ـ4 ارب چابیوں والا قفل
جب یورپ کے بادشاہ بھی پڑھنا نہیں جانتے تھے، جب لوگ چہرہ دھونے کو بھی نقصان دہ سمجھتےتھے،اس زمانےمیں مسلمانوں کی سائنس آسمان کی بلندی کو چھو رہی تھی۔ انہی سنہری صدیوں میں ایک ایسی نابغۂ روزگارشخصیت پیدا ہوئی،جسکا نام تھا بديع الزمان ابو العز الجزری۔۔ وہ شخص۔۔جسے آج دنیا
Father of Robotics
کہہ کر یاد کرتی ہے۔۔
یہ وہی ذہین انجینئر تھا، جس نے ایسا تالہ (لاک) بنایا، جسے کھولنے کیلیے آج کےحساب سے4 ارب 29 کروڑ 49 لاکھ 67 ہزار 296 ممکنہ کوششیں کرنی پڑتیں۔ گویا ہر بارچابی بدل جاتی اور ہر غلط کوشش پر ایک نئی ترتیب سامنے آتی۔ یہ دراصل آج کی زبان میں
”Combinational Lock“
یعنی کثیر مجموعہ قفل تھا۔۔۔۔۔جس میں ہزاروں نہیں بلکہ اربوں ممکنات ہوتی تھیں۔۔
اس حیرت انگیز ایجاد کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ 1201ء میں، جب یہ دنیا کے لیے کسی جنّ کا کام لگتا تھا، جزری نےاسےاپنی مکینیکل انجینئرنگ سے بنایا تھا۔۔
جزری کی کتاب "الجامع بین العلم والعمل النافع فی صناعة الحیل"۔۔۔۔۔۔۔۔آج بھی پوری دنیا کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں حوالہ جاتی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس میں انہوں نے پانی سے چلنے والی مشینیں، خودکار نظام، روبوٹ، گھڑیاں، تالے اور بے شمار آلے تفصیل سے بیان کیے۔۔
یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہےکہ اسوقت یورپ جہالت میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ان کے بادشاہ بھی لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ روزمرہ کی معمولی صفائی بھی خطرناک سمجھی جاتی تھی۔ جبکہ اسلامی دنیا میں آنکھوں کی جراحی، ہائیڈرولکس۔۔۔۔۔۔مکینیکل انجینئرنگ اور فلکیات اپنی معراج پر تھیں۔۔
اقبال اسی پرماتم کناں تھے۔وہ ہمارے زوالِ علمی کی تصویر یوں کھینچتے ہیں
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر۔۔۔۔۔۔۔آسماں نے ہم کو دے مارا
صدیوں پہلے ہمارا عروج۔۔۔۔۔وہ تھا کہ ہم مستقبل کی انجینئرنگ بنا رہے تھے، مگر آج دنیا کی یونیورسٹیاں الجزری کے کارناموں کو پڑھاتی ہیں اور ہم خود اس میراث سے محروم ہیں اور پھر اقبال کا شکوہ دل کو بے چین کر دیتا ہے
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
واقعی، ہمارے ہی آبا کی کتابیں یورپ کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں اور ہم اپنی تہذیب کے اس روشن باب سے تقریباً بے خبر۔۔۔۔۔ایسا قفل، جس کی چابی 4 ارب سے زیادہ ممکنات رکھتی ہو،صدیوں بعدکمپیوٹر سائنس میں
Encryption
(رمز بندی / کوڈنگ) اور
Security Algorithms
کااصول بن گیا۔۔
مگر افسوس ہمارے بچوں کے نصاب میں اس کا نام تک نہیں۔۔۔سوال یہ ہے کہ کیوں الجزری جیسے عبقری مسلمان مخترع کا ذکر ہمارے تعلیمی نصاب میں پہلے صفحے پر نہیں ہوتا؟ اب پھر کیوں کوئی الجزری پیدا نہیں ہوتا؟ وہ شخص جس نےآٹھ سوسال پہلے ایسی چیزیں ایجاد کیں جنہیں آج بھی جدید انجینئرنگ حیرت سے دیکھتی ہے۔۔
جزری کا نام، ان کا کمال، ان کی کتاب، سب اسلامی تاریخ کا روشن باب ہیں،مگرہم نے انہیں گم نامی میں چھوڑ دیا اور طاق نسیان کی زینت۔۔۔جب قوم کا ذہن بیدار ہوتا ہے، تو اس کے انجینئرز مستقبل ایجاد کرتے ہیں اور جب قوم اپنی تاریخ بھول جائے تو دوسروں کی ایجادیں اس پر حکومت کرتی ہیں۔۔
واضح رہے کہ مسلم ہیریٹیج کی تحقیق بتاتی ہے کہ اب دنیا کے چند میوزیموں میں ایسے کمبی نیشن لاک طرز کے تالے ہیں جو الجزری کے اصول پر بنے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بالکل وہی لاک نہیں، جو الجزری نے بنایا تھا۔ تاہم سعودی عرب کے
"میوزیم برائےسائنس و ٹیکنالوجی اسلام"میں جزری کے ایک کثیر مجموعی قفل
(Combination Lock)
کا نمونہ موجود ہے،جبکہ ترکی میں استنبول الجزری میوزیم
(Istanbul Jazari Museum)
ہے۔۔۔۔۔جہاں الجزری کی مشینوں کی نقلیں رکھی گئی ہیں۔۔
(ضیاء چترالی)

Comments
Post a Comment