بکھاریوں سے بچو

آپ کا ایک روپیہ۔۔۔ معیشت کو تباہ کر رہا ہے

کیسے؟ آئیے جانچ پڑتال کرتے ہیں۔۔۔

ہم روزانہ اپنے ہاتھ سے معیشت کے چیتھڑے اڑا رہے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں۔

کسی بھکاری ، فقیر ، ملنگ یا منگتے سے متعلق ہمارے ہاں دو قسم کی اپروچ ہوتی ہے۔۔۔

ـ✓ یا تو فراخ دلی سے اسے دس ، پچاس ، سو کا نوٹ دے دیا جاتا ہے اور کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں۔

ـ✓ یا پھر "جان چھڑوانے کے لیے" محض اسے ایک ، دو روپے کا سکہ دے دیا جاتا ہے۔۔۔ دکانداروں نے بھی الگ سے کچھ سکے رکھے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ پورا دن جو فقیر آتے ہیں انہیں ایک دو روپیہ دے کر جان چھڑوائیں۔

لیکن۔۔۔

آپ کی یہ فراخ دلی یا رسمِ جان چھڑاوئی ملکی معیشت کے  لیے سخت ضرر رساں ثابت ہو رہے ہیں۔ 

ـ∆ بھکاری چاہے گروہ کی صورت میں کام کررہے ہوں۔

ـ∆ خاندان کی صورت میں ، کہ پورا خاندان مانگنے نکلا۔

ـ∆ یا انفرادی طور پر۔ 

بہرصورت۔۔۔ روزانہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ ان بھکاریوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ 

ایک بھکاری مارکیٹ کے ایک کونے سے شروع کرے اگر اس مارکیٹ میں 100 دکانیں ہیں ، سب اسے محض 2 روپیہ بھی دیں تو بن جائے گا دو سو روپیہ۔۔۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔۔۔ کوئی ایک روپیہ دیتا ہے کوئی 2 کوئی 5 کوئی 10 تو اس دوران دکانداروں کے علاؤہ جو گاہک یا راہگیر وغیرہ دے دیں وہ الگ۔۔۔ پھر یہ ایک مارکیٹ کی بات ہے۔۔۔ اس نے صبح تا شام کئی مارکیٹیں ، کئی محلے گھوم جانے ہیں۔۔۔ کئی فقیروں کی دہاڑی ہزار ، پندرہ سو سے لے کر ، پندرہ بیس ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے۔۔۔ اور یہ میں بات کر رہا ہوں ایک واحد فقیر کی۔۔۔ پھر اس کا پورا بھک منگتا ٹبر۔۔۔ ایسے دیگر ہزاروں ٹبر۔۔۔ اور دسیوں لاکھ فقیر۔۔۔

جو ہسپتالوں کے باہر بیٹھ کر مانگتے ہیں ان کی ماہانہ کمائی لاکھوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔۔۔ جو درباروں ، خانقاہوں ، مساجد، منادر کے باہر بیٹھ کر مانگتے ہیں ان کی کمائی کسی سرکاری ملازم سے زیادہ ہوتی ہے۔۔۔

آپ کو معلوم ہو یا نہ ہو ، بھکاریوں کی نشستوں کی بولیاں لگتی ہیں باقاعدہ۔۔۔ مثلاً۔۔۔ ایک بھکاری جو ایک ہسپتال کے باہر بیٹھ کر مانگتا ہے وہ اپنی جگہ کسی بھکاری کو چار پانچ لاکھ میں فروخت کر سکتا ہے۔۔۔ بولیاں لگتی ہیں کہ کون زیادہ رقم دے گا وہی سیٹ خرید لے۔۔۔

پھر ان کے گروہ ہوتے ہیں جن میں باضابطہ سینکڑوں لوگ شامل ہوتے ہیں۔۔۔ ایک باقاعدہ میک اپ ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے جس میں بھکاریوں کے چہرے پر جلنے جیسا میک اپ یا دیگر بگاڑ ظاہر کیے جاتے ہیں، ان کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے کہ آنکھوں کو اس طرح گھنا کر خود کو بھینگا یا نابینا ظاہر کرنا ہے۔۔۔ اور۔۔۔ اس سے بھی بھیانک۔۔۔ بچوں کو باقاعدہ معذور کرنے مثلاً ایک پاؤں کاٹ دینے والا بھی سیٹ اپ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بھیک ملے۔۔۔ مصنوعی بینڈیج اور خون جس سے ظاہر ہو کہ بندہ زخمی ہے۔۔۔ جسم پر برص جیسے مصنوعی نشانات ڈالنے سے لے کر مصنوعی لنگڑے پن کی تربیت تک بہت کچھ اور۔۔۔

آپ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں رقم دے کر "صدقہ" نکل رہا ہے جس سے "بلائیں" ٹل جائیں گی۔۔۔ بھئی آپ خود بلاؤں کو اپنی کمائی دے کر مزید بلائیں پیدا کر رہے ہیں۔۔۔

آپ ایک روپیہ دے کر اپنی جان نہیں چھڑوا رہے بلکہ اپنے ملک کی معیشت کی جان عذاب میں ڈال رہے ہیں۔

اب 2 باتیں ذہن نشین کریں۔۔۔

اول ماہانہ کروڑوں یا اربوں روپے کو فقیروں ، مجذوبوں ، ملنگوں کے کھاتے جاتا ہے یہ مکمل طور پر ایک 

Non productive expense 

ہے جس کا ملک یا معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ مثلاً۔۔۔ آپ 10 روپیہ کا بال پین بھی خریدتے ہیں تو یہ ایک پروڈکٹو استعمال ہے ۔۔ اس میں سے 1 روپیہ حکومت کو سیلز ٹیکس جائے گا ۔۔ 3 روپے دکاندار کا منافع ۔۔۔ 4 روپیہ کمپنی کو ۔۔۔ اور 1 روپیہ پیکنگ ، 1 روپیہ مارکیٹنگ سے متعلقہ اداروں کو ۔۔۔ یعنی یہ رقم سرکولیٹ کر رہی ہے اور ایک ملک کی معیشت میں پیسہ کی حیثیت خون کی مانند ہے جو گردش میں رہے گا تو معیشت چلتی رہے گی۔۔۔ اور معیشت شکن سرگرمیوں میں مقید ہو جائے گا تو معیشت جکڑی جائے گی۔

اب آپ کا ایک روپیہ ملک کو کیسے تباہ کر رہا ہے۔۔۔؟

ایک تو اس سے آپ بےروزگاری کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ جسے صرف مانگ کر ہی مہینے کے پچاس سے اسی ہزار مل جائیں کیا وہ پاگل کا بچہ ہے کہ پہلے 20 سال پڑھے لکھے پھر 5 سال نوکری کے پیچھے دھکے کھائے پھر 2,3 سال خود کو نوکری میں مستحکم کرنے میں اور پھر عمر بھر پورا مہینہ کام کر کے بیس پچیس ہزار کمائے۔۔۔؟

ساتھ ہی اربوں روپیہ ہر ماہ ایک اندھے کنویں کی نظر ہو رہا ہے جس کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں۔

دوسری بات ، اس سے فقیروں کی تعداد مزید سے مزید بڑھے گی۔۔۔ جس فقیر کے تین بچے خوب "کمائی" کر رہے ہیں اس نے مزید چار پانچ پیدا کر لینے ہیں۔۔۔ ان کی کمائی پر نہ کوئی انکم ٹیکس جاتا ہے نہ ہی کوئی اور معاشی فائدہ۔

اور۔۔۔ یہ لوگ منشیات سے لے کر چوری چکاری تک ان گنت جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔

یہ تو ہوگئی پہلی بات۔۔۔

اب دوسری بات جناب یہ ہے کہ آپ کی خیرات "بےمقصد" ہے۔۔۔ مثلاً آپ کسی غریب سٹوڈنٹ کی فیس ادا کرتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ مقصد ہے۔

ایک سفید پوش مسکین کے گھر راشن پہنچاتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ کام ہے۔

ایک غریب مریض کو ادویات بہم پہنچاتے ہیں تو یہ ایک باضابطہ مقصد ہے۔

لیکن ایک فقیر کو دس پندرہ بیس ، سو روپیہ دینے کے پیچھے سرے سے کوئی متعین مقصد نہیں آپ یا تو جان چھڑوا رہے ہیں یا پھر "بلا ٹالنے" کی کوشش فرماتے ہوئے ملکی معیشت کو ایک بلا کے جبڑوں میں گھسیڑ رہے ہیں۔

چنانچہ یاد رکھیں۔۔۔

کبھی ، کسی صورت ، کسی حالت ، کسی قیمت پر ، کہیں بھی ایک بھکاری کو ایک روپیہ بھی نہ دیں ورنہ ملکی معیشت کی تباہی کے ذمہ دار "آپ" بھی اتنے ہی ہیں کہ جتنے دیگر ایسے لوگ۔

اس کے بجائے۔۔۔

ـ✓ جو مزدور کام پر لگایا ہو اسے سو روپے زیادہ اجرت دے دیں۔

ـ✓ ہوٹل کے ویٹر کو تھوڑی ٹپ دے دیں۔

ـ✓ رکشے ، ٹیکسی والے کو کرایہ سے تھوڑا زیادہ رقم دے دیں۔ 

ـ✓ محلے کے سفید پوش گھرانوں کو ایک آٹے کا تھیلا ہی لے دیں زیادہ نہیں تو۔

ـ✓ کسی غریب بچے کی تعلیم میں تھوڑی مدد کر دیں۔

ـ✓ کسی بوٹ پالش کرنے والے کو پالش کے بعد کچھ زیادہ رقم دے دیں۔

ـ✓ اعتماد والی فلاحی تنظیموں کو کچھ عطیات کر دیں۔

یہ صدقہ ہے بھائی۔۔۔ یہ بلا ٹالے گا آپ پر سے بھی اور ملک کی معیشت سے بھی

Comments

Popular posts from this blog

ـ1508🌻) پندرہ غزائیں جن سے قوت مدافعت بڑتی ہیں (انگلش/اردو)

🌅1543) More than 565 .... Topics

۔28🌻) دینی اداروں اور علماء کے سائٹس وغیرہ