549) قبولیت ڪی دلیل

قبولیت ڪی دلیل

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نیاز مند کثرت سے ذکر الہی کرتا رہتا تھا حتی کے ایک دن اس پرخلوص ذکر سے اس کے لب شریں ہوگئے 

(پھر ایک دن) شیطان نے اس کو وسوسے میں مبتلا کر دیا کہ تو بے فائدہ ذکر کی کثرت کر رہا ہے، تو اللہ اللہ کرتا رہتا ہے جبکہ اللہ تعالی کی طرف سے لبیک کی آواز ایک بار بھی نہیں آئی اور نہ ہی اللہ تعالی کی طرف سے کوئی جواب ملتا ہے، پھر یک طرفہ محبت کی پینگ بڑھانے سے کیا فائدہ ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرا ذکر الہی اللہ کے یہاں قبول نہیں.......شیطان کی ان پُر فریب باتوں سے صوفی نے ذکر کرنا چھوڑ دیا ۔ شکستہ دل و افسردہ ہو کر سو گیا۔  آنکھ سو گئی اور قسمت جاگ گئی۔

عَالمِ خواب میں دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے دریافت کیا کہ ذکر الہی سے غفلت کیوں کی؟ 

اے نیک بخت تو نے ذکر حق کیوں چھوڑ دیا آخر تو اس ذکر پاک سے پشیمان کیوں ہو گیا ہے......؟

اس نے کہا بارگاہ الہی سے مجھے کوئی جواب ہی نہیں ملتا اس سے دل میں خیال آیا کہ میرا ذکر قبول نہیں ہو رہا۔

حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے لیے اللہ تعالی نے یہ پیغام بھیجوایا ہے کہ تمہارا اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ہونا اور تمہارا پہلی دفعہ اللہ کہنا.. قبول ہوتا ہے تب دوسری بار تجھے اللہ کہنے کی توفیق ملتی ہے اور تمہارے دل میں یہ جو سوز و گداز ہے اور میری چاہت محبت و تڑپ ہے یہی تمہارے ذکر کی قبولیت کی نشانی ہے۔

اے بندے میری محبت میں تیری یہ تدبیریں اور محنتیں سب ہماری طرف سے جزب و کشش کا ہی عکس ہیں۔

اے بندے تیرا خوف اور میری ذات سے تیرا عشق میرا انعام ہی ہے اور میری ہی مہربانی و محبت کی کشش ہے کہ تیری ہر بار یا اللہ کی پکار میں میرا لبیک شامل ہوتا ہے۔ تمہارے ذکر کے قبولیت کی نشانی یہی ہے کہ تمہیں ذکر حق میں مشغول کر دیا ہے۔

جان جاھل زیں دعا جز دور نیست

زانکہ یارب گفتش دستور نیست ۔۔۔۔

"ایک جاھل و غافل ذکر حق اور دعا مانگنے کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔"

،،مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے ذکر کا اجر خود اس ذکر میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے اللہ تعالی اپنے ذکر اور اپنی یاد کی توفیق اسی کو عطا کرتے ہیں جس سے خوش ہوتے ہیں اور یہی اسکی قبولیت کی دلیل ہے

[حکایت رومی رح]

Comments