Now, most of you know that these people built their cities with great planning, such as straight and wide roads or drainage systems in homes, etc.
But what very few people know is that there are no signs of fire in the city of Mohenjo-Daro. No torches, no lanterns, no lamps, no fireplaces. Some researchers say that those people used some kind of technique to light their homes at night, which we are completely unaware of even today. Then, in the excavations so far, neither a royal palace nor the ruins of any weapons cache have been found. It is as if they had no king nor any large armies.
It's as if the entire city is running automatically in an organized manner under some unspoken law.
And then the strange but thousands of seals found at Harappa, some of which have images of "human-like" people on them, while others have circles and lines like you would see inside an electrical diagram, and then the sudden disappearance of these people. Such a large civilization, a population of thousands and an organized urban system, but still.
Those people disappeared as if the desert had swallowed them up. No war, no earthquake, no signs of any epidemic. All these questions remain a mystery to this day because no one has been able to decipher the written language of Mohenjo-Daro.
These small seals and ancient symbols are still one of the world's great mysteries.Mohenjo-daro and Harappa, these cities that have fallen silent forever, tell us that human history has never followed a straight line, but rather there are so many missed links in it that we still don't know anything about.
موہنجو داڑو اور ہڑپہان دونوں شہروں کے نام تو آپ نے ضرور سنے ہوں گے کیوں کہ آج سے کوئی ساڑھے چار ہزار سال پہلے یہ دونوں شہر اس جگہ آباد تھے کہ جہاں آج پاکستان موجود ہے ۔
اب یہ بات تو آپ میں سے أکثر لوگ جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنے شہر بڑی ہی زبردست پلاننگ یعنی منصوبہ بندی کے ساتھ بنائے تھے مثلاً سیدھی اور بڑی سڑکیں یا پھر گھروں میں نکاسی کا نظام وغیرہ ۔
لیکن جو بات بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ موہنجو داڑو کے شہر میں آگ جلا کر روشنی حاصل کرنے کے کوئی آثار نہیں ملتے ۔ نہ کوئی مشعل ، نہ کوئی لالٹین ، نہ ہی کوئی چراغ اور نہ ہی آتش دان ۔ کچھ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ وہ لوگ گھروں میں رات کے وقت روشنی کے لیے کوئی ایسی تیکنیک استعمال کرتے تھے کہ جس سے آج بھی ہم مکمل طور پر لاعلم ہیں ۔ پھر اب تک کی کھدائیوں میں نہ تو کوئی شاہی محل ملا ہے ، نہ ہی ہتھیاروں کے کسی ذخیرے کے کھنڈرات ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے نہ تو کوئی ان کا بادشاہ تھا اور نہ ہی کوئی لمبے چوڑے لشکر ۔
ایسے کہ جیسے پورے کا پورا شہر کسی ان کہے قانون کے تحت منظم انداز کے ساتھ خود بخود چل رہا ہو ۔
اور پھر ہڑپہ سے ملنے والی عجیب و غریب مگر ہزاروں مہریں کہ جن میں سے کچھ مہروں پر جہاں ’’انسان نما‘‘ لوگوں کی تصاویر بنی ہوئی ہیں وہیں کچھ مہروں پر دائرے اور ویسی لکیریں موجود کہ جیسی آپ کسی الیکٹریکل ڈایاگرام کے اندر بنی ہوئی دیکھیں گے اور پھر اچانک سے ان لوگوں کی گمشدگی ۔ ایک اتنی بڑی تہذیب ، ہزاروں کی آبادی اور ایک منظم شہری نظام لیکن پھر بھی ۔
وہ لوگ یوں غائب ہو گئے کہ جیسے صحراء نے انہیں اپنے اندر ہی نگل لیا ہو ۔ نہ کوئی جنگ ، نہ کوئی زلزلہ ، نہ کسی وباء کے آثار ۔ یہ تمام سوالات آج تک محض ایک راز ہی ہیں کیوں کہ موہنجو داڑو کی لکھی ہوئی زبان کو اب تک کوئی بھی شخص ڈیسائفر نہیں کر پایا ہے ۔
یہ چھوٹی چھوٹی مہریں اور قدیم علامات آج بھی دنیا کے بڑے رازوں میں سے ایک راز ہیں
موہنجو داڑو اور ہڑپہ ، یہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکے شہر ہمیں بتاتے ہیں ۔ کہ انسانی تاریخ کبھی بھی ایک سیدھی لکیر کی طرح نہیں چلی بلکہ اس میں کتنے ہی مس لنکس ایسے ہیں کہ جن کے متعلق آج تک ہمیں کچھ پتہ نہیں ۔۔۔
Comments
Post a Comment