مسیلمہ کذاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا کہنے لگا میرے ساتھ معاہدہ کر لیں مجھے جب تک آپ حیات ہیں آپ نبی ہیں
جب آپ کی وفات ہو جاٸے تو میں نبی۔۔۔ یا یہ معاہدہ کر لیں کہ آدھے عرب کے آپ نبی آدھے عرب کا میں نبی۔۔۔معاذاللہ
اس کے خط پر نبی ﷺ نے جواب میں لکھا میں تو اللہ کا رسول ہوں لیکن تو کذاب ہے۔۔۔جھوٹا ہے۔۔۔
جب نبی پاک نے خط میں کذاب لکھا تو فرمانے لگے کون لے کے جاٸے گا
ایک صحابی تھے چھابڑی فروش۔۔۔۔سر پر ٹوکرا رکھ کے مدینے کی گلیوں میں کجھوریں بیچتے تھے۔گیارہ بارہ بچوں کے باپ تھے جسمانی طور پر بھی کمزور تھے۔کجھور کھا رہے تھے فٹافٹ اٹھے ہاتھ کھڑا کر کے کہا حضور کسی اور کی ڈیوٹی نا لگانا میں جاؤنگا جب یہ لفظ کہے تو ان کے منہ سے کجھور کے ٹکڑے صحابہ کے چہروں پر گرے ایک صحابی کہنے لگا پہلے کھجور تو کھالے بڑی جلدی ہے تجھے بولنے کی۔۔کہنے لگے اگر کھاتے کھاتے ڈیوٹی کسی اور کی لگ گٸی تو کیا کرونگا مجھے جلدی ہے۔۔
حضور ﷺ نے اپنا نیزہ دیا,گھوڑا دیا,اور فرمایا کہ ڈٹ کے جانا اس کے گھر جانا ہے۔
صحابی کہنے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم آپ فکر ہی نا کریں۔صحابہ کہتے ہے اس طرح وہ نکلا جیسے کوٸی جرنیل نکلتا ہے,اس کا انداز ہی بدل گیا اس کے طور طریقے بدل گٸے وہ یوں نکلے جیسے کوٸی بڑا دلیر آدمی جاتا ہے۔
مسیلمہ کذاب کے دربار میں گٸے وہاں ایک شحض جو بعد میں مسلمان ہوا وہ بتلاتا ہے جب حضرت حبیب بن زید پہنچے تو اپنا نیزہ زور سے دربار میں گاڑا , مسیلمہ کذاب کہتا ہے کون ہو؟
آپ فرمانے لگے تجھے چہرہ دیکھ کے پتہ نہیں چلا کہ میں رسول اللہﷺ کا نوکر ہوں
ہمارے تو چہرے بتاتے ہے کہ نبی ﷺ والے ہے۔۔۔تجھے پتہ نہیں چلا میں کون ہوں۔ مسیلمہ کذاب کہنے لگا کیسے آٸے ہو فرمایا یہ تیرے خط کا جواب لے آیا ہوں بادشاہوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خط خود نہیں پڑھتے تھے ساتھ ایک بندہ کھڑا ہوتا تھا وہ خط پڑھتا تھا تو مسیلمہ کذاب نے خط اس کو دیا کہ پڑھو۔۔جب اس نے خط پڑھا تو لکھا تھا تو کذاب ہے سب نے سن لیا اکیلے میں ہوتا تو بات اور تھی آگ بگولہ ہو گیا انکھیں سرخ ہو گٸیں سامنے حضرت حبیبؓ کھڑے تھے اٹھا اور تلوار لے کے کہنے لگا تیرے نبی نے مجھے کذاب کہا ہے تیرا کیا خیال ہے۔
حبیب فرمانے لگے خیال والی بات ہی کوٸی نہیں جسے میرا نبی کذاب کہے وہ ہوتا ہی کذاب ہے ۔ تو سات سمندروں کا پانی بھی بہا دے تو بھی تیرا جھوٹ نہیں دھل سکتا , مسیلمہ کذاب کہنے لگا تو پیچھے پلٹ کے دیکھ سارے میرے سپاہی میرے پہرےدار ہیں تلواریں,نیزے,حنجر,تیر سب تیرے پیچھے کھڑے میرے ماننے والے ہے۔۔
حضرت حبیب بن زید فرمانے لگے میرے بارہ بچے ہیں ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو دودھ پیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جنہوں نے ابھی چلنا نہیں سیکھا۔میں جب رسول اللہﷺ کا پیغام لے کے نکلا تھا تو میں نے پلٹ کے بچے نہیں دیکھے تو تیرے پہرہدار کیسے دیکھ لو,جو جی میں آتا ہے کر ۔ محمد ﷺ کے غلام جان دینے سے نہیں ڈرتے۔۔۔مسیلمہ اٹھا اس نے زور سے تلوار ماری بازو کٹ کے گر گیا کہنے لگا اب بول اب تیرا کیا خیال ہےآپ فرمانے لگے تو بڑا بیوقوف ہے ہمیں آزماتا ہے ہمیں تو بدر سے لے کر احد تک سب آزما چکے ہیں تو ابھی بھی خیال پوچھتا ہے میرا خیال وہی ہے جو میرے نبی ﷺ نے فرمایا پھر تلوار ماری دوسرا ہاتھ کٹ گیا کہنے لگا میں تجھے قتل کر دونگا باز آجا آپ فرمانے لگے تو بڑا نادان ہے ان کو ڈراتا ہے جو فجر کی نماز پڑھ کے پہلی دعا ہی شہادت کی مانگتے ہے جو کرنا ہے کر لے اس نے تلوار گردن پر رکھی کہنے لگا میں کاٹ دونگا۔۔۔
حبیب فرمانے لگے کاٹتا کیوں نہیں۔۔۔
روایت کرنے والا فرماتا ہے مسیلمہ کذاب ملعون کے ہاتھ کانپے تھے۔تلوار چلاٸی گردن کٹ گٸی ادھر گردن کٹی ادھر مدینے میں حضورﷺ کی انکھوں میں آنسو آٸے یا رسول اللہ ﷺ کیا ہوا فرمایا میرا حبیب شہید ہو گیا ہے اور رب کریم نے اس کے لٸے جنت کے سارے دروازے کھول دٸیے ہیں۔۔
حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب رضی اللہ عنہ کو کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں؟
حضرت حبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟
حضرت حبیب رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیب رضی اللہ عنہ کی جان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا
(اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج:۱،ص:۴۲۱ طبع بیروت)
Comments
Post a Comment