این جی سی 3109 کہکشآں

 

یہ کہکشاں زمین سے تقریباً 40 لاکھ نوری سال دور واقع ہے۔ نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ تقریباً 95 کھرب کلومیٹرز کے قریب بنتا ہے۔ اس حساب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کہکشاں ہم سے کس قدر دور واقع ہے۔ این جی سی 3109 برج ہائڈرا میں ہے اور ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے، اینڈرومیڈا اور کئی چھوٹی کہکشاؤں کے ساتھ لوکل گروپ نامی ہماری "کائناتی محلے" کی ایک رکن ہے۔

یہاں یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ کہکشاؤں کی بنیادی طور پر تین بڑی اقسام ہیں۔

سب سے پہلی بھنور دار کہکشائیں ہیں جن میں بَل کھاتے بازو اور ایک روشن مرکزی ابھار ہوتا ہے جیسے ہماری ملکی وے یا ہماری پڑوسی اینڈرومیڈا کہکشاں ہے۔ یہ کائنات کی جوان کہکشائیں ہیں جن میں اب بھی نئے ستارے بنتے ہیں۔

دوسری بیضوی کہکشائیں ہیں جو زیادہ تر بیضوی یا گیند نما شکل کی ہوتی ہیں۔ یہ بوڑھی یا قدیم کہکشائیں ہیں جن میں نئے ستارے بننے کا عمل تقریباً رک چکا ہوتا ہے اور زیادہ تر پرانے ستارے پائے جاتے ہیں۔

تیسری بے ہنگم کہکشائیں ہیں جن کی کوئی واضح ترتیب یا شکل نہیں ہوتی اور یہ بے ڈھنگی دکھائی دیتی ہیں اور دوسری اقسام کی کہکشاؤں سے نسبتاً چھوٹی ہوتی ہیں۔

این جی سی 3109 کو ماہرین تیسری قسم یعنی بے ہنگم بونی کہکشاں قرار دیا ہے۔ "بونی کا مطلب ہے کہ اس کا حجم بڑی کہکشاؤں کے مقابلے میں چھوٹا ہے جبکہ لفظ "بے ہنگم اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی کوئی واضح ساخت یا شکل نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نہ اس میں بھنور دار بازو ہیں اور نہ ہی کوئی روشن مرکزی ابھار جو عام طور پر بڑی کہکشاؤں میں ہوتا ہے۔ یہ کہکشاں تقریباً 40 ہزار نوری سال پھیلی ہوئی ہے اور اس کے کناروں پر نمایاں نیلا رنگ جھلکتا ہے۔ یہ نیلا رنگ اصل میں نئے اور گرم ستاروں کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہکشاں آج بھی نئی ستاروں کی فیکٹری بنی ہوئی ہے۔

اب اس کہکشاں کی سب سے حیران کن بات آتی ہے جو کہ اس کی انتہائی کم دھاتیت ہے۔ فلکیات میں "دھات سے مراد صرف لوہا یا تانبہ نہیں ہوتا بلکہ ہر وہ عنصر جو ہائیڈروجن اور ہیلیم سے زیادہ بھاری ہو مثلاً کاربن ، نائٹروجن یا آکسیجن وغیرہ، اسے دھات ہی کہا جاتا ہے اور حیران کن طور پر این جی سی 3109 میں یہ بھاری عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ خاصیت ہمیں کائنات کے ابتدائی دور کی جھلک دکھاتی ہے کیونکہ اُس وقت زیادہ تر مادہ صرف ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل تھا اور بھاری عناصر بعد میں ستاروں کے اندر ایٹمی انضمام کے عمل سے رفتہ رفتہ پیدا ہوئے۔ لہٰذا اس کہکشاں کو دیکھ کر ہم اُس زمانے کی جھلک پا سکتے ہیں جب کائنات ابھی اپنی ابتدائی عمر میں تھی اور بھاری عناصر بننے کا ابتدائی دور شروع ہو رہا تھا۔

یہ شاندار تصویر این جی سی 3109 کی غیر معمولی جھلک دکھا رہی ہے اور یہ چلی میں واقع وِکٹر ایم بلانکو نامی چار میٹر قطر والی دوربین پر نصب ڈارک انرجی کیمرا کے ذریعے لی گئی ہے۔ یہ دوربین سیرو ٹولو انٹرامیرکن آبزرویٹری میں موجود ہے اور دنیا بھر کے ماہرین فلکیات کو دور دراز خلا کے راز دیکھنے میں مدد دے رہی ہے۔ 19 فروری 2025 کو جاری کی گئی اس تصویر نے ماہرین کو کہکشاؤں کے ارتقاء اور کیمیائی ساخت کے بارے میں قیمتی اشارے دئیے ہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ این جی سی 3109 ایک "وقت کا دریچہ" ہے اور اس کے مشاہدے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کائنات کے ابتدائی ادوار میں کہکشائیں کیسی تھیں، ستارے کیسے پیدا ہو رہے تھے اور بھاری عناصر کس طرح وجود میں آ رہے تھے۔ یہ چھوٹی سی کہکشاں ہمیں بتاتی ہے کہ بڑی اور دیوہیکل کہکشاؤں کے ساتھ ساتھ چھوٹی اور غیر نمایاں کہکشائیں بھی اپنے اندر بڑے راز چھپائے بیٹھی ہیں اور کائنات کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے یکساں طور پر اہم ہیں

Comments

Popular posts from this blog

ـ1508🌻) پندرہ غزائیں جن سے قوت مدافعت بڑتی ہیں (انگلش/اردو)

🌅1543) More than 565 .... Topics

۔28🌻) دینی اداروں اور علماء کے سائٹس وغیرہ