۔1666🌻) حضرت رابعہ بصری رحم اللہ

قلندرانہ اوصاف کی مالک حضرت رابعہ بصری رحم اللہ

اولیاء خواتین میں انتہائی بلند مقام حضرت رابعہ بصری کو حاصل ہے آپ قلندرانہ اوصاف رکھتی تھیں۔ قلندر وہ ہے جو وحدت میں غرق ہو کر مرتبہ عبدیت کا مشاہدہ کرتا رہے اور مشاہدے کے بعد انسانی مرتبے پر واپس پہنچ کر عبدیت کا مقام حاصل کرے۔اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کو قلندر کا مقام عطا کرتا ہے وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے لیکن اللہ کے نیک بندے بے غرض ، ریا، طمع، حرص ، لالچ اور منافقت سے پاک ہوتے ہیں اور جب اللہ کی مخلوق ان سے رجوع کرتی ہے تو یہ ان کی رہنمائی کرتے ہیں ان کی پریشانیوں کا تدارک بھی کرتے ہیں کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کیلئے مقرر کیا ہے۔ یہی وہ پاکیزہ اور قدسی نفس اللہ کے بندے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں پھر وہ میرے ذریعے سنتے اور بولتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں۔

حضرت رابعہ بصری کی پیدائش 95 سے 99ھ کے دوران بصرہ، عراق میں ہوئی۔ آپ کی ابتدائی زندگی کی زیادہ تر تفصیلات شیخ فریدالدین عطار کے حوالے سے ملتی ہیں۔ رابعہ بصری سے جڑی بے شمار روحانی کرامات کے واقعات بھی ملتے ہیں ،جن میں اگرچہ کچھ سچے ہیں لیکن کچھ خود ساختہ اختراعات بھی ہیں۔ تاہم رابعہ بصری سے متعلق زیادہ تر معلومات و حوالہ جات وہ مستند مانے جاتے ہیں جو کہ شیخ فریدالدین عطار نے بیان کئے ہیں جو کہ رابعہ بصری کے بعد کے زمانے کے ولی اور صوفی شاعر ہیں کیونکہ رابعہ بصری نے خود کوئی تحریری کام نہ کیا۔

رابعہ بصری اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں ،اسی لئے آپ کا نام رابعہ یعنی ’چوتھی‘ رکھا گیا۔ وہ ایک انتہائی غریب لیکن معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ رابعہ بصری کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس شب رابعہ بصری پیدا ہوئیں ،آپ کے والدین کے پاس نہ تو دیا جلانے کے لئے تیل تھا اور آپ کو لپیٹنے کے لئے کوئی کپڑا . آپ کی والدہ نے اپنے شوہر یعنی آپ کے والد سے درخواست کی کہ پڑوس سے تھوڑا تیل ہی لے آئیں تاکہ دیا جلایا جا سکے لیکن آپ کے والد نے پوری زندگی اپنے خالقِ حقیقی کے علاوہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا، لہٰذا وہ پڑوسی کے دروازے تک تو گئے لیکن خالی ہاتھ واپس آگئے۔

رات کو رابعہ بصری کے والد کو خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے رابعہ کے والد کو بتایا کہ ”تمہاری نومولود بیٹی ،خدا کی برگزیدہ بندی بنے گی اور مسلمانوں کو صحیح راہ پر لے کر آئے گی۔ تم امیرِ بصرہ کے پاس جاؤ اور اس کو ہمارا پیغام دو کہ تم (امیرِ بصرہ) ہر روز رات کو سو(100)دفعہ اور جمعرات کو چار سو (400) مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درود شریف نہ پڑھا،لہذٰااس کے کفارہ کے طور پر چار سو (400) دینار بطور کفارہ یہ پیغام پہنچانے والے کو دے دے۔

رابعہ بصری کے والد اٹھے اور امیرِ بصرہ کے پاس پہنچے اس حال میں کہ خوشی کے آنسو آپ کی آنکھوں سے جاری تھے۔ جب امیرِ بصرہ کو رابعہ بصری کے والد کے ذریعے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام ملا تو یہ جان کر انتہائی خوش ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں میں ہے۔ اس کے شکرانے کے طور پر فوراً ایک ہزار (1,000) دینار غرباء میں تقسیم کرائے اور چار سو (400)دینار رابعہ بصری کے والد کو ادا کئے اور ان سے درخواست کے جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بلاجھجھک تشریف لائیں۔

کچھ عرصے بعد رابعہ بصری کے والد انتقال کر گئے اور بصرہ کو سخت قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا،اس قحط کے دوران رابعہ بصری اپنی بہنوں سے بچھڑ گئیں۔ ایک دفعہ رابعہ بصری ایک قافلے میں جا رہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی طرح بازار میں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔ آپ کا آقا،آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتا تھا۔ اس کے باوجود آپ دن میں کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں۔ اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات کو جاگ گیا اور کسی کی گریہ و زاری کی آواز سن کر دیکھنے چلا کہ رات کے اس پہر کون اس طرح گریہ و زاری کر رہا ہے۔ وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ رابعہ بصری اللہ کے حضورسر بسجود ہیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں 

’اے اللہ! تو میری مجبوریوں سے خوب واقف ہے۔ گھر کا کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے اپنی عبادت کیلئے پکارتا ہے مگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں ، نمازوں کا وقت گزر جاتا ہے۔ اس لئے میری معذرت قبول فرما لے اور میرے گناہوں کو معاف کر دے۔ 

اپنی کنیز کا یہ کلام اور عبادت کا یہ منظر دیکھ کر رابعہ بصری کا مالک خوفِ خدا سے لرز گیا اور یہ فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ ایسی اللہ والی کنیز سے خدمت کرائی جائے بہتر یہ ہوگا کہ اس کی خدمت کی جائے۔ صبح ہوتے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا اور کہا کہ آج سے آپ میری طرف سے آزاد ہیں ، اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تو میری خوش نصیبی ہوگی وگرنہ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں لیکن اگر آپ یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ آپ یہاں نہ رہیں گی تو میری بس ایک درخواست ہے کہ میری طرف سے کی جانیوالی تمام زیادتیوں کو اس ذات کے صدقے معاف کر دیں ،جس کی آپ راتوں کو جاگ جاگ کر عبادت کرتی ہیں۔

خواجہ حسن بصری ہفتے میں ایک بار درس دیا کرتے تھے۔ حضرت رابعہ ان کے درس میں حاضر ہوتی تھیں لیکن جس روز نہ ہوتیں حضرت حسن بصری انتظار فرماتے تھے یا راز کی باتیں بیان نہ فرماتے تھے۔ کسی نے فرمایا جو شربت ہاتھیوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے اس کی چونٹیاں برداشت نہیں کر سکتیں۔

ایک دفعہ حضرت رابعہ کو کسی نے بطور ملازمہ خرید لیا۔ مالک آپ سے سخت کام لیتا لیکن آپ دن رات محنت کے باوجود حرف شکایت زبان پر نہ لاتی تھیں کہ پیر پھسل گیا اور گر پڑیں سخت چوٹ کی وجہ سے آپ کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی گھر آکر خود ہی پٹی باندھ لی رات ہوئی تو معمول کے مطابق اٹھ کھڑی ہوئیں اور اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول ہوگیئں ۔رات کو کسی وقت ان کے مالک کی آنکھ کھلی اور وہ آپ کی کوٹھری کی طرف گیا اس نے حضر ت رابعہ کو حمد و ثنا میں مشغول دیکھا اور ایک آواز سنی۔’اے رابعہ !ہم تم کو وہ مقام ضرب عطا کریں گے جس پر مقربین ملائکہ بھی رشک کریں گے،بے شک تو ہمارا کلام سنے گی اور ہم سے کلام کرے گی۔‘اس کے بعد نور کی تجلی نے انھیں اپنے احاطے میں لے لیا حضرت رابعہ نے بے خودی میں سر شار ہو کر فرمایا! یا اللہ مجھے تیری ذات کے علاوہ کچھ نہیں چاہئے ۔تیرا مشاہدہ میرے لئے نعمت کبریٰ ہے۔مالک نے جب آپ کا جذب و کیف اور بارگاہ الہیٰ میں مقبولیت کا یہ منطر دیکھا تو گزشتہ سختیوں کی معافی مانگی اور آپ کو آزاد کر دیا۔ حضرت رابعہ فرماتی ہیں۔ ’میں کبھی تنہا نہیں رہی ہر لمحے اللہ میرے ساتھ ہوتا ہے۔ میں جلوہ خداوندی کا نظارہ کرتی ہوں اور خدا کو پہچانتی ہوں ۔‘ ایک بار دو درویش آپ کے گھر مہمان آئے اس وقت گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں حضرت رابعہ نے ارادہ کیا وہی دو روٹیاں مہمانوں کے سامنے رکھ دیں گی اسی دوران دروازے پر کوئی سائل آگیا۔ حضرت رابعہ نے سائل کو زیادہ مستحق سمجھتے ہوئے وہ روٹیاں اسے دے دیں اور خود اللہ پر توکل کر کے بیٹھ گئیں۔کچھ دیر ہی گزری تھی کہ بصرہ کی کسی رئیس خاتون نے اپنی کنیز کے ہاتھوں کھانے کا ایک خوان ان کے یہاں بھیجا۔ انھوں نے وہ خوان مہمانوں کے آ گے رکھ دیا۔

زندگی کے آخری ایام میں آپ حد درجہ عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئیں ضعف کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے گر جاتی تھیں۔ حضرت رابعہ کی خواہش تھی کہ ان کو عام لوگوں کی طرح سپرد خاک کیا جائے اور قبر کو امتیازی اہمیت نہ دی جائے۔ ایک دن آپ درس دے رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آگیا ۔ حضرت رابعہ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ باہر چلے جائیں اور خلوت نشیں ہو کر لیٹ گئیں کچھ دیر بعد آپ کی روح قفس عنصری سے آزاد ہوگئی۔

بعض روایات میں یہ بھی ملتاہے کہ رابعہ بصری کو ان کی بہنوں نے قحط کے زمانے میں عتیق نامی ایک ظالم و جابر تاجر کو چند سِکّوں کے عوض فروخت کر دیا تھا جبکہ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ رابعہ بصری کی بہنوں نے آپ کو ایک قافلے والوں کو فروخت کر دیا تھا۔

رابعہ بصری نے گوشہ نشینی اور ترک دنیا کے شوق کے پیش نظر آزادی ملنے کے بعد صحراؤں کا رخ کیا۔ وہ دن رات معبودِ حقیقی کی یاد میں محو ہوگئیں۔ خواجہ حسن بصری، رابعہ بصری کے مرشد تھے۔ غربت، نفی اور عشقِ الٰہی ان کے ساتھی تھے۔ ان کی کل متاع حیات ایک ٹوٹا ہوا برتن، ایک پرانی دری اور ایک اینٹ تھی،جس سے وہ تکیہ کا کام بھی لیتی تھیں۔ وہ تمام رات عبادت و ریاضت میں گزار دیتی تھیں اور اس خوف سے نہیں سوتی تھیں کہ کہیں عشق الٰہی سے دور نہ ہو جائیں۔ جیسے جیسے رابعہ بصری کی شہرت بڑھتی گئی ،آپ کے معتقدین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آپ نے اپنے وقت کے جید علماء،محدثین و فقہا سے مباحثوں میں حصہ لیا۔ رابعہ بصری کی بارگاہ میں بڑے بڑے علماء نیازمندی کے ساتھ حاضر ہوا کرتے تھے۔ ان بزرگوں اور علماء میں سرفہرست حضرت امام سفیان ثوری رحمہ اللہ علیہ ہیں جو کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم عصر تھے اور جنہیں امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انہیں شادی کے لئے کئی پیغامات آئے ،جن میں سے ایک پیغام امیرِ بصرہ کا بھی تھا لیکن آپ نے تمام پیغامات کو رد کردیا کیونکہ آپ کے پاس سوائے اپنے پروردگار کے اور کسی چیز کے لئے نہ تو وقت تھا اور نہ ہی طلب۔ رابعہ بصری کو کثرت رنج و الم اور حزن و ملال نے دنیا اور اس کی دلفریبیوں سے بیگانہ کر دیا۔ رابعہ بصری کے مسلک کی بنیاد”عشقِ الٰہی “ پر ہے۔

ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت رابعہ بصری جذب کی حالت بصرہ کی گلیوں میں ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے ہاتھ میں پانی لے کر جا رہی ہیں ،جب لوگوں نے پوچھا کہ یہ آپ کیا کرنے جا رہی ہیں تو رابعہ بصری نے جواب دیا کہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے اور اس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے جا رہی ہوں تاکہ لوگ اس معبودِ حقیقی کی پرستش جنت کی لالچ یا دوزخ کے خوف سے نہ کریں بلکہ لوگوں کی عبادت کا مقصد محض اللہ کی محبت بن جائے۔

ایک مرتبہ رابعہ بصری سے پوچھا گیا کہ کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں؟ رابعہ بصری نے جواب دیاکہ خدا کی محبت نے میرے دل میں اتنی جگہ ہی نہیں چھوڑی کہ اس میں کسی اور کی نفرت یا محبت سما سکے۔

رابعہ بصری نے تقریباً اٹھاسی (88) سال کی عمر پائی لیکن آخری سانس تک آپ نے عشق الٰہی کی لذت و سرشاری کو اپنا اشعار بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنی آخری سانس تک معبودِ حقیقی کی محبت کا دم بھرتی رہیں۔ آخری وقت آپ نے اپنے ولی اور صوفی ساتھیوں کو بتایا کہ ”میرا محبوب و معبود ہمیشہ سے میرے ساتھ ہے

Comments