22) دل کا ذکر


دل کا زکر

ذکرِ خفی یا ذکر قلبی کا مطلب ہے اللّٰه پاک کو دل کی دھڑکنوں کے ساتھ یاد کرنا ۔ ذکرِ قلبی کے حامل کو ذاکرِ قلبی کہا جاتا ہے ۔

ذکر خفی سے مراد وہ ذکر جو مخفی اور پوشیدہ ہو حضرات نقشبندیہ کے ہاں ذکر خفی سب سے افضل ہے اسے ذکر قلبی اور دوامی بھی کہا جاتا ہے ۔ ذکر اللّٰه خواہ قلبی ہو یا زبانی انفرادی ہو خواہ اجتماعی، اس کی فضیلت و اہمیت مسلم ہے ۔ اگر اللّٰه تعالیٰ کسی بندے پر خصوصی فضل فرمانا چاہے اور اپنے حضور اسے خوش قسمت بندہ لکھ دے اور اس کو یہ توفیق دے کہ ہر وقت زبانی ذکر بھی کرتا رہے اور اس کا دل بھی اسی کے موافق ذکر میں شاغل رہے اور اسے زبانی ذکر سے قلبی ذکر کی طرف ترقی حاصل ہو جائے ۔ یہاں تک کہ اگر زبان خاموش ہو پھر بھی دل خاموش نہ ہو اسی کو ذکرِ کثیر کہا جاتا ہے ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی ﷺ  کے ساتھ جا رہے تھے ۔ لوگ بلند آواز سے اللّٰه اکبر ، اللّٰه اکبر کہنے لگے تو نبی پاک ﷺ  نے فرمایا اے لوگو ! اپنے اوپر نرمی کرو  تم کسی بہرے کو پکار رہے ہو نہ غائب کو تم سمیع اور قریب کو پکار رہے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے . تفسیر خزائن العرفان میں سورۃ البقرہ آیت 152 کے ذیل میں لکھا ہے فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ذکر تین طرح کا ہوتا ہے۔

لسانیقلبیبالجوارح  ذکر لسانی تسبیح، تقدیس، ثناء وغیرہ بیان کرنا ہے خطبہ توبہ استغفار دعا وغیرہ اس میں داخل ہیں ۔ ذکر قلبی اللّٰه تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد کرنا اس کی عظمت و کبریائی اور اس کے دلائل قدرت میں غور کرنا علما کا استنباط مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہیں ۔ ذکر بالجوارح یہ ہے کہ اعضاء طاعت الہٰی میں مشغول ہو . جیسے حج کے لیے سفر کرنا یہ ذکر بالجوارح میں داخل ہے نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے تسبیح و تکبیر ثناء و قراءت تو ذکر لسانی ہے اور خشوع و خضوع اخلاص ذکر قلبی اور قیام ، رکوع و سجود وغیرہ ذکر بالجوارح ہے ۔ ابن عباس نے فرمایا  اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے تم طاعت بجالا کر مجھے یاد کرو میں تمہیں اپنی امداد کے ساتھ یاد کروں گا صحیحین کی حدیث میں ہے کہ اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر بندہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو ایسے ہی یاد فرماتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔ قرآن و حدیث میں ذکر کے بہت فضائل وارد ہیں اور یہ ہر طرح کے ذکر کے بارے میں ہیں 

امام احمد بن حنبل، ابن حیان، بیہقی رحمۃ اللّٰه علیہم وغیرہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا

                                خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ، وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي

            ”بہترین ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لیے کافی ہو جائے“

       اذْكُرُوا اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرًا خَامِلًا»  قَالَ    فَقِيلَ: وَمَا الذِّكْرُ الْخَامِلُ؟ قَالَ:الذِّكْرُ الْخَفِيُّ

        اللَّهَ کو یاد ذکر خامل کے ساتھ کرو پوچھا گیا ذکر خامل کیا ہے فرمایا ذکر خفی ہے

حدیث شریف میں منقول ہے کہ وہ ذکر خفی ستر درجہ افضل ہے جسے حفظہ (یعنی اعمال لکھنے والے فرشتے) بھی نہیں سنتے چنانچہ قیامت کے دن جب اللّٰه تعالیٰ تمام مخلوق کو حساب کتاب کے لیے جمع کرے گا تو حفظہ (اعمال لکھنے والے فرشتے) وہ تمام ریکارڈ لے کر حاضر ہوں گے جنہیں انہوں نے اپنی نوشت اور یادداشت میں محفوظ کر رکھا ہو گا وہ تمام ریکارڈ دیکھ کر اللّٰه تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندوں کے اعمال میں اور کیا چیز باقی رہ گئی ہے (جو تمہارے اس ریکارڈ میں نہیں ہے) وہ عرض کریں گے  پروردگار!بندوں کے اعمال کے سلسلہ میں جو کچھ بھی ہمیں معلوم ہو اور جو کچھ بھی ہم نے یاد رکھا ہم نے اسے اس ریکارڈ میں جمع کر دیا ہے اس ریکارڈ میں ہم نے ایسی کوئی چیز محفوظ کرنے سے نہیں چھوڑی جس کی ہمیں خبر ہوئی ہو تب اللّٰه تعالیٰ بندہ کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ میرے پاس تیری ایسی نیکی محفوظ ہے جسے کوئی نہیں جانتا اور وہ ذکر خفی ہے میں تجھے اس نیکی کا اجر عطا کروں گا۔

محقق و محدث کبیرحضرت ملا علی قاری رحمۃ اللّٰه علیہ نے حدیث ابوالدرداء بیان کی ہے۔

عَنْ اَبِی الدَّرْدآءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُا للّٰه صلّی اللّٰه علیہ وسلم اَلا اُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ اَعْمَالِکُمْ وَ اَزْکٰہَا عِنْدَ مَلیْککُمْ وَاَرْفَعِہَا فیْ دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّنْ اِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالْوَرْقِ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّن اَنْ تَلْقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا اَعْنَاقِہُمْ وَیَضْرِبُوْا اَعْنَاقَکُمْ قَالُوْا بَلیٰ قَالَ ذِکْرُ اللّٰه

حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے بہتر عمل کی خبر نہ دوں جو تمہارے رب کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہو جو تمہارے اعمال میں سب سے بلند مرتبہ ہو جو تمہارے سونا اور چاندی کے خیرات کرنے سے زیادہ اچھا عمل ہو جو تمہارے لیے اس عمل سے بھی بہتر ہو کہ تم دشمنوں سے مقابلہ کر کے انہیں قتل کرو اور وہ تمہارے گردنوں پر وار کریں ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول ﷺ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ اللّٰه تعالیٰ کا ذکر ہے ۔ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللّٰه علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اَلْمُرَادُ الذِّکْرُ الْقَلْبِیُّ فَاِنَّہٗ ھُوَ الَّذِیْ لَہُ الْمَنْزِلَۃُ الزَّائِدَۃُ عَلیٰ بَذْلِ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ لِاَنَّہ عَمَلُ نَفْسِیُّ وَفِعْلُ الْقَلْبِ الَّذِیْ ھُوَ اَشَقُّ مِنْ عَمَلِ الْجَوَارِحِ بَلْ ھُوَ الْجِہَادُ الْاَکْبَرُ  اس ذکر سے ذکر قلبی مراد ہے ۔ یہی وہ ذکر ہے جس کا مرتبہ جان و مال خرچ کرنے سے بھی زیادہ ہے ۔ کیونکہ یہ باطنی عمل ہے اور دل کا عمل ہے جو دوسرے اعضاء کے اعمال سے نفس کے لیے زیادہ سخت ہے۔ بلکہ یہی جہاد اکبر ہے۔

 صحیح البخاری رقم الحدیث :6409 صحیح مسلم رقم الحدیث، 2704، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :1526، سنن الترمذی رقم الحدیث :3472

 تفسیر خزائن العرفان نعیم الدین مراد آبادی،سورۃ البقرہ،آیت 152

 الزهد والرقائق حدیث155 المؤلف : عبد الله بن المبارك الناشر : دار الكتب العلميۃ ۔ بيروت

 تفسیر معارف القرآن ۔ مفتی محمد شفیع الاعراف آیت 55

 تفسیر معارف القرآن  ۔ مولاناادریس کاندہلوی سورۃ البقرہ 172

 مسند أبي يعلى، أحمد بن علي بن المثُنى،الموصلي، حدیث نمبر4738،الناشر : دار المأمون للتراث ۔ دمشق

 مشکواۃ المصابیح صفحہ 198

 مرقاۃ المفاتیح صفحہ نمبر 22 جلد ثالث

     

Comments