78) میوزک اللہ پاک کی ناراضگی کا سبب


میوزک اللہ پاک کی ناراضگی کا سبب

اللہ پاک اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنے والے ہر شخص کا یہ نظریہ اور عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ کی مان مان کر چلنے، قدم قدم پر نبی مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیار ے فرامین کو اپنانے، دین کی مبارک تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے میں ہی میری نجات، کامیابی اور دونوں جہاں کی خوشگوار زندگی کا سامان ہے۔ دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے، لیکن پیارے نبی علیہ السلام کے پیارے ارشادات وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ وہ جانتا ہے اور مانتا ہے کہ نبی علیہ السلام کی بات کو میں نے پسِ پشت ڈالا تو میری دنیا بھی اُجڑ جائے گی اور آخرت بھی، آ خرت کی نعمتوں سے بھی محرومی ہوگی اور دنیا کی خوشیاں بھی مجھ سے روٹھ جائیں گی، اگر چہ وقتی طور پر حاصل رہیں۔ گانا اور میوزک یہ ایک ایسی چیز ہے جو آدمی کی دنیا بھی برباد کرتی ہے اور آخرت بھی، بعض طبیعتوں کو میوزک سننے سے شاید لذت و راحت سی محسوس ہوتی ہو، ایسی لذت کی مثال اُس خارش زدہ شخص کی لذت جیسی ہے جس کو خارش کرتے ہوئے مزہ محسوس ہو رہا ہوتا ہے، لیکن کچھ دیر بعد ہی یہ مزہ اُس کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ اسی طرح یہ میوزک بھی اللہ تعالیٰ کی سخت پکڑ اور خطرناک سزا کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یاد رکھیں یہ گناہ دو چیزوں پر مشتمل ہے

 ایک 1:- میوزک، گانا اور ساز و باجے پر

دو 2:- بے حیائی کے جملوں اور بول، فحش خیالات، نامحرم کی آواز، جنسی جذبات کو بھڑکانے اور غلط و گناہ پر آمادہ کرنے والے نظریات پر۔ لہٰذا اگر دونوں باتیں جمع ہو تب تو گناہ ہے ہی اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی پائی جا رہی ہو تو ایسی آواز کا سننا بھی ناجائز اور حرام ہے۔ اس لیے ایسی نعت وغیرہ جس کے پیچھے بیک گراونڈ میوزک کی آواز ہو اُس سے بھی بچنا لازم ہے، البتہ اگر بغیر میوزک کے وہ نعت ہو اور دیگر کوئی خلاف شرع بات نہ ہو تو اُسے سنا جا سکتا ہے،لہٰذا میوزک اور ساز وغیرہ پر مشتمل نعتوں اور قوالیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ:’’ـ یہ تو نعت ہے یا قوالی ہے، اس سے کیا ہوتا ہے؟

 اِس میں تو اچھی باتیں ہیں‘‘درست نہیں ہے، ایسی نعتوں اور قوالیوں کو نہیں سننا چاہیے، کیونکہ ان میں میوزک، ساز اور باجے کی آواز شامل ہے اور میوزک، ساز اور باجے کی آواز سننا بھی حرام ہے۔ 

ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راستے میں جارہے تھے، ان کے کانوں میں گانے اور ساز کی آواز آئی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اس راستے سے ہٹ گئے۔ پھر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اپنے شاگرد نافع سے پوچھتے رہے کہ کیا اب بھی آواز آرہی ہے؟ 

حضرت نافع اثبات میں جوا ب دیتے (یعنی آواز آرہی ہے) توآپ چلتے رہتے، یہاں تک کہ جب گانے کی آواز سنائی دینا بند ہوگئی تو آپ نے اپنے کانوں سے ہاتھ ہٹالیے اور فرمایا :میں نے رسول اللہ ﷺ کو بھی گانے کی آواز پر اسی طرح کانوں میں انگلیاں ڈالتے دیکھا تھا

 (مسند احمد: ۴۶۳۳) 

ملاحظہ فرمائیے ۔ گانوں کی آواز سے کتنی سخت نفرت تھی کہ کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔ گانے بجانے، سننے میں اپنے کریم رب اور ہمدرد نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کی نافرمانی کے ساتھ چند نقصانات یہ بھی ہیں

ایک 1 :- دل میں نفاق پیدا ہوجانا: سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے

’’اَلْغِنَائُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فیِ الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَائُ الزَّرْعَ‘‘  (شعب الایمان: ۴۷۴۶) 

 گانا دل میں اِس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی اُگاتا ہے۔

دو 2:- اُمت پر مصیبتوں کا ٹوٹ پڑنا: ایک حدیث مبارک میں رسول اللہﷺ نے ۱۵ ایسے اعمال بتائے کہ جب لوگوں میں وہ کام ہونے لگیں تو ان پر پریشانیاں اور مصیبتیں نازل ہونے لگ جاتی ہیں، ان میں سے ایک کام ساز ، باجوں اور گانوں کی کثرت ہے (جامع ترمذی: ۲۲۱۰) 

تین 3:- بے حیائی عام ہونے لگتی ہے

چار 4:- ہمارے بچوں، بچیوں کے اخلاق خراب ہونے لگتے ہیں، وہ اپنے والدین اور بڑوں کے نافرمان ہو جاتے ہیں۔ 

پانچ 5 :- اللہ کی یاد سے غفلت ہونے لگتی ہے

چھ 6:- بے چینی، بے سکونی اور بے اطمینانی کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر سال امریکا میں 600 نوجوان گانے بجانے کے اثرات سے متاثر ہوکر خودکشی کرلیتے ہیں۔ 

   سات 7:- احساسِ ذمہ داری ختم ہوجاتا ہے 

    اٹھ 8 :- فحش اور گندی زبان استعمال ہونے لگتی ہے

خوشگوار اور پرسکون زندگی کے لیے، طرح طرح کی پریشانیوں، مصیبتوں اور اللہ پاک کے عذاب سے حفاظت کے لیے، با اخلاق و باکردار معاشرہ کی تشکیل کے لیے ہم میں سے ہر شخص یہ عزم کرے کہ وہ خود بھی گانے اور میوزک سننے سے بچے گا اور اپنے بچے، بچیوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی نرمی اور محبت سے گانے سننے سے بچائے گا۔ اس کے لیے درج ذیل باتوں پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی اِن کی ترغیب دیں 

ایک 1 :- خدانخواستہ اِس گناہ میں مبتلا ہیں تو بلا تاخیر ابھی دو رکعت نفل پڑھ کر اپنے پروردگار سے خوب رو رو کر مانگیں کہ: ’’اے اللہ پاک مجھے اِس گناہ کی نحوست سے بچالے، اس کی نفرت میرے دل میں بٹھادے، تاکہ میں گانے و میوزک کے خطرناک نقصانات سے بچ سکوں۔

دو 2:- جیسے ہی گانے کی آواز کانوں میں پڑے فوراً ’’لاَحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘‘مانگنا شروع کر دیں اور اپنے دل و دماغ کو گانے کی آ واز سے ہٹا کر دوسرے کاموں میں لگانے کی کوشش کریں۔ 

تین 3:- ایسی تقریبات میں بھی جانے سے بچیں جہاں معلوم ہو کہ میوزک بجائے جائیں گے۔ اِس کا حل یہ ہے کہ تقریب سے کچھ دن پہلے یا کچھ دن بعد جاکر ان کی خوشی میں شریک ہو جائیں اور اُن کو یہ بتا کر معذرت کرلیں کہ: آپ برا نہیں مانیے گا، میں گانے اور میوزک سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں، تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کے نقصانات سے بچالیں۔

        چار 4:- اپنے موبائل پر میوزک والی رنگ ٹون کو بدل لیں، تاکہ ہم خود بھی اِس گناہ سے محفوظ رہیں اور دوسروں کی تکلیف کا ذریعہ بھی نہ بنیں۔ 

   پانچ 5:- اِس دعا کو اپنے پاس نوٹ کرکے یاد کرکے دھیان کے ساتھ مانگنا شروع کر دیں

اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ مُنْکَراتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمالِ وَالْأَھْوَائِ۔ (جامع ترمذی: ۳۵۹۱) 

اے اللہ میں  برے اخلاق ، برے اعمال اور بری خواہشات سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ 

ہم میں سے ہر ایک یہ ٹھان لے کہ اب آئندہ ان شاء اللہ! ساری زندگی میں گانے نہیں سنوں گا، ایسی مجلس و تقریب سے میں فوراً دور ہو جاوں گا، چاہے گانے بج رہے ہو یا میوزک والی نعتیں یا قوالیاں سنی جا رہی ہوں، کیوںکہ حقیقی خیر اور اصل سکون و کامیابی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیارے احکامات سے اپنی زندگیوں کو سنوارنے میں ہی ہے۔ خدائے رحمن سے درخواست ہے کہ تمام گناہوں بالخصوص گانے اور میوزک سننے سے ہماری حفاظت فرمائے 

 ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments