119) تاخیر سے شادی بربادی ہی بربادی

تاخیر سے شادی بربادی ہی بربادی 

شادی میں تاخیر کرنا ہمارے معاشرے کا رواج بنتا جارہا ہے۔شادی میں تاخیر کے اصل ذمے دار والدین ہوتے ہیں۔ جو اچھے سے اچھے کی تلاش میں اپنے بچوں کی عمر زیادہ ہونے تک بٹھائے رکھتے ہیں۔ اور کہیں کہیں پر تو خود بچے ذمے دار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہماری نوجوان نسل آج سیٹل ہونے کے چکر میں اپنی جوانی کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں آج کل شادی کے لئے کہا جاتا ہے کہ لڑکا کچھ کمائے، سیٹل ہو تو پھر شادی کر دیں گے۔ اگر ہماری نوجوان نسل مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو قرآن و سنت کی روشنی سے بدل لیں اور وقت پر شادی کرلیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل اور اللہ پاک کی عبادت بھی ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق انہیں جلد ہی سیٹل بھی کر دے گا۔

ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر جب تنگیِ رزق کی شکایت کی تو حضور ﷺ نے انہیں نکاح کا مشورہ دیا۔ جیسا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔“(سورة النور۔32)

اللہ تعالیٰ نے انکے آرام و سکون کے لئے ان کی بیویاں بنائیں ہیں ان کے پاس سکون محبّت اور رحمت رکھ دی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ہے 

( اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاو ۔ اس نے تمہارے درمیان محبّت اور ہمدردی قائم کر دی, یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں)۔“(سورة الروم۔21)

آج نوجوانوں کے پاس اللہ پاک کی نشانیاں دیکھنے اور غور و فکر کرنے کا وقت ہی کہاں ہے؟ بائیس پچیس سال تو تعلیم حاصل کرنے میں گزر جاتے ہیں پھر اگلے دو چار سال ملازمت کی تلاش اور شادی کے لیے پیسہ جمع کرنے میں گزر جاتے ہیں۔ تب تک چہرے کی شوخی رونق کھو کر بڑھاپے کی لکیریں نمایاں ہونے لگتی ہے تب کہیں جاکر والدین اپنے لڑکے کے لیے خوبصورت دلہن کی تلاش شروع کرتے ہیں۔

 ایسے ہی لڑکیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ لڑکیاں بہت زیادہ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے انہیں ویسے ہی لڑکے کی تلاش ہوتی ہے۔اور اگر کوئی امیر زادی کم پڑھے لکھے میڈل کلاس لڑکے سے شادی کرنا چاہے تو یہاں والدین کی انا کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کہیں پر خاندانوں کے مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کئی لڑکیاں تو جہیز کی لعنت کی وجہ سے ساجن کے سپنے سجائے بابل کے آنگن میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف اکثر والدین اپنی بیٹی کے لئے آسمان سے اترے گھوڑے پر سوار کسی شہزادے کی تلاش میں جان بوجھ کر بیٹی کو گھر میں بیٹھائے رکھتے ہیں۔ شادی انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے انسان کو مکمل ہونے کے لیے ایک شریک حیات کی ضرورت ہوتی ہے۔

معاشرے پر غور کرلیں تو پتہ چلے گا دنیا کے آدھے فسادات انسانی کی اسی نفسانی خواہش کے زیر ہوتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اتنا عرصہ کنوارہ رہنے کے دوران معاشرے میں جس قدر بے راہ روی پروان چڑھ رہی ہے اسے کون نہیں جانتا۔ ناجائز تعلقات،افیئر اور غیر شرعی طریقوں سے نوجوان نسل اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اوپر سے بچوں میں انٹرنیٹ اور موبائل کا بے جا استعمال۔ والدین اس بات سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں کہ انکے بچے بارہ پندرہ سال کی عمر سے ہی فیس بک واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ بنا لیتے ہیں لیکن بائیس پچیس سال کی عمر میں بچوں کا نکاح کرنے میں والدین کی جان جاتی ہے۔ ایسے حالات میں تو نکاح کو آسان کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مجموعی طور پر معاشرہ مثبت سمت میں لے جایا جا سکے

آپ کے بچے شرم اور آپ کی عزت کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ پاتے لیکن آپ ان کی شادی میں دیر کر کے نہ صرف ان پر ظلم کرتے ہیں بلکہ ان کی حق تلفی کر رہے ہیں۔ انہیں برائی کی طرف لے جانے کے ذمہ دار بھی بن رہے ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں اس روایت کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ سترہ اٹھارہ سال عمر ہوتے ہی بچے یا بچی کا مناسب رشتہ دیکھ کر یا بچوں کی پسند سے ہی انکا نکاح کر دیا جائے اس سے نہ صرف معاشرتی برائیاں کم ہوں گی بلکہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دوستیوں نے جو شریف گھرانوں کا سکون برباد کیا ہوا ہے اس کا بھی سدباب ہو سکے گا 

Comments