ٹیکسلا کا تاریخی پس منظر
ٹیکسلا، جسے قدیم یونانی ذرائع میں "ٹاکسلا" کہا گیا ہے، ایک قدیم شہر تھا جو موجودہ پاکستان کے پنجاب صوبے میں واقع ہے۔ یہ شہر برصغیر پاک و ہند، وسطی ایشیا اور فارس کے اہم تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے بہت اہم تھا۔ یہاں کئی تہذیبیں پھلی پھولیں، جن میں ہخامنشی
(Achaemenid)
یونانی، موریا، ہند-یونانی، ہند-سیتھیائی
(Indo-Scythian)
اور کشان سلطنتیں شامل ہیں۔ یہ شہر علم و دانش کا ایک بڑا مرکز بھی تھا، جہاں دنیا بھر سے لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔
ہند-یونانیوں کا عروج
سکندر اعظم کے بعد، اس کی عظیم سلطنت ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ ان ٹکڑوں میں سے ایک یونانی-باکتری سلطنت
(Graeco-Bactrian Kingdom)
تھی جو موجودہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں پر مشتمل تھی۔ لگ بھگ 200 قبل مسیح میں، اس سلطنت کے ایک بادشاہ ڈیمیٹریس اوّل نے برصغیر پر حملہ کیا اور ٹیکسلا سمیت شمال مغربی ہندوستان کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح، ہند-یونانی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی، جس نے دو صدیوں تک اس علاقے پر حکومت کی۔
ٹیکسلا بطور دارالحکومت
ہند-یونانیوں نے ٹیکسلا کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ انہوں نے شہر کو مزید جدید بنایا اور ایک نیا شہر "سِرکپ" تعمیر کیا جو پرانے شہر کے قریب تھا۔ سرکپ کی منصوبہ بندی یونانی طرز پر کی گئی تھی، جس میں گلیوں اور عمارتوں کو باقاعدہ ترتیب سے بنایا گیا تھا۔ یہاں یونانی اور مقامی فن تعمیر کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
بادشاہ مِنانڈر
ہند-یونانی بادشاہوں میں سب سے مشہور بادشاہ مِنانڈر تھا، جس نے تقریباً 165 سے 130 قبل مسیح تک حکومت کی۔ مِنانڈر کو ہندوستانی ذرائع میں "مِلندا" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی بادشاہت ٹیکسلا سے لے کر پنجاب اور گنگا کے میدانوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ علم و دانش سے لگاؤ کی وجہ سے بھی مشہور تھا۔ بدھ مت کی روایت کے مطابق، اس نے بدھ بھکشو ناگ سین سے بدھ مت کے فلسفے پر گفتگو کی اور اس سے بہت متاثر ہوا۔ یہ مکالمے بدھ مت کی کتاب "مِلندا پنہا" میں درج ہیں۔
ثقافتی امتزاج
ہند-یونانیوں کے دور میں ٹیکسلا میں یونانی اور ہندوستانی تہذیب کا ایک انوکھا امتزاج پیدا ہوا۔ اس دور کی سب سے بڑی مثال ہند-یونانی فن
(Greco-Buddhist Art)
ہے، جسے گندھارا فن بھی کہتے ہیں۔ اس فن میں یونانی فن کی خوبیاں، جیسے کہ مجسموں میں اصلی انسانی جسم کی ساخت کی عکاسی، اور بدھ مت کے موضوعات کو ملایا گیا۔ اس دور میں بدھا کے مجسمے یونانی دیوتا اپالو کی طرز پر بنائے گئے تھے، جو اس ثقافتی امتزاج کی واضح مثال ہیں۔
اس دور کے سکوں پر بھی یہ امتزاج نظر آتا ہے۔ سکوں کے ایک طرف یونانی زبان اور یونانی دیوتاؤں کی تصاویر ہوتی تھیں، اور دوسری طرف پراکرت زبان (ہندوستانی زبان کی ایک قدیم شکل) اور مقامی علامتیں ہوتی تھیں۔
سلطنت کا زوال
مِنانڈر کی وفات کے بعد ہند-یونانی سلطنت کمزور ہونا شروع ہو گئی اور چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ گئی۔ ان کی آپس کی خانہ جنگی اور وسطی ایشیا سے آنے والے حملہ آوروں (جیسے ہند-سیتھیائی اور ہند-پارتھیائی) کے حملوں نے اس سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ پہلی صدی قبل مسیح کے آغاز میں ٹیکسلا پر ہند-سیتھیائیوں نے قبضہ کر لیا اور ہند-یونانیوں کا سنہرا دور ختم ہو گیا۔
اہمیت
ٹیکسلا میں ہند-یونانیوں کا دور ایک ایسا وقت تھا جب یونانی اور ہندوستانی تہذیبیں آپس میں ملیں اور ایک نئی منفرد ثقافت کو جنم دیا۔ اس دور نے نہ صرف فن اور فن تعمیر کو متاثر کیا، بلکہ بدھ مت کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آج بھی ٹیکسلا کے کھنڈرات میں ہمیں اس عظیم ثقافتی ورثے کے نشانات ملتے ہیں، جو اس دور کی شان و شوکت اور ہند-یونانیوں کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

Comments
Post a Comment