کینسر کیئر ہسپتال لاہور

 

کینسر کیئر ہسپتال

آف روہی نالہ بائی پاس رائے ونڈ روڈ لاہور پر قائم کینسر کیئر ہسپتال وہ مقام ہے جہاں اگر کوئی شخص زمین پر جنت کی تقسیم کا منظر دیکھنا چاہے تو اسے ضرور جانا چاہیے۔ میرے اندازے کے مطابق یہاں روزانہ ہزار کے قریب زخمی اور ٹوٹے دل والے لوگ آتے ہیں، اور ہر شخص اپنے ماتھے پر امید کی مہر لگوا کر لوٹتا ہے۔ 

یہ ہسپتال بظاہر ایک عام عمارت دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں یہ جنگل میں اگنے والا ایک روحانی آستانہ ہے جس نے بہت کم عرصے میں وہ روشنی پھیلائی کہ لوگوں کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جو اس کی تعمیر کے وقت کہے جاتے تھے

“سوال کیا جاتا تھا شہریار کیا کرنے جا رہا ہے؟ یہ شاید کسی دیوانے کا خواب ہے۔” مگر آج وہی خواب حقیقت کے سنگِ میل کی طرح کھڑا ہے، جہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنت کی پریاں اترتی ہیں اور انسانوں کے دکھ اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں۔

یہاں وہ لوگ آتے ہیں جنہیں بڑے کینسرز ہسپتالوں سے لوٹا دیا جاتا ہے؛ وہ مریض جن پر پورے پاکستان نے “ناامیدی” کی مہر لگا دی ہوتی ہے؛ وہ سب جو اپنے آخری دنوں میں سکون، پناہ اور محبت کے چند قطرے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آتے ہیں اور اطمینان پاتے ہیں۔ 

قوم نے ڈونیشن سے ایک بڑا اور پہلا ہسپتال  بنایا تھا مگر وہاں داخل ہونا آج امریکہ کا ویزا لینے سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے—

عمر کی پابندیاں، ساٹھ سال سے اوپر کے مریض داخل نہیں ہو سکتے 

کینسر کے درجوں کی شرطیں، ایڈوانسڈ کینسر کے مریض داخل نہیں ہو سکتے 

تشخیص کے پیچیدہ مراحل— وقت کم ہے اور مریض زیادہ اور انویسٹیگیشن کی لمبی قطار اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور مشینوں کی کمی اور اوپر سے ڈاکٹرز کی مصروفیات۔۔۔

یہ سب کچھ ایسے مریضوں کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے جن کی کینسر جیسی بیماری آگ اور پیٹرول کے ملاپ کی طرح مہلک ہوتی ہے۔ 

ایسے نا امید لوگ کہاں جائیں ہالانکہ زیادہ تر کینسر ساٹھ سال کے بعد ہی ہوتا ہے 

پاکستان میں زیادہ معلومات نہ ہونے کیوجہ سے لوگ آخری سٹیج پر ہی کینسر کے علاج کے لیے بڑے ہسپتال میں آتے ہیں 

اور جب تک مکمل تشخیص کے مراحل سے مریض نہ گزرے علاج نہیں ہوتا تو یوں پھر دیر ہوجاتی ہے ۔۔۔

ایسے میں جب دروازے بند ہونے لگتے ہیں تو کینسر کیئر ہسپتال ان کے لیے ماں کی آغوش بن کر سامنے آتا ہے۔ 

ایک ماں کو اگر معلوم بھی ہو کہ اس کا بچہ آخری سانسوں پر ہے، وہ پھر بھی دعا کرتی ہے: “یا اللہ! میری عمر اسے لگ جائے۔” یہی بےلوث ممتا ڈاکٹر شہریار اور ان کی ٹیم کے رویوں میں جھلکتی ہے، جو مایوس چہروں پر امید کے چراغ جلاتے ہیں اور مریض کو نہ صرف علاج بلکہ جینے کی خواہش بھی واپس مل جاتی ہے۔

کینسر کیئر ہسپتال لاہور پاکستان کا واحد ہسپتال ہے جہاں کینسر کی آخری اسٹیج کے مریض بھی باعزت طریقے سے داخل کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔

آج مجھے ایک ایسے ہی مریض کے سلسلے میں یہاں جانا پڑا جو لاہور کے سب سے تاریخی اور بڑے ہسپتال سے خالی ہاتھ لوٹا تھا۔ 

Head of Pancreas 

کے کینسر میں مبتلا یہ مریض ایک ماہ تک پاکستان کے پہلے اور بڑے ہسپتال  میں داخل رہا مگر تشخیص نہ ہو سکی۔ مریض سرجیکل وارڈز ہمارے نوجوان ڈاکٹروں کے سیکھنے کا مرکز تو بنا رہا۔۔۔  مگر اس مریض کے لیے تشخیص گویا حضرت خضرؑ کی تلاش بن گئی تھی۔۔۔۔ ای یو ایس گائیڈڈ بائپسی کے لیے ایک ماہ بعد کسی پرائیویٹ جگہ بھیجا گیا جس کی فیس ڈیڑھ لاکھ تھی 

مگر خدا کا شکر کہ “ڈاکٹر جوہر امین” سے رابطہ ہوا اور  شیخ زید ہسپتال کا راستہ ملا ڈین پروفیسر مونا عزیز کے ملازمین خود مریض کو لے گئے داخل کروایا۔۔۔۔ جہاں فری 

EUS-guided biopsy 

ہو گئی، اور معلوم ہوا کہ کینسر پھیل چکا ہے۔ 

پاکستان کی پہلی اور بڑی کینسر ہسپتال نے کہہ دیا: “عمر زیادہ ہے اور کینسر پھیل گیا ہے، ہم نہیں لے سکتے۔” سوال وہی کہ اس مریض کو اب اپنے آخری دنوں کا سکون کہاں ملے گا؟

شوکت خانم پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال ہے اور بہت اچھی خدمات سر انجام دے رہا ہے لیکن ہر مریض اور کینسر کی ہر سٹیج کے مریضوں کے لئے نہیں، 

پبلک سیکٹرز ہسپتال اور پاکستان کے انکالوجی سنٹرز بھی بہت اچھی سروس دے رہے ہیں لیکن فنڈز کی کمی کے باعث ہر مریض کی خدمت نہیں کر سکتے 

کینسر کیئر ہسپتال ہر مریض، ہر کینسر اور ہر درجہ مرض کے مریضوں کو علاج مہیا کرتا ہے 

مریض کی مایوسی دیکھ کر میں نے پروفیسر ڈاکٹر شہریار کو فون کیا۔ انہوں نے جواب دیا: “میں لندن ہوں، آپ ڈاکٹر ظفر علاؤالدین سے مل لیں۔” ڈاکٹر ظفر علاؤالدین 

نے ہمیشہ کی طرح محبت سے کہا

: “ڈاکٹر … آپ مریض لے آئیں۔” میں نے لواحقین کو بس اتنا کہا: “شفا منجانب اللہ ہے، ہم کوشش کرتے ہیں۔” وہاں پروفیسر مجید چوہدری مفت سرجری کرتے ہیں۔ ایم ایس ڈاکٹر وسیم علی سے ملاقات ہوئی۔ پھر پروفیسر نبیلہ شامی—جو پروفیسر شہریار کی شریکِ حیات بھی ہیں—اپنی مصروفیات سے فارغ ہوئیں تو ڈاکٹر ظفر نے کہا: “پروفیسر حسین بخاری آئے ہیں، انہیں کافی کے بغیر نہیں جانے دینا۔” ان کے سٹاف کے ساتھ بیٹھ کر کافی پینا رسمی ملاقات نہیں بلکہ انسانیت کی خوشبو سے بھرپور ایک لمحہ تھا۔

چند منٹ کی گفتگو میں ہم نے سیزیرین سیکشن کی بڑھتی ہوئی شرح پر بات کی۔ پروفیسر نبیلہ شامی نے بتایا کہ پہلی ڈیلیوری سیزیرین ہونے پر، یا ماں کی عمر 35 سے بڑھنے پر، جب 

Gestational Diabetes

 اور 

Preeclampsia 

کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، یا جسمانی سرگرمی کم ہو جاتی ہے تو 

CPD (Cephalopelvic Disproportion) 

بڑھتا ہے، اور پڑھی لکھی خواتین زچگی کا درد برداشت نہ کرکے ابتدا میں ہی سیزیرین کی خواہش کرتی ہیں۔ انہوں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ جو بچے نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہوتے ہیں وہ عام طور پر زیادہ ذہین اور مشکلات برداشت کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ ان کی پہلی سانس فطری آزمائش سے ہوتی ہے نہ کہ مصنوعی ٹراما سے۔ گفتگو سروائیکل کینسر کی طرف بھی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کا بچاؤ صرف اسکریننگ سے ممکن ہے اور اگر حکومت بی ایچ یوز اور آر ایچ سیز کو مضبوط کرے تو بڑے ہسپتالوں پر بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔

رائیونڈ تبلیغی مرکز کے قریب آف روہی نالہ بائی پاس پر ایشیا کا سب سے بڑا اور جدید کینسر کیئر ہسپتال قائم ہے جہاں غریب مریضوں کا علاج، قیام اور کھانا مکمل طور پر مفت ہے جبکہ صاحب محنت و حیثیت افراد سے مناسب فیس لی جاتی ہے۔ یہاں جدید ترین مشینری، 250 بیڈز کا شاندار پالی ایٹو کیئر بلاک، دور دراز سے آنے والوں کے لیے قیام گاہ اور ایک پُرشکوہ مسجد موجود ہے۔ شوکت خانم سے لوٹائے گئے کئی لاعلاج مریض یہاں آخری وقت تک محبت، دیکھ بھال اور درد کم کرنے والی نگہداشت حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شہریار اور ملک کے نامور اسپیشلسٹس کی ٹیم دن رات یہاں خدمات انجام دیتی ہے۔ ایک نامعلوم صاحب روزانہ تقریباً 250 مریضوں اور لواحقین کے لیے کھانا بھجواتے ہیں

یہ صدقہ جاریہ اپنی مثال آپ ہے

کینسر کیئر ہسپتال لاہور میں روزانہ 200 مریضوں کو مفت ریڈی ایشن، خواتین کے بریسٹ کینسر کا مکمل علاج، 700 بستروں کی سرائے میں 2000 افراد کو تین وقت کا مفت کھانا، اور تین آپریشن تھیٹرز میں ہر ہفتے 150 سرجریاں کی جاتی ہیں۔ تین موبائل بریسٹ اسکریننگ یونٹ پورے پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور ضرورت مند خواتین کو لاہور لا کر مکمل علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو ہر مریض کی باعزت رسائی کو یقینی بناتا ہے۔

میں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور رخصت چاہی۔ 

میری نظر میں کینسر کیئر ہسپتال جیسی جگہیں پاکستان کی وہ روشن شمعیں ہیں جن کے نور سے بےبس لوگ اپنے آخری دنوں کی پناہ پاتے ہیں۔ 

یہ صرف علاج گاہ نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کا مرکز ہیں۔ ہمیں پورے ملک میں ایسے مزید مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی مریض اپنے آخری لمحوں میں دربدر نہ ہو، اور کسی کی مایوسی اس کی تقدیر کا آخری فیصلہ نہ بنے۔ یہ ادارہ ایک پیغام ہے: انسانیت ابھی زندہ ہے—بس اسے پہچاننے کے لیے دل چاہیے، نظر چاہیے، درد چاہیے۔

Comments

Popular posts from this blog

ـ1508🌻) پندرہ غزائیں جن سے قوت مدافعت بڑتی ہیں (انگلش/اردو)

🌅1543) More than 565 .... Topics

۔28🌻) دینی اداروں اور علماء کے سائٹس وغیرہ