تاریخ طبری اور دوسری کچھ تاریخی کتابوں میں حضور ﷺ کی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کے متعلق کچھ روایات آئی ہیں جن کو مستشرقین و ملحدین نے ایک لو سٹوری کی شکل میں پیش کیا ... جسکا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زینب کی حضرت زید کے ساتھ شادی کے بعد حضور ﷺ کو زینب اچھی لگی تھیں اور آپ اسکو چھپاتے تھے بالاخر حضرت زید نے زینب کو طلاق دے دیدی اور حضور ﷺ نے زینب سے شادی کرلی نعوذ بااللہ
یہ روایات عیسائی مورخیں کا مایہ استناد ہے اور اب انکے شاگرد ملحدین انکے نگلے ہوئے نوالے چبا رہے ہیں۔ ان متعصبین کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اصول فن کے لحاظ سے روایت کس پایہ کی ہے۔ اسکا راوی کون ہے، اسکے بارے میں اسم و رجال کی کتابوں میں کیسی گوائیاں نقل کی گئی ہیں۔انکو بس اعتراض کا موقع چاہیے، کسی روایت سے کچھ بھی ثابت کر دیں گے ۔
ان راویات کے اکثر راوی ضعیف ہیں اس لیے یہ قابل اعتبار نہیں ، پھر تاریخ سے ذیادہ مستند سورس قرآن اور حدیث میں حضور ﷺ ، حضرت زید اور زینب کے معاملے پر تفصیل موجود ہے اس لیے ان تاریخی روایات کو لینے اور ان پر مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی ۔
حضور ﷺ اور زینب کا نکاح
اصل واقعہ قرآن و حدیث کی روشنی میں
حضور ﷺ نے حضرت زید کو جو کہ آپ کے آزاد کردہ غلام تھے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا ‘ جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو آپ نے انکی شادی اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب سے کرنا چاہی ۔ حضرت زید چونکہ غلام رہ چکے تھے اس لئے حضرت زینب کو یہ نسبت گوارا نہ تھی
(فتح الباری تفسیر سورۃ الاحزاب بحوالہ ابن ابی حاتم)
لیکن بالاخر حضور ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں راضی ہوگئیں اور تقریبا ایک سال تک حضرت زید کے نکاح میں رہیں لیکن دونوں میں رنجش رہتی تھی یہاں تک کہ حضرت زید نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر شکایت کی اور انکو طلاق دینا چاہا
(فتح الباری تفسیر سورۃ الاحزاب بحوالہ روایت عبدالرزاق از معمر از قتادہ)
حضرت زید نے حضور ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ زینب مجھ سے زبان درازی کرتی ہے میں اسکو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ لیکن حضور ﷺ بار بار انکو سمجھاتے کہ طلاق نہ دیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ
(سورۃ الاحزاب آیت 37)
ترجمہ :اور جبکہ تم اس شخص سے جس پر اللہ نے اور تم احسان کیا تھا یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو نکاح میں لئے رہو اور اللہ سے خوف کرو۔
لیکن پھر بھی نباہ نا ہو سکا اور آخر حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دے دی۔ حضرت زینب حضور ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور آپ ہی تربیت میں پلی تھیں اور آپ ﷺ کے ہی فرمانے سے زینب نے اس رشتہ جس کو وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتی تھیں’ قبول کیا تھا۔ اب وہ عین جوانی میں طلاق یافتہ ہوگئیں تو آپ ﷺ نے انکی دلجوئی کے لیے خود ان سے نکاح کرنا چاہا’ لیکن عرب میں اس وقت تک منہ بولا بیٹا اصلی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے عام لوگوں کے خیال سے آپ ﷺ تامل فرماتے رہے۔ حتی کہ آیت نازل ہوگئی۔
وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ۔
(سورۃ الاحزاب آیت 37)
ترجمہ : اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپاتے ہو جس کو اللہ ظاہر کر دینے والا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنا اللہ سے چاہیے۔
غرض آپ ﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد حضرت زینب سے نکاح کر لیا اور جاہلیت کی یہ قدیم رسم کہ متنبی اصلی بیٹے کا حکم رکھتا ہے ‘ کا خاتمہ ہو گیا۔
یہ اصل واقعہ تھا جس کو چھوڑ کر مستشرقین اور عیسائی مشنریوں نے تاریخی روایات کو لیا اور حضور ﷺ کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ اس واقعہ کی تائید کئی صحیح احادیث سے ہوتی ہے اور ان آیات سے پہلے اور بعد میں آنے والی آیات بھی اسی پس منظر کی گواہی دیتی ہیں ۔جب یہ واقعہ ہوا تو منافقین نے کہنا شروع کیا کہ یہ رسول ایک طرف تو بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی بہو سے نکاح کرتے ہیں، اس پر سورۂ احزاب کی آگے آیت نمبر ۴۰ نازل ہوئی، فرمایا گیا
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ؛بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ، اللہ ہر چیز سے واقف ہے ( سورۂ احزاب ۴۰ )
اب تک زیدؓ عام طور پر زیدؓ بن محمد( ﷺ)کہلاتے تھے، سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵ میں یہ فرمایا
” ( اے ایمان والو ) اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ اللہ کے نزدیک انصاف کی بات یہی ہے ، بس اگر تم ان کے باپوں کے نام نہ جانتے ہو تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلط ہوگئی ہو تو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں اور لیکن جو دل کے ارادے سے کرو ( اس سے باز پرس ہوگی ) اور اللہ بخشنے والا (اور) مہربان ہے”( سورۂ احزاب :۵)
اس حکم کے بعد انہیں اپنے باپ کی نسبت سے زیدؓ بن حارثہ پکارا جانے لگا۔
( سیرت النبی شبلی نعمانی جلد اول )
Comments
Post a Comment