کائنات کا محبوب ترین پتھر حجر اسود
حافظ مومن خان عثمانی
بیت اللہ شریف کے طواف کرنے والے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بیت اللہ شریف میں نصب پتھر حجر اسواد کابوسہ لے کر سنت نبوی پر عمل پیر اہو، حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنے جاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجر اسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جا سکتا ہے، جس کو استلام کہتے ہیں۔
۔606ء میں جب رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک 35 سال تھی، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہو گیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔
فضائل حجر اسود ....... عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا .. بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہیں اللہ تعالی نے ان کے نور اور روشنی کو ختم کر دیا ہے اگر اللہ تعالی اس روشنی کو ختم نہ کرتا تو مشرق و مغرب کا درمیانی حصہ روشن ہو جاتا (ترمذی)
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:..... حجر اسود جنت سے نازل ہوا (ترمذی، نسائی)
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حجر اسود جنت سے آیا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کر دیا ہے (ترمذی)
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا:اللہ کی قسم ... اللہ تعالی اسے قیامت کو لائے گا تو اس کی دو آنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے بولے گا اور ہر اس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا۔
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے (ترمذی)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اسے بوسہ دے کر کہنے لگے: مجھے یہ علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نفع دے سکتا اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے، اگرمیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے نہ چومتا۔ (بخاری ومسلم)
نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے حجر اسود کا استلام کیا اور پھر اپنے ہاتھ کو چوما، اور فرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا(مسلم، ترمذی،ابن ماجہ)
جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے توحجر اسود کا استلام کیا اور پھر اس کے دائیں جانب چل پڑے اور تین چکروں میں رمل کیا اور باقی چار میں آرام سے چلے (مسلم)
حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جائے۔ اگر بھیڑ زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارہ بھی کفایت کرے گا۔
ابوطفیل رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ:آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کر کے چھڑی کو چومتے تھے (مسلم)
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پر طواف کیا تو جب بھی حجر اسود کے پاس آتے تو اشارہ کرتے اور اللہ اکبر کہتے۔ (بخاری)
تاریخ و حوادث ....... تاریخ میں حجر اسود کے متعلق کئی واقعات ملتے ہیں جب حجر اسود کو چوری کیا گیا یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی، روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا ۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی، جب بنو بکر بن عبد مناف نے قبلہ جرہم کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکہ سے بے دخل ہوتے ہوئے کعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھ حجر اسود کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبوراً یمن کی جانب کوچ کر گئے اللہ تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے زم زم کے کنویں میں نہیں رہا جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کے کنویں سے بازیاب کرا لیا گیا ٭ ابو طاہر قرمطی (قرامطہ ایک ملحد فرقہ تھا) نامی شخص کی قیادت میں قرا مطیوں نے 317 ہجری میں مکہ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا اور ۸ ذی الحجہ ۷۱۳ھ کومسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریبا سات سو انسانوں کو قتل کیا، زم زم کے کنویں، مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا اسکے بعد اس نے مکہ مکرمہ کے لوگوں کی قیمتی اشیا اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غصب کر لیا اس نے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر کے اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اسکے سنہری پر نالے کو اکھاڑ ڈالا اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذوالحجہ317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کر دیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ بحرین کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کرتے تھے،پھر اللہ تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو سبر بن حسن جس کا تعلق بھی قرامطی قبیلے سے ہی تھا، اس نے حجر اسود کو آزاد کرایا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا اس وقت ایک مسئلہ یہ ضرور درپیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دیگا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے،اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا پھر اس نے اسکو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کے پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے ۔۔۔ 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا اللہ تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اسکی یہ گھناونی کاروائی دیکھ رہا تھا، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اسکی حجر اسود پر دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی ۔۔۔۔ 413 ہجری میں فاطمی حکمرانوں نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکہ مکرمہ بھیجا جس میں سے ایک الحاکم العبیدی تھا جو ایک مضبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا وہ اپنے ساتھ ایک تلوار اور ایک لوہے کی سلاخ لایا تھا اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اسنے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں حجر اسود پر لگا ڈالیں جس سے اسکی کرچیاں اڑ گئیں وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ (معاذ اللہ) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا جب تک سکون سے نہ بیٹھے گا بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اللہ تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو پکڑ کر قتل کر دیا گیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا گیا ۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیا ر کے ساتھ مطاف میں آیا اور اس نے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی اس وقت کا ایک شہزادہ نصیر نامی مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اس نے حجر اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا -ا س نے کعبہ کی سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی اسکے بعد 28 ربیع الاول1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا۔حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ حوادث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسہ دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بے چین رہتے ہیں 14 ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا ہے،جو مسالے سے جڑ دئے گئے ہیں۔سب پہلے عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی۔ 1268ء میں سلطان عبدالحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھوایا۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔ 1331ھ میں اس کاحلقہ فرسودہ ہو گیا تو سلطان محمد رشاد خاں بن سلطان عبدالحمید خاں کے زمانہ میں حجر اسود کے حلقے میں چاندی بھرلی گئی۔الغرض حجراسود امام الموحدین حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا نصب کیا ہوا وہ پتھر ہے جو انہوں نے آغاز طواف کی علامت کے لئے لگایا تھا،اللہ تعالیٰ کے نذدیک بہترین اور پاک ترین جگہ حجر اسود اور رکن یمانی کے بیچ میں ہے،حجر اسود کو چومنا اور چھونا گناہوں کو دور کرتا ہے،حجر اسود کے قریب جو دعا مانگی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے،جوشخص حجر اسود کو چھوتا ہے اس کے گناہ ایسے معاف ہوتے ہیں گویا وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے،
ایک راویت کے مطابق حجر اسود زمین پر اللہ کا ہاتھ ہے،وہ بندہ سے مصافحہ کرتا ہے،جس کو نبی کریم ﷺ سے بیعت کا موقع نہ ملا اور اس نے حجر اسود کو مس کیا گویا اس نے اللہ و رسول سے بیعت کی،اگر اس کو مشرکوں کی نجاستیں نہ لگ جاتیں تو اس کی برکت سے ہر مریض جو اس کو چھوتا شفا ہو جاتی۔
Comments
Post a Comment