1052💥)خشیتِ الہی کا حســنِ اخلاق سے تعلق

خشیتِ الہی کا حســنِ اخلاق سے تعلق

بندہ جس قدر الله تعالی کے سامنے متواضع اور خاشع ہو اور اس سے ڈرنے والا ہو، لوگوں کے ساتھ تعامل اسی قدر نرم خو، ہنس مکھ اور با اخلاق ہوتا ہے۔

رسول الله ﷺ سب سے زیادہ الله تعالی کا خوف رکھنے والے، سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار تھے، جیسا کہ سیدنا جابر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا 

آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں آپ سب سے زیادہ الله تعالی سے ڈرنے والا، سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ نیکی کرنے والا ہوں (صحیح بخاری : ٧٣٦٧، صحیح مسلم : ١٢١٦)

اسی طرح سیدنا عبد الله بن شخیر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں : میں نے رسول الله ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ کے سینے سے رونے کی وجہ سے ایسے آواز آ رہی تھی جیسے کوئی چکی سی چل رہی ہو (سنن ابی داود : ٩٠٤ وسنده صحیح)

لیکن اس کے باوجود آپ کا لوگوں کے ساتھ تعلق اسی قدر نرمی و خوش اخلاقی کے ساتھ تھا جیسا کہ سیدنا جریر بن عبد الله رضی الله عنه بیان کرتے ہیں 

میرے اسلام کے بعد رسول الله ﷺ نے کبھی بھی مجھے (اپنی مجلس سے) منع نہیں کیا اور آپ ﷺ جب بھی مجھے دیکھتے تو میرے سامنے مسکرا دیتے ( صحيح البخاري : ٣٠٣٥)

 سیدنا معاویہ بن حکم رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں: ’’میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں، میں نے نہ تو آپ سے پہلے اتنا بہترین استاد و معلم دیکھا، نہ آپ کے بعد، الله کی قسم! نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ ہی برا بھلا کہا (صحیح مسلم : ٥٣٧)

 سیدنا عبد الله بن حارث رضی الله عنه سے مروی ہے، فرماتے ہیں 

میں نے رسول الله ﷺ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا 

 (سنن الترمذي : ٣٦٤١ وفي سنده ضعف وله شواهد)

 حافظ ابن بطال رحمه الله (٤٤٩هـ) فرماتے ہیں 

لوگوں سے مسکرا کر اور کشادہ چہرے سے ملنا اخلاقِ نبوی صلی الله علیه و سلم میں سے ہے، یہ تکبر دور کرتا اور محبت لاتا ہے (شرح البخاري : ٥/ ١٩٣) 

 حافظ ابن حبان رحمه الله (٣٥٤هـ) فرماتے ہیں 

عقل مند پر لازم ہے کہ اختیارِخوش طبعی و ترکِ خشک روی کے ساتھ لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کرے  (روضة العقلاء، ص : ٧٧)

حافظ ذہبی رحمه الله (٧٤٨هـ)، سیدنا جریر رضی الله عنه کی حدیث پر فرماتے ہیں 

یہی اسلام کا اخلاق ہے، سب سے اعلی مقام یہ ہے کہ جو رات کو (الله کی سامنے) بہت زیادہ رونے والا ہو وہ دن کو (لوگوں کے ساتھ) سب سے زیادہ مسکرانے والا ہو۔

(سير أعلام النبلاء : ١٠/ ١٤١)

صحابہ کرام رضی الله عنہم کا یہی طرز عمل تھا جیسا کہ سماک بن حرب بیان کرتے ہیں، میں نے جابر بن سمرہ رضی الله عنه سے پوچھا : کیا آپ رسول الله ﷺ کے ساتھ مجالس میں شریک ہوتے تھے؟ 

کہا: ہاں! بہت۔ آپ جس جگہ صبح کی نماز ادا فرماتے، سورج طلوع ہونے تک وہاں سے نہ اٹھتے، جب سورج طلوع ہو جاتا تو اٹھ کھڑے ہوتے، صحابہ دورِ جاہلیت میں کیے کاموں کے متعلق باتیں کرتے اور ہنستے تھے اور آپ (بھی ان کی باتیں سن کر) مسکراتے تھے۔ 

(صحیح مسلم : ٦٧٠)

بلال بن سعد رحمه الله بیان کرتے ہیں: ’’میں نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو دیکھا ہے کہ وہ تیر اندازی کرتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوب ہنستے مسکراتے تھے لیکن جب رات ہو جاتی تو راهب بن جاتے۔‘‘ (یعنی دنیا چھوڑ کر پوری طرح عبادت و مناجات میں مشغول ہو جاتے۔) (مصنف ابن أبي شيبة : ٥/ ٣٠٣ وسنده صحیح)

ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں: ’’رسول اکرم صلی الله علیه وسلم کے صحابہ کرام مریل اور مردہ دل نہیں تھے۔ وہ اپنی مجلسوں میں اشعار بھی پڑھا کرتے تھے اور جاہلیت کے زمانہ کے واقعات کا تذکرہ بھی کرتے لیکن جب ان سے الله کے دین کے خلاف کوئی بات کہی جاتی تو ان کی آنکھوں کی پتلیاں یوں گھومنے لگتے گویا کہ وہ مجنوں ہوں۔ 

(مصنف ابن أبي شيبة : ٧/ ١٥٨ وسنده حسن)

بکر بن عبد الله بیان کرتے ہیں کہ ’’نبی صلی الله علیه وسلم کے صحابہ کرام بطور مزاح ایک دوسرے کی طرف خربوزے پھینکتے تھے لیکن جب حقائق (یعنی عبادت و جہاد)کا معاملہ ہوتا تو وہ حقیقی مَرد ہوتے۔

(الأدب المفرد للبخاري : ٢٦٦ وسنده صحیح)

 امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ الله کے متعلق آتا ہے کہ وہ اپنے دوست احباب اور اہل خانہ کے ساتھ خوب ہنستے مسکراتے تھے، اور رات کو الله کے سامنے خوب روتے، گڑگڑاتے تھے، جیسا کہ منصور بن زاذان بیان کرتے ہیں ’’ابن سیرین رحمه الله کبھی اس قدر ہنستے کہ ان کی آنکھوں سے پانی آ جاتا۔‘‘

(مداراة الناس لابن أبي الدنيا : ٧٠ ورجاله ثقات)

 ہشام بن حسان رحمه الله کی اہلیہ بیان کرتی ہیں 

ہم امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ کے گھر مہمان ٹھہرے ہوئے تھے، رات کو ہم ان کی (الله کے سامنے) رونے کی آوازیں سنتے اور دن کو (اپنے گھر والوں کے ساتھ) ہنسنے کی آوازیں سنتے۔

(حلية الأولياء لأبي نعيم : ٢/ ٢٧٢)

سلسلة_اقوال_السلف

Comments