249) بیس ھزار انسانوں کا قتل

بیس ھزار انسانوں کا قتل 

امام نسائی، امام احمد، امام ترمذی اور امام مسلم اپنی صحیح روایات میں صہیب رومی رضی اللہ تعالی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ھے کہ "ذونوس نامی بادشاہ نے ایک جادوگر رکھا تھا، بادشاہ جس کو چاھتا جادو کے زور سے اپنے دشمنوں کو مار دیتا اور یوں زونوس بادشاہ کی دھشت عوام میں اور پڑوسی ممالک میں تیزی سے پھیل گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ بادشاہ کا جادوگر بوڑھا ھوا اور اس نے بادشاہ کو کہا کہ اگر آپ چاھتے ھے کہ آپ کا ڈر یوں ھی عوام میں رھے اور آپکی بادشاھت برقرار رھے تو مجھے ایک ھوشیار اور قابل شاگرد دیا جائے کہ میں اسکو جادو سکھا سکوں۔۔ بادشاہ نے ایک لڑکا جس کا نام عبداللہ بن تامر تھا اسکو بطور شاگرد جادوگر کو دیا۔

عبداللہ بن تامر روز صبح سویرے جادوگر کے پاس جاتا اور اس سے جادو سیکھتا۔۔۔ ان وقتوں میں عیسائیت ایک سچا مذھب تھا۔ وھاں ایک راھب روز اللہ کی عبادت کرتا تھا اور لوگوں کو بھی اللہ اور رسول کی تعلیمات دیتا تھا۔۔۔ عبداللہ بن تامر اسکے بیان سے کافی متاثر ھوا۔۔۔ راھب نے عبداللہ بن تامر کو دین حق کی تعلیم شروع کی جس کی وجہ سے وہ ایمان لیے آیا۔۔۔ عبداللہ بن تامر راھب کی وجہ سے جادوگر کے پاس دیر سے پہنچتا تھا جس کی وجہ سے جادوگر نے بادشاہ کو شکایت کی ۔ بادشاہ زونوس نے تنبیہ کی کہ آئندہ اگر ایسا کیا تو انجام کے ذمہ دار خود ھونگے۔

ایک دن عبداللہ بن تامر جادوگر کے پاس جلدی جلدی جا رھا تھا کہ اسکا راستہ 2 شیروں نے روکا۔ عبداللہ بن تامر نے سوچا کیوں نہ آج راھب کا اور جادوگر کا دین آزمائے۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کہا "اے اللہ! اگر راھب کا دین سچا ھے تو اس پتھر سے اس شیر کو ھلاک کردیں،" اس نے جیسے ھی پتھر مارا شیر اسی وقت دھیڑ ھوا۔ لوگوں نے جب یہ منظر دیکھا تو سب نے کہا کہ یہ لڑکا بہت بڑا جادوگر بن گیا ھے۔ بادشاہ کا ایک قریبی جاننے والا تھا جس کی نظر کام نہیں کرتی تھی۔ عبداللہ بن تامر نے اسکے لیے دعا کی تو اللہ نے اسکی بینائی واپس کر دی۔۔

خبر بادشاہ کو پہنچی اور اس نے راھب اور عبداللہ بن تامر کو بلالیا کہ میرے علاوہ بھی کیا تم لوگوں کا کوئی رب ھے۔ جس پر راھب نے کہا کائنات کا صرف ایک ھی رب اللہ ھے۔ جو سب چیزوں پر قادر ھے۔۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ عبداللہ بن تامر کے سامنے راھب کو آری کے واروں سے کاٹ کر تکڑے کیے جایے۔ اور حکم کی تعمیل کی گی لیکن عبداللہ بن تامر نے دین عیسائیت نھی چھوڑا۔۔ بادشاہ نے کہا کہ اسکو ایک بلند پہاڑ پر لے جاؤ اور اسکو وھاں سے دھکا دیے کر نیچے گراو دو۔ چنانچہ یہ لوگ عبداللہ کو لے گئے اور وھاں سے دھکا دینا چاھا. تو عبداللہ نے اللہ تبارک و تعالٰی سے دعا کی (اللَّهُمَّ اكْفِنِيْهِم بِمَا شِئْتَ)( الله جیسے تو چاھے مجھے ان سے نجات دے)

اسی وقت پہاڑ پر زلزلہ آیا اور عبداللہ بن تامر کے علاوہ سب کے سب پہاڑ سے نیچے گر کر مردار ھوئے۔ عبداللہ بن تامر بادشاہ کے دربار میں خود واپس آیا۔۔ اور کہا کہ اللہ نے انکے شر سے میری حفاظت کی اور ان سب کو ھلاک کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذونوس اتنا طیش میں آیا کہ اس نے اسی وقت حکم دیا کہ اسکو اٹھا کر سمندر کے بیچ میں پھینک آو۔۔۔ کشتیوں کا سفر شروع ھوا اور جیسے ھی کشتیاں سمندر کے گہرے پانیوں میں پینچ گی۔۔۔۔۔ اسی وقت ایک طوفان آیا جس نے سب کو غرق کیا۔ اور عبداللہ بن تامر کے علاوہ سب مردار ھوئے۔۔

عبداللہ بن تامر کو اللہ واپس اپنے گھر اور شہر لایا جس کی خبر ذونوس کو ھوئی اس نے عبداللہ تامر کو بلا کر کہا کہ یہ کیا ماجرہ ھے میں تم کو قتل کرنا چاھتا ھوں اور تم ھر بار بچ جاتے ھوں۔ عبداللہ نے کہا اگر تم کو میرا قتل ھی مقصود ھے تو سارے ملک کے عوام کو جمع کرو۔ پھر مجھے ایک اونچی جگہ پر باندھوں۔۔۔۔ اور تیر مارنے سے پہلے "بسم اللہ رب ھذہ الغلام" پڑھو پھر تیر مارو تب میں مرونگا۔ نہیں تو ایسے تو مجھے قیامت تک نھی مار سکتا۔ بادشاہ نے بھی یہی کیا۔ تیر سیدھا عبداللہ بن تامر کی کان پٹی میں لگا۔ اور عبداللہ "آج میں اپنے رب کے نام پر شھید ھوا" کہہ کر مر گیا

میدان میں لاکھوں لوگ جمع تھے جن کو عبداللہ بن تامر کی زندگی کا پہلے ھی پتہ تھا۔ یہ منظر دیکھتے ھے سب اللہ پر ایمان لائے۔ بادشاہ کو جادوگر نے کہا کہ پہلے صرف ایک لڑکا تھا اب تو تمام ملک اللہ کی وحداینت پر یقین کر رھا ھے تو ایسا کر خندقیں کھود اور لوگوں کو اسمیں جلا کر راکھ کر۔۔۔

تاریح نے لکھا ھے کہ اس وقت 20000 افراد نے اللہ کے نام پر آگ میں جلنا قبول کیا تھا۔ یہاں تک کہ ایک عورت جس کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا پہلے اسکے بچے کو آگ میں ڈالا گیا تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم اللہ پر یقین رکھتی ھوں۔ تو اس نے خود آگ میں چلانگ لگا دی کہ میں اللہ پر یقین رکھتی ھوں۔۔۔ مورخین اور حضرت ربیع بن انس رضی اللہ تعالی عنہ لکھتے ھے کہ اللہ نے ان پر آگ سرد کی تھی

Comments