109) امت کی کامیابی و کامرانی کا راستہ

 


امت کی کامیابی و کامرانی کا راستہ

اس امت کے آخری حصے کی اصلاح بھی بس اسی چیز سے ہوسکتی ہے جس سے اس کے پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی۔‘‘ ربع صدی سے یہاں سب کچھ آزمایا جا چکا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے فرائضِ منصبی قرآن حکیم نے چار مقامات پر حضرت خاتم الا نبیاء جناب رسول اللہ ﷺ کے چار منصب بیان فرمائے ہیں

۔ 1) آیات پڑھ کر سنانا

۔ 2) تز کیہ کرنا، یعنی کفر و شرک، بد عملی و بد اخلاقی اور امورِ جاہلیت سے ان کو پاک و صاف کرنا

۔ 3) کتاب اللہ کے احکام کی تعلیم دینا اور اس کے مضامین کی تشریح کرنا

۔ 4) حکمت و دانائی، احکام کے علل و غایات اور شریعت کے اصول و مقاصد کی تعلیم دینا۔  تزکیہ سے مراد عقائد و نظر یات اور اعمال و اخلاق کی پاکیزگی ہے، قرآن کریم نے تین مقامات پر تزکیہ کا ’’تعلیم‘‘ سے مقدم ذکر فرمایا، جس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بقدر ضرورت تزکیہ تعلیم سے پہلے ہونا چاہیے، تعلیم اسی وقت مفید اور بار آور ہو سکتی ہے جبکہ قلوب میں اس کے قبول کرنے کی اہلیت اور جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہو، زمین کو پہلے کاشت کے قابل بنایا جائے، پھر تخم ریزی کی جائے . تزکیہ حضرت خاتم الا نبیاء ﷺ کے فیضانِ صحبت اور مکارم اخلاق سے حاصل ہوتا تھا اور اب بھی بقدرِ استعداد اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے ربط و تعلق اور ان کی صحبت اور مجالست سے حاصل ہو سکتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ تعلیم کتاب و حکمت سے بھی اصل مقصود تزکیہ ہے، یہ نہ ہو تو ساری تعلیم بیکار ہے، اعمال و اخلاق کے بغیر علوم و معارف کی حق تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر نہیں، آدمی ساری دنیا کی کتابیں چاٹ لے لیکن اگر انسانی اخلاق اور ایمانی اعمال نہیں تو پڑھا لکھا جانور تو ہو سکتا ہے مگر انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔ تز کیہ کے بغیر نہ ایمان میں رسوخ کی کیفیت اور یقین و اطمینان کی قوت پیدا ہو گی نہ اخلاق درست ہو سکیں گے، نہ اخلاص کی دولت ملے گی ،نہ اعمال پر مداومت نصیب ہوگی، نہ اندر کا فرعون (مکار نفس) ہلاک ہوگا ،نہ مخلوق سے لڑائی بند ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں 

’’تعلمنا الإیمان ثم تعلمنا القرآن‘‘ (سنن ابن ماجہ) 

کہ : ’’ ہم نے پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا۔‘‘

 یہ ایمان کا سیکھنا ہی تزکیہ کہلا تا ہے کہ قلب غیر اللہ کے بتوں سے پاک ہو، اعمال ریا وغیرہ سے پاک ہوں اور نفس کمینے اخلاق سے پاک ہو، معاشرہ امور جاہلیت سے پاک ہو، کمائی حرام اور مکروہ ذرائع سے پاک ہو، وغیرہ۔  یہی تز کیہ تھا جس کی وجہ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی بشارتوں سے نوازا اور انہیں آسمانی وحی کی شہادت اور سند ملی۔ 

سورۂ فتح میں ان کے امتیازی اوصاف ذکر کرتے ہوئے ایک وصف باہمی رحمت و شفقت ذکر کیا گیا ہے: ’’رحماء بینھم‘‘ یہ وصف کامل تز کیہ کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے اور اسی کو نہ سمجھنے کی خرابی ہے کہ صحابہ سے بد گمانی پیدا ہوتی ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے صحابہ کرام کا پہلا وصف یہی بیان فرمایا

’’أبرُّھم قلبًا‘‘ کہ ان کے دل بہت پاک صاف تھے 

دوسرا وصف بیان فرمایا : ’’وأعمقھم علمًا‘‘ ان کا علم بڑا گہرا تھا

تیسرا وصف بیان فرمایا: ’’وأقلھم تکلفًا‘‘ ان کی زندگی تکلفات اور تصنع سے پاک تھی۔ (مشکوۃ) 

 حضراتِ صوفیاء اور اشاعت ِدین حضرات صو فیاء کرام جن کے ذریعہ دین کی تبلیغ و اشاعت سلاطین کی تلوار اور علماء کے قلم سے بھی زیادہ ہوئی ہے، ان کا خاص موضوع یہی ہے کہ نفوس کی تر بیت اور اخلاق کا تز کیہ کیا جائے

ان کے یہاں بھی تربیت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے جذب ہو پھر سلوک، اسی کانام مجذوب سالک رکھتے ہیں۔ بظاہر یہ طریقہ اقرب الی القرآن ہوگا، البتہ قرآن کریم میں صرف ایک جگہ جہاں آنحضرت ﷺ کے بارے میں حضرت ابراہیم کی دعا نقل فرمائی ہے، آنحضرت ﷺ کے ان چار مناصب میں سے تزکیہ کو کتاب و حکمت کی تعلیم کے بعد سب سے آخر میں رکھا ہے ، اس سے ایک تو اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کا اول و آخری مقصد تز کیہ ہے، دوسرے اس طرف اشارہ ہے کہ تزکیہ بقدر ضرورت تو تعلیم سے پہلے ہونا چاہیے، مگر کا مل تزکیہ کی نوبت علم کے بعد ہی آسکتی ہے، یعنی علم کے بعد عمل ہوگا اور علم ہی ذریعہ بنے گا عمل کا، گویا اس آیت میں تربیت کا دوسرا طریقہ بیان فرمایا ہے جو حضرات صوفیاء کے یہاں سالک مجذوب کہلاتا ہے، لوگوں کی استعدادیں مختلف ہوتی ہیں، کسی کو تعلیم کے بعد بھی تزکیہ کی ضرورت رہتی ہے اور کسی کو تزکیہ کے بعد تعلیم کی حاجت ہوتی ہے۔ نہ تزکیہ کے مراتب ختم ہوتے ہیں، نہ تعلیم کی انتہا ہے

 خلاصہ یہ کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کا منصب صرف تعلیم اور سمجھانا ہی نہیں تھا، بلکہ اس کی تعمیل کرانا اور قوم کو ایک باعمل امت بنانا بھی تھا، جب تک آنحضرت ﷺ کے دیئے ہوئے نقشہ کے مطابق تعلیم و تربیت پر محنت نہیں ہوتی اور افراد کی اصلاح کے ذریعہ ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ وجود میں نہیں آتا سیاسی محنت صحیح طریق پر بارآور نہیں ہوگی تو تمام قوتیں شر و فساد کی نذر ہو جائیں گی۔ اسلامی سیاست اور موجودہ سیاست دینی تربیت کے فقدان ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ باوجود یہ کہ تمام زعماء اور سیاسی لیڈر اسلامی خدمت کا اعلان فرما رہے ہیں اور ملک و ملت کی صحیح نمائندگی کا دم بھرتے ہیں، یقینا ان میں سے بعض حضرات مخلص بھی ہوں گے اور وہ اسلام کے نام کو محض اقتدار طلبی کے لیے استعمال نہیں کرتے ہوں گے، لیکن ان اسلامی نمائندوں کی اکثریت اس بات سے بھی واقف نہیں کہ جس اسلام کا ہم نام لیتے ہیں

 اسی اسلام نے سیاست کے بھی کچھ آداب تجویز کیے ہیں اور بے ہنگم سیاست بازی پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں، مثلاً موجودہ سیاست کی بنیاد ہی اس بات پر قائم ہے کہ ایک شخص اقتدار طلبی کے لیے کھڑا ہو، اپنی پارٹی بنائے، اپنا پروگرام قوم کے سامنے رکھے اور قوم سے اپیل کرے کہ اس کو ووٹ دے کر کرسیِ اقتدار پر فائز کیا جا ئے، اس کے بعد وہ جانے اور قوم کے مسائل ..۔ اب دیکھیے کہ اسلام اقتدار طلبی کے مزاج ہی کی جڑ کاٹ دیتا ہے، اسلام اقتدار کی خواہش کو پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ یہ ذمہ داری معاشرہ پر ڈالتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو آگے لائے جو: ’’لَایُرِ یْدُوْنَ عُلُوًّا فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا۔ (القصص:۸۳) ’’جو نہیں چاہتے زمین میں اونچا ہونا اور نہ فساد۔‘‘  کے معیار پر پورے اتر یں۔ آنحضرت ﷺ کسی ایسے شخص کو جو عہدہ کی درخواست لے کر آئے عہدہ نہیں دیتے تھے۔ حضرت عثمان نے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اور منتیں کر کر کے حضرات صحابہ کو عہدے دیئے ہیں 

 حضرت عثمان نے حضرت عبد اللہ بن عمر کو عہدۂ قضاء کی پیش کش کی، انہوں نے انکار کیا، امیر المؤمنین نے فرمایا: تمہارے باپ نے بھی تو قبول کیا تھا، عرض کیا: ان میں ہمت ہو گی مجھ میں نہیں، امیر المؤمنین نے منت و سماجت کی مگر ان کی معذرت غالب آگئی ، حضرت عثمان  نے فرمایا: بہت اچھا مگر کسی اور کو نہ بتانا، ورنہ کوئی بھی اس کے لیے آمادہ نہ ہوگا ۔ حضرت تھانوی کے ملفوظات میں ہے کہ شاہ عبد العزیز کا جامع مسجد دہلی میں وعظ تھا جس میں ایک انگریز بہادر بھی موجود تھا، تقریر کے بعد اس نے مسلمانوں سے سوال کیا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے سلطنت کیوں جاتی رہی؟

 کسی نے کچھ جواب دیا، کسی نے کچھ، اس نے کہا: میں بتاتا ہوں کہ اصلی وجہ یہ تھی کہ اس منصب کے اہل لوگوں نے اس سے گریز کیا اور نااہل لوگ اوپر آگئے اور یہی نا اہلی زوالِ سلطنت کا باعث بنی۔ مسلمانوں کی نمائندگی ہم جانتے ہیں کہ اس زمانہ قحط الرجال میں جس میں انسانوں کی تو افراط ہے مگر آدمی بہت کم ہیں، نہ اسلام کا معیاری معاشرہ ہے نہ معیاری نمائندے مل سکتی ہیں، لیکن کم ازکم اتنا تو ہو کہ جو لوگ اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کریں انھیں میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی، دینی شعائر کا احترام، اسلام کے ضابطہ حیات پر کامل اذعان اور اسلامی اخلاق و اعمال پائے جائیں ،وہ قول کے سچے اور بات کے پکے ہوں، انہیں غریب مسلمانوں کے مسائل کی سمجھ بوجھ اور دینی احکام کا شعور ہو، ملت کے تمام افراد کے یکساں ہمدرد ہو ، وہ اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنیں

ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Comments

Popular posts from this blog

ـ1508🌻) پندرہ غزائیں جن سے قوت مدافعت بڑتی ہیں (انگلش/اردو)

🌅1543) More than 565 .... Topics

۔28🌻) دینی اداروں اور علماء کے سائٹس وغیرہ