کنٹکٹ اور کنکشن میں فرق 🍎
ایک دفعہ ایک صحافی اپنے پرانے ریٹائرڈ استاد کا انٹرویو کر رہا تھا اور اپنی تعلیم کے پرانے دور کی مختلف باتیں پوچھ رہا تھا۔ اس انٹرویو کے دوران نوجوان صحافی نے اپنے استاد سے پوچھا سر ایک دفعہ آپ نے اپنے لیکچر کے دوران کنٹکٹ اور کنکشن کے الفاظ پر بحث کرتے ہوئے ان دو الفاظ کا فرق سمجھایا تھا اس وقت بھی میں کنفیوز تھا اور اب چونکہ بہت عرصہ ہو گیا ہے مجھے وہ فرق یاد نہیں رہا آپ آج مجھے ان دو الفاظ کا مطلب سمجھا دیں تاکہ مجھے اور میرے چینل کے ناظرین کو آگاہی ہو سکے۔۔۔
استاد مسکرایا اور اس سوال کے جواب دینے سے کتراتے ہوئے صحافی سے پوچھا کیا آپ اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟شاگرد نے جواب دیا: جی ہاں سر میں اسی شہر کا ہوں استاد نے پوچھا آپ کے گھر میں کون کون رہتا ہے۔۔۔؟
شاگرد نے سوچا کہ استاد صاحب میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے اس لئے ادھر ادھر کی مار رہے ہیں۔ بہر حال اس نے بتایا میری ماں وفات پا چکی ہے والد صاحب گھر میں رہتے ہیں، تین بھائی اور ایک بہن ہے اور سارے شادی شدہ ہیں۔ ٹیچر نے مسکراتے ہوئے نوجوان صحافی سے پوچھا؛ تم اپنے باپ سے بات چیت کرتے رہتے ہو۔۔۔؟
اب نوجوان کو غصہ بھی آیا اور کہا جی میں باپ سے گپ شپ کرتا رہتا ہوں استاد نے پوچھا یاد کرو پچھلی دفعہ تم باپ سے کب ملے تھے؟
اب نوجوان نے غصے کا گھونٹ پیتے ہوئے کہا شاید ایک ماہ ہو گیا ہے جب میں ابو کو ملا تھا استاد نے کہا تم اپنے بہن بھائیوں سے تو اکثر ملتے رہتے ہوگے بتاؤ پچھلی دفعہ تم سب کب اکٹھے ہوئے تھے اور گپ شپ حال احوال پوچھا تھا۔۔۔؟
اب تو صحافی صاحب کے ماتھے پر پسینہ آگیا اور لینے کے دینے پڑ گئے وہ سوچنے لگا میں تو استاد کا انٹرویو لینے چلا تھا مگر الٹا استاد میرا انٹرویو لینے لگے ہیں۔۔۔اس نے ایک آہ بھر کر لمبا سانس لیتے ہوۓ بتایا کہ شاید دو سال ہو گئے جب ہم بہن بھائی اکٹھے ہوئے تھے۔ استاد نے ایک اور سوال داغتے ہوے پوچھا تم لوگ کتنے دن اکٹھے رہے تھے۔۔۔؟
نوجوان نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے جواب دیا ہم لوگ تین دن اکٹھے رہے تھے۔ استاد نے پوچھا تم اپنے والد کے پاس بیٹھ کر کتنا وقت گزارتے ہو۔۔۔؟
اب تو نوجوان صحافی بہت پریشان ہو گیا اور نیچے میز پر رکھے کاغذ پر کچھ لکھنے لگا۔ استاد نے پوچھا کبھی تم نے باپ کے ساتھ ناشتہ لنچ یا ڈنر بھی کیا ہے۔۔۔؟
کبھی آپ نے ابو سے پوچھا وہ کیسے ہیں۔۔۔؟
کبھی تم نے باپ سے دریافت کیا کہ تمھاری ماں کے مرنے کے بعد اس کے دن کیسے گزر رہے ہیں۔۔۔؟
اب تو انٹرویو کرنے والے صحافی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو برسنے لگے استاد نے صحافی کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ بھائی پریشان شرمندہ مایوس یا اداس ہونے کی ضرورت نہیں مجھے افسوس ہے کہ میں نے بے خبری میں تمھیں ہرٹ کیا اور دکھ پہنچایا لیکن میں کیا کرتا مجھے آپ کے سوال کنٹکٹ اور کنکشن کا جواب دینا تھا۔۔۔
اب سنو ان دو لفظوں کا فرق یہ ہے کہ؛ تمہارا کنٹکٹ یا رابطہ تو تمہارے ابو سے ہے مگر کنکشن یا تعلق ابو سے نہیں رہا یا کمزور ہے کیونکہ تعلق یا کنکشن دلوں کے درمیان ہوتا ہے جب کنکشن یا تعلق ہوتا ہے تو آپ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔۔۔
ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ ہاتھ ملاتے گلے سے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام خوشی خوشی سرانجام دیتے ہیں جیسے ایک معصوم بچے کی ماں اس کو سینے سے لگاتی ہے، چومتی ہے بغیر مانگے دودھ پلاتی ہے اس کی گرمی سردی کا خیال رکھتی ہے جب وہ چلنا شروع کرتا ہے تو سائے کی طرح اس کے پاس رہتی ہے تاکہ وہ گر نہ جائے کوئی غلط چیز نہ کھا لے گر پڑے تو اس بچے کو گلے سے لگا کر چپ کراتی ہے۔۔۔
تو میرے پیارے شاگرد آپکے باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ صرف کنٹکٹ یا رابطہ ہے مگر آپ کے درمیان کنکشن یا تعلق نہیں ہے۔۔۔
نوجوان صحافی نے اپنے آنسو رومال سے صاف کئے اور استاد کا شکریہ ادا کرتے ہوے کہا سر آپ نے مجھے آج ایک بہت بڑا سبق پڑھا دیا جو زندگی بھر نہیں بھولے گا۔۔۔آج ہمارے معاشرے کا یہی حال ہے کہ ہمارے آپس میں بڑے رابطے ہیں مگر کنکشن بالکل نہیں۔۔۔
آج فیس بک پر ہمارے پانچ ہزار فرینڈز ہیں مگر حقیقی زندگی میں ایک بھی دوست نہیں۔ آج ہم صبح سویرے سیکڑوں دوستوں کو گڈ مارننگ کہہ کر بغیر خوشبو کے پھول بھیجتے ہیں حقیقی زندگی میں ایک پھول کی پتی بھی نہیں ملتی۔ آج ہم تمام لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور کاغذ کے بے خوشبو پھولوں کی تصویروں سے دل بہلاتے ہیں۔۔۔کسی عزیز کے بچھڑنے پہ چند تعزیتی الفاظ اور رشتوں کے سارے تقاضے پورے کر کے ہم سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
(نقل وچسپاں)
Comments
Post a Comment