مادیت کا فتنہ اور اُس کا علاج
آج کل دنیا طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، ان سب فتنوں میں ایک بنیادی اور بڑا فتنہ ’’پیٹ‘‘ کا ہے۔ شکم پروری و تن آسانی زندگی کا اہم ترین مقصد بن کر رہ گیا ہے، ہر شخص کا شوق یہ ہے کہ لقمۂ تر اس کی لذتِ کام و دہن کا ذریعہ بنے اور یہ فتنہ اتنا عالمگیر ہے کہ بہت کم افراد اس سے بچ سکے ہیں
تاجر ہو یا ملازم، اسکول کا ٹیچر ہو یا کالج کا پروفیسر، دینی درس گاہ کا مدرس ہو یا مسجد کا امام اس آفت میں سبھی مبتلا نظر آتے ہیں، ہاں فرقِ مراتب ضرور ہے۔ زہد و قناعت، ورع و تقویٰ اور اخلاص و ایثار جیسے اخلاق و فضائل اور ملکات کا نام و نشان نہیں ملتا، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کا پورا عالم ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود حرص ، طمع و لالچ اور زر طلبی و شکم پروری کی بھٹی میں جل رہا ہے اور کرب و اضطراب، بے چینی و بے اطمینانی اور حیرت و پریشانی کا دھواں ہر چہار سمت پھیلا ہوا ہے ۔
دراصل اس فتنۂ جہاں سوز کا بنیادی سبب یہی ہے جس کی نشاندہی رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمائی، آخرت کا یقین بے حد کمزور اور آخرت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور قریباً ختم ہو چکا ہے، مادی نعمتیں اور ان کا تصور اس قدر غالب ہے کہ روحانی قدریں مضمحل ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے آج انسانوں کی چھوٹائی بڑائی، عزت و ذلت اور بلندی و پستی کی پیمائش’’إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ‘‘ کے پیمانے سے نہیں ہوتی، بلکہ’’پیٹ او رجیب‘‘ کے پیمانے سے ہوتی ہے۔ مادیت کے اس سیلاب میں پہلے ایمان و یقین رخصت ہوا، پھر انسانی اخلاق ملیامیٹ ہوئے، پھر اسوۂ نبوت سے وابستگی کمزور ہو کر اعمال صالحہ کی فضا ختم ہوئی، پھر معاشرت و معاملات کی گاڑی لائن سے اتری، پھر سیاست و تمدن تباہ ہوا اور اَب مادیت کا یہ طوفان انسانیت کو بہیمیت کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے۔ افراتفری اور بے اصولی، آوارگی و بے راہ روی اور بے رحمی و شقاوت کا وہ دور دورہ ہے کہ الامان والحفیظ۔
الغرض اس ’’پیٹ‘‘ کے فتنے نے ساری دنیا کی کایا پلٹ کر ڈالی۔ دنیا بھر کے عقلاء ’’پیٹ‘‘ کی فتنہ سامانی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، وہ اس فتنہ کے ہولناک نتائج کا تدارک بھی کرنا چاہتے ہیں، مگر صد حیف کہ علاج کے لیے ٹھیک وہی چیز تجویز کی جاتی ہے جو خود سبب مرض ہے۔ درحقیقت انبیاء علیہ اسلام ہی انسانیت کے نباض ہیں اور انہی کا تجویز کردہ علاج اس مریض کے لیے کار گر ہوتا ہے۔ حضرت محمدرسول اللہ ﷺ نے اس ہولناک مرض کی صحیح تشخیص بہت پہلے فرمادی تھی
چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’واللّٰہ لا الفقرأخشٰی علیکم ولکن أخشٰی علیکم أن تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علٰی من کان قبلکم فتنافسوھا کما تنافسوھا فتھلککم کما أھلکتھم۔‘‘ (صحیح البخاری) ’’بخدا! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعاً نہیں، بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے، جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی، پھر تم پہلوں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اُسے حاصل کرنے کی کوشش کرو، پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا تمہیں بھی برباد کر ڈالے۔
لیجیے! یہ تھا وہ نقطۂ آغاز جس سے انسانیت کا بگاڑ شروع ہوا، یعنی دنیا کو نفیس اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا، پھر آپ ﷺ نے تشخیص پر ہی اِکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے ایک جامع نسخۂ شفاء بھی تجویز فرمایا، جس کا ایک جزء اعتقادی ہے اور دوسرا عملی۔ اعتقادی جزء یہ کہ اس حقیقت کو ہر موقع پر مستحضر رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں، یہاں کی ہر راحت و آسائش بھی فانی ہے اور ہر تکلیف و مشقت بھی ختم ہونے والی ہے
یہاں کے لذائذ و شہوات آخرت کی بیش بہا نعمتوں اور ابد الآباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم اور ہیچ ہیں، قرآن کریم اس اعتقاد کے لیے سراپا دعوت ہے اور سینکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے، سورۃ الاعلیٰ میں نہایت بلیغ، مختصر اور جامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا
’’ بَلْ تُؤْ ثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْآٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّأَبْـقٰی‘‘۔ (الاعلیٰ:۱۶،۱۷)
’’کان کھول کر سن لو! (کہ تم آخرت کو اہمیت نہیں دیتے) بلکہ دنیا کی زندگی کو (اس پر) ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت (دنیا سے) بدرجہا بہتر اور لازوال ہے۔‘‘ اور عملی حصہ اس نسخہ کا یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں مشغول ہوا جائے اور بطور پرہیز کے حرام اور مشتبہ چیزوں کو زہر سمجھ کر ان سے کلی پرہیز کیا جائے اور یہاں کے لذائذ و شہوات میں انہماک سے کنارہ کشی کی جائے۔ دنیا کا مال و اسباب، زن و فرزند، خویش و اقرباء اور قبیلہ و برادری کے سارے قصے زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدر ضرورت ہی اختیار کیے جائیں ان میں سے کسی چیز کو بھی دنیا میں عیش و عشرت اور لذت و تنعم کی زندگی گزارنے کے لیے اختیار نہ کیا جائے، نہ یہاں کی عیش کوشی کو زندگی کا مقصد اور موضوع بنایا جائے۔
آنحضر ت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ إیاک والتنعم، فإن عباداللّٰہ لیسوا بالمتنعِّمین۔‘‘ (مشکوۃ) ’’عیش و تنعم سے پرہیز کرو، کیونکہ اللہ کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے۔‘‘ عجیب متضاد طرزِ عمل تعجب ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کی رائے ہو کہ دودھ، گھی، گوشت، چاول وغیرہ کا استعمال مضر ہے تو اس کے مشورے اور اشارے سے تمام نعمتیں ترک کی جا سکتی ہیں، لیکن خاتم الا نبیاء ﷺ کے واضح ارشادات اور وحی آسمانی کے صاف احکام پر ادنیٰ سے ادنیٰ لذت کا ترک کرنا گوارا نہیں، نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کی آل و اصحاب رضی اللّٰه تعالیٰ عنہم کی زندگی اور معیارِ زندگی کو اول سے آخر تک دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی نعمتوں سے دل بستگی سراسر جنون ہے۔
’’صحیح بخاری شریف‘‘ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کا قصہ مروی ہے کہ کچھ لوگوں پر ان کا گزر ہوا، جن کے سامنے بُھنا ہوا گوشت رکھا تھا، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کو کھانے کی دعوت دی، آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ’’محمد ﷺ ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الاطعمۃ،باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ یأکلون، ج:۲، ص:۸۱۵،ط:قدیمی) مہینوں پر مہینے گزر جاتے، مگر کا شانۂ نبوت ﷺ میں نہ رات کو چراغ جلتا نہ دن کو چولہا گرم ہوتا، پانی اور کھجور پر گزر بسر ہوتی، وہ بھی کبھی میسر آتیں کبھی نہیں، تین تین دن کا فاقہ ہوتا، کمر سیدھی رکھنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے جاتے اور اسی حالت میں جہاد و قتال کے معرکے ہوتے
الغرض زہد و قناعت، فقر و فاقہ، بلند ہمتی و جفاکشی اور دنیا کی آسائش سے بے رغبتی اور نفرت و بیزاری سیرتِ طیبہ ﷺ کا طغرائے امتیاز تھی۔ اپنی حالت کا اس ’’پاک زندگی‘‘ سے مقابلہ کرنے کے بعد ہم میں سے ہر شخص کو شرم آنی چاہئے، ہمارے یہاں سارا مسئلہ روٹی اور پیٹ کا ہے اور وہاں یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، ظاہر ہے کہ یہ زندگی بالقصد اختیار کی گئی تھی، تاکہ آئندہ نسلوں پر خدا کی حجت پوری ہو جائے، ورنہ آپ ﷺ چاہتے تو آپ کو منجانب اللہ کیا کچھ نہ دیا جا سکتا ؟
مگر دنیا کا یہ ساز و سامان جس کے لیے ہم مر کھپ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قدر حقیر و ذلیل ہے کہ وہ اپنے محبوب اور مقرب بندوں کو اس سے آلودہ نہیں کرنا چاہتا
بعض انبیاء علیہ اسلام کو عظیم الشان سلطنت بھی دی گئی، مگر ان کے زہد و قناعت اور دنیا سے بے رغبتی و بیزاری میں فرق نہیں، ان کے پاس جو کچھ تھا دوسروں کے لیے تھا، اپنے نفس کے لیے کچھ نہ تھا۔ الغرض یہ ہے ’’فتنۂ پیٹ‘‘ کا صحیح علاج جو انبیاء کرام علیہ اسلام اور بالخصوص سید کائنات ﷺ نے تجویز فرمایا، اور اگر انسان ’’پیٹ کی شہوت‘‘ کے فتنہ سے بچ نکلے تو ان شاء اللہ! ’’شہوتِ فرج‘‘ کے فتنہ سے بھی محفوظ رہے گا
کہ یہ خر مستی پیٹ بھرے آدمی کو ہی سوجھتی ہے ، بھوکا آدمی اس کی آرزو کب کرے گا ۔ ان ہی دو شہوتوں سے بچنے کا نام اسلام کی اصطلاح میں ’’تقویٰ‘‘ ہے جس پر بڑی بشارتیں دی گئی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ضعیف مریض کو بقائے حیات کے لیے ہلکی پھلکی معمولی غذا کا مشورہ دیا جاتا ہے اور زبان کے چسکے سے بچنے کی سخت تاکید کی جاتی ہے، تاکہ مطلوبہ اعلیٰ صحت نصیب ہو، بس یہی حیثیت اسلام کی نظر میں دنیا کی ہے۔
ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
Comments
Post a Comment