ ہے
اورسننِ زوائد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس وغیرہ سے متعلق سنتیں استحباب کے درجہ کی ہیں، اُن کو اختیار کرنا بہتر ہے ؛ لیکن اُن کے ترک پر نکیر نہیں کی جائے گی۔
السنة نوعان: سنة الہدیٰ وترکہا یوجب إساء ة وکراہیة کالجماعة والأذان والإقامة ونحوہا وسنة الزوائد وترکہا لا یوجب ذٰلک کسیر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی لباسہ وقیامہ وقعودہ۔ (شامی، کتاب الطہارة / مطلب فی السنة وتعریفہا:۱/۲۱۸زکریا) وکان یلبسہا ویلبس تحتہا القلنسوة، وکان یلبس القلنسوة بغیر عمامة ویلبس العمامة بغیر قلنسوة۔ (زاد المعاد ۱/۱۳۵) 

دارالعلوم دیوبند

۔👈 ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ 3 ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺑﺴﺘﺮ ﺟﮭﺎﮌﻧﮯ ، ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮐﺮﻭﭦ ﺳﻮﻧﮯ ، ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺿﻮ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ؟

ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﻧﮓ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﮧ ﺩﯼ .... ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﻪ 

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺳﮯ 14 ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﺟﻮ ﺳﻨﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﭘﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺁﺝ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺴﻠﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺟﮭﺎﮌ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔
ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺣﮑﻢ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﮐﯿﮍﮮ ﻣﮑﻮﮌﻭﮞ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺩﮦ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺵ ﺭﺑﺎ ﺍﻧﮑﺸﺎﻑ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﮓ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔
ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﭩﺎﺑﻮﻟﺰﻡ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ 24 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﺮ ﭘﻞ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﻧﺌﮯ ﺳﯿﻞ ﺑﻨﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﭨﻮﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﭨﻮﭨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﯿﻞ ﺑﺴﺘﺮ ﮨﯽ ﭘﺮ ﮔﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ۔
ﺍﮔﺮ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﺟﮭﺎﮌﮮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻟﯿﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺮﺩﮦ ﺳﯿﻞ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﺌﯽ ﻣﮩﻠﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮨﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﺮﺩﮦ ﺳﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺟﮭﺎﮌﻧﺎ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺧﻄﺮﮦ ﭨﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮐﺮﻭﭦ ﭘﺮ ﻟﯿﭩﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺿﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﺩﺑﺎﺅ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺩﻝ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﮩﺘﺮ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﺳﭙﻼﺋﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﮮ ﮐﮯ ﺧﻄﺮﺍﺕ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮐﺮﻭﭦ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﻌﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻏﺬﺍ ﮐﻮ ﮨﻀﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺭﺍﺕ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﻌﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻏﺬﺍ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻀﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﺮﻭﺗﺎﺯﮦ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰﺍﺑﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺑﺎﻭﺿﻮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔
ﻋﺸﺎﺀ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﻮﺍﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﯾﺎ ﺑﺮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﻭﺿﻮ ﺣﺎﻟﺖ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﻮﺟﯿﺢ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﯾﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﻧﺖ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻝ ﮐﯽ ﻣﮩﻠﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺪﮮ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺫﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺻﺎﻑ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﮰ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺟﺮﺍﺛﯿﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﺿﻮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺜﺎﻧﮧ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﺘﺎ .
ﺍﻟﻠّﻪ ﭘﺎﮎ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺁﻣﯿﻦ

ٹخنوں سے نیچے پاجامہ پینٹ یا کوئی اور لباس لٹکانا شرعاً جائز نہیں ہے، مکروہ تحریمی ہے، احادیث میں اس پر جہنم کی وعید آئی ہے، بخاری شریف میں ہے؛ ”ما أسفَل من الکعبین من الإزار ففي النار“ یعنی جو شخص اپنا کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکائے گا وہ جہنم میں جائے گا۔ (بخاری، رقم: ۵۷۸۷، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار) اور نماز کے اندر ایسا کرنا تو اور بھی برا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جو آدمی ازار لٹکاکر نماز پڑھے گا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ عن أبي ہریرة: بینما رجل یصلّي مُسْبلاً إزارہ إذ قال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اذہب فتوضأ فذہب فتوضأ ثم جاء ثم قال: اذہب فتوضأ ثم جاء، فقال لہ رجل یا رسول اللہ! ما لک امرتہ أن یتوضأ؟ فقال: إنہ کان یصلي وہو مسبل إزارہ وإن اللہ جل ذکرہ لا یقبل صلاة مسبل إزارہ (أبوداود، رقم: ۶۳۸، ط: باب الإسبال في الصلاة)

واللہ تعالیٰ اعلم
مولانہ حکیم محمد اختر رحمت اللہ علیہ
دارالعلوم دیوبند

Comments