50) جدید ٹیکنالوجی کے نقصانات اور علاج



جدید ٹیکنالوجی کے نقصانات اور علاج

از: مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی 

ہماری زندگی میں ٹیکنالوجی کا استعمال جیسے جیسے بڑھتا جارہا ہے ویسے ویسے ہماری لت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور اگر ہم نے ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی لت کی وجوہات کا تجزیہ کرلیا تو سمجھیے ہم اگلے چار پانچ سو سال کی پلاننگ آرام سے کرسکتے ہیں؛ کیوں کہ فی الحال ہماری زندگی کے اکثر حصوں پر ٹیکنالوجی قابض ہے اور آگے چل کر یہ تناسب ننانوے کے آکڑے کو آرام سے پار کر جائے گا۔

 ہم ان کی زندگی کو سب سے پہلے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ”اسکرینی زندگی“ اور”حقیقی زندگی“ اسکرینی زندگی سے مراد جہاں وہ موبائل، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹاپ کی اسکرین کااستعمال کرتا ہے

 اسکرینی زندگی میں آدمی عموماً ان عادتوں میں مشغول ہوتا ہے

۔۔۱ . سوشل میڈیا ... ہارورڈ یونیورسٹی کے ریسرچر ٹریور ہائینس کے مطابق دماغ میں ایک ترسیلاتی کیمیکل ہے جو بہت زیادہ خوشی کے وقت ریلیز ہوتا اور نکلتا ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر کھانے، ایکسرسائز، محبت، مجامعت، ڈکیتی اور ڈرگ وغیرہ سے تھا؛ مگر اس لسٹ میں سوشل میڈیا بھی شامل ہوگیا ہے، یعنی سوشل میڈیا پر ایک لائک ملنے کے بعد اتنا ہی ڈوپامین نکلتا ہے جتنا کہ ڈرگ لینے کے بعد اور اسی لیے یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انسان کو سوشل میڈیا کی لت لگ گئی چوںکہ یہ لت ایسی ہے جسے سماج میں برا بھی نہیں مانا جاتا اور جس کا حصول بھی محض انگلیوں کی حرکت پر موقوف ہے؛ اس لیے یہ شراب اور ڈرگ سے بھی بری عادت ہے،  رپورٹ کے مطابق ساڑھے تین بلین (ساڑھے تین ارب)لوگ اس میں مبتلا ہیں اور واٹس ایپ، فیس بک، میسنجر، انسٹاگرام میں سے کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں اور ساڑھے تین سو ملین (تیس کروڑ) یوزرس کے ساتھ ہندوستان سب سے زیادہ فیس بک استعمال کرنے والا ملک ہے اور نوجوانوں میں سب سے زیادہ پاپولر ایپ انسٹاگرام پر بھی 192 ملین یوزرس کے ساتھ انڈیا ہی نمبر ایک پر ہے۔

۔۔۲- ویڈیوز دیکھنا ... مثلاً انسٹاگرام کی ریلز، یوٹیوب ویڈیوز یا نیٹ فلکس پہ موویز اور ویب سیریز دیکھنا

     ۔۔۳ ... کنٹینٹ میکنگ مثلاً ٹک ٹاک پہ ہونٹوں کو ڈائلاگ یا گانے کے بول کے مطابق کرکے ویڈیوز بنانا جس کا مطلب ہے خود جس قابل نہیں ہے اس قابل ہونے کی ایکٹنگ کرنا اسی طرح انٹرٹینمنٹ کے دوسرے طریقوں کہ سوشل میڈیا، پورن اور گیمنگ وغیرہ ایک لت اور عادت ہیں؛ اس لیے انسان جبراً پڑھائی گئی تعلیم کے علاوہ باقی سارے اوقات انھیں چیزوں میں عموماً صرف کرتا ہے اسے ان چیزوں کی عادت کیوں لگ گئی ہے؟

 اس لیے کہ یہ ایپس یوزر سینٹرڈ ڈیزائن کا استعمال کرتی ہیں جس میں صارف اور اس کی پسند مرکزی نقطہ ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ اپلی کیشنز پہلے انسان کی فطرت کا مطالعہ کرتی ہیں پھر ہر فرد کی ضروریات اور پسند پر ریسرچ کرتی ہیں اور پھر ان کے مطابق اس کے ہر جذبے اور خواہش کی تسکین کا ساماں اپنے ایپ کے ذریعے فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ خواہشات صحیح ہیں یا غلط . آئیے ان جذبات، خواہشات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ باطل ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کون سے حربے آزما رہا ہیں

     ۔۔۱- جذبہ انعام ... انسان کو فطرتاً انعام کی امید ہوتی ہے اور یہ ایپس اسے انعامات سے نوازتی ہیں۔

   ۔۔۲- جذبہ عجلت ... یعنی کم وقت میں وہ ایپ آپ کو اتنا قابل باور کرا دیتا ہے،جتنا قابل وہ پچیس تیس سال کی محنت کے بعد ہی بن سکتا تھا 

کمپنیاں اب اسی عجلت پسندی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے پروڈکٹس اور کنٹینٹ لانچ کر رہی ہیں مثلاً پہلے تین گھنٹے کی فلمیں ہوا کرتی تھیں پھر جب نئی جنریشن کے لیے یہ بورنگ ہونے لگا تو ویب سیریز کو لانچ کیا گیا پھر آدھے گھنٹے کی شارٹ موویز اور اب ایک منٹ اور پندرہ سیکنڈ کی ویڈیوز کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔

۔۔۳- جذب جدت ... انسان کی فطرت ہے کچھ نیا کرنا جو اس کو مختلف موضوعات کی طرف مسلسل منتقل ہونے کی دعوت دیتی ہے اور یہ ایپس اس فطرت کے عین مطابق ہر پندرہ سیکنڈ ایک منٹ کے بعد ایک نیا مواد دکھاتی ہیں۔

     ۔۔۴. جذبہ طمانیت و راحت ... مذکورہ چیزوں میں ملوث ہوکر انسان وقتی طور پر سکون محسوس کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ اتنے کم وقت میں مجھے اتنی ساری معلومات حاصل ہوگئیں یا اتنا سارا انٹرٹینمنٹ ہوگیا۔

 ۔۔۵- جذبہٴ سستی و غفلت ... یہ ساری چیزیں اس کو محض انگلیاں حرکت دینے سے مل جاتی ہیں اس کو محنت نہیں کرنی پڑتی تو اس کے جذبہٴ سستی کو بھی تسکین مل رہی ہوتی ہے۔

۔۔۶- جذبہٴ ندرت ... عجیب چیزوں کے دیکھنے کا شوق اس کی فطرت میں ہے اور بیٹھے بٹھائے ان ایپس سے دنیا کا ہر عجوبہ دیکھنے کو مل رہا ہے تو کیوں نہ دیکھے، اب تو ابنارملیٹی ایک نیا نارمل بن چکا ہے۔

    ۔۔۷- جذبہٴ تعریف و منقبت ... جو تعریف اسے رئیل زندگی میں نہیں ملتی وہ وہاں مل رہی ہوتی ہے مثلاً ادھر آپ نے فوٹو ڈالی کہ ادھر لائکس اور دل کے ریکٹ مل رہے ہوتے ہیں اور کمینٹ میں ماشاء اللہ سبحان اللہ سے نوازا جارہا ہوتا ہے، اور انسان کو اپنی تعریف کروانا پسند ہے۔

   ۔۔۸- جذبہٴ مصنوعی زینت ... انسان کی فطرت میں ہے خود کو حسین اور خوبصورت دکھانا، اب یہ ایپس بنا پیسے خرچ کیے آپ کو خوبصورت دکھنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں تو کیوں نہ جوان ایسے ایپس استعمال کریں۔

۔۔۹- رنگت و صورت میں دلچسپی ... کتابیں بلیک اینڈ وائٹ میں ہوتی ہیں اور ویڈیوز کلرفل، اور حضرتِ انسان رنگ اور کلر کا رسیا ہوتا ہے اسی طرح صورت کی طرف انسان کی توجہ جلدی مبذول ہوتی ہے بمقابلہ حروف کے اور یہ ایپس رنگینی ہائے عالم اور فطرت کی بوقلمونیوں سے ہمیں متعارف کرواتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید تعلیمی ادارے کلر اور تصویر کو اپنے سلیبس کا لازمی حصہ بنا رہے ہیں، پی پی ٹی وغیرہ اس کی مثال ہیں۔

۔۔۱۰- جذبہٴ سیر و سفر ... انسانوں کی اکثریت گھومنے اور دنیا کے عجائبات فطرت کے نظاروں کو دیکھنے کی شوقین ہوتی ہے؛ لیکن جب انسان دیکھتا ہے کہ میں جسمانی طور پر اتنے مقامات نہیں گھوم سکتا تو ویڈیو ہی کیوں نہ دیکھ لی جائے اور یہ ایپس وہ سہولتیں فراہم کر رہی ہوتی ہیں۔

۔۔۱۱- جذبہٴ برتری و فوقیت ... ہر انسان کو بڑا بننے کا شوق ہوتا ہے؛ لیکن وہ محنت نہیں کرنا چاہتا اور رئیل زندگی میں وہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو کوئی اس کو پوچھتا بھی نہ ہو مگر فالوورز کی بڑھتی ہوئی تعداد اسے احساس برتری عطا کر رہی ہوتی ہے۔

۔۔۱۲- جذبہٴ تفریح ... آدمی کی دل چسپی کا ہر سامان وہاں موجود ہوتا ہے ۔ چاہے کسی گھٹیا چیز سے بھی دل چسپی کیوں نہ ہو۔

     ۔۔۱۳- پیسے کمانے کی حرص ... یہ ایپس آپ کو انٹرٹینمنٹ کرتے ہوئے بھی پیسے کمانے کی ضمانت دیتی ہیں جس کی بنا پر آدمی گھنٹوں اس پر محنت کرتا ہے؛ حالاں کہ اگر وہ رئیل ورلڈ میں اتنی محنت کسی اور شئی پر کرے تو اس سے کہیں زیادہ کما سکتا تھا؛ مگر اس کے دماغ کی وائرنگ ایسے کی جاتی ہے کہ تم محنت تھوڑی کر رہے ہو بس مستی اور انٹرٹینمنٹ کر رہے ہو اور مستی کے بھی پیسے مل رہے ہیں۔

    ۔۔۱۴- جذبہٴ عدم تنقید ... انسان کی فطرت ہے کہ وہ چاہتا ہے کوئی اس پر تنقید نہ کرے اور وہاں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا وہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے۔

۔۔۱۵- جذبہٴ عدم بدنامی و ذلت ... انسان برے کاموں سے اسلیے بھی رکتا ہے؛ تاکہ اس کی ذلت نہ ہو اور یہ ایپس آپ کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ آپ جتنی مرضی چاہیں غلط کام کریں کوئی آپ کو ذلیل کرنے والا نہیں ہوگا کیوں کہ آپ نے نام بدلا ہوا یا چھپایا ہوا ہے کوئی آپ کو جانتا ہی نہیں ہے کہ ذلت کی نوبت آئے۔

  ۔۔۱۶- جذبہٴ شہرت اور جذبہٴ رجائیت ... کسی دور دراز دیہات میں واقع ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں بیٹھا شخص ایک ویڈیو بناتا ہے، اور یہ ایپ اس کو یہ امید دلاتا ہے کہ اگر ویڈیو وائرل ہوگئی تو بہت سارے لوگ لائک کمینٹ کریں گے اور وہ مشہور ہو جائے گا تو بنا کچھ خرچ کیے گھر بیٹھے کون ایسی شہرت نہیں چاہے گا ؟

۔۔۱۷- جذبہٴ طلبِ التفات ... اسے دوسروں کی توجہ پسند ہوتی ہے اور سوشل میڈیا اسے لوگوں کی توجہ فراہم کرکے دیتا ہے۔

۔۔۱۸- جذبہٴ شہوت ... انٹرٹینمنٹ کے جلو میں ننگے پن کو غیر محسوس طور پر عام کیا جا رہا ہے اور انسان شہوت کا بھوکا ہوتا ہے۔

۔۔۱۹- جذبہٴ جستجو ... انسان کی کھوجی فطرت جو بھی سرچ کرتی ہے وہ اسے آسانی سے اس ایپ پر دستیاب ہوتا ہے؛ اس لیے بھی آدمی یہ ایپس استعمال کرتا ہے۔

۔۔۲۰- جذبہٴ تخلیقیت ... اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں دنیا کو مواد دے رہا ہوں اسی لیے یہ فضول کے ایپس بھی اپنے بہترین ٹاپ یوزرس کو کنٹینٹ کرئیٹر (مواد کا تخلیق کار) کے اوارڈ سے نوازتے ہیں، ہے نا مزے کی بات اور تخلیقیت بھی کیسی؟ 

لپ سنکنگ جس میں آدمی الفاظ کے مطابق ہونٹ ہلانے اور ایکسپریشن دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا۔

۔۔۲۱- ماحول سے متاثر ہونا ... انسان اپنے ماحول کا پروردہ ہوتا ہے تو وہ جو چیز اپنے اردگرد دیکھتا ہے کرتے ہوئے وہی کرنا شروع کر دیتا ہے، تو کمپنیاں صرف صارف کی پسند کا خیال نہیں رکھ رہی ہوتیں؛ بلکہ کچھ ایجنڈوں کے ساتھ وہ ایڈورٹائزنگ وغیرہ کے ذریعے ہمارے خواہشات کو کنٹرول بھی کررہی ہوتی ہیں، پھر جب انسان اس برائی کو معاشرے میں عام دیکھتا ہے تو خود بھی اس میں ملوث ہوجاتا ہے۔

۔۔۲۲- عدم مقصدیت ... چونکہ اس کی زندگی کا کوئی خاص مقصد ہے نہیں؛ اسی لیے وہ اپنی زندگی بس انٹرٹینمنٹ اور تفریح کے حوالے کردیتا ہے، کل ملا کر ان ایپس کے ایڈکشن کی وجہ ہے ہر قسم کی ویڈیوز مثلاً انٹرٹینمنٹ، معلوماتی، جذباتی، شہوانی، اخلاقی اور جمالیاتی ویڈیوز کا ایک ہی جگہ سمٹ کر آجانا، اسی طرح یہ ایپس لپ سنکنگ کے ذریعے اپنے جذبات کے اظہار اور ایکٹنگ کے ذریعے اپنے ٹیلینٹ کے مظاہرہ کا موقع بھی فراہم کررہی ہوتی ہیں

۔۔۲۳- مشن ... پب جی اور فری فائر گیم میں مذکورہ وجوہات کے ساتھ ساتھ اس کو ایک مشن بھی دیا جاتا ہے اور انسان کی فطرت ہے مقصدیت، وہ بغیر مقصد اور مشن کے زیادہ دن خوشی خوشی نہیں گزار سکتا خواہ وہ فیک اور غلط ہی کیوں نہ ہو، اب پب جی اور فری فائر ان کو وہ مقصد اور مشن فراہم کررہا ہے۔

۔۔۲۴- جذبہٴ تقابل ... ہم ایک حاص زندگی جینے لگے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی زندگیوں کی سب سے بہترین چیزوں اور لائف اسٹائل کو لے کر خواہ وہ مصنوعی اور فیک کیوں نہ ہو اپنی زندگی کی سب سے بدترین چیزوں سے موازنہ کررہے ہوتے ہیں، اور وہ لوگ پھر اپنے لیے اس شخص کو آئیڈیل بنالیتے ہیں مطلب ان کی زندگی کی کمیاں اور ہماری زندگی کی خوبیاں ہماری نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں، جس کا نتیجہ عموماً ڈپریشن اور مایوسی کی صورت میں باہر آتا ہے۔

۔۔۲۵- باطل نے ہر لفظ کا مفہوم بدل کر رکھ دیا ہے ... یہ باطل کا سب سے بڑا حربہ ہے کہ وہ یا تو کسی برائی کو اچھے نام سے تبدیل کر دیتے ہیں مثلاً ایک لفظ ہے رنڈی دوسرا لفظ ہے طوائف، تیسرا ہے ویشیا، چوتھا لفظ ہے پروسٹیٹیوٹ اور پانچواں لفظ ہے اسکورٹ اور پانچوں کے معنی ایک ہی ہیں؛ لیکن ہر لفظ سے پیدا ہونے والی قباحت کو اپنے ذہنوں میں لائیے آسمان زمین کا فرق نظر آئے گا اسی طرح لفظ وہی ہے؛ مگر اس کے مفہوم کو بدل دیا جاتا ہے جیسے اسلام کو انفرادیت میں محدود کردینا، ڈانس کو کلچر کا حصہ بنانا، انٹرٹینمنٹ میں فحاشی کا مفہوم شامل کردینا وغیرہ، اور اس کام کے لیے انہوں نے ٹیکنالوجی کا بہت موثر استعمال کیا ہے 

 اس کے مضر اثرات 

۔۔(۱) عدم ارتکاز ... اتنی ساری مشغولیات اس کی زندگی میں ہیں کہ وہ کسی ایک چیز پر چاہ کر بھی فوکس نہیں کرسکتا۔

۔۔(۲) جہل میں اضافہ ... آج کم وقت میں ہم کو ڈھیر ساری معلومات حاصل ہورہی ہوتی ہیں جو ہمیں بہت زیادہ معلوماتی آدمی تو بناتی ہیں؛ مگر ان معلومات کی پروسیسنگ اور تجزیے کا وقت ہی نہیں ملتا جو کہ علم کی بنیاد ہے تو ہم معلومات فراہم کر رہے ہیں مگر علم والے نہیں بن پارہے ہیں۔

۔۔(۳) جہل مرکب ... وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میرے پاس جتنی معلومات ہیں اتنی کسی اور کے پاس نہیں ہیں؛ لہٰذا میں سب سے بڑا عالم ہوں مجھے سب کچھ آتا ہے؛ حالاں کہ اس کی حیثیت گدھے پر لدے کتابوں سے زیادہ کچھ نہیں؛ اسی لیے میں اس انفارمیشن کو انفارمیشن نیوکلیئر بم کہا کرتا ہوں جس نے انسان کے ذہن کو تباہ و معطل کرکے رکھ دیا ہے۔

   فرینکلن یونیورسٹی شکاگو کی رپورٹ کے مطابق اب انسان کی عام توجہ کا عرصہ گھٹ کر صرف آٹھ سیکنڈ رہ گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے انفارمیشن اور معلومات کی بھرمار۔

۔۔(۴) ڈپریشن اور مایوسی ... پھر اس نے اپنی مصنوعی زندگی میں ملنے والی گالیوں، غلط رویوں اور چھوٹے چھوٹے واقعات اور پریشانیوں کو اپنے اوپر سوار کرلیا اور یوں وہ ڈپریشن کا شکار ہوگیا۔

۔۔(۵) سیلفش ... اس کو اپنے خیالات و مشغولیات اور انٹرٹینمنٹ سے اتنی فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی اور کے بارے میں سوچے۔

۔۔(۶) بدزبانی ... مصنوعی دنیا کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں کوئی دیکھ ریکھ کرنے والا تنبیہ کرنے والا روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا پھر وہاں ایک شریف انسان بھی وحشی بھیڑیا بن جاتا ہے، غلاظت انڈیلتا ہے، حقیقی دنیا میں جو نہیں کر پاتا وہ وہاں کرنے کی کوشش کرتا ہے، ماں بہن کی گالیاں نکالتا ہے، اپنے مخالف کو ریپ کی دھمکیاں دیتا ہے۔

۔۔(۷) تشدد ... واٹس ایپ ، فیس بک ، ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے، نفرت بھرے مواد اور ویڈیوز دکھا کر کے فرقہ پرست انتہا پسند طاقتیں اس کے اندر تشدد کو جنم دے رہی ہوتی ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا اتنا اچھا ہنسنے کھیلنے والا بھائی یا بیٹا اتنا زہرناک ہوچکا ہے اسی طرح پب جی گیم میں گولی مارنے کی عادت خود انسان کو حقیقی زندگی میں غیر محسوس طور پر متشدد بنا رہی ہوتی ہے۔

۔۔(۸) منشیات کا عادی بننا ... انسان جب اپنے ذہن میں بنائے ہوئے کامیابی کے معیار پر اترتے ہوئے لوگوں کو نشہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ خود بھی ان کی اقتداء میں نشے کا عادی بن جاتا ہے۔

۔۔(۹) خیر و شر کا خلط ملط ہو جانا ... اب خیرِ محض کا تصور مٹنے لگا ہے، چاہے ہم خیر کی نیت سے ہی کیوں نہ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہوں ہمیں خواہی نہ خواہی شرکا سامنا کرنا پڑتا ہے، ٹکنالوجی اسی الگورتھم پر کام کررہی ہے۔

۔۔(۱۰) احساس کمتری ... وہ چاہتا ہے تعریف اور توجہ، مگر یہ بسا اوقات نہیں مل پاتی نیز تقابل میں ہمیشہ اپنے اوپر والوں کو سامنے رکھنا اسے احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے 

۔۔(۱۱) تنہائی ... چوں کہ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دنیا ہے جس میں بظاہر تو لگتا ہے کہ وہ بہت سے دوستوں سے جڑا ہوا ہے؛ مگر وہ بس عارضی ہوتا ہے، اور انسان جسمانی قرب کا محتاج ہوتا ہے تو یہ فکر اس کو اندر سے کھائے جاتی ہے کہ جب حقیقتاً ضرورت پڑے گی تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگا 

۔۔(۱۲) عدم توازن ... اس اسکرین لائف کی وجہ سے اس کی زندگی کے ہر حصے سے توازن ختم ہوگیا مثلاً موبائل میں مشغولیت کی بنا پر اس نے بیوی بچوں والدین کو کم وقت دینا شروع کیا اور یوں فیملی سسٹم تباہ ہوکر رہ گیا۔

۔۔(۱۳) خودکشی ... اور اسی عدم توازن، ڈپریشن، اور احساس کمتری وغیرہ جیسی وجوہات کی بنا پر ڈبلیو ایچ او (WHO)کے مطابق 1999 سے 2019 تک خودکشی کی شرح میں ٪33 کا اضافہ ہوگیا ہے اور ہر سال سات لاکھ لوگ خودکشی کررہے ہیں اور خودکشی کی کوشش کرنے والوں اور سوچنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

۔۔(۱۴) پرائیویسی خطرے میں ... ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ کوئی نہیں دیکھ رہا مگر انٹرنیٹ پر کی گئی ہر چیز کا ڈیٹا محفوظ رہتا ہے اور ہماری پرائیویسی بس نام کی پرائیویسی رہ گئی ہے۔

۔۔(۱۵) بلیک میلنگ ... مجھے غالب گمان ہے اس بات کا کہ جتنے بھی بڑے ایکٹوسٹ اور قائد قسم کے لوگ ہیں جب یہ ان حکومتوں اور کمپنیوں کے لیے درد سر بن جاتے ہوں گے تو یہ انھیں ڈیٹا (مثلاً غلطی سے فحش مواد دیکھنا، پرسنل معلومات وغیرہ وغیرہ) کے ذریعے سے ان کو بلیک میل کرکے خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہوں گے، اور اسی وجہ سے اس وقت دنیا کی سب سے ابھرتی ہوئی سونے سے بھی زیادہ قیمتی شئی ڈیٹا انڈسٹری ہے جس کا مارکیٹ سائز 2022 میں 274 بلین ڈالر تک ہو جائے گا۔

 خلاصہ یہ کہ اس ٹیکنالوجی نے پہلے انٹرٹینمنٹ کا معنی و مفہوم ہمارے نظروں میں تبدیل کیا اور اسے جسمانی حرکت سے جسمانی جمود میں شفٹ کیا پھر انٹرٹینمنٹ اور اسکرین کا تناسب ہماری زندگیوں میں غیر معمولی حد تک بڑھا دیا، اور پھر خیر و شر کو خلط ملط کردیا، اور یوں ہمارا نوجوان یعنی مابعدِ جدیدیت والی نسل ذہنی، تعلیمی، تفریحی، اخلاقی غرض ہر سطح پر ڈسرپشن کش مکش اور انتشار کا شکار ہے اور اب یہ ٹکنالوجی میٹاورس کے ذریعے اپنے عروج و انتہا کوپہنچنے والی ہے

مضر اثرات سے اپنے نوجوانوں کو کیسے بچایا جائے؟

 ۔۔۱- انھوں نے گناہ کرنے کو آسان بنایا ہے ہمیں اسے مشکل بنانا ہے

 ۔۔۲- تعلیم کو انٹرٹینمنٹ کی شکل میں پیش کرنا ہے

۔۔۳- اس کی خوشی کے مفہوم کو پھر سے تبدیل کرنا ہے

۔۔۴- ہمیں اپنے نوجوانوں کو مقصد اور مشن دینا ہے

۔۔۵- اس کے آئیڈیل اور ہیرو کو بدلنا ہے ... انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کو اپنا ہیرو بناتا ہے اور سب سے بڑا ہیرو وہ ہوتا جس نے سب سے بڑی پریشانیوں کو سامنا کرکے اس کو مات دی ہو تو ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ اور تجزیہ کرکے ان کو بطور ہیرو پیش کرنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کتنی مشکلات تھیں اور انہوں نے کیسے ان سب سے ڈیل کیا۔

۔۔۶- مظاہر تبدیل کیے جائیں کیوں کہ مظاہر دل و دماغ کو بدلنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

۔۔۷- ان کو رئیل لائف میں اتنا مشغول کیا جائے کہ ریل لائف کے صحیح استعمال کے علاوہ غلط استعمال کا اس کو موقع ہی نہ ملے، کیوں کہ یاد رکھیں جب تک اسکرین پر ہے، وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے۔

۔۔۸- کل ملاکر ہمیں بھی نفس کی انھیں نفسیات کا مطالعہ کرکے ان فطری خواہشات کو خیر کی طرف موڑنا ہے، ٹیکنالوجی کے ذریعے اسے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہے اور اسی پر مزید ریسرچ اور فیلڈ ورک کے لیے ہم نے پروجیکٹ ”تقویتِ امت“ لانچ کیا ہے، دعا فرمائیں کہ رب کریم اخلاص و للہیت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطافرمائے اور لوگوں کے دلوں کو امت محمدیہ کی ترقی کے لیے مسخر فرمادے

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106‏

Darul Uloom Deoband, India

Comments